اترپردیش میں کیا واقعی بھگوا لہر تھی؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-13

اترپردیش میں کیا واقعی بھگوا لہر تھی؟

up-election-result-analysis

بی جے پی کی جیت ،ایس پی کی ہار ، مایاوتی کی سیاست
اور اویسی کی حکمت عملی کا ایک تجزیہ


مِس مایاوتی کی بات پر ، اور لوگوں کو آیا ہو ، مجھے غصّہ نہیں آیا۔
مایاوتی تو پہلے ہی سے بی جے پی کی منظورِ نظر ہیں۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سیکولر کہلانے والی جن سیاسی پارٹیوں اور سیاسی لیڈروں نے بی جے پی کو مضبوط کرنے میں مرکزی کردار نبھایا ہے ان میں مایاوتی سرفہرست ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ اور یہ بھی ایک سچ ہیکہ مایاوتی کو 'بی جے پی پریم' میں مبتلا کرنے کا کام 'سماج وادی پارٹی' اور اس کے رہنماؤں ہی نے کیا ہے۔ نہ مایاوتی پر رکیک حملہ کیا جاتا ، نہ یہ نوبت آتی۔


خیر، بات یوپی اسمبلی الیکشن کے حالیہ نتائج کے ضمن میں ہے۔ مایاوتی نے بڑے ہی صاف صاف انداز میں یہ کہہ دیا ہیکہ یوپی میں بی جے پی کی جیت کے ذمے دار مسلمان ہیں ، کیونکہ انہوں نے سماج وادی پارٹی کو ووٹ دیا ، نتیجہ یہ نکلا کہ دلت ووٹ بی جے پی کی جھولی میں چلے گئے۔ مایاوتی نے کہا کہ اگر مسلمان اور دلت ووٹ ضم ہو جاتے تو یوپی میں نتیجہ مغربی بنگال کی طرح نکلتا ، اور بی جے پی کی حکومت نہ بنتی۔ مایاوتی کی منطق پر ، جیسا کہ اوپر کہا ہے ، غصّہ نہیں آ رہا ہے مگر ہنسی آ رہی ہے۔
بی ایس پی کو صرف بلیا کی ایک سیٹ پر کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ اس کا ووٹ شیئرتقریباً 13 فیصد رہا ہے۔ اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہیکہ وہ 18سیٹوں پر دوسرے نمبر پر رہی ہے ، لیکن 233 سیٹیں ایسی رہی ہیں جہاں بی ایس پی نے جیت کے مارجن سے زیادہ ووٹ حاصل کیے ہیں۔ جن سیٹوں پر ایس پی اور اس کے حلیف ہارے ہیں ان کی تعداد 137 ہے۔ لیکن بی جے پی اور اس کی حلیف پارٹیوں کو بھی بی ایس پی نے 91 سیٹوں پر نقصان پہنچایا ہے۔


مذکورہ اعداد و شمار کی روشنی میں مایاوتی کا یہ کہا درست نہیں ہو سکتا کہ دلتوں نے اس لیے بی جے پی کو ووٹ دیئے کہ وہ ایس پی کو ووٹ دے کر یوپی کو جنگل راج میں بدلنا نہیں چاہتے تھے۔ اگر واقعی مایاوتی کے کہنے پر دلتوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہوتا تو بی جے پی اور اس کے اتحادی کم از کم مزید 91 سیٹوں پر کامیاب ہو سکتے تھے۔ زمینی سچ یہ ہیکہ بی ایس پی کمزور ہوئی ہے اور یہ کمزوری بہت سی سیٹوں پر بی جے پی کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئی ہے۔ مگر جِن سیٹوں پر بی ایس پی میں کچھ دم تھا وہاں اس نے بی جے پی کو ہرایا بھی ہے، اور ایس پی کو کافی نقصان بھی پہنچایا ہے۔ ویسے اب مایاوتی اور بی ایس پی کا ووٹ بینک دلت اور پچھڑے ، اور مسلمان ، ہاتھوں سے پھسل گیا یا پھسل رہا ہے۔


مایاوتی تو بنگلے میں بیٹھ کر توڑ جوڑ کرکے امیدوار کھڑے کرتی اور پھر پانچ برسوں کے لیے عیش و آرام کرتی ہیں ، لیکن وہ دلت جو ووٹ دیتا چلا آیا ہے ، جِس حال میں ہے اسی حال میں رہتا چلا آ رہا ہے۔ پھر کئی ایسی سیاسی پارٹیاں ابھر کر سامنے آ گئی ہیں جو دلتوں اور پچھڑوں کو اپنی جانب کھینچنے اور ان کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہیں۔


مایاوتی نے انتباہ دیا ہیکہ ایس پی کو ووٹ دینا مسلمانوں کے لیے 'پچھتاوے' کا سبب بننے گا۔ مایاوتی سے ایک سوال ہے ، کیا 'دلتوں' کو نہیں پچھتانا پڑے گا؟ بھلا بی جے پی کب سے اور کیوں دلتوں کی ہمدرد ہو گئی ؟ وہ مایاوتی کی ہمدرد تو ہو سکتی ہے ، اور مایاوتی کو ای ڈی اور جیل کا خوف دلا کر اپنے ساتھ ملا بھی سکتی ہے ،اور دلتوں کو متاثر بھی کر سکتی ہے ، لیکن وہ کبھی 'دلتوں' کی ہمدرد نہیں ہو سکتی۔ جس طرح سے دلتوں پر 'ریزرویشن' کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں ، اسے ہی دیکھ لیں۔ جب ریل سے لے کر پوسٹ تک سب پرائیویٹ ہو جائے گا تو دلتوں کو کون ملازمتیں دے گا !
ظاہر ہیکہ ریزرویشن کا دروازہ بند ہوجائے گا۔ اور آئے دن کے مظالم ، ریپ ، قتل ، زمینوں پر قبضے ، یہ سب بھلا مایاوتی کیوں بھول گئیں اور انہیں صرف اکھلیش یادو اور ایس پی کا ' جنگل راج' یاد رہا ، یوگی کا ' ہاتھرس' اور 'اناؤ' یاد نہیں رہا !
خیر ، مایاوتی جو بھی الزام لگائیں مسلمانوں کو چاہے جس قدر کٹ گھڑے میں کھڑا کریں، وہ خود بی جے پی کی جیت کی ذمے دار ہیں۔ انہوں نے 97مسلمانوں کو امیدوار بنایا اور اس طرح کہ وہ دوسرے مسلم امیدواروں کے مقابلے کھڑے رہے ، ووٹ تقسیم ہوئے ، اور بی جے پی جیت گئی۔ دلتوں نے مایاوتی کو غیر متحرک اور کمزور دیکھ کر بجائے ایس پی کو ووٹ دینے کے، بی جے پی کو ووٹ دیا۔۔۔
خیر، مایاوتی کا بھی کوئی اتنا بڑا قصور نہیں ہے ، اکھلیش یادو بھی سیاسی صورت حال کا اندازہ نہیں کر سکے تھے۔ بی جے پی کی یوپی میں حکومت ہے ، اس کے خلاف ماحول تھا ،کسان ناراض تھے ، کورونا وباء کے دوران اس کی لاپروائیاں اور کوتاہیاں عوام کو یاد تھیں ، بے روزگاری کا مسئلہ بھی تھا ، لیکن وزیراعلیٰ یوگی نے الیکشن سے کوئی چھ ماہ قبل غریبوں کو مفت راشن بانٹنے کا جو کام شروع کیا تھا ، اس نے سارے گلے شکوے دھو دیئے۔ اب اگر کسی کو روزانہ کی بنیاد پر پانچ چھ کلو گیہوں ، چاول اور دال ملے تو وہ بھلا کیوں اناج دینے والے کو بھولے گا !
بی جے پی کھانا کھانے والوں کو یاد رہ گئی۔ وہ جو کہتے تھے 'رام مندر کیا ہمارا پیٹ بھرے گا' ان کے پیٹ بھرنے کا انتظام یوگی نے کر دیا تھا، اور یہ بی جے پی کے لیے ترپ کا پتّہ ثابت ہوا۔
ایسا نہیں ہے کہ ' ہندوتوا' کا جادو نہیں چلا ، چلا مگر کوئی ' بھگوا لہر' نہیں تھی۔ اگر 'لہر' ہوتی تو بی جے پی کی 57 سیٹیں کم نہ ہوتیں۔ 2017 میں بی جے پی کو 312 سیٹوں پر کامیابی ملی تھی، اس بار سیٹوں کی تعداد 255 ہے ، اس کے مقابلے ایس پی نے 64 زائد سیٹوں پر کامیابی حاصل کی ہے۔ 2017ء میں ایس پی نے صرف 47 سیٹوں پر ہی کامیابی حاصل کی تھی۔


مذکورہ اعداد و شمار 'خوش کن' ہیں، اور بتاتے ہیں کہ 'جارحانہ ہندوتوا' کو خاک چٹانا مشکل نہیں ہے ، بس کچھ اور محنت کی ضرورت ہے۔ یوگی کے لیے میں اِن نتائج کو بہت اچھا نہیں مانتا ہوں ، بھلے ہی ان کی حکومت بن گئی ہے۔ مغربی یوپی میں بی جے پی کے قدموں تلے سے زمین کھسکی ہے ، اور اگر مایاوتی نے بی جے پی کے لیے آسانیاں نہ پیدا کی ہوتیں تو اس کے قدموں تلے سے ، زمین مزید کھسک جاتی۔
اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ بی جے پی کو ملنے والے بہت سے ووٹ 'ہندوتوا' کے نعرے پر نہیں، مفت راشن اور دیگر مفت سرکاری سہولیات کے نتیجے میں ملے ہیں۔ اب اس کا انداز ہ کرلیں کہ بی جے پی کے جو سخت گیر ہندو توادی سیاسی لیڈر تھے ، جنہیں ' پوسٹر بوائے' کہا جاتا تھا ، ان کی اچھی خاصی تعداد ہار گئی ہے ، مثلاً سنگیت سوم ہارے ہیں، سریش رانا ہارے ہیں ، رانا ، یوگی کی وزیر گنا تھے۔ ان دونوں ہی نے 2013ء کے مظفر نگر فسادات میں اپنا اپنا کردار ادا کیا تھا۔ مظفر نگر فسادات کے ہی ایک ملزم ، بی جے پی امیدوار امیش ملک ہارے ، کیرانہ کی اہم سیٹ سے بی جے پی کی مرگانکا سنگھ کو شکست ہوئی ، یہ مظفر نگر فسادات کے ایک ملزم حکم سنگھ کی بیٹی ہیں۔
یوگی کی کٹّر وادی تنظیم 'ہندو یووا واہنی' کے ایک لیڈر راگھویندر سنگھ ہارے ، انہوں نے الیکشن مہم میں مسلمانوں کے خلاف بڑا زہر اگلا تھا۔ یوگی حکومت کے 11 وزراء کو شکست ہوئی ہے ، جن میں نائب وزیراعلیٰ کیشوپرساد موریہ بھی شامل ہیں۔ تو یہ بات بہت واضح ہیکہ ' جارحانہ ہندوتوا' کی کوئی 'لہر' نہیں تھی ، ہاں کچھ اثر ضرور تھا۔ 'لہر' کو قابو میں کرنے کا کام ایس پی اور مسلمانوں نے کیا ، اگر دلتوں کی اکثریت بھی ساتھ دیتی تو کامیابی کا گراف مزید اوپر چلا جاتا۔ بی جے پی کی قسمت ان دنوں اس کا ساتھ دے رہی ہے کہ کانگریس کا کوئی جادو ، کہیں نہیں چل رہا ہے۔ یوپی کے وہ برہمن اور اعلیٰ ذات ہندو جو کانگریس کو ووٹ دیتے آئے تھے ، اس بار انہوں نے کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھاما ہے۔
حالانکہ یوگی پورے یانچ سال تک برہمنوں کو تنگ کیئے رہے تھے۔۔۔ خیر، یہ کوئی بہت حیرت کی بات نہیں ہے ، یہ وہ طبقہ ہے جو ہر حالت میں سیاسی اور تجارتی فائدہ چاہتا ہے ، کل تک اسے یہ فائدہ کانگریس دے رہی تھی اب بی جے پی دے رہی ہے۔


چلتے چلتے مجلس اتحاد المسلمین کا ذکر کر دیا جائے۔ میں یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ میں یہ سمجھنے میں غلط تھا کہ ایم آئی ایم کے معمولی ووٹوں سے کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ فرق پڑا ہے ، ایک مثال سلطانپور حلقہ کی لے لیں۔ سلطانپور سے بی جے پی کے امیدوار ونود سنگھ 92715 ووٹوں سے جیتے ہیں ، ان کے مقابلے ایس پی کے امیدوار انوپ سندا کو 91706 ووٹ ملے تھے۔ سندا ، ونود سنگھ سے 1009 ووٹوں سے ہار گئے۔ یہ بڑا معمولی فرق ہے۔ سلطانپور سے ایم آئی ایم نے مرزا اکرم بیگ کو امیدوار بنایا تھا جنہوں نے 5251 ووٹ لیے۔ گویا ایس پی کو ہرانے میں ایم آئی ایم کا بنیادی کردار رہا۔ اسولی حلقہ سے ایس پی کے محمد طاہر خان محض 269 ووٹوں سے جیت سکے ، ایم آئی ایم کے امیدوار مظہر نے وہاں 3305 ووٹ لیے تھے ، اندازہ کریں کہ اگر وہ تین سو ووٹ اور لے لیتے تو بی جے پی امیدوار اوم پرکاش پانڈے آسانی سے جیت جاتے۔ ایم آئی ایم کے بارے میں جو کہنا ہے وہ یہ اعداد و شمار ہی ہیں۔


اب ایک درخواست ہے ، مہربانی کریں بی ایس پی ، ایم آئی ایم کا دامن چھوڑ دیں کہ یہ صرف ہروا سکتے اور مسلمانوں کو بالترتیب ملزم قرار دے سکتے اور چہروں پر کالک پوت سکتے ہیں ، یہ اب جیت نہیں سکتے ہیں۔

***
بشکریہ: شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن
khansh.rasheed[@]gmail.com

UP election result aftermath analysis. Column: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں