کیا کجریوال مودی کا بدل ہو سکتے ہیں؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-13

کیا کجریوال مودی کا بدل ہو سکتے ہیں؟

kejriwal-alternative-to-modi

سیاست میں ہار جیت لگی رہتی ہے، کبھی کسی کو جیت حاصل ہوتی ہے ، توکبھی کسی پارٹی کو شکست سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ حالیہ ریاستی انتخابی نتائج کا اعلان ہوا، جن میں چار ریاستوں میں بی جے پی نے شاندار جیت درج کی، ان ریاستوں میں سرکار میں دوبارہ واپسی کی، جب کہ پنجاب میں عام آدمی پارٹی نے اکثریت سے ریکارڈ کامیابی حاصل کی۔ من جملہ 117 سیٹوں کے 92 سیٹیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ گرچہ سارے لوگوں کی نگاہیں اس چناؤ میں خصوصا اترپردیش کے انتخابات پر تھی ، سب نے یہی قیاس لگایا تھا کہ بیروزگاری، مہنگائی، کورونا کی بد ترین صورتحال ، پٹرول، ڈیزل اور گیاس کے آسمان چھوتے ہوش ربا دام اس طرح بے شمار مسائل تھے۔
اندازہ یہ تھا کہ بی جے پی اس قدر اکثریت کے ساتھ الیکشن جیت نہیں پائی گی، گرچہ بی جے پی نے سابقہ طرز پر 300 کا آنکڑا پار نہیں کیا ؛ لیکن 273مشترکہ سیٹوں کے ساتھ حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔ کانگریس پارٹی کو گوا سمیت منی پور اور اترا کھنڈ میں منہ کی کھانی پڑی۔


ویسے بی جے پی کے مقابلے کانگریس پارٹی ہی ہندوستان کی سطح پر اس کا بدل ہے ، لیکن کانگریس کی یہ صورتحال ہو چکی ہے کہ دن بدن اس کی زمین کھسکتی جارہی ہے۔ ویسے راہول گاندھی ، پرینکا گاندھی نے ہاتھرس، اناؤ سمیت دیگر معاملات کو بڑے زور شور کے ساتھ اٹھایا۔ لیکن بی جے پی نے بوتھ کی سطح پر ، زمینی لیول سے آریس یس کے کیڈر کو لے کر جو زمینی محنت کی ہے، اس کی وجہ سے وہ ہر قسم کے ہوش ربا مسائل کے باوجود جیت درج کرنے اور رائے دہندوں ہندوا توا کے ایجنڈے پر اپنے پالے میں کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ یا انتخابات سے قبل تھوڑا بہت مفت راشن پانی کا چارہ ووٹروں کو ڈالے جانا۔
اس کے علاوہ اپوزیشن کی صورتحال یہ ہے کہ بوتھ کی سطح پر کام کرنے والے ان کے سرگرم کارکن نہیں، جو گھر گھر جاکر لوگوں کی ذہن سازی کر سکیں ، بلکہ پرانی پارٹیاں اور ان کے لیڈران صرف اور صرف الیکشن سے قبل عوام کے درمیان نظر آتے ہیں، ورنہ پھر ندارد۔ جبکہ ہر در پیش مسئلہ پر احتجاج اور عوام کے درمیان ہر فیصلہ کے وقت ان کے نفع نقصان کو پیش کیا جاتا رہے تو پھر بی جے پی کو کنارا پر لانا کوئی مشکل نہیں۔ صرف گودی میڈیا ہے جو اس کے حق میں پرچار کرنے میں لگا رہتا ہے ، وہی چیزیں لوگوں کی نگاہوں میں آتی ہیں۔
اس صورتحال نے اپوزیشن کو بی جے پی کے مقابلہ حاشیہ میں ڈال دیا ہے ، گرچہ مختلف جگہوں پر ریاستی پارٹیاں اپنا اچھا کردار نبھا رہی ہیں ، لیکن ملک کی سطح پر ان کی پہنچ نہ ہونے کی وجہ سے وہ بی جے پی کا واقعی اور زمینی بدل نہیں ہو سکتیں ہیں۔


ہر قسم کے مسائل جوں کا توں ہونے کے باوجود بی جے پی ایسے کیسے جیت درج کرتی ہے؟ نوٹ بندی ، لاک ڈاؤن کی ابتر صورتحال، گرتی معیشت ، بے روز گاری، مہنگائی کا سانپ پھن کھول کر کھڑا ہے ، لیکن ہندوا توا کا جادو لوگوں پر پھر بھی اثر کر گیا۔ شرد پوار جیسے ممتاز سیاسی رہنما نے تمام اپوزیشن پارٹیوں کو ساتھ لانے کی بات کہی ہے۔ بی جے پی کی موجودہ جیت نے وزیر اعظم کو یہ کہنے کا موقع دیا ہے کہ یہ 2022 کے نتائج 2024 کے نتایج کا فیصلہ ہیں۔ بلکہ بی جے پی کی صورتحال یہ ہے کہ چناؤ جیتنے کے دوسرے دن بعد مودی جی گجرات میں ڈسمبر میں ہونے والے ریاستی الیکشن کے لئے روڈ شو اور انتخابی تشہیر کے نکل چکے ہیں۔


بی جے پی کی اترپردیش میں کرشمائی جیت جس میں 37 سال بعد کسی پارٹی کو دوبارہ حکومت بنانے کاموقع ملا ہے ، گوا میں اس کی ہٹ ٹرک، اتراکھنڈ میں اور منی پور میں اپنی حکومت کا دوہرانا، یہ ساری چیزیں ملک کے مسائل کے اعتبار ملک کے باشندگان کے لئے کوئی نیک فال نہیں ہیں۔ آج اترپردیش ملک کی ساری ریاستوں میں سب سے پچھڑا علاقہ شمار کیا جاتا ہے ، تعلیمی نظام ٹھپ ہے ، نوجوان ڈگریاں اور نوکریوں کی آس لئے بوڑھے ہو رہے ہیں، کتنے ہی سرکاری عہدے خالی پڑے ہیں، آج بی جے پی حکومت میں ترقی اور وکاس کی بات زبان کی حد تک اور ابتدائی چناؤ جیتنے کے موقع تک تو ٹھیک ہے ، لیکن زمین پر ترقی اور وکاس حقیقت میں جسے کہتے ہیں وہ کہیں نظر نہیں آتا۔
طرفہ تماشا یہ یہ کہ سی ایم یوگی کو بابا بلڈوزر کہا جا رہا ہے ، حکومت میں بلڈوز کے بجائے ترقی کا نعرہ لگاتے ، تعلیم کانعرہ لگاتے ، ترقی والے بابا، یا حق و صداقت والے بابا، تعلیم والے بابا ثابت ہوتے۔ المیہ یہ ہے کہ یہ بلڈوز مسلمانوں کے گھروں اور ان کے قائم کردہ اداروں پر تو چلائے ہی جا رہے ہیں، لیکن درحقیقت یہ بلڈوز ملک کی ترقی کو ڈھا رہے ہیں۔ یہ ہندوا توا چہرے ملک کی انارکی ، سالمیت، فرقہ واریت، تکثیریت اور سیکولزم کے لئے خطرہ ہیں، کثرت میں وحدت کے لئے نقصان دہ ہیں، ، مذہب کی آڑ میں ملک کی ترقی کا خواب دھرا کا دھرارہ جاتا ہے۔ فرقہ واریت ، مذہبی منافرت 80 بنام 20 اس جیسے موضوعات کام کر رہے ہیں۔ اگر اس ملک کے باشندوں میں مسلمان نہ ہوتے تو کیا اس ملک کے چناؤ اور الیکشن کے موضوعات یہی ہوتے؟
کیایہ موضوعات ملک کی ترقی کے باعث ہو سکتے ہیں؟ گویا مسلمان کا وجود ہی ان فرقہ پرست طاقتوں کے جیت کی وجہ ہے؟ مسلمانوں کو برا بھلا کہنے والا فرد ایم پی ، ایم ایل اے اور تخت و تاج کا مالک ہو جاتا ہے؟ یا ان فرقہ فرستوں کے لئے مسلمان کا نام اقتدار اور ترقی کی کرسیوں تک پہنچنا ہوتا ہے؟


مسلمان ملک کا موضوع نہیں، مسلمان تو ملک کا باشندہ ہے ، سب برادران وطن ہیں، اسی خاک سے پیدا ہوئے ، یہیں پیوند خاک ہو جائیں گے۔ مسئلہ ملک کی ترقی اور وکاس اور بے روزگاری اور مہنگائی پر قابو پانے کا ہے۔ تقسیم کرو اور حکومت کرو کی انگریز پالیسی نے اُس وقت بھی نقصان پہنچایا تھا اور اس وقت بھی یہ ملک کو گھن کی طرح کھائی جا رہی ہے!


جہاں ابوزیشن کی زمین کھسکتی جا رہی ہے، دوسری طرف بی جے پی ہے، جو ہندوتوا یجنڈے پر ہر طرف اپنا دائرہ کار بڑھا رہی ہے ، لگاتار جیت پر جیت درج کرتی جا رہی ہے۔ ممتا بنرجی اور کجریوال جیسے نتیاؤں کی ضرورت ہے ، جو نڈر ہوں ، بے باک ہوں، حق و صداقت اور سیکولرزم پر ایقان رکھتے ہوں، اور کام کی بنیاد پر لوگوں کو اپنی جانب مائل کرنے کا دم خم رکھتے ہوں۔ اور کام کے دھنے ہوں، سخت گو، حق پرست ، ایماندار شبیہ کے حامل ہوں۔ واقعی ترقی کے ذریعہ لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بنائیں، جس کے سامنے فرقہ پرست طاقتیں دھری کی دھری رہ جائیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بی جے پی نے تو اپوزیشن کے صفایا کا خواب بنایا ہوا ہے ، لیکن اس وقت کجریوال کا جادو سر چڑھ کا بول رہا ہے ، کجریوال کی دہلی میں ہیٹ ٹرک، زبردست تین دفعہ جیت، دو دفعہ دہلی اسمبلی اپوزیشن کا صفایا اور موجودہ پنجاب کے چناؤ میں 117 میں سے 92 سیٹوں کا حاصل کرنا یہ ان کا جادوئی کرشمہ ہی نہیں ؛ بلکہ ان کے عوام کی خدمت کی شبیہ ہے جو انہیں اس قدر بھاری طریقہ سے جیت دلاتی ہے۔


اپوزیشن پارٹیوں کی صورتحال یہ ہے کہ یہ کئی سالوں سے سیاست میں رہ کر انہوں نے سیاست کو اپنی گھر کی لونڈی سمجھ لیا ہے ، آرام کے وہ عادی ہو چکے ، میدان میں پسینہ بہانا انہوں نے چھوڑ دیا، بی جے پی میدان میں ذہن سازی کرتی ہے، گرچہ واقعی کام ندارد ہے ، اس کے مقابل کجریوال کا کرشمہ یہ ہے کہ صاف شبیہ کے ساتھ وہ عوام کی تعلیم، بجلی اور پانی اور صحت کی بات کرتے ہیں، جب ان سے سیاست کے حوالہ سے کوئی سوال کیاجاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ :
میں سیاست جانتا ہی نہیں، میں تو بس کام کرنا چانتا ہوں۔
ایک دفعہ کجریوال سے سوال کیا گیا کہ: آپ لوگوں کو فری چیزوں کا عادی بنا رہے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ کیا امیت شاہ ، مودی اور جتنے لیڈر ہوتے ہیں کیا یہ فری کی چیزوں کو استعمال نہیں کرتے؟ لوگوں کا ٹیکس ایمانداری کے ساتھ ان کو واپس کرتا ہوں۔


یہ صاف ستھری شبیہ اور کام اور کام کا جذبہ اور تعلیمی فروغ، صحت کے میدان میں لوگوں کے لئے سہولیات، پانی، بجلی کی مفت سربراہی یہ کجریوال کا وہ برانڈ ہے ، جس کے سامنے بی جے پی کا ہند توا ایجنڈا اور منافرت اور فرقہ واریت کا سکہ بالکل نہیں چلتا ہے۔
دہلی چناؤ سے قبل امیت شاہ سمیت دیگر بی جے پی کے لیڈروں نے ہندوا توا ایجنڈے کو بھنانے کے لئے "ملک کے غداروں کو گولی مارو سالوں کو" اور "بٹن یہاں دبائیں کرنٹ شاہین باغ میں لگے" جیسے نعرے کسے ، لیکن کجریوال کی ایماندارانہ کام کرنے والے نیتا کی شبیہ نے بی جے پی کو پانی پلا دیا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے ، آپ آئندہ "ہریانہ" الیکشن میں بھی دہلی اور پنجاب کی تاریخ دوہرا سکتی ہے۔ اس لئے بی جے پی کے ہندو توا ایجنڈا کے مقابلے میں کجریوال کی کام پر ووٹ دو کی پالیسی ہی لوگوں میں بی جے پی کا بدل بن سکتی ہے۔


اس لئے بجا طور پر تجزیہ نگار کجریوال کو ہندوستان کا اپوزیشن کا لیڈر کہہ رہے ہیں، جو مودی جی کو واقعی ٹکر دے سکتا ہے۔ آہستہ آہستہ آپ پارٹی ملک کے مختلف حصوں میں اپنے پیر پسار رہی ہے ، جن میں گوا میں دو سیٹوں پر جیت حاصل کرنا بھی ہے۔ آپ کے پاس کیڈر اور مقامی سطح پر مضبوط کارکنان نہ ہونے کی وجہ سے یہ صورتحال ہے۔ ورنہ موجودہ صورتحال میں اگر بی جے پی کا کوئی وکلپ اور بدل ہو سکتا ہے تو وہ کجریوال یا ممتابنرجی ہیں۔
اس لئے اگر ملک کو ترقی راہوں پر گامزن کرنا ہے ، واقعی ملک کی ترقی مقصود ہے ، تو ہندو و مسلم ، اسی بیس فیصد جیسے نعروں کے بجائے لوگوں کی سہولیات اور منافع اور فوائد کی پالیسوں سے لوگوں کو اپنے پالے میں کیا جا سکتا ہے۔ ورنہ ہندو توا وادی ایجنڈوں کے سلسلے میں اگر ابھی سے غور وفکر نہیں کیا گیا تو ملک کے سارے مسائل تو دھر ے کے دھرے رہ جائیں گے۔ بے روزگاری، مہنگائی ، پٹرول ، ڈیزل کے گیس سلینڈر اور خوردنی تیل کے دام اور نوکریوں کی عدم دستیابی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔
ایسے میں اگر موجودہ بر سر اقتدار حکومت کی غلط پالیسوں اور غلط نیتوں کا صحیح مقابلہ کیا جا سکتا ہے، ایمان دار کام کرنے والی شبیہ بنا کر ، کجریوال کی پنجاب کی زبردست جیت نے یہ بتلایا ہے کہ اندھیرے میں چراغ کی روشنی امید کی کرن ہوتی ہے۔ اس لئے اپوزیشن پارٹیوں کو زمینی سطح پر لوگوں کے مسائل پر کام کرنا ہوگا تاکہ فرقہ واریت اور منافرت کا مقابلہ بھرپور انداز میں کیا جا سکے۔


***
رفیع الدین حنیف قاسمی
ادارہ علم و عرفان ، حیدرآباد
rafihaneef90[@]gmail.com
موبائل : 09550081116
رفیع الدین حنیف قاسمی

Can Kejriwal an alternative replacement of Modi? Column by: Rafiuddin Hanif Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں