حاجی لق لق (پیدائش: 14/نومبر 1897ء - وفات: 27/ستمبر 1961ء)
اردو دنیا میں ایک عظیم صحافی، کالم نگار اور مزاح نگار کی حثیت سے جانے جاتے ہیں۔ آپ کا اصل نام عطا محمد چشتی اور آپ کے والد کا نام بندو علی تھا۔ حاجی لق لق اپنے قلمی نام "لق لق" کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: بعض حضرات خطوط کے ذریعے میرے قلمی نام "لق لقؔ" کی وجہ تسمیہ پوچھا کرتے ہیں اس لیے میں بازیابی چاہتا ہوں کہ اپنے 'اسم گرامی' یا یوں کہیے کہ اسم 'طیوری' کی تشریح کر دوں۔ میں تقریباً پانچ (5) سال تک عراق میں رہا ہوں۔ وہاں لم ڈھینگ قسم کا ایک پرندہ ہوتا ہے جسے حاجی لق لقؔ کہتے ہیں۔ حاجی اس لیے کہ ایک خاص موسم میں یہ ہجرت کر کے کہیں دوسرے ملکوں میں چلا جاتا ہے۔ اور کچھ عرصہ کے بعد پھر واپس آ جاتا ہے، عراق والوں کا خیال ہے کہ حج کرنے کے لیے جایا کرتا ہے۔ میری ٹانگیں ذرا لمبی ہیں اور حاجی لق لق پرندے کی ٹانگیں بھی طویل ہوتی ہیں۔ اس لیے میرے عرب دوست اس رعایت سے حاجی لق لق کہا کرتے تھے۔ جب میں نے ہندوستان آ کر دنیائے صحافت میں قدم رکھا تو مجھے ظریفانہ رنگ میں لکھنے کا خیال بھی آیا۔ اس کے ساتھ یہ فکر ہوئی کہ اس رنگ میں لکھنے کے لیے کوئی قلمی نام بھی ہونا چاہیے مجھے فوراً اس نام کا خیال آیا جس سے میرے عرب دوست مجھے یاد کرتے تھے یعنی 'حاجی لق لقؔ'۔
طنز و مزاح میں دلچسپی رکھنے والے قارئین کی خدمت میں حاجی لق لق کے مزاحیہ مضامین کا نمائندہ مجموعہ "آوازِ لق لق" پیش ہے۔ تقریباً سوا سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 4 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
ممتاز ادیب احمد سہیل اپنے مضمون "حاجی لق لق : اردو کے مزاحیہ ادب اور صحافت کا اہم نام جن کو ہم بھلا چکے ہیں" میں لکھتے ہیں ۔۔۔
حاجی لق لق نے ابتدائی تعلیم پٹی سے حاصل کی اور پھر لاہور آگئے اور باقی تعلیم لاہور میں مکمل کی۔ حاجی لق لقؔ کی تعلیم انٹرنس تھی۔ 1914ء میں پہلی جنگ عظیم کے دوران میں فوج میں کلرک بھرتی ہوکر مشرق وسطیٰ میں چلے گئے۔ پندرہ سولہ برس فوج کی ملازمت میں ملک سے باہر رہے۔ شعر و ادب کا ذوق تھا۔ واپس آئے تو ادارہ "زمیندار" سے منسلک ہو گئے۔ ابتداء میں ابو العلا چشتی کا قلمی نام اختیار کیا۔ پھر حاجی لق لقؔ ہو گئے۔
ایک روایت کے مطابق انھوں نے اپنی صحافت کا آغاز 1932ء میں مولانا عبدالمجید سالک کے رسالہ "فانوس خیال" سے کیا۔ ان کا قلم روزنامہ "شہباز"، روزنامہ "انقلاب"، روزنامہ "مغربی پاکستان "، روزنامہ "نوائے وقت"، روزنامہ "احسان" اور "ناقوس"میں بھی جولانیِ طبع کے رنگ دکھاتا رہا۔ "لقلقہ " کے نام سے ایک ہفت روزہ بھی جاری کیا ۔ جو زیادہ دیر تک جاری نہ رہ سکا۔ "زمیندار "کے علاوہ آپ "نوائے پاکستان " ، "احسان"،"شہباز" اور "مغربی پاکستان "میں بھی کالم نویسی کرتے رہے زندگی کے آخری ایام میں "زمیندار " میں "فکاہات" کا کالم لکھ رہے تھے۔ ادب کثیف ، اردو کی پہلی کتاب ،آدم اللغات ،بوتل ، آوازِ لق لق ،تقدیر کشمیر،جناح اور پاکستان ، حاجی لق لق کے افسانے ،حیدر آباد دکن کے دو ہیرو، درانتی ،رفتارِ پاکستان ،مضامین لق لقؔ اور عالمی معلومات کے نام سے ان کی کتب شائع ہو چکی ہیں۔ اپنی کتاب "درانتی اور دوسرے مضامین "میں لکھتے ہیں:
"جرمنی والے کی بڑی لڑائی کے ابتدائی ایام کا ذکر ہے کہ جب ہم انٹرنس فیل ہونے میں دوسری دفعہ کامیاب ہوئے تو خدا بہشت نصیب کرے ہمارے والد بزرگوار کو، فرمانے لگے یہ تمہارے بس کا روگ نہیں بھلا ہم زمینداروں کو انگریزی سکولوں سے کیا واسطہ؟ اور یہ بھی تمہاری والدہ کی ضدتھی کہ وہ تمہیں ٹکٹ کلکٹر بنانا چاہتی تھی۔ ورنہ میں تو شروع ہی سے انگریزی تعلیم کو مسلمانوں کے لیے اور خصوصاً زمینداروں کے لیے حرام سمجھتا ہوں۔"
انھوں نے کبھی رسمی تعلیم حاصل نہیں کی۔ حاجی لق لق نے مزاحیہ اور طنزیہ شاعری کی ، "لق لق" ان کا تخلص تھا۔ ان کی تحریریں بچے بڑی دلچسپی سے پڑھتے تھے۔ زمیندار'، 'شہباز ' اور 'احسان' سمیت کئی اھم اخبارات اور جرائد میں لکھتے رہے۔ ۔ انہوں نے ادبی سرگرمیوں کے علارہ برطانوی ہند کی فوج میں خدمات بھی سر انجام دیں۔ شورش کاشمیری نے انھیں "نورتن" کہا اور حاجی لق لق کو خراج عقیدت پیش کیا اور وہ ان شخصیات میں شامل تھے جنھوں نے صحافت کو ادبی مہارت اور رچاؤ کے ساتھ اردو صحافت کو نیا رنگ دیا۔ تقسیم ہند کے بعد حاجی لق لق نے آغا شورش کاشمری کے ہفتہ وار "چٹان" کے ساتھ منسلک ہو گئے اور انھوں نے شورش کاشمیری کی سوانح عمری "سرگذشت" لکھنے میں حصہ لیا۔ حاجی لق لق ، مولانا نواب الدین رمدسی کے مرید بھی رہے۔ اور ایک عرصے تک اپنے نام کے ساتھ " چشتی" بھی لکھتے رھے۔
ان کی شاعری میں مزاح کا عنصر غالب ہے۔ انھوں نے عشق، محبت، حسن کے ساتھ معاصر سیاسی لیڈروں اور سیاسی رجحانات پر تسلسل کے ساتھ طبع آزمائی کی ہے۔ تحریف ان کی طنزیہ ومزاحیہ شاعری کا اہم ہتھیار ہے اور معروف شعرا کی غزلیات کی پیروڈیاں کے مجموعہ کلام "منقار لق لق" میں شامل ہیں۔ غزلیات کے چند منتخب اشعار دیکھیے جن سے مزاح پوری طرح عیاں ہے :
وہ آئیں گھر پہ مرے مجھ کو اعتبار نہیں
یہ میرا گھر ہے کسی پیر کا مزا ر نہیں
ترا مریض ہوں کسی ڈاکٹر کا گھر نہ بتا
یہ درد عشق ہے ظالم کوئی بخار نہیں
حال تیرے ہجر میں کیا دیکھ دلبر ہو گیا
روتے روتے میرا اوور کوٹ بھی تر ہو گیا
رات دن ہوتا ہے میرے دل کے ارمانوں کا خون
دل میرا بھی شو مئی قسمت سے سکھر ہو گیا
عمر کے آخری ایاّم میں حاجی لق لقؔ کی صحت جہاں جواب دے گئی تھی وہاں مالی پریشانیاں بھی ان کا مقدر ٹھہریں۔ جون 1940ء کے تقریباً وسط میں حاجی لق لق بیمار ہوئے اور آہستہ آہستہ ان کی بیماری شدت اختیار کرتی گئی۔ اور بالآخرجان لیوا ثابت ہوئی اورہ بدھو، جی ٹی روڈ لاہورکے قبرستان میں سپرد خاک ہوئے۔ ۔ جون 1960ء سے 1961ء تک حکومتِ پاکستان نے آپ کو ایک سوروپیہ ماہوار کے حساب سے وظیفہ دیا۔ اس کے علاوہ بیماری کے ایاّم میں رائٹر گلڈکی جانب سے آپ کو امداد کے طور پرپانچ سو روپے کی رقم دی گئی اور اس ادارہ کی جانب سے مرحوم کی تجہیز وتففین کے لیے ورثاء کو دو سو روپے بھی دئیے گئے۔
حاجی لق لقؔ شاعر تھے۔ لیکن نام پایا تو مزاحیہ کالم نویسی میں ۔ یہ مسلمہ بات ہے کہ سالکؔ اور حسرتؔ کے بعد قیام پاکستان سے پہلے اگر کسی نے جاندار مزاحیہ کالم لکھے تو حاجی لق لق تھے۔ انھوں نے مختلف اخباروں میں کام کیا۔ لیکن زیادہ عرصہ زمیندار میں گزارا۔ ان کے مزاح میں ادبی رنگ نمایاں تھا۔ اس چیز کو بعد میں مجید لاہوری نے بھرپور انداز میں اختیار کیا ۔ اس کا آغاز حاجی لق لقؔ کے ہاتھوں ہوا۔
مخلوقِ خدا کو ہنسانے والا یہ ظریف عوامی ادیب وشاعر جب لاہور میں 27ستمبر 1961ء کو راہِ عدم کو چلا تو لق لق کے شاگرد اسیر نے قطعۂ تاریخ وفات لکھا
استاد طنز خسروِ اقلیم علم و فن
خوشیوں کو تیری موت نے رنج و الم دیا
حزن و ملالِ مرگ بلا امتیازِ غیر
اک سا دیا سبھی کو کسی کو نہ کم دیا
سونا اسیر ہو گیا مے خانۂ مزاح
اس بزم کو ہے شاعرِ لق لقؔ نے غم دیا
***
نام کتاب: آوازِ لق لق (مزاحیہ مضامین)
مصنف: حاجی لق لق
ناشر: کتابستان، نئی دہلی (سن اشاعت: 1955ء)
تعداد صفحات: 111
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 4 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Aawaz E Laq Laq by Haji Laq Laq.pdf
فہرست | ||
---|---|---|
نمبر شمار | عنوان | صفحہ نمبر |
1 | ریل بابو کانفرنس | 7 |
2 | ایک آنہ کی کسر | 17 |
3 | لیڈر بن جاؤ | 24 |
4 | سبزی کانفرنس | 31 |
5 | طالب علم ایڈیٹر | 38 |
6 | شاعر کی ڈائری | 44 |
7 | تمباکو کانفرنس | 53 |
8 | شاعر کا ہاتھی | 62 |
9 | اڑان | 69 |
10 | گھوڑے کی سواری | 82 |
11 | پرواز | 95 |
12 | تانگے والا | 99 |
13 | چٹکلے | 107 |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں