حسب معمول آج گرما گرم چائے کی چسکیوں کے ساتھ اخبار کی سرخیوں پر نظر ڈالتے ہوئے صفحات کوالٹ پلٹ کرتی جاتی تھی کہ ایک خبر پر نظر ٹھہر گئی۔ لکھا تھا:
"کیا آپ کو چائے یا کافی پینا پسند ہے؟"
میں نے دل میں کہا کہ ہاں ،اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے۔ ہندوستان میں تقریبا اسی قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ محققین کی تحقیق کے مطابق تو یہ دنیا میں پانی کے بعد سب سے زیادہ پیا جانے والا مشروب ہے۔ جسے دنیا کے مختلف خطوں میں مختلف طریقوں سے تیار اور استعمال کیا جاتا ہے۔ چائے کا اصل خطہ تو چین کا مغربی علاقہ ہے جہاں 1.6 ارب پاؤنڈ چائے پی جاتی ہے اور فی فرد کے حساب سے چائے پینے میں ترکی، آئر لینڈ اور برطانیہ سب سے آگے آتے ہیں، جہاں چائے کے سب سے زیادہ شوقین پائے جاتے ہیں۔
یقیناً ہم ہندوستانی بھی اس فہرست میں کہیں نہ کہیں آتے ہی ہونگے۔ یا اللہ! یہ میں کس تفصیل میں الجھ گئی، پھر خود اس کے بعد جھینپ سی گئی جیسے کسی نے اکیلے اکیلے ،چپکے چپکے چائے کی چسکی سے مسحور ہوتے ہوئے پکڑ لیا ہو اور موقع محل کی بہ نسبت یہ سوال داغ دیا ہو، حالانکہ یہ سوال بنتا تو نہیں تھا۔ ہاں کچھ گنے چنے جیو جنتو میرے علم میں ایسے ہیں جو اس نعمت غیر مترقبہ کو دیکھ کر بہ مثل۔۔۔ بدک جاتے ہیں۔ اب آپ اپنی ذہانت کے مطابق اس خالی جگہ کو خود پر کرلیں۔ اس سے آپ کی ذہانت کا امتحان ہر گز مقصود نہیں ہے بلکہ گناہ کے ارتکاب سے محفوظ رہنا ہے۔ خدا روز حشر پوچھے گا کہ میری اشرف المخلوقات کی کیوں توہین کی؟ گرچہ اطوار ان کے کوئی بھی اشرف المخلوقا ت والے نہیں۔ البتہ تمام عادتیں ان میں اور دیگر مخلوقات میں یکساں ہیں مثلاً کبھی کسی نے کسی گدھے کو چائے کی چسکی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے نہیں دیکھا ہوگا۔ کم سے کم میں نے تو نہیں دیکھا ہے۔ ہاں گدھا صفت انسانوں سے ضرور پالا پڑا ہے (جی تو چاہتا ہے کہ بلاواسطہ گدھا کہوں لیکن معتوب ہونے کا وہی ڈر ہے) اس طرح کے لوگ اگر چائے کے وقت تشریف لے آئیں تو گھنٹوں اسی سوچ میں گزر جاتے ہیں کہ چائے تو پئیں گے نہیں تو پھر خاطر تواضع میں کیا ایسا پیش کیاجائے ؟؟ چائے کا متبادل آخر کیا ہو سکتا ہے ؟ جس سے کسی کمی کا احساس مٹ جائے حالانکہ یہ ممکن تو نہیں کیونکہ بقول جگر:
جیسے ہر شے میں کسی شے کی کمی پاتا ہوں میں
خیر تو میں بات کر رہی تھی اخبار میں موجود سرخی کا۔ سرخی دیکھ کر میں نے تجسس اور حیرت کے مشترک جذبات کے ساتھ، تحریر کو پڑھنا شروع کیا:
"کیا آپ کو چائے یا کافی پسند ہے؟"
تو اس میں موجود ایک جز آپ کی صحت کے لئے بہت فائدہ مند ہے اور وہ ہے کیفین۔ امریکا کی جون ہوپکن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ مشروبات صرف ذہنی طور پر مستعد نہیں کرتے بلکہ چائے اور کافی میں موجود کیفین صحت کے لئے بھی فائدہ مند ہے۔۔۔۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے برٹش میڈیکل جرنل میں شائع ہوئے، یہاں آپ ماضی میں ہونے والی طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آنے والے ان گرم مشروبات کے فوائد جان سکیں گے۔
1) کارکردگی کے لئے بہترین
کیفین کھلاڑیوں کوہی نہیں بلکہ روزمرہ کے کاموں کے لئے بھی جسمانی صلاحیت کو بہتر بناتی ہے، ان مشروبات کے استعمال سے تھکاوٹ کے احساس کو ٹالنے میں مدد ملتی ہے جس کے لئے کیفین ایک کیمیکل adenosine کی ریسیپٹر کو بلاک کرتی ہے، جس کی وجہ سے لوگ عام معمول سے زیادہ وقت تک تھکے بغیرکام کر پاتے ہیں۔
2) چربی گھلانے میں مددگار
کیفین جسم کے اندرحرارت پیدا کرتی ہے اور کیلوریز کو توانائی میں بدلتی ہے۔ ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ سبز چائے میں موجود کیفین سے چربی تیزی سے گھلتی ہے،جسمانی وزن اور کمر کا گھیراؤ بھی کم ہوتا ہے۔
3) جگر کے کینسر کا خطرہ کم کرے
چائے یا کافی کا استعمال جگر کے کینسر کی سب سے عام قسم کا خطرہ کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ساوتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن بھر میں ایک کپ کافی یا چائے میں موجود کیفین ہیپٹو سیولرکینسر کا خطرہ 20 فیصد کم کرتی ہے، جبکہ دو کپ پینے سے یہ خطرہ 35 فیصدتک کم ہو جاتا ہے۔
4) یادداشت بہتر کرے
جون ہوپکنز یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کیفین طویل المعیاد یادداشت کو بہتر کر سکتی ہے، تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ تو پہلے سے معلوم ہے کہ کیفین دماغی افعال کو بہتر بنانے کا اثر رکھتی ہے۔ مگر پہلی بار جانا گیا ہے کہ یہ یادوں کو بھی مضبوط کر کے انہیں فراموش ہونے سے روکتی ہے۔
5) پارکنسن کا خطرہ کم کرے
ایک تحقیق میں بتایا گیاکہ کیفین کا استعمال رعشے یا پارکسنس امراض کے خطرہ کو کم کرتا ہے۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ کافی پینے کے شوقین افراد میں پارکسنس امراض کا خطرہ اس مشروب سے دور رہنے والوں کے مقابلے 31 فیصد کم ہوتا ہے۔
6) دل کی صحت کے لئے بھی فائدہ مند
مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آئی کہ دل کی بے ترتیب دھڑکن کے شکار افراد اگر کیفین استعمال معمول بنائے تو اس مرض کی شدت میں 6 سے 13 فیصد تک کمی آتی ہے۔ اسی تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ایسے افراد جنھیں ہارٹ اٹیک کا سامنا ہو چکا ہو، اگر کیفین کا استعمال کریں تو ان کی دھڑکن بہتر ہوتی ہے۔ جبکہ دھڑکن کی بے ترتیبی کے مسائل بھی کم ہو جاتے ہیں۔
7) مزاج پر خوشگوار اثرات
کیفین اعصابی نظام کو متحرک کرتی ہے جس سے مزاج پر بھی خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں اور یہاں بھی وہ adensine کے اثر کو بلاک کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔ اس کیمیکل کے اثر کو بلاک کرنے سے کیفین ڈوپامائن وغیرہ کو متحرک کرتی ہے جو انسان کو فرحت محسوس کرنے میں مدد دیتے ہیں۔
8) ڈپریشن دور کرے
چائے یا کافی کا استعمال ذہنی مایوسی یا ڈپریشن کا خطرہ کم کرتا ہے ، یہ دماغ میں ایسے نیوروٹر انسمیٹرز بننے کے عمل کو متحرک کرتی ہے جو مزاج کو خوشگوار کرکے ڈپریشن کا خطرہ کم کرے۔
یہ تھے چائے پینے کے آٹھ ایسے فوائد جس سے ہم شاذ و نادر ہی واقف تھے۔ جبکہ میں نے آج تک اپنے بڑوں سے چائے کے نقصانات کا ہی سنا تھا مثلاً: چائے سے بھوک ختم ہو جاتی ہے اور سب سے اہم کہ چائے سے کالے ہو جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ میں صدقے جاوں اپنے بزرگوں پر جنہوں نے کس خوش اسلوبی سے ان فوائد کو ہم سے پوشیدہ رکھ کے، بس نقصانات ہی گنواتے رہے کہتے رہے کہ بچوں کی پینے کی چیز نہیں ہے۔ ہماری پھوپھی تو بڑی آگ بگولہ ہو کر اپنی بیٹیوں کے بارے کہا کرتی تھیں کی یہ لوگ جب پہلی بار سسرال سے مائیکہ آئیں تو یہ تحفہ ساتھ لائیں۔ ورنہ کبھی جو یہاں میں نے ہاتھ لگانے دیا ہو یہ چائے منحوس کی لت وہیں سے لگی ہے اور باجیاں جواب میں مسکرانے لگتیں گویا کہہ رہی ہوں:
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
ہاں تو اخبار میں موجود چائے کے آٹھ فوائد کی بات ہو رہی تھی جن کو پڑھ پڑھ کر میں بار بار خود سے سوال کر رہی تھی کہ کیا یہ یہی چائے ہے جس کی چسکیوں میں وہ مزہ ہے کہ روز ڈانٹ کھانے کے بعد بھی بد مزہ نہیں ہوتے۔ جس طرح غالب چاچا کہتے تھے کہ:
کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا
میں نے پھر سے چائے کی ایک چسکی لی اور اس کے فوائد پر غور کرنے لگی۔ پہلا فائدہ اس خبر کے مطابق یہ ہے کہ: " کارکردگی کے لئے بہترین" یعنی یہ دن بھر چست و متحرک رکھتی ہے۔ لیکن میری چائے میں یہ عناصر ہرگز نہیں پائے جاتے کیونکہ پورے دن کی تو خیر، چائے ناشتہ بھی بمشکل کرسی میں اڑسے ہوئے جیسے تیسے مکمل کر نے کے بعد فورا سے پہلے کچھ منٹ آرام کا خیال آتا ہے اور یہ آرام کچھ منٹوں کی بجائے گھنٹوں تک چلتا ہے، یہاں تک کہ پھر کھانے کا وقت ہو جاتا ہے اور کھانے کے بعد قیلولہ بڑی پابندی سے کرتی ہوں اور کروں بھی کیوں نہ آخر کو سنت ہے،کوئی اگر ٹوک دے تو اس کو بھی قیلولے کی اہمیت و فضیلت بتانا کار ثواب سمجھتی ہوں۔ پھر تو چائے کا وقت ہو ہی جاتا ہے اور چائے کی گرما گرم چسکییوں کے ساتھ زمانہ کہ نرم گرم پر روشنی ڈالنا محبوب مشغلہ ہے۔ میری ان باتوں سے کسی کے ذہن میں خالی رہنے اور کاہلی کے تعلق سے اگر خیال آیا ہو تو ان کے لئے ایک مصرع:
"جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں"
یہ میں نہیں کہ رہی بلکہ داغ کہہ گئے ہیں :
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
خیر، چائے کا دوسرا فائدہ یہ بتایا گیا ہے کہ چربی گھلانے میں مددگارہے۔۔ وہ تمام لوگ جو " جم " میں اپنا خون پسینہ ایک کرتے ہیں ان بے چارے بیوقوفوں کو علم ہی نہیں۔ اچھا ہے ان کو معلوم نہیں ورنہ اردو شاعری کا ایک اہم مضمون جو معشوق کی کمر کے تعلق سے اب تک چلا آ رہا وہ معدوم ہوتا، سب کی کمر ایک جیسی ہوتی تو شاعر کمر کی نازکی کے متعدد مضامین کیسے باندھ پاتا کہ :
اللہ رے نازکی یہ چنبیلی کا ایک پھول
سر پر جو رکھ دیا تو کمر لچک گئی
آپ کی نازک کمر پر بوجھ پڑتا ہے بہت
بڑھ چلے ہیں حد سے گیسو کچھ انہیں کم کیجیے
(آتش)
اللہ ری نزاکت جاناں کہ شعر میں
مضموں بندھا کمر کا تو درد کمر ہوا
(امیر مینائی)
معدوم ہوئے جاتے ہیں ہم فکر کے مارے
مضموں کمر یار کا پیدا نہیں ہوتا
(صبا لکھنوی)
کمر باندھی ہے توبہ توڑنے پر
الہی خیر عزم ناتواں کی
(انور دہلوی)
اور اس موضوع کا سب سے مشہور و مقبول شعر:
تمہارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے
کہاں ہے کس طرح کی ہے کدھر ہے
(آبرو)
حالانکہ یہی کمر جب کلاسیکی دور سے جدید دور کی شاعری میں آئی تو انہوں نے عزم کر لیا کہ ہم تو جو دیکھیں وہی سچ سچ بات کہیں گے، تو انہوں نے کہا:
ہم تو شاعر ہیں جو پتھر کو گہر کہتے ہیں
کلچڑی کو بھی محبت میں قمر کہتے ہیں
عشق انسان کو دیوانہ بنا دیتا ہے
لوگ کمرے کو محبت میں کمر کہتے ہیں
(ساغر خیامی)
انہوں نے حقیقت بیانی کی وہ وہ مثالیں اردو ادب کے حوالے کی ہیں کہ رہتی دنیا تک ان کو یاد کیا جائے گا:
سڈنی آکر پتا چلا ساغر
جب لڑی آنکھ ان حسینوں سے
ساٹھ برسوں سے اپنے ملک میں ہم
عشق فرما رہے ہیں بھینسوں سے
ایسی شاعری کی سماعت کے بعد سامعین کیا حشر کریں گے خود انہوں نے اس کا حال بھی نظم کیا ہے:
اک شب ہمارے بزم میں جوتے جو کھو گئے
ہم نے کہا بتائیے گھر کیسے جائیں گے
کہنے لگے کہ شعر سناتے رہو یونہی
گنتے نہیں بنیں گے ابھی اتنے آئیں گے
انہوں نے نہ صرف بزم کا بلکہ رزم (بیوی سے جنگ) اور اس کے بعد کا بھی نقشہ بیان کیا ہے جس سے دکاندار (وہ بھی چپلوں کا) آشنا نظر آتا ہے:
پہنا کے مجھ کو چپلیں بولا یہ سیلز مین
مضبوط کس قدر ہیں چپلوں پہ چھوڑ دیں
کہتا ہوں پائیدار ہیں یہ جوتیاں مگر
بھابھی کا کیا کہ ایک ہی گھنٹہ میں توڑ دیں
مانیے یا نہ مانیے ساغر صاحب بڑے ہی پیارے بھولے بھالے شاعر تھے۔ اسی بھولے پن کے ساتھ لہک لہک کر اشعار بھی سنایا کرتے تھے (حالانکہ بس شکل سے ہی معصوم تھے ،اتنے معصوم ہوتے تو ایسی شاعری ہرگز بس کی بات نہیں تھی، کہاں کہاں دماغ بلکہ تخیل جاتا ہے کہ الحفیظ و الاماں)۔ لوگ انہیں "کتے کے کیک" سے یاد کرتے ہیں۔ دراصل دلی میں دکانداروں کو زبردستی راہگیروں کو آواز لگا کر بلانے کی پرانی عادت ہے۔ ایک دن شاعر صاحب کو آواز لگا دی ہوگی۔ انہوں نے سوچاکہ جان چھڑانے کو کوئی ایسی چیز بولتے ہیں جو ہو ہی نا۔ سو انہوں نے کہا کہ کتے کا کیک ہے؟دلچسپ یہ کہ وہ بھی موجود تھا لیکن سب سے زیادہ دلچسپ تو دکاندار کا سوال ہے:
بولا دکان دار کہ کیا چاہیے تمہیں
جو بھی کہو گے میری دکاں پر وہ پاؤ گے
میں نے کہا کہ کتے کے کھانے کا کیک ہے
بولا یہیں پہ کھاؤ گے یا لے کے جاؤ گے
بزبان دکاندار خود کو ۔۔۔ کہلوا کر صاحب بڑی خوشی یہ قطعہ سنایا کرتے تھے۔ میں نے تو محسوس کیا ہے کتے سے ان کو کافی محبت تھی۔ اس وفادار جانور کو انہوں نے اپنی شاعری میں بڑی خوش اسلوبی سے (دم ہلاتے ہوئے) جگہ دی ہے حالانکہ اصل میں دلی کہ تنگ دلی دکھانا مقصد تھا۔ یوسفی صاحب نے کہا تھا کہ اندروں لاہور کی کچھ گلیاں اتنی تنگ ہیں کہ اگر ایک طرف سے عورت آ رہی ہو اور دوسری طرف سے مرد تو درمیان میں نکاح کی گنجائش ہی بچتی ہے۔ ساغر صاحب تو بیچارے بیگم گزیدہ آدمی تھے (جیساکہ مندرجہ ذیل قطعہ سے اندازہ ہوگا) کہاں نکاح وکاح کو یاد کرکے زخم کریدتے۔ سو سگ گزیدگی پر راضی نکلے اور یہی ان کو راس آئی۔ اسی لئے جا بجا اس وفادار کو ہی دیکھ کر خوش ہوتے رہے اور اس کی ہر حرکات و سکنات کو اتنی غور سے دیکھا کہ وہ خود بخود داخل شاعری ہو گئے:
یہ بولا دلی کے کتے سے گاؤں کا کتا
کہاں سے سیکھی ادا تو نے دم دبانے کی
وہ بولا دم کے دبانے کو بزدلی نہ سمجھ
جگہ کہاں ہے دم تلک ہلانے کی
دیکھئے جناب گفتگو کہاں سے کہاں کا رخ اختیار کر گئی۔ اخبار اور چائے سے شروع ہو کر یہ کمر ،کمرہ، کتے ، کتے کاکیک اور لاہور کی گلیاں اور نجانے کیا کیا۔ اکثر یہی ہوتا ہے کہ ہماری باتیں چائے پر شروع ہو کر ڈنر پر ختم ہوتی ہیں :
کچھ علاج اس کا بھی صاحب نظراں ہے کہ نہیں۔۔
اکثر لوگوں کا ذہن دلی اور لاہور کی اندرونی گلیوں سے بھی تنگ ہوتا ہے کہ ان کے خیال جوں کے توں ایک ہی جگہ پر اٹکے رہتے ہیں۔ پھر اس کے معنی و مفہوم کی تبدیلی ان کو بڑی گراں گزرتی ہے۔ اس لئے اس قسم کے لوگ چائے سے ڈنر تک کی بات کو دوسرا رنگ نہ دیں۔ حالانکہ وہ جو رنگ دیں گے اس سے میں بخوبی واقف ہوں ہمارے غالب چچا کو بھی بڑی آگاہی رہتی تھی کہتے رہتے تھے :
قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں
خیر! ہماری باتیں ہی باتیں ہیں جو وہاں سے (چائے سے) رواں دواں ہو کر کہاں کہاں پہنچ گئی۔۔ بالکل اسی خواہش کی تعمیل میں کہ ؎
گفتگو بند نہ ہو
بات سے بات چلے
صبح تک شام ملاقات چلے
ہم پہ ہنستی ہوئی یہ تاروں بھری رات چلے
حالانکہ یہ رات کا وقت تو نہیں ، میں صبح کا اخبار اور گرم چائے کی پیالی لے کر بیٹھی تھی اور چائے کے فوائد سے بات آغاز ہوا تھا۔ دوسرے ہی فائدہ کی بات چل رہی تھی۔ سو بنا کسی تاخیر کے تیسرے فائدہ کی طرف آتے ہیں جو جگر کے کینسر کا خطرہ کم کرنے سے متعلق ہے کہ ساوتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ دن بھر میں ایک کپ کافی یا چائے میں موجود کیفین ہیپٹو سیولرکینسر کا خطرہ 20 فیصد کم کرتی ہے، جبکہ دو کپ پینے سے یہ خطرہ 35 فیصدتک کم ہو جاتا ہے۔ پھر تو ہم ایک دن میں ایک ہی ساتھ پانچ کپ پی لیں گے تاکہ خطرہ ہی ٹل جائے، آخر کو ہے بھی ہماری پیاری دلاری مشروب (جن کو میرے پیاری دلاری کہنے پر اعتراض ہے وہ گورکھپور اسٹیشن پر جاکر چائے بیچنے والوں کی آواز بغور سنیں وہ رام پیاری اور رام دلاری چائے کہہ کر گرم پانی پلا کرٹھگ رہے ہوتے ہیں)۔
اس مشروب کا اگلا فائدہ یادداشت کے متعلق ہے کہ: "کیفین طویل المعیاد یادداشت کو بہتر کر سکتی ہے"۔ سب سے پہلے تو مجھے اس جملے اور اس میں موجود معیاد سے دقت ہے۔ اگر میں اس کو نظر انداز کر بھی دوں تو یہ بات نہیں سمجھ آ رہی ہے کہ پھر میرا حافظہ کیوں اس شعر کی قبولیت کا پتہ دیتا ہے کہ:
یاد ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
دراصل یہ شعر ہم اس زمانے سے بیت بازی میں چلا چلا کر پڑھتے آ رہے ہیں جب ہمیں اس شعر کا کیا کسی اور شعر کا بھی مطلب نہیں معلوم تھا۔ معصوم بچوں کی دعا بھی کبھی رد نہیں ہوتی سو اس میں اب چائے کا کیا قصور۔ ویسے یوں ہی یہ خیال بھی اچانک ابھی ابھی آیا کہ جو لوگ بادام خرید کر روز صبح بھگو کر بلا ناغہ کھانے کی مشقت کرتے ہیں وہ چائے کا استعمال کیوں نہیں کرتے؟؟ جبکہ بادا م کے بارے میں یہ افواہ بھی عام ہے کہ عقل بادام کھانے سے نہیں بلکہ ٹھوکر یا دھوکہ کھانے سے آتی ہے۔ دھوکہ سے ایک شعر یاد آ گیا کہ جس میں شاعر اپنی سادہ نگاہی کی وجہ سے ایک حسین دھوکے کی خواہش کر رہا ہے حالانکہ یہ ظاہر نہیں ہونے دے رہا ہے بلکہ اس کا قصور بھی معشوق کے سر منڈھنے کا ارادہ ہے۔ کہتا ہے :
سب کے جیسی نہ بنا زلف کہ ہم سادہ نگاہ
تیرے دھوکے میں کسی اور کے شانے لگ جائیں
(فرحت احساس)
مزید اس شاعر کے ارادے دیکھتے جائیے:
پیکر عقل ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں |
تیرے پیچھے بھی جو ہم جیسے دوانے لگ جائیں |
اس کا منصوبہ یہ لگتا ہے گلی میں اس کی |
ہم یوں ہی خاک اڑانے لگ جائیں |
لیجیے جناب پھر شاعر معشوق کے کندھے پر رکھ کے بندوق چلا رہا ہے۔ یہ شاعر کے علاوہ کسی اور کا منصوبہ بالکل نہیں ہے کہ وہ خاک اڑانے لگے۔ آخر کو یہ اس کا پرانا شیوہ اور پسندیدہ مشغلہ ہے تاکہ خاک اڑانے کا مضمون چٹخارے لے لے کر بیان کر سکے۔ وہ مبالغہ آرائی کرے کہ قیس و فرہاد کو کمتر ثابت کردے اور اس میں دنیا جہان کی وہ قلابیں ملائے کہ اللہ کی پناہ۔۔۔۔
ویسے میرا خود کا واٹس ایپ اسٹیٹس کئی برسوں سے اسی خاک اڑانے سے متعلق ہے حالانکہ اس میں شاعر نے ذرا الگ قسم کی خاک اڑائی ہے۔ اس معصوم شاعرکو اتنا دماغ نہیں ہے کہ اتنی آسانی سے ہر بات کا رخ کہیں اور موڑ دے یا اپنی ہر بات کا الزام معشوق بیچارے پر جو خود اتنا نازک بدن ،سیم تن ،موہوم کمر کا مالک اور نازک دماغ و مزاج ہے، اس کے سر ڈالتا جائے اور مفت میں معشوق کو برا بھلا کہلوائے۔ اس لئے خود ہی کی بات کرتا ہے اور خود اور خود کی زندگی کو مورد الزام ٹھہراتا ہے:
زندگی خاک نہ تھی خاک اڑاتے گزری
حالانکہ اگلے ہی مصرعے میں یہ بھی روایتی شاعروں کی طرح معشوق پر ہی آ جاتا ہے اس لئے یہاں پر ایک ہی مصرعہ سے کام چلانا بہتر ہے۔ اردو شاعری میں خاک کو بطور آلہ استعمال کرنے والے ایک شاعر عرفان صدیقی ہیں۔ انہوں نے اس خاک کے ذریعہ غزل میں وہ وہ کرشمے دکھائے کہ دیکھتے ہی بنتی ہے، آپ بھی دیکھئے:
جب یہ عالم ہو تو لکھیے لب و رخسار پہ خاک |
اڑتی ہے خانہ دل کے در و دیوار پہ خاک |
تو نے مٹی سے الجھنے کا نتیجہ دیکھا |
ڈال دی میرے بدن نے تیرے بدن پہ خاک |
ہم نے مدت سے الٹ رکھا ہے کاسہ اپنا |
دست دادار ترے درہم و دینار پہ خاک |
یہ غزل لکھ کے حریفوں پہ اڑا دی میں نے |
جم رہی تھی مرے آئینہ اشعار پہ خاک |
غرضیکہ اس پوری غزل میں انہوں نے خاک ڈالنے کے نئے نئے طریقے ایجاد کئے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا کہ کس کس چیز پر کیسے کیسے خاک ڈالی جا سکتی ہے اور کیسے خاک کو بآسانی اپنے بدن سے کسی اور کے بدن پر شفٹ کیا جا سکتا ہے۔ خیر تو خاک ڈالئے اس خاک پر کیونکہ مزید اس پر رہے تو خود خاک ہو جائیں گے اور کسی کو خبر بھی خاک نہ ہوگی:
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
جی جناب پھر سے وہیں آجائیے جہاں سے چلے تھے یعنی چائے پر۔ چائے کے فوائد پر بات ہو رہی تھی کچھ نکات پر بات ہو چکی تھی، کچھ رہ گئے جن میں پارکنسن کے خطرہ سے حفاظت ، دل کے امراض سے حفاظت اور ڈپریشن سے حفاظت وغیرہ ہیں لیکن سب سے اہم تو مزاج کی خوشگواری والا پہلو ہے۔ کیونکہ ہم نے بارہا اپنی گنہگار آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اکثر لوگ چائے پر ہی لڑ رہے ہوتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ ان کی چائے میں کچھ ایسی ملاوٹ کر دی جاتی ہوگی (ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں)۔
کیونکہ چائے بیچاری تو موڈ کی خوشگواری کی ضامن ہے۔ میرا تو دل کرتا ہے کہ چائے پر ایک کتاب لکھ ڈالوں۔۔ سوچیے تو اس میں اتنی خوبیاں ہونے کے باوجود آخر کیا وجہ ہے کہ ہمارے ادبا و شعرا بس خم و پیمانہ و جام و ساقی میں ہی الجھے رہے۔ کبھی اس بیچاری کی طرف توجہ نہ کی۔ بھلا ہو ابولکلام آزاد کا، کہ انہوں نے غبار خاطر میں اپنے دل کا غبار نکالتے ہوئے اس بیچاری کی طرف خاطر خواہ توجہ کی۔ اس کے علاوہ کچھ اور گنے چنے لوگوں نے تھوڑا بہت نوازا۔ مجھے ایک شوقین شاعر یاد آ گیا جس نے کیا خوب کہا ہے:
لمس کی آنچ پہ جذبوں نے ابالی چائے |
عشق پیتا ہے کڑک چاہتوں والی چائے |
کیتلی ہجر کی تھی،غم کی بنالی چائے |
وصل کی پی نہ سکے ایک پیالی چائے |
میرے دالان کا منظر کبھی دیکھو آکر |
درد میں ڈوبی ہوئی شام ،سوالی چائے |
یہ پہیلی کوئی بوجھے تو کہ اس نے کیونکر |
اپنے کپ سے میرے کپ میں بھلا ڈالی چائے |
میں یہی سوچ رہا تھا کہ اجازت چاہوں |
اس نے پھر ملازم سے منگالی چائے |
اس سے ملتا ہے محبت کے ملنگوں کو سکوں |
دل کے دربار پہ چلتی ہے دھمالی چائے |
رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں |
اپنے ہاتھوں سے پلا خیر سگالی چائے |
عشق بھی رنگ بدل لیتا ہے جان جاناں |
ٹھنڈی ہوجائے تو پڑ جاتی ہے کالی چائے |
میری بھی چائے ٹھنڈی پڑ چکی ہے (ہم اتنی گرم جوشی سے ملے تھے۔۔ ہماری چائے ٹھنڈی ہو گئی تھی)۔ حالانکہ "رنجشیں بھول کے بیٹھیں کہیں مل کر دونوں" سے ایک دوسرا شعر یاد آ گیا اور جب تک سنا نہ لوں وہ ذہن میں کلبلاتا رہے گا:
چائے پیتے ہیں کہیں بیٹھ کے دونوں بھائی
جاچکی ہے نا؟؟ تو بس چھوڑ! چل آ! جانے دے
(علی زریون)
اس شعر میں چھوڑ کے جانے والی بات پر شاعر صاحب کو اندر سے جو خوشی اور طمانیت کا احساس ہوا ہے اس کو اندر ہی ضبط کر کے مکاری کا وہ نمونہ پیش کیا گیا ہے جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ شاید چائے بھی شرما جائے۔۔
خیر مذاق برطرف ۔۔ سنجیدگی سے دیکھیں تو چائے کے بڑے سنجیدہ پہلو بھی سامنے آتے ہیں جن کو شاعری کا جامہ بھی دیا گیا ہے یا دوسرے لفظوں میں کہ چائے کے حوالہ سے کچھ بہترین اشعار بھی ہیں:
چائے کی میز پر گئی شاموں کا ذکر تھا |
مجھ میں بھی ایک تعلق دیرینہ جی اٹھا |
صبح کی چائے میں ہوتی ہے وہ تاثیر غضب |
جو گئی رات کے چہرے سے تھکن نوچتی ہے |
ذراسی چائے گری اور داغ دا غ ورق |
یہ زندگی ہے کہ اخبار کا تراشا ہے |
تجھ میں کس بل ہے تو دنیا کو بہا کر لے جا |
چائے کی پیالی میں طوفان اٹھاتا کیوں ہے |
چائے کے ایک کپ کا یہی ہے معاوضہ |
یاروں کو عہد رفتہ کے قصے سنائیے |
اس آخری شعر سے مجھے اسرار جامعی "شاعر اعظم" کے حوالے سے یاد آگئے:
خبط مجھ کو شاعری کا جب ہوا |
دس منٹ میں ساٹھ غزلیں کہہ گیا |
سب سے رو رو کر کہا سن لو غزل |
تاکہ میں ہوجاؤں پھر سے نارمل |
تو پریشاں ہو کے ہوٹل میں گیا |
رحم اپنوں کو نہ آیا جب ذرا |
تاکہ مل جائے اک ایسا آدمی |
چائے پی کر جو سنے غزلیں مری |
جا کے بیٹھا سات گھنٹے جب وہاں |
اک معزز شخص آئے ناگہاں |
دیکھتے ہی ہوگیا دل باغ باغ |
اب تو ہوگا پیٹ ہلکا اور دماغ |
بعد از آداب اور تسلیم کے |
میں نے ان سے کہا تعظیم سے |
آئیے تکلیف اتنی کیجیے |
چائے میرے ساتھ ہی پی لیجیے |
آ کے بیٹھے ساتھ جب کی التجا |
آپ کا جو حکم ہو منگا ؤں گا |
مسکرا کر پھرتو بولے آنجناب |
مرغ یخنی قورمہ نرگس کباب |
شیر مال و شاہی ٹکڑا فیرنی |
اور اگرمل جائے تو چورن کوئی |
توس مکھن دودھ کافی رائتا |
الغرض جو کچھ کہا منگوالیا |
ناک تک جب کھا چکے میں نے کہا |
ہو تعارف اب ہمارا آپ کا |
نام ہے اسرار میرا محترم |
ساری دنیا جانتی ہے بیش و کم |
شاعر اعظم ہوں میں عزت مآب |
وہ یہ بولے میں تو بہرا ہوں جناب |
دیکھیے جناب اس سے پہلے کہ بات پھر کوئی دوسرا رخ موڑ لے میں اپنا چائے نامہ ختم کرتی ہوں۔
بہت معذرت کہ اس بیان میں ہم بار باربہک بہک گئے اور آپ کو اتنی طول طویل بے تکی باتیں برداشت کرنی پڑیں لیکن خیر ہو کہ آپ نے اس کو یکسوئی اور خوشدلی کے ساتھ اختتام تک پہنچایا۔۔۔۔۔
اب جو مرے کلام کو مہمل بتائے گا اللہ اس کو عرش پہ مرغا بنائے گا۔
مہر فاطمہ۔ ریسرچ اسکالر (پی ایچ ڈی)، دہلی یونیورسٹی، نئی دہلی۔
ای-میل: meharekta004[@]gmail.com
بہت خوب
جواب دیںحذف کریں