گذشتہ قسط کا خلاصہ :
فیروز کی ٹیم تین طرف سے گھر چکی تھی۔۔ بائیں طرف شیفا تھے، پشت کی سمت مکڑ آدمی اور دائیں طرف سے کاگی کی زندہ مگر آتشیں چٹانیں آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی بالکل صاف نظر آ رہی تھی! سوامی محبت اور وفاداری کے جذبے سے سرشار ہوکر ٹیم پر نثار ہونے کے لئے بڑی بے خوفی سے موت کے مونہہ میں کود پڑا مگر چند ہی لمحوں میں پتھر کا بت بن کر کھڑا رہ گیا۔ جبکہ دوسری طرف امجد کراما کی پشت پر سوار ہو چکا تھا۔ ۔۔۔۔
اب آپ آگے پڑھیے ۔۔۔
اچانک مجھے کراما کے بدن سے دھواں سا اٹھتا ہوا دکھائی دیا۔ خنجر نے اپنا کام کر دیا تھا اور کراما تھرتھرا رہا تھا۔ اس کی ٹانگیں لرز رہی تھیں ، چونچ پوری طرح کھل گئی تھی وہ ڈگمگارہاتھا ، ایک بار جیسے ہی وہ ڈگمگایا تو امجدسمیت بائیں طرف گر گیا مگر گرا اس طرح کہ کراما نے اپنی ٹانگوں میں امجد کو جکڑ لیا اور پھر اپنی چونچ سے امجد کی بوٹیاں نوچنے لگا۔ ہم لوگ کراما کو مرتے دیکھ کر اتنے خوش تھے کہ نجمہ کی طرف سے ہمارا ذہن بھٹک گیا تھا اور اس موقع کو غنیمت جان کر ہی نجمہ نے بھی تیزی سے چٹان سے چھلانگ لگادی تھی ، ہمیں ہوش تو اس وقت آیا جب وہ دوڑتی ہوئی کراما کے نزدیک پہنچ کر امجد کو اس کے چنگل سے آزاد کرانے کی جدوجہد کرنے لگی ، ہم لوگ بھی اس کی مدد کی خاطر نیچے اترنے ہی والے تھے کہ ہم نے دیکھا کہ امجد نے تھوڑی سی جدو جہد کرنے کے بعد خود کو کراما کی گرفت سے آزاد کرالی اتھا اور دونوں ہاتھوں سے اسے پکڑ کھینچنے میں نجمہ بھی اس کی مدد کر رہی تھی۔
امجد بری طرح خون میں نہایا ہوا تھا اور اس کی کمر اور رانوں سے کافی گوشت غائب تھا۔ کراما سے زور آزمائی کے بعد وہ غالباً اس قدر نیم جاں ہوگیا تھا کہ فوراً زمین پر گر پڑا۔
اب ہم نے اس کی طرف جانا ضروری سمجھا، چٹان سے اتر کر جیسے ہی نیچے آئے تو ہم نے دیکھا کہ زندہ چٹان کراما سے بہت قریب آچکی تھی۔ جیکسن نے چلا کر مجھ سے کہا کہ میں نجمہ اور امجد کو وہاں سے اٹھا کر زندہ چٹان سے دور لے جاؤں، کیوں کہ چٹان اور کراما کے آپس میں ملنے سے دھماکہ پیدا ہوگا اور شعلے کافی دور تک پھیلیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ کراما کے قریب رہنے پر امجد اور نجمہ کو کوئی نقصان پہنچ جائے ، جیکسن نے بر وقت ایک عمدہ بات سوچی تھی۔ لہذا جیک اور دوسرے چند قیدیوں کی مدد سے ہم نے امجد کو کراما کے پاس سے اٹھالیا اور نجمہ سے بھی ہمارے قریب پہنچنے کے لئے کہا۔
نجمہ جب چلنے لگی تو اس نے جلدی سے جھک کر زمین پر سے کوئی چیز اٹھالی اور پھر اسے اپنے گلے میں پہن لیا، پہلے تو میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا کہ وہ کیا چیز تھی ؟ مگر بعد میں یہ سوچ کر خاموش ہوگیا کہ لڑکیوں کو نت نئے ہار پہننے کا شوق ہوتا ہی ہے ، اس لئے وہ بھی ایسا ہی کوئی ہار ہوگا۔ کراما کے پنجوں کے نشانات نجمہ کے بدن پر بھی موجود تھے ، لیکن اتنے زیادہ نہیں تھے جتنے امجد کے جسم پر تھے۔ امجد کا خون اتنا نکل چکا تھا کہ اب وہ بے ہوش ہوا ہی چاہتا تھا۔
جان جلدی سے امجد کے زخموں کو دیکھنے لگا اور زرینہ نے نجمہ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ پھر وہ دونوں بھی امجد کی تیمار داری کرنے لگیں۔ اختر البتہ اسی طرح تمام باتوں سے بے پروا ایک ہی سمت میں گھورتا رہا۔ ادھر ہم اس دھماکہ کے منتتظر رہے جو زندہ چٹان اور کراما کے ملنے سے پیدا ہونا چاہئے تھا ۔ مگر کافی دیر انتظار کرنے کے بعد بھی ایسا کوئی دھماکہ سنائی نہیں دیا۔ میں نے گھبرا کر اس طرف دیکھا جدھر کراما مرا پڑا تھا۔ مگر پھر یہ دیکھ کر میرا رواں رواں لرز گیا کہ چٹان کراما کی طرف نہیں بلکہ اب ہماری ہی طرف بڑھ رہی ہے۔
یہ نئی مصیبت تھی۔ اب میں جان چکا تھا کہ چٹان کے قریب آنے کے بعد ہمارا کیا حشر ہوگا؟ سوامی کی طرح ہم سب بھی پتھر کے ہو جائیں گے۔ مگر پھر بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی تھی کہ کراما کو چھوڑ کر وہ چٹان ہماری طرف کیوں بڑھنے لگی تھی؟ بات معمولی سی تھی، لیکن میرا دماغ اس وقت اتنا خراب تھا کہ فوراً ہی کچھ نہ سوچ سکا ، کراما اب مر چکا تھا۔ لہذا وہ کاگی بھی مر چکی تھی جو اس کے جسم میں موجود تھی۔۔ چٹانیں زندہ مکڑ آدمیوں کا ہی پیچھا کرتی تھیں۔ مردہ کا نہیں۔ میری طرح شاید جان نے بھی یہ بات سوچ لی تھی۔ لہذا اس نے بلند آواز میں کہا۔
"سب لوگ ان چٹانوں پر پہنچنے کی کوشش کریں جہاں ہم کچھ دیر پہلے کھڑے تھے۔"
جان کا کہنا مان کر جیسے ہی ہم نے پلٹ کر پیچھے جانا چاہا، ہمارے قدم وہیں جمے کے جمے رہ گئے۔ جو کچھ بھی ہم نے دیکھا۔اس سے ہمارے ہوش اڑ گئے۔ تین زندہ چٹانیں ہماری پشت کی طرف سے بھی اب آہستہ آہستہ ہماری طرف بڑھ رہی تھیں اور ھپر اس حقیقت نے تو ہماری رہی سہی ہمت بھی توڑ دی کہ دس بارہ زندہ چٹانوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر لیا ہے اور ہم ان کے گھیرے کو توڑکر کسی بھی طرح نہیں بھاگ سکتے۔
ناامیدی اور بے اندازہ رنج کے باعث جیک زمین پر بیٹھ گیا اور غصے کی حالت میں زمین پر مکے مارنے لگا۔ آتشیں چٹانوں سے بچنے کا کوئی ذریعہ نظر نہ آتا تھا۔ لہذا ہم نے زرینہ اختر، امجداور نجمہ کو بیچ میں لے لیا اور پھر چٹانوں کی طرف مونہہ کر کے ایک دائرے کی شکل میں کھڑے ہوگئے۔ چٹانیں ہم سے قریب ہوتی جارہی تھیں۔ قریب اور قریب۔۔ بہت ہی قریب!
میں سمجھ چکا تھا کہ بس اب زندگی کا چراغ بجھنے ہی والا ہے۔۔ صرف چند لمحے اور ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں اور پھراس کے بعد موت کے بھیانک نیچے ہوں گے اور ہمارے گلے۔ میں نے بے بسی کے عالم میں ایک آخری نظر اپنی بیوی اور بچوں پر ڈالی اور پھر آنکھیں بند کرکے آنے والی موت کے انتظار میں کھڑا ہوگیا۔
اچانک مجھے دھب سے ایک آواز سنائی دی ، اور میں نے دیکھا کہ میرے برابر کھڑے ہوئے دو قیدی اس صدمے کی تاب نہ لاکے بے ہوش ہوکر نیچے گر پڑے۔ ان کے گرتے ہی نجمہ نے گھبرا کر چٹانوں کی طرف دیکھا جو اب اس حلقے کے قریب پہنچ چکی تھیں۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ یکایک اس سمت والی زندہ چٹان چلتے چلتے رک گئی۔ میں نے دیکھا کہ چٹان میں تھرتھری سی پیدا ہوگئی ، اس میں سے نکلنے والی آتشیں لہریں فوراً ہی دھویں میں تبدیل ہونے لگیں۔ چٹان کا سرخ رنگ بالکل سفید راکھ جیسا ہوگیا، شوں سے ایک آواز آئی اور وہ چٹان اسی مقام پر جم کر رہ گئی!
جان نے شاید کوئی بات نوٹ کی تھی، لہذا وہ نجمہ سے بولا۔ "نجمہ بیٹی! غالباً تمہارے جسم میں کوئی خاص چیز ہے جس کے باعث یہ چٹان بے جان ہوگئی ہے ۔ لہذا تم فوراً اس حلقے کے باہر آ جاؤ اور باری باری ہر چٹان کی طرف مونہہ کر کے کھڑی ہوتی جاؤ۔"
نجمہ میرے ساتھ پچھلے ایک سفر میں نہایت بھیانک اور لرزہ خیز واقعات سے دوچار ہو چکی تھی۔ لہذا اب وہ ڈرپوک نجمہ نہیں رہی تھی۔ جان کا کہنا مان کر وہ جلدی سے دائرے کے باہر آگئی اور ہر آگے بڑھنے والی چٹان کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہوگئی۔ مجھے یہ دیکھ کر بے حد تعجب ہوا کہ اب سب ہی چٹانوں میں تھرتھری پیدا ہونے لگی اور وہ گھبرا کر پیچھے ہٹنے لگیں۔ جان نے نجمہ کو اور ہدایات دیں، اس نے کہا کہ نجمہ ہر چٹان کے قریب پہنچنے کی کوشش کرے اور ڈرے بالکل نہیں۔
شاید خدا کو ہمیں زندہ رکھنا مقصود تھا، جو نجمہ میں اتنی ہمت اور بے خوفی پیدا ہوگئی ، کیوں کہ اس نے جان کی ہر بات مانی اور نتیجے کے طور پر بارہ کی بارہ چٹانیں کچھ ہی دیر میں بالکل بے جان ہوکر رہ گئیں۔ احتیاطاً ہم نے چٹانوں کے پاس جاکر اور انہیں چھوکر بھی دیکھ لیا، مگر اب وہ بالکل ہی مردہ تھیں۔ ہم حیران تھے کہ آخر یہ معجزہ ہوا کیسے؟ اور پھر جلد ہی میری حیرت دور ہوگئی۔ نجمہ نے بتایا کہ یہ سب کچھ آفاقی ہار کا کرشمہ ہے۔ وہی آفاقی ہار جو سیارہ زہرہ سے وہاں کے سائنس داں نے ہمارے دوسرے سفر کے دوران بھجوایا تھا اور جس کے دانوں میں زبردست قوت پوشیدہ تھی۔ نجمہ نے بتایا کہ جب وہ مکڑ آدمیوں کی قید میں تھی تب اس نے یہ بار اپنے کپڑے میں چھپاکر رکھ لیا تھا۔ شاید وہ اب بھی ظاہر نہ ہوتا اگر نجمہ امجد کو بچانے کی خاطر مرتے ہوئے کراما کے نزدیک نہ پہنچتی۔ وہیں پر یہ ہار اس کے کپڑوں میں سے نکل کر گر پڑا تھا اور جلدی میں اس نے یہی بہتر سمجھا تھا کہ دوبارہ کپڑوں میں رکھنے کی بجائے اسے گلے میں پہن لے۔
نجمہ کو یہ بات کس طرح سوجھی۔۔ میں تو اب بھی اسے خدا کی طرف سے بھیجی گئی مدد ہی سمجھتا ہوں!
چٹانیں ختم ہو چکی تھیں ،شیفا بھاگ چکے تھے اور مکڑ آدمیوں کی قوم تباہ ہو چکی تھی۔ اس بھیانک سیارے پر ہم اب بالکل اکیلے تھے۔ بہت دیر تک ہم آپس میں صلاح و مشورہ کرتے رہے۔ آخر یہ طے پایاکہ ہمیں اب سیارے کو چھوڑ دینا چاہئے اور پھر جلد سے جلد اپنی اصل منزل یعنی زہرہ کی طرف روانہ ہو جانا چاہئے۔ لیکن ہمارا ایک بہترین آدمی اور لاجواب سائنس داں والٹر کسی نامعلوم جگہ پر شیفاؤں کو تلاش کرنے گیا تھا۔ ہمیں اس کا بھی انتظار تھا۔ والٹر کا جب ذکر چلا تو جیکسن نے کہا:
"میرے خیال میں اب وہ نہیں آئیں گے اور یقیناً وہ شیفاؤں کی غذا بن گئے ہوں گے۔"
"مگر انہیں ڈھونڈنا ہمارا فرض ہے ، آخر وہ ہمارے ساتھی تھے۔" میں نے جلدی سے کہا۔
"لیکن اسے ڈھونڈے گا کون؟" جان نے کہا۔ "اور پھر اس کی کیا ضمانت ہے کہ جو اسے ڈھونڈنے جائے وہ خود بھی صحیح سلامت واپس آجائے گا؟"
"کچھ بھی ہو۔ ہمیں یہ خطرہ تو مول لینا ہی پڑے گا۔" میں نے آہستہ سے جواب دیا۔
میری بات سب نے مان لی۔ اور پھر جیکسن کو اس کام پر مامور کردیا کہ وہ اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ شیفاؤں کے علاقے میں جائے اور والٹر کو تلاش کرے۔ اسے کافی سے زیادہ اسلحہ بھی دے دیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ خطرے کی بو سونگھتے ہی وہ تیزی سے واپس آجائے اسے بتادیا گیا کہ ہمارا راکٹ کس سمت میں کھڑا ہوا ہے۔ جیکسن نے سب باتیں غور سے سننے کے بعد ہم سب سے رخصتی ہاتھ ملایا اور پھر اس طرف روانہ ہوگیا جدھر والٹر گیا تھا۔
امجد کے جسم پر پٹیاں باندھ دی گئی تھیں ، چند قیدیوں نے اسے اپنے کاندھوں پر سوار کرلیا تھا۔ اور ہم لوگ اب اپنے راکٹ کی سمت جارہے تھے۔ ادھر جانے کے لئے ہمیں اس مقام سے ضرور گزرنا پڑتا جہاں سوامی پتھر کا بت بنا کھڑا تھا۔ ہم پتھر کے سوامی پر اپنے آنسوؤں کے ہار چڑھانا چاہتے تھے۔۔ اس وفادار سوامی پر جو ہمیشہ اور ہر وقت ہم پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتا تھا اور آخر نثار ہوہی گیا۔ سوامی کا خیال کرتے ہی جیسے میں نے اس کی پتھر کی مورتی کو دیکھا تو خوف اور مسرت کے ملے جلے جذبات کے باعث میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں دوڑتا ہوا اس طرف بڑھا جدھر سے سوامی ہماری طرف آرہا تھا۔
جی ہاں سوامی زندہ تھا! اور مجھے یقین ہے کہ اس کی زندگی آفاقی ہار کی بدولت ہی اسے واپس ملی تھی۔ میں نے جلدی سے بڑھ کر اسے اپنے سینے سے لگا لیا اور پھر سب نے باری باری اسے چھو کر دیکھا۔ وہ اب گوشت پوست کا سوامی تھا۔ جب ہم نے اس سے دریافت کیا کہ اس کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا تھا تو وہ الٹا ہمیں سے پوچھنے لگا کہ اسے کیا ہوا تھا؟ اس نے بتایا" میں کہہ نہیں سکتا کہ کیا بات ہوئی تھی بس مجھے یوں لگا تھا گویا اچانک میں خوابوں کی وادی میں پہنچ گیا ہوں۔ مجھے ہر طرف دھند ہی دھند دکھائی دینے لگی تھی اور پھر میں سو گیاتھا۔ جب میں جاگا تو میں نے دیکھا کہ آپ سب میری ہی طرف آرہے ہیں۔ لہذا میں بھی آپ کی جانب بڑھنے لگا۔"
جان کے خیال کے مطابق آتشیں چٹانوں کے مرتے ہی اس کا پتھر کا جسم دوبارہ گوشت پوست میں تبدیل ہونے لگا تھا۔ سوچنے کی سمجھنے کی قوت اس میں پھر سے پیدا ہوگئی تھی اور وہ زندہ ہوگیا تھا۔ راستے بھر ہم والٹر اور جیکسن کے بارے میں ہی باتیں کرتے ہوئے راکٹ تک آئے۔ ہمارا راکٹ اسی طرح کھڑا ہوا تھا اور زندہ چٹانوں نے یا کسی اور چیز نے اسے ذرا سا بھی نقصان نہیں پہنچایا تھا۔ راکٹ کے اندر داخل ہونے کے بعد جان نے تمام آلات کا دوبارہ معائنہ کیا۔ ہر پرزہ اپنی جگہ درست تھا اور ایک خاص بٹن دباتے ہی راکٹ کسی بھی وقت اڑنے کے لئے تیار تھا۔
اختر نے راکٹ میں آنے کے بعد ہمیں ذرا توجہ سے دیکھنا شروع کردیا تھا۔ میں سمجھ چکا تھا کہ چونکہ کراما مرچکا ہے ، لہذا اب یہ کتاک نامی شے بالکل بے کار ہے۔ کتاک تو دراصل کراما کے سر پر بنے ہوئے تاج کی لہروں کا غلام تھا۔ وہ تاج جب کراما کے ختم ہونے سے بے کار ہوگیا تھا تو کتاک کو بھی اصولاً ناکارہ ہوجانا چاہئے تھا۔ جیک نے اختر کی حالت دیکھ کر اس کی نگرانی کا کام اپنے ذمہ لے لیا۔ پھر ہم سب اپنے اپنے کیبنوں میں بیٹھ کر کھڑکیوں کے اندر سے اس مقام کی طرف دیکھنے لگے جدھر سے جیکسن اور والٹر کو آنا تھا۔ مگر لگاتار دو دن تک انتظار کرنے کے باوجود ان میں سے کوئی ادھر آتا ہوا دکھائی نہ دیا۔
ہم لوگ ناامید ہوگئے تھے اور اب یہ مشورہ کرنے لگے تھے کہ کیا ہمیں ان لوگوں کے بغیر ہی راکٹ کو اڑا دینا چاہئے؟ زیادہ لوگ اسی بات کے حق میں تھے اور جان کو مجبوراً ان کا کہنا مان کر راکٹ کو اڑانے والا بٹن دبانے کے لئے اپنا ہاتھ اس طرح بڑھانا ہی پرا۔ بٹن دبنے ہی والا تھا کہ سوامی نے چیخ کر ہمیں بتایا کہ وہ لوگ آرہے ہیں۔ ہم نے جلدی سے کھڑکیوں میں سے باہر جھانکا۔ کافی دور کے فاصلے پر ہمیں تین انسان راکٹ کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آئے۔ یقینا وہ جیکسن اور اس کے ساتھی تھے لیکن وہ اتنی بے تابی اور عجلت کے ساتھ کیوں دوڑ رہے تھے؟
جلد ہی یہ بات بھی ظاہر ہوگئی۔ ان تینوں کا تعاقب دراصل کچھ عجیب قسم کے ہیبت ناک جانور کررہے تھے۔ یہ جانور ٹانگوں اور دھڑ سے توبالکل ہرن معلوم ہوتے تھے مگر ان کی گردانیں اونٹ جیسی اور اتنی ہی لمبی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان گردنوں پر شیر جیسا سر لگا ہوا تھا۔ میںنے تو لفظی تصویر کھینچ دی ہے۔ اب آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ وہ کتنے بھیانک اور ہیبت ناک دکھائی دیتے ہوں گے ؟ ہرن کے مقابلے میں ان کی رفتار بہت ہلکی تھی، اور وہ بار بار اپنی لمبی گردنوں کو آگے بڑھا کر بد نصیب جیکسن اور اس کے ساتھیوں کو پکڑنے کی کوشش کررہے تھے۔
جیکسن اب راکٹ کے کافی قریب آچکا تھا۔ اس کے کپڑے تار تار ہوچکے تھے اور اس کے جسم پر خراشیں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔ شیر جیسے مونہہ نے یقینا اسے بھنبھوڑنے کی کوشش کی ہوگی اور یہ خراشیں تب ہی پیدا ہوئی ہوں گی ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے جیکسن کے ایک ساتھی نے ٹھوکر کھائی ، اور مونہہ کے بل زمین پر گر پڑا۔ وہ درندے ، جو اب تعداد میں آٹھ دکھائی دے رہے تھے فوراًا س پر ٹوٹ پڑے اور ایک لمحہ ہی میں انہوں نے اس کی تکا بوٹی کردی۔ جیکسن اب پوری قوت سے دوڑ رہا تھا اور جیکسن کو بھاگتے دیکھ کر درندوں نے دوبارہ اس کا تعاقب کرنا شروع کردیا تھا۔ جیکسن اب قریب آچکا تھا اور سوامی نے جان کے حکم کے مطابق راکٹ کی سیڑھی نیچے لٹکا دی تھی۔ اس کے ساتھ ہی میں اور جیک پستول لئے ہوئے راکٹ کے دروازے پر کھڑے ہوگئے تھے۔
جیکسن اور اس کے ایک ساتھی نے سیڑھی پر جلدی جلدی چڑھنا شروع کردیا تھا۔ اتنی دیر میں جیک ہوائی فائر کرتا رہا۔ وہ بھیانک دریندے فائر کی آواز سن کر ذرا ٹھٹھک گئے۔ میں نے ایک گولی ماری بھی، مگر گولی اس پر لگی اور اچٹ کر کسی اور طرف چلی گئی۔ دہشت کے باعث میرا ہاتھ لرزنے لگا اور نشانہ خطا ہونے لگا۔ میں نے جلدی سے جیکسن کو پکڑ کر اندر کھینچ لیا۔ مگر اتنی ہی دیر میں ایک درندے نے جھنجھلا کر نیچے لٹکی ہوئی سیڑھی پر حملہ کردیا۔ جیکسن کا دوسرا ساتھی ابھی سیڑھی پر ہی تھا کہ درندے سے اسے دبوچ لیا۔
اچانک ایک زبردست شور سن کر میں چونک اٹھا۔ لیکن یہ شور دراصل ایک راکٹ کا تھا۔ جان نے غالباً پرواز والا بٹن دبادیا تھا اور ہمارا راکٹ اب آہستہ آہستہ سبز سیارے کی زمین سے بلند ہورہا تھا۔
میں کھرکی سے ابھی تک نیچے جھانک رہا تھا۔۔ اور پھر میں نے جو کچھ دیکھا دراصل بہادر سے بہادر انسان بھی اسے دیکھ کر غش کھائے بغیر نہیں رہ سکتا۔
میں نے دیکھا کہ وہ خوفناک درندے فولاد کی سیڑھی کو اس طرح چبارہے ہین جس طرح کوئی اونٹ ببول کے کانٹوں کو چباڈالتا ہے۔
سبز سیارے سے پرواز کئے ہوئے ہمیں کئی دن ہوچکے تھے اور اب ہمارا خاص راکٹ زہرہ کی طرف بڑی تیز رفتاری سے اڑاجارہا تھا۔ پچھلے دنوں جو خوف ناک واقعات پیش آچکے تھے۔ انہو ں نے ہمیں اتنا سجا دیا تھا کہ ہمیں چپ سی لگ گئی تھی۔ ہم ایک دوسرے کو بڑی خاموشی اور افسوس کے ساتھ دیکھ رہے تھے ۔ ہمارے لباس اب بالکل تار تارتھے اور جسم سوکھ کر کانٹا بن گئے تھے۔ نجمہ زرینہ کے پاس بیٹھی ہوئی تھی اور اختر کو محبت بھری نظروں سے لگاتار دیکھے جارہی تھی۔ لیکن اختر نے ایک بار بھی اس کی طرف مڑ کر نہیں دیکھا تھا بلکہ اس نے اپنی پیشانی پر بندھے ہوئے کتاک کو بھی کھول کو پھینک دیا تھا۔ ہم میں سے کسی نے بھی اس پر احتجاج نہیں کیا تھا۔ ہم اچھی طرح جانتے تھے کہ سبز سیارے سے اڑنے کے بعد اب کتاک میں کوئی قوت باقی نہیں رہ سکتی! اختر اب پھر سے چاق و چوبند نظر آنے لگا تھا اور ہمیں پھر اسی اندازسے دیکھنے لگ اتھا جیسے کہ ہم اس کے غلام ہوں اور وہ ہمارا آقا ، جو ں جوں زہرہ سیارہ قریب آرہا تھا، اختر کی بے نیازی اور لاپرواہی بڑھتی جارہی تھی۔ وہ بڑے غرور کے ساتھ ہم سے بات کرتا تھا۔اور اس غرور میں حقارت زیادہ ہوتی تھی۔ ہم نے اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا تھا اور آپس میں یہ مشورہ کرنے لگے کہ اب آگے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
کراما کے قیدیوں میں سے اب صرف دو باقی رہ گئے تھے۔ جیکسن اور اس کا ساتھی۔ جیکسن کے بقیہ ساتھی ، جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ایک ایک کرکے ختم ہوچکے تھے۔ مجھے ان لوگوں سے بڑی ہمدردی تھی لیکن اب ہمدردی جتاکر میں کر بھی کیا سکتا تھا؟ ہماری خود کی حالت ایسی تھی کہ جو بھی ہمیں دیکھتا ہم سے ہمدردی ضرور جتاتا ، بہر حال!۔۔۔ میں غیر ضروری باتوں میں آپ کو الجھانا نہیں چاہتا اور اب یہ بتاتا ہوں کہ آگے ہمارے ساتھ کیا بھیانک واقعات پیش آئے؟
سیارہ زہرہ سورج کے کافی قریب ہے اور سورج کے گرد وہ تقریباً ایک سو پچھتر دنوں میں ایک چکر پورا کرتا ہے ، جیسے کہ ہماری زمین سورج کے گرد تین سو پینسٹھ دنوں میں ایک چکر پورا کرتی ہے زمین سے دیکھنے پر سیارہ زہرہ ہمیں بادلوںسے ڈھکا نظر آتا ہے ہمارے سائنس داں آج تک یہ نہیں دیکھ سکے کہ اس کا رنگ کیسا ہے اور بادلوں سے پرے اس کی زمین کیسی ہے ؟ اسی لئے انگریزی میں اس سیارے کو Shyladgیعنی شرمیلی دلہن کہاجاتا ہے جو اپنا گھونگھٹ شرم کے مارے کبھی ہٹاتی ہی نہیں۔ زہرہ پر چھائے ہوئے یہ بادل اب ہمیں صاف نظر آنے لگے تھے۔ ہمارے راکٹ کے وژن اسکرین پر زہرہ ایک گیند کی طرح بڑا ہوتا جارہاتھا۔ اور اب مجھ پراس حقیقت کا انکشاف ہوا تھا کہ جنہیں ہم بادل سمجھتے ہیں دراصل وہ گیسیں ہیں جو بادل کی شکل میں زہرہ کے سب طرف لگاتار چکر لگارہی ہیں۔
ان گیسوں کے بادلوں میں سے زہرہ کی زمین دکھائی دینے لگی تھی۔ بالکل ہماری زمین کی طرح، بھوری، بادامی ، اور سبز رنگ کی زمین! کہیں کہیں ہمیں بہت اونچے پہاڑوں کی چوٹیاں بھی دکھائی دے رہی تھیں۔ جان نے ان پہاڑوں کو دیکھ کر مجھ سے کہا: "فیروز یہ کتنے عجیب پہاڑ ہیں، ایک دم سیدھے اور مخروطی!"
اس سے پہلے کہ میں جان کی بات کی تائید کرتا، اختر ، جیک کو ایک طرف دھکیلتا ہوا آگے بڑھا اور جان سے تحکمانہ لہجے میں کہنے لگا۔
"اب تم کنٹرول پر سے ہٹ جاؤ بڈھے۔۔ تم اس راکٹ کو میرے آقاؤں کی زمین پر آسانی سے نہیں اتار سکتے بلکہ یہ کام صرف میں۔۔"۔۔ اس نے اپنے سینے پر ہاتھ مارا"یعنی ژاما کا بیٹا ہی انجام دے سکتا ہے۔"
جان جواب میں کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ اچانک اسپیکر میں سے ایک سراٹا بلند ہوا جو بعد میں آواز بن گیا۔ کسی نے نہایت خوفناک لیکن بھاری لہجے میں میں کہنا شروع کیا: "جرمی ٹھیک کہتا ہے مسٹر جان، تم ہمارے قیدی ہو اور کوئی قیدی جرمی کا آقا نہیں بن سکتا۔ کنٹرول جرمی کے سپرد کردو۔ وہ تمہیں آہستگی سے ہماری دنیا میں اتار دے گا۔ورنہ تمہارا راکٹ زمین سے ٹکر اکر پاش پاش بھی ہوسکتا ہے۔"
اب یہ تو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ ہم نے کیا کیا؟ ظاہر ہے کہ آواز کا کہنا مان کر ہم نے خود کو اختر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ اختر کی آنکھوں میں ایک سفاکانہ چمک تھی اور وہ بار بار ہم پر ایک طنزیہ نظر ڈالتا تھا اور پھر زہریلی مسکراہٹ اس کے لبوں پر پھیل جاتی تھی۔ اس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم اپنے ہتھیار اس کے حوالے کردیں۔ ساتھ ہی نجمہ کے گلے کا وہ ہار بھی جو در حقیقت سیارہ زہرہ ہی سے ہماری زمین پر بھیجا گیا تھا۔ نجمہ نے ہار اتارنے میں پہلے پس و پیش کیا مگر جان کے کہنے پر اس نے مجبوراً وہ اتار کر اختر کو دے دیا۔ زرینہ ڈبڈبائی نظروں سے اختر کی یہ کارروائی دیکھتی رہی۔ وہ ہماری تما مچیزیں راکٹ میں کنٹرول روم کے پاس ہی ایک چھوٹے سے خانے میں رکھ رہا تھا۔
اچانک راکٹ کی کھڑکیوں میں سے گہرے زرد رنگ کی روشنی اندر آنے لگی۔ درحقیقت یہ سورج کی دھوپ تھی جو مختلف قسم کی گیسوں کے بادلوں میں سے گزرنے کے بعد یہ رنگ اختیار کرگئی تھی۔ اور اختر مختلف بٹن اتنی پھرتی سے دبارہا تھا کہ خود مجھے بھی حیرت ہورہی تھی۔ یوں لگتا تھا گویا اختر زمین کا رہنے والا نہیں بلکہ زہری کا ہی باسی ہو اور زہرہ کے سائنس دانوں کے بتائے ہوئے فارمولے سے تعمیر کردہ اس راکٹ کو اچھی طرح جانتا ہو!
کچھ ہی دیر بعد ہم ایک عجیب سی زمین پر کھڑے ہوئے تھے۔ یہ زمین بڑی سخت تھی۔ دور مخروطی پہاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ یہ پہاریاں اہرام مصر جیسی تھیں مگر اونچی اتنی تھیں کہ ان کی چوٹیاں بادلوں میں جاکر غائب ہوگئی تھیں۔ جس مقام پر ہمیں اتارا گیا تھا اس کے آس پاس بے حد اونچی لیکن گول عمارتیں تھیں۔ ان عمارتوں کے دروازے ہوا میں لٹکے ہوئے پلوں کے ذریعے آپس میں ملے ہوئے تھے۔ اگر کوئی ایک عمارت سے دوسری میں جانا چاہے تو اسے زمین پر قدم رکھنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ وہ ان پلوں کے ذریعے جہاں چاہے جا سکتا تھا۔ دروازے غیر معمولی طور پر لمبے تھے۔ میں اچھی طرح جانتا تھا کہ دروازے اتنے اونچے کیوں ہیں؟ آپ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ سیارہ زہرہ کے رہنے والے بڑے قد آور تھے۔ ان کے قد اتنے اونچے تھے کہ ہم لوگ ان کی ایک ہتھیلی پر آسانی سے کھڑے ہوسکتے تھے۔ اس وقت بھی وہ ہم سے کچھ ہی فاصلے پر کھڑے ہوئے تھے۔ ان کے سر آسمان کو چھورہے تھے ان کی صورتیں بڑی خوفناک تھیں۔ لباس ان کے جسم میں سرف کالی لنگوٹی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا۔ ہاتھوں میں تین انگلیاں تھیں اور شکل بڑی ڈراؤنی! سر لمبوترا تھا۔ پیشانی کے اوپر ہی دو بڑی بڑی لیکن بغیر پتلی کی سبز آنکھیں تھیں۔ ناک سرے سے ندارد تھی اور اس کی جگہ صرف چوہے جیسی تھوتھنی سی تھی۔ تھوتھنی کے نیچے مچھلی جیسا مونہہ اور چہرہ بالکل سرخ!
میں فوراً سمجھ گیا کہ یہ زہرہ کے موجود ڈکٹیٹر شاکا کی فوج کے چند اعلیٰ افسر ہوں گے اور یقینا ہمیں گرفتار کرنے آئے ہیں۔ تعداد میں وہ کل تیرہ تھے۔ ایک جو ان میں سب سے آگے کھڑا ہوا تھا اس کی لنگوٹی دوسروں کے مقابلے میں سنہری رنگ کی تھی۔ اسی سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ غالباً ان کا افسر ہے۔ وہ لوگ ہمیں بڑی حقارت سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک افسر نے اپنا ہاتھ نیچے بڑھایا اور ہمارے سامنے ہتھیلی پھیلاتے ہوئے بولاصرف ژاما کا عظیم بیٹا جرمی اس پر کھڑا ہوجائے۔ افسر کا حکم سن کر اختر فوراً ہتھیلی پر چڑھ گیا(حالانکہ وہ بڑی مشکل اور محنت کے بعد ہتھیلی کے اوپر پہنچ سکا تھا) افسر پھر فوراً اسے اٹھا کر اوپر ایک عمارت کے دروازے تک لے گیا۔ اختر جلدی سے ہتھیلی پر سے کودا اور اس عمارت کے دروازے کے اندر داخل ہوگیا۔
اس کے بعد بارہ زہروی سپاہیوں میں سے نونے ایک عجیب سی چیز ہماری طرف بڑھائی۔ میں ٹھیک ٹھیک تو بیان کرسکتا نہیں۔ بس یوں سمجھئے کہ وہ مچھلی پکڑنے کی چھڑ جیسی کوئی لمبی سی لکڑی تھی پیچھے سے موٹی اور آگے سے پتلی اس میں لچک بھی تھی۔ چھڑمیں جہاں دوڑکے ذریعہ کانٹا لگا ہوتا ہے، اس لکڑی میں وہاں طوطے کے پنجرے جیسا ایک بہت بڑا گنبد نما کمرہ لٹک رہا تھا۔ آپ اسے ایسا کمرہ سمجھ لیجئے۔ جس کے ہر طرف لوہے کی لمبی لمبی سلاخیں لگی ہوں۔ ہمیں اشارہ کیا گیا کہ ہم دروازہ کھول کر اس کمرے میں داخل ہوجائیں۔ ویسے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہم نوکے نو آدمی ایک ہی پنجرے میں سما سکتے تھے لیکن وہ شاید ہمیں الگ الگ قید کرنا چاہتے تھے۔ اس لئے انہوںنے پنجرے ہمارے سامنے رکھے تھے۔ میں نے جان کی طرف اس طرح دیکھا گویا اس کی رائے معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ اس نے بڑی بے لبی کے ساتھ اپنے کندھے جھٹکے اور کہا اب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔ ہمیں فی الحال تو ان دیوزادوں کا حکم بلا چون و چرا ماننا ہی پڑے گا۔
لٹکتے ہوئے پنجروں والی یہ لکڑکیاں اٹھا کر وہ ہیبت ناک قوم لمبے لمبے قدم اٹھاتی ہوئی ہمیں کسی نامعلوم سمت میں لے چلی۔ ہم نے پنجروں کی سلاخیں بڑی مضبوطی سے پکڑ رکھی تھیں ورنہ یقینا ان کے ہلنے سے ہمارے سر اور جسم ضرور زخمی ہوجاتے۔ دیو زادوں کے قدم چوتھائی فرلانگ کے برابر اٹھ رہے تھے۔ چونکہ ان کا قد زمین سے کوئی سو فٹ اونچا تھا۔ لہذا ہمیں یوں لگتا تھا جیسے ہم کسی اونچے سے پہاڑ کی چوٹی سے نیچے کا منظر دیکھ رہے ہوں!
زرد رنگ کے آسمان پر عجیب قسم کے پرندے اڑ رہے تھے۔ یہ پرندے بہت ہی بڑے تھے۔ ان کی شکلیں بھی خوفناک تھیں۔ لمبی لمبی ٹانگیں اور لمبی سی گردن کے بعد لمبی چونچ۔ سب سے زیادہ تعجب والی بات یہ تھی کہ ان پرندوں کے چار چار بازو تھے۔ ہماری دنیا کے ہر پرندے کے دوبازو ہوتے ہیں جنہیں پھیلاکر اور اوپر نیچے کر کے وہ اڑا کرتے ہیں۔ لیکن یہ پرندے پہلے نیچے والے بازو اوپر کرتے تھے اور پھر فوراً ہی اوپر والے بازو نیچے۔ اس لحاظ سے ان کی رفتار غیر معمولی تیز تھی۔ اور ساتھ ہی ایک زبردست شوں کی آواز بھی ان کے پروں سے پیدا ہوتی تھی۔ ہمیں یہ پرندے اس طرح دیکھتے ہوئے اڑ رہے تھے جیسے کوئی چیل گوشت کی ننھی سی بوٹی کو نیچے دیکھ کر آسمان پر منڈلانے لگتی ہے۔
دیوزاد ہمیں اٹھائے ہوئے ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں ایک بہت بڑا ڈبہ چار پہیوں پر کھڑا ہوا تھا۔ یہ ڈبہ ریل کے مال ڈھونے والے ڈبے سے بہت ملتا جلتا تھا۔ وہ تیرہ کی تیرہ اس ڈبے کے اندر بیٹھ گئے۔ اسی سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ سو سو فٹ لمبے تیرہ آدمی جس ڈبے میں بیٹھ جائیں۔ وہ ڈبہ کتنا بڑا ہوگا۔ میں نے غور سے دیکھا کہ شاید اندر کوئی مشین یا بٹن نما چابی ہی دکھائے دے۔ مگر مجھے ایسی کوئی چیز دکھائی نہیں دی۔ البتہ ان دیو زادوں کے بیٹھتے ہی وہ ڈبہ زمین پر بڑی تیزی سے دوڑنے لگا۔
راستے میں ہمیں سوائے ان گول گول آپس میں ملی ہوئی عمارتوں کے اور کوئی چیز نظر نہ آئی۔ شاید اس زمین پر درخت یا پودے نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔ جب ہی تقریباً ایک گھنٹے تک سفر کرنے کے باوجود ہمیں ہریالی دور دور تک بالکل نظر نہ آئی۔ میںنے دیکھا کہ وہ ڈبہ اب نشیب میں اتر رہا ہے اور پھر جلدہی وہ ایک بہت بڑے غار میں داخل ہوگیا۔ اس غار میں اندھیرا اتنا تھا کہ ہم آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے تھے مگر کچھ نظر نہ آتا تھا۔ اچانک پھر فوراً ہی اودی روشنی سے وہ غار روشن ہوگیا۔ میں نے دیکھا کہ وہ غار بہت بڑا ہے اور اس کے بیچوں بیچ ایک بہت ہی خوبصورت تخت بچھا ہوا ہے۔ تخت پر ایک دیو زاد اودے کپڑوں میں ملبوس ،بڑی رعونت اور اکڑ فوں کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے۔ اس تخت کے پیچھے چند دیو زاد عجیب سے ہتھیار پکڑے ہوئے کھڑے تھے۔ لباس کی جگہ ان کے جسم پر بھی ایک لنگوٹی ہی تھی۔ تخت کے بالکل پیچھے ایک اونچا دروازہ تھا جو شاید کسی اور غار کے اندر کھلتا تھا۔
غار کی فضا بالکل ویسی ہی تھی جیسے کسی بادشاہ کے دربار کی ہوتی ہے۔ ڈبہ تخت سے کافی دور تک گیا۔ اور پھر سپاہیوں نے اپنی اپنی چھڑوں میں سے پنجرے نکال کر اس دیو زاد کے سامنے رکھ دئے ، پنجروں میں ہمیں چلتے پھرتے دیکھ کر دربار میں ایک بھنبھناہت گونج اٹھی۔ غار میں موجود سپاہی ہمیں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئے تھے اور آپس میں ہلکی آواز سے باتیں کرنے لگے تھے۔
"آخر کار" تخت پر بیٹھے ہوئے آدمی نے مسکرا کر کہا۔" ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔۔ کیوں مسٹر فیروز! میں نے کیاکہا تھا ؟ تم سے اپنے عزیز لیڈر جیگا کا انتقام ضرور لیاجائے گا۔۔ دیکھ لو، اب تم میرے یعنی شاکا کے سامنے ہو اور ابھی اسی وقت سیے شاکا کا انتقام شروع ہوتا ہے۔"
جیسا کہ آپ اندازہ لگاچکے ہوں گے کہ ہم لوگ دیو کے مقابلے میں خود کو چیونٹی جیسا محسوس کررہے تھے۔ یہ لوگ دیو زاد تھے اور نہایت خوفناک اور بد صورت۔ شاکا کی صورت بالکل ویسی تھی جیسی کہ میں بمبئی میں دیوار کے اوپر دکھائی دینے والی تصویر میں دیکھ چکا تھا۔ دیکھنے میں وہ بھی ویسی ہی لمبوتری تھوتھنی اور مچھلی کے مونہ والا انسان تھا۔ میں اب اچھی طرح جانتا تھا کہ شاکا اپنی کہی ہوئی بات کو پورا ضرور کرے گا اور ہم سے انتقام ضرور لے گا۔ اس نے مجھے قہر آلود نظروں سے دیکھتے ہوئے تالی بجائی اور بولا۔
"میرا ایک انتقام تو وہ ہے جو تمہاری دنیا ہی میں لیاجاچکا ہے ، یعنی تمہارے چہیتے اور ہونہار بیٹے کا تم سے متنفر ہونا اور میرے تابع ہوجانا وہ اب جرمی ہے اور زاما کا بیٹا۔۔ اور دوسرا انتقام اب شروع ہی ہونے والا ہے۔۔"
اتنا کہہ کر اس نے اس سمت میں دیکھا جہاں سے کچھ سائے بھدی چال کے ساتھ ہماری طرف آتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ جب وہ سائے روشنی میں آئے تو خوف و دہشت کے باعث میری ایک گھٹی ہوئی چیخ نکلی۔ نجمہ اور زرینہ بھی سہم کر مجھے دیکھنے لگے۔ اور میرے بقیہ ساتھی بھی گھبرا کر ایک دم دو قدم پیچھے ہٹ گئے۔ دراصل وہ خوں خوار جکاریوں کا ایک غول تھا جو اپنی بھدی چال کے ساتھ آہستہ آہستہ ہماری طرف آرہا تھا۔ ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ یں ویسا ہی چابک تھا جو میں اب سے پہلے اپنی دنیا کے ایک سنسان اور ویران جزیرے میں دیکھ چکا تھا۔جکاری قد میں ہم سے کچھ ہی بڑے تھے۔ ان کی ایک آنکھ میں نفرت اور ظلم مجھے صاف نظر آرہا تھا اور اگلے دانتوں سے رال ٹپک رہی تھی۔ شاکا کے سامنے آکر وہ ادب سے جھکے اور پھر اس کے حکم کا انتظا رکرنے لگے۔
"وفادار جکاریوں!"شاکا نے کہا: " ان انسانوں کی کھال ادھیڑ کر رکھ دو۔"
کاش میں آپ کو بتا سکتا کہ اس وقت ہماری کیا حالت ہوئی جب جکاریوں کے ہنٹر ہمارے جسم پر پڑنے شروع ہوئے۔ انسان بہت مجبور ہوکر ہی موت کی خواہش کرتا ہے اور میری بھی اس وقت یہی آرزو تھی کہ موت آئے اور ہم سب کی مشکل آسان ہو۔ جکاری پوری قوت سے ہمارے جسموں کے پرخچے اڑارہے تھے۔مجھے اپنا نہیں مگر اپنی پیاری بیٹی نجمہ اور اس کی ماں زرینہ کی فکر تھی، حالانکہ سوامی ان دونوں کے آگے ڈھال بن کر کھڑا ہوا تھا۔ اور جکاریوں کے ہنٹر اپنے جسم پر برداشت بھی کررہا تھا۔ مگر ظالم شاکا نے جکاریوں کو فوراً ہدایت دی کہ وہ دونوں عورتوں پر بھی ہنٹر برسائیں۔
میرے خدا! میرے لئے وہ وقت قیامت سے کم نہ تھا۔ جب کہ زرینہ اور نجمہ بری طرح چلا رہی تھیں۔ امجد نے دوڑ کر اس طرف بڑھنا بھی چاہا تھا مگر ایک جکاری نے اسے پیچھے دھکیل دیا۔ جکاریوں کے جسم میں جو برقی قوت تھی اس نے اتنا زبردست جھٹکا دیا کہ امجد بے ہوش ہوکروہیں زمین پر گر پڑا۔ مگر اس کے باوجود ہنٹر اس کے جسم پر لگاتار پڑتیے رہے۔ جو حضرات میری یہ داستان پہلی بار پڑھ رہے ہیں ان کو سمجھانے کے لئے میں اتنا عرض ضرور کروں گا کہ جکاریوں کے جسم میں ایک پوشیدہ برقی قوت تھی۔ یہ قوت ہم نے اس وقت بھی محسوس کی تھی جب ہماری ان خوفناک قوم سے پہلی ملاقات ہوئی تھی مجھے معلوم تھا کہ ان کو چھونے سے ایک زبردست جھٹکا لگتا تھا۔ معلوم تو امجد کو بھی تھا مگر وہ غریب جوش میں آکر یہ حرکت کر ہی بیٹھا تھا۔
شاکا ہم سے یہ دوسرا انتقام لے رہا تھا۔ ہماری چیخیں بلند ہورہی تھیں اور وہ کم بخت مسکرا رہا تھا۔ ہمیں زیادہ ذہنی تکلیف پہنچانے کے لئے اس نے ایک اور حرکت کی۔ اس نے آہستہ سے کسی سے کچھ کہا اور پھر فوراً ہی غار کے ایک کونے میں سے ایک شخص نمودار ہوا۔۔ آہ!۔۔۔ میں کیا بتاؤں کہ مجھے کتنی تکلیف ہوئی ہے کیوں کہ آنے والا شخص اختر کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ وہ ادب سے شاکا کے سامنے آکر جھکا اور پھر ہمیں تڑپتے اور پٹتے ہوئے دیکھتا رہا۔ ہمیں بلکتے اور روتے دیکھ کر وہ خود بھی مسکرارہا تھا اور ساتھ ہی کم بخت جکاریوں کو ہدایات دیتا جاتا کہ فلاں شخص کو زیادہ زور سے پیٹا جائے اور فلاں کی کمر پر زیادہ ہنٹر برسائے جائیں اس کی ہدایات جاری رہیں مگر شاید خدا کو یہ منظور نہ تھا کہ میں اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک ظالم شخص کے روپ میں دیکھوں۔ کیوں کہ تکلیف کی تاب نہ لاکر میں بے ہوش ہوچکا تھا اور مجھے یہ احساس بھی نہیں تھا کہ میرے دوسرے ساتھیوں پر کیا عالم گزر گیا تھا۔
جب مجھے ہوش آیا اور میری آنکھیں آہستہ آہستہ کھلیں تو میں نے دیکھا کہ شیشے کے ایک بہت بڑے کمرے میں لیٹا ہوا ہوں اور میرے ساتھی خوفزدہ نظروں سے کسی نظر نہ آنے والی چیز کو دیکھ رہے ہیں۔ میں چونکہ لیٹا ہوا تھا لہذا اس چیز کو فوراً ہی نہیں دیکھ سکتا تھا۔میں نے یہ بھی دیکھا کہ جان جیک، سوامی اور امجد کے جسموں پر لا تعداد زخم ہیں۔ اور ان زخموں سے خون برس رہا ہے۔ زرینہ اور نجمہ ایک پروں والی کھال اپنے بدن کے گرد لپیٹے بیٹھی تھیں۔ ان کے جسم لاغر ہوگئے تھے اور گالوں کا گوشت اند رپچک گیا تھا۔ جیسا کہ مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ ان دونوں کے کپڑے ہنٹروں کی مار سے بالکل پھٹ گئے تھے اور وہ خود کو چھپانے کی کوشش کرنے لگیں تھیں جب زخموں کی تاب نہ لاکر وہ بے ہو ش ہوگئیں اور انہیں دوبارہ ہوش آیا تو انہوں نے سب کو ایک کمرے میں پایا۔ میں اور جان اس وقت تک بے ہوش تھے۔ زرینہ نے مجھے بتایا کہ اسے بڑی شرم آرہی تھی کیوں کہ اس کے اور نجمہ کے بدن پر کپڑے برائے نام ہی رہ گئے تھے۔ اچانک پھر ایک عجیب بات ہوئی تھی، اس کمرے میں یکایک اندھیرا ہوگیا تھا۔ کچھ دیر بعد یہ اندھیرا برقرار رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی روشنی ہوئی تھی وہ دونوں یہ دیکھ کر چونک گئیں کہ ان کے بالکل سامنے وہ پروں والی کھالیں پڑی ہوئی تھیں۔ ان کھالوں پر کسی نے ایک پرچہ بھی انگریزی زبان میں لکھ کر رکھ چھوڑا تھا۔ پرچے پر لکھا تھا: " آپ یہ کھالیں اپنے جسموں کے گرد لپیٹ لیں۔"
زرینہ نے مجھے بتایا کہ اسے یہ پرچہ پاکر بڑی حیرت ہوئی تھی۔ کیوں کہ اس اجنبی دنیا میں ہمارا دوست یا ہم درد کوئی نہ تھا۔ پھر آخر وہ کون تھا جس نے ان دو عورتوں پر رحم کیا؟ جیک نے بھی یہی کہا کہ وہ سب تقریباً تیرہ گھنٹے تک بے ہوش رہے تھے۔ ان کے ہوش میں آنے کے بعد چند جکاری کچھ زوک لوگوں کے ساتھ ان کے پاس آئے تھے اور ان کے زخموں پر انہوں نے کوئی عرق چھڑک دیا تھا۔ لہذا زخموں کی تکلیف تو بالکل ختم ہوگئی البتہ خون کہیں کہین سے لگاتار رس رہا ہے۔
میرے پوچھنے پر سوامی نے بتایا کہ جکاری اور زوک انہیں ایک بہت بڑے پنجرے میں قید کر کے اس مقام پر لے آئے تھے اور اس شیشے کے کمرے میں بند کردیا تھا۔ مجھے ابھی چند منٹ پہلے ہی ہوش آیا ہے اور اب ہم زہرہ کے لوگوں کے رحم و کرم پر ہیں۔
میں آہستہ سے اٹھا اور اس سمت میں دیکھنے لگا جدھر میرے ساتھی خوفزدہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ اف میرے خدا! میں نے دیکھا کہ ہم کسی بہت بڑے اسٹور میں ہیں اور لا تعداد زہروی لوگ ہمیں قریب آکر دیکھ رہے ہیں۔ ان کی سبز آنکھیں اور بھیانک چہرے شیشے کے کمرے سے بھی بڑے تھے۔ ان کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک تھی۔ میںنے غور سے دیکھا یہ لوگ ایک بہت بڑے ہال میں جمع تھے ، ذرا اندازہ لگائیے کہ سو سو فٹ کے لوگ جس ہال میں جمع ہوئے ہوں گے وہ ہال کتنا بڑا ہوگا ؟ کمرے کے بائیں طرف چند جکاری کھڑے تھے اور ان کے پاس ہی زہروی آدمی جس کے ہاتھ میں لکڑی کی ایک ہتھوڑی تھی۔ اس ہتھوڑی کو وہ بار بار میز پر بجاتا تھا اور اپنے بھیانک لیکن سمجھ میں نہ آنے والے لہجے میں ان لوگوں سے کچھ کہتا تھا۔ اس کی بات سن کر ہجوم میں سے کوئی اپنا ہاتھ اٹھا کر تین انگلیوں میں سے ایک یا دو انگلیاں دکھاتا تھا۔ اس کا اشارہ سمجھ کر ہتھوڑی کے میز پر بجنے کی آواز آتی تھی اور ہتھوڑی بجانے والا پھر بولنے لگتا تھا۔
اب بھی یاد کرتا ہوں وہ وقت تو یقین جانئے جھرجھری سی آجاتی ہے۔ دراصل ہم لوگ نیلام گھر میں تھے اور لوگ ہماری بولی لگارہے تھے۔ ذرا تصور میں وہ منظر لانے کی کوشش کیجئے۔ ایک میز پر چوکور پیپر وہیٹ کے اندر ہم کیڑے مکوڑوں کی طرح بند تھے اور لوگ ہماری بولی بول رہے تھے۔ چونکہ ہم ایک نئی اور نرالی دنیا کے جیتے جاگتے کھلوتھے۔ لہذا لوگوں میں زبردست جوش اور بے تابی پائی جاتی تھی۔ ہر ایک بڑھ چڑھ کر بولیاں لگارہا تھا۔ زرینہ یہ منظر دیکھ کر اتنی سہمی کہ اس نے میرے کاندھوں پر اپنے ہاتھوں کا زور دے دیا اور خوفزدہ آواز میں بولی،"فیروز اب ہمارا کیا ہوگا؟" نجمہ بھی حیران و پریشان امجد کو لگاتار دیکھے جارہی تھی۔ شاید آن کھوں ہی آنکھوں میں وہ اس سے کہہ رہی تھی کہ بس ہمارا بس اب خدا ہی حافظ ہے۔ جان، سوامی اور جیک سے کہہ رہا تھا: " پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، ہمیں ہر خطرے کا مردانہ وار مقابلہ کرنا چاہئے۔ اگر ان میں سے کسی نے ہم کو اس بولی میں چھڑا بھی لیا تو یقینا وہ ہمیں ختم کرنے کی نہیں سوچے گا کیوں کہ وہ ہمیں ایک معقول رقم کے عوض خریدے گا اور اتنی بڑی رقم کوئی کسی کو جان سے مارنے کے لئے نہیں خرچ کیاکرتا۔"
"آپ کا خیال درست ہے۔" جیکسن نے سہمی ہوئی آواز میں کہا۔"لیکن قصائی بکروں کو بلاوجہ نہیں خریدا کرتے ہیں۔"
"ایسی باتیں کیوں کرتے ہو مسٹر جیکسن۔" زرینہ کانپ گئی۔
"انکل کا خیال درست ہے۔" میں نے کمزور آواز میں کہا۔" وہ ٹھیک کہتے ہیں کہ ہمیں زیادہ رقم دے کر کوئی جان سے مارنے کے لئے نہیں خریدے گا۔ ہمیں یہی بات اپنے ذہن میں رکھنی چاہئے۔"
"لیکن۔۔۔۔۔ لیکن اگر اس نے ہمیں خرید کر الگ الگ اور دور دراز مقامات پر بھیج دیا۔۔۔تب؟" نجمہ نے گھبرا کر کہا۔
کہنے کو خیر ہم نے اس سب کی ڈھارس بندھائی تھی لیکن سچ پوچھئے تو خدشہ مجھے بھی تھا کہ یہ مخلوق ہمیں خریدنے کے بعد نہ جانے ہم سے کیا سلوک کرے اور شاید یہ بھی شاکا کے انتقام کی ایک کڑی ہو! زہرہ کے سابق ڈکٹیٹر شاگو کا ابھی تک کوئی اتہ پتہ نہ چل سکا تھا۔ نہ ہمیں کسی نے بتایا اور نہ ہی ہمیں پوچھنا یاد رہا ، کیوں کہ ہمارا سیارہ زہرہ تک آنے کا پہلا مقصد تو شاگو کو شاکا کی قید سے رہا کرانا اور پھر سے زہرہ میں جمہوریت کو بحال کرنا تھا۔ لیکن یہاں آتے ہی ہم پر ایسی بپتا پڑی کہ ہم سب کچھ بھول گئے تھے۔
ہتھوڑی کی ایک زوردار آواز کے ساتھ ہی اچانک لوگوں کا زبردست شور سنائی دیا۔ میں نے دیکھا کہ ایک دیو زاد ہمیں مسکرا کر دیکھتا ہوا آہستہ آہستہ شیشے کے کمرے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اس کے ہاتھ کی تین انگلیوں میں کپڑے کی تین لمبی دھجیاں تھیں۔ یہ دھجیاں اس نے نیلامی کرنے والے کو دے دیں۔ شاید یہ کپڑے کی دھجیاں وہاں کا سکہ تھا۔ نیلام والے نے بڑی خوشی کے ساتھ یہ دھجیاں ل کر اپنی لنگوٹی میں اڑس لیں اور آنے والے کو اشارہ کیاکہ وہ شیشے کا کمرہ لے جاسکتا ہے ، وہ دیوزاد اب آگے بڑھااور کمرے کے پاس آکر چند لمحوں تک ہم سے ہر ایک کو باری باری دیکھتا رہا۔ پھر بڑی صاف اور عمدہ انگریزی میں بولا"مبارک ہو مسٹر جان اب میں نے آپ کو خرید لیا ہے۔"
اس کی انگریزی سن کر جان کے ساتھ ساتھ مجھے بھی تعجب ہوا، کیوں کہ مجھے ایسا لگاگویا میں یہ آواز پہلے بھی سن چکا ہوںاور باربار سن چکا ہوں۔ جان حیرت زدہ نظروں سے اس دیو زاد کو دیکھ رہا تھا، آخر وہ اس سے پوچھ ہی بیٹھا۔"کون ہو تم۔۔۔ مجھے کیسے جانتے ہو؟"
اجنبی دیو زاد مسکرایا اور پھر اس نے کوئی چیز اپنی ہتھیلی میں سے نکال کر مونہہ میں رکھ لی۔ شاید وہ کوئی دوا تھی جس کے اثر سے وہ دیو زاد اچانک چھوٹا ہونے لگا۔
چھوٹا۔۔۔ چھوٹا۔۔۔ اور چھوٹا۔۔ بہت ہی چھوٹا۔۔ یہاں تک کہ وہ ہمارے قد کے برابر ہوگیا۔اس کی صورت میں بھی تبدیلی ہونے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ ہماری طرح کا ایک انسان بن گیا۔ میرے مونہہ سے حیرت اور خوف کی ایک ہلکی سی چیخ نکلی اور میں گھبرا کر دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔
میرے سامنے امریکہ کا بہترین سائنس داں والٹر اسمتھ کھڑا ہوا مسکرا رہا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں