علم اللسان سے ناواقف لوگوں کے نزدیک اردو ایک کھچڑی زبان تھی جو عربی، فارسی، ترکی اور ہندی کے میل سے پیدا ہوئی تھی جسے کبھی شاہ جہانی لشکر سے منسوب کیا جاتا تھا اور کبھی اکبر کے سنہرے عہد سے۔ اردو کی ابتدا کا یہ نظریہ بہت زیادہ تشفی بخش نہ تھا۔ ارتقا کا وہ تصور جس پر آج فکرِ انسانی کی بنیادیں قائم ہیں، لسانیاتی دنیا میں بھی کارفرما ہے۔ چنانچہ زبان جاننے والوں نے فوراً پہچان لیا کہ اس کھچڑی زبان کی تہ میں کون سی بولی ہے۔
زمانۂ حال میں اردو زبان کی ابتدا اور آغاز سے متعلق جو مختلف نظریے ملتے ہیں ان میں سے بیشتر قیاس آرائیاں ہیں جن کا شاید ذکر بھی کسی علمی اور تحقیقی مقالے میں نہیں آنا چاہیے۔ اردو کو دکن، گجرات، مدراس اور سندھ سے جو نسبت ہے اس کی تاریخی اہمیت مسلم ہے اور بس۔ مسائل زبان کو سمجھنے والے اردو کی ابتدا کے سلسلے میں ان نظریوں کا ذکر تک شاید گوارا نہ کریں۔
ہند آریائی لسانیات میں بیسویں صدی کا سب سے بڑا کارنامہ گریرسن کا عظیم الشان "لسانیاتی جائزہ ہند" ہے۔ گریرسن نے سب سے پہلے بالتفصیل ان قیاس آرائیوں کا ازالہ کیا ہے جو ہماری زبان کے کینڈے کے متعلق بغیر سوچے سمجھے کی گئی تھیں۔ اس نے ہند آریائی زبان کے تاریخی تسلسل کی نشاندہی کی اور جدید آریائی زبانوں کے باہمی رشتوں کو معلوم کرنے کی کوشش کی۔ اسی نے سب سے پہلے کھڑی بولی کو ایک مستقل بولی کی حیثیت بھی بخشی۔ لیکن گریرسن پنجابی، کھڑی بولی اور برج بھاشا کے باہمی رشتوں کا ٹھیک ٹھیک پتہ نہ چلا سکا اس لیے کھڑی بولی کی علیحدہ حیثیت کو مانتے ہوئے بھی وہ متضاد باتیں لکھ گیا ہے جن کا ماحصل یہ ہے کہ کھڑی بولی، برج اور پنجابی کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے۔ لہذا گریرسن کی لسانی تحقیقات اردو زبان کے متعلق حرفِ آخر کا حکم نہیں رکھتیں، اس بات کو پروفیسر شیرانی جیسے بالغ نظر محقق نے بھانپ لیا تھا۔ پروفیسر محمود شیرانی کی "پنجاب میں اردو" (1928ء) اس لحاظ سے ایک اہم تصنیف ہے۔
لیکن پروفیسر شیرانی نے بھی دہلی کی قدیم زبان کے متعلق محض قیاس آرائی سے کام لیا ہے اور ہریانوی زبان کو اردو کی قدیم شکل کہہ کر چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ یہ حقیقت ہے کہ سلاطینِ دہلی کے لشکر میں اور شہر کے بازاروں میں ہریانہ علاقہ کی آبادی کا عنصر ہمیشہ زیادہ رہا ہے۔ لہذا اردو کی ابتدا پر کام کرنے والوں کی توجہ نواحِ دہلی کی بولیوں پر مرکوز ہونی چاہیے، ساتھ ساتھ ہمسایہ بولیوں، پنجابی، برج بھاشا وغیرہ پر بھی نظر رکھنی پڑے گی۔
اس نئے لسانی میدان کی طرف اشارہ سب سے پہلے پروفیسر ژؤل بلوک کی تحریروں (بلیٹن اسکول آف اورینٹل اسٹڈیز لندن 1928ء) میں ملتا ہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر زور نے بھی "ہندوستانی لسانیات" (1932ء) میں اردو پر ہریانوی زبان کے اثرات کا ذکر کیا ہے۔ مگر شیرانی اور ژول بلوک دونوں نے دہلی کی اس حیثیت کو فراموش کر دیا کہ یہ شہر ہریانوی کھڑی اور میواتی (راجستھانی بولی) کے سنگم پر واقع ہے اور جنوب میں تھوڑے فاصلے پر برج کا علاقہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برج بھاشا کی تائید سے کھڑی بولی کا محاورہ غالب آتا گیا اور یوں آج کی معیاری اردو، جمنا کے اس پار کی مغربی یو۔پی کی بولیوں سے قریب تر ہے۔
مسعود حسین خاں نے زیر نظر کتاب "مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو" میں اردو زبان کے تسلسل کی نشاندہی ویدک زمانہ (1500 ق م) سے 1850ء تک کی ہے، کیونکہ ہماری زبان اسی زبان کا پیوند ہے جو سالہا سال کی مدت میں ہند کی سرزمین میں پروان چڑھی۔ اس زبان کے ارتقا کی داستان کا اس کتاب میں احاطہ کیا گیا ہے۔ اس داستان کا سرا شمالی ہند سے اٹھایا گیا ہے لیکن اس کی تاریخی تشکیل کے لیے پہلا مستند مواد دکن سے ملا ہے جس کا بھرپور تجزیہ اس کتاب میں پیش کیا گیا ہے۔ سترہویں صدی سے شمالی ہند پھر سے تاریخ کی روشنی میں آ جاتا ہے، اس لیے باقی تین سو برس کی کہانی شمالی ہند میں اردو زبان کے ارتقا کی داستان ہے۔
برج بھاشا، کھڑی بولی (ہندوستانی یا خسرو کی 'زبانِ دہلی)، پنجابی اور ہریانوی بولیوں کے تقابلی مطالعہ پر اس کتاب کے بیشتر صفحات مختص ہیں اور یہ حصہ خالص لسانیاتی ہے جس میں نواحِ دہلی کی تمام بولیوں کے باریک اختلافات کو زیادہ سے زیادہ اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ تاریخ زبان سے جو نتائج کتاب میں اخذ کیے گئے ہیں، انہیں مبسوط لسانی دلائل سے ثابت بھی کیا گیا ہے۔
لسانیات اور اردو زبان کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے محققین اور قارئین کی خدمت میں یہ یادگار کتاب جو اردو زبان کے عہد بعہد ارتقا کی تاریخ اور اس کی ابتدا سے متعلق لسانیاتی نظریوں کے جائزہ پر مشتمل ہے، تعمیرنیوز کے ذریعے پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں پیش ہے۔ تقریباً تین سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 11 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
***
نام کتاب: مقدمۂ تاریخِ زبانِ اردو
مصنف: مسعود حسین خاں
ناشر: ایجوکیشنل بک ہاؤس، علیگڑھ (سن اشاعت: 2008ء)
تعداد صفحات: 295
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 11 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Muqaddama Tareekh Zaban E Urdu by Masood Hussain Khan.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
پہلا باب: ہند آریائی کا ارتقا | ||
1 | آریوں کا وطن اور داخلۂ ہند | 21 |
2 | ہند آریائی کا عہدِ قدیم | 28 |
3 | ہند آریائی کا عہدِ وسطیٰ | 38 |
4 | ہند آریائی کا عہدِ جدید | 45 |
دوسرا باب: ہندوستان کی جدید آریائی زبانیں | ||
5 | جدید آریائی زبانوں کی گروہ بندی | 56 |
6 | مغربی ہندی اور اس کی بولیاں | 76 |
تیسرا باب: اردو زبان کا ارتقا | ||
7 | شمالی ہند (1200ء تا 1700ء) | 91 |
8 | دکن (1300ء تا 1700ء) | 128 |
9 | شمالی ہند (1700ء تا 1857ء) | 170 |
چوتھا باب: اردو کی ابتدا - لسانی نظریات | ||
10 | اردو اور برج بھاشا | 208 |
11 | اردو اور پنجابی | 221 |
پانچواں باب: زبانِ "دہلی و پیرامنش" (خسرو) | 254 | |
12 | اردو اور ہریانوی | 256 |
13 | اردو اور کھڑی بولی | 266 |
14 | کتابیات | 283 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں