ادب زندگی کا وسیع منظرنامہ ہوتا ہے۔ دراصل زندگی کی رمق ہی کسی بھی فن پارے کو ادب کا درجہ عطا کرتی ہے۔ اب یہ مصنف کی تحریر پر منحصر ہوتاہے کہ وہ زندگی اور اس کے مختلف حادثات کو کس درجہ تخلیقیت کے ساتھ پیش کرتا ہے۔ زندگی کی ہی طرح ادب بھی ایک وسیع و عریض و عمیق سمندر ہوتاہے۔ مطالعہ کی آسانی اور بعض واضح امتیازات کے باعث ادب میں متعدد اصناف کا تعین کیا گیا ہے۔ عام طور پر ادب کو دو بڑے خانوں نظم اور نثر میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ پھر نثر میں دو واضح خانے قائم کیے گئے ہیں ۔ افسانوی Fictional Prose اور غیر افسانوی Non Fictional Prose ۔افسانوی نثر کے تحت داستان ، ناول ، افسانہ ، ناولٹ، ڈرامہ ،افسانچہ اور غیر افسانوی نثر کے تحت خاکہ ، انشائیہ، سفرنامہ، سوانح، رپورتاژ، طنزومزاح، مضامین، خطوط ، ڈائری جیسی اصناف کو شامل کیا جاتاہے۔ صحافت ، تنقید ، تحقیق وغیرہ کو بھی اس میں رکھا جانا چاہیے ۔دراصل ہمارے یہاں صنف کے تعین کا کوئی اصول بہت واضح نہیں ہے۔ کسی ادبی فن پارے کو کن بنیادوں پر کس صنف میں شامل کیا جائے گا؟ کس صنف کی حدود کیا ہوں گی؟ادب کا کوئی زمرہ کب صنف کہلائے گا ؟ خاکہ ،سوانح سے بالکل مختلف کیسے ہوگا؟ سفر نامہ ، سوانح سے کن بنیاد پر الگ ہوگا۔ طنزومزاح کو صنف کا درجہ حاصل ہے یا نہیں؟ انشائیہ اور طنزو مزاح کو کون سے اوصاف الگ کرتے ہیں ؟ خطوط اور ڈائری دواصناف ہیں یاا نہیں ایک ہی صنف کی دو قسمیں سمجھا جائے۔ یہ اور اس طرح کے بے شمار سوالات ہیں جو اکثر طالب علموں کے ساتھ ساتھ اسکالرز کے دماغوں میں آتے رہتے ہیں۔
یہ بات حق بجانب ہے کہ ادب ، فارمولہ نہیں۔ یہی سبب ہے کہ ادب کی اصناف کی متعینہ تعریف ممکن نہیں اور اسی لیے ا ردو میں متعدد اصناف کی عمدہ اور ممکنہ تعریف اب تک موجود نہیں۔ آج تک غزل کی تعریف میں عورتوں سے بات کرنے کا ذ کر کیا جاتا ہے۔ ہم ا ردو والوں نے زبان کے ان مسائل کے لیے بہت مستحکم کوششیں نہیں کیں اور اکیڈیمیوں اور کاؤنسل کو چاہیے کہ زبان کے بنیادی مسائل پر غور کرکے ان جیسے سوالات کے پیش نظر اصناف کی ممکنہ حد تک معتبر تعریفات وضع کرنے کے لیے بورڈقائم کیے جائیں ۔ جس طرح لغت نویسی اور نصابات کے لیے کمیٹیاں قائم کی جاتی ہیں ۔ ادب کے ایسے کئی زمرے ہیں ، جنھیں اصناف کے درجے میں شامل کرنا بھی ہمارے لیے چیلنج سے کم نہیں۔ افسانچہ، خطوط ، ڈائری ، طنزومزاح ، صحافت وغیرہ کے تعلق سے واضح فیصلے ہو ں اور ان کے فروغ کے لیے مستقبل میں راہیں ہموار کی جائیں اور جن کو صنف کا درجہ دینے میں تامل ہو، انہیں بھی واضح کیا جائے۔
واقعہ یہ ہے کہ نثری اصناف داستان ، ناول ، ڈراما ، افسانہ ، ناولٹ ، افسانچہ وغیرہ کی اپنی اپنی حدود اور دنیائیں ہیں لیکن ان کی سرحدیں، ایک دوسرے سے الگ ہونے کے باوجود ایک دوسرے میں داخل ہوتی ہوئی یعنی Overlap کرتی نظر آتی ہیں۔بعض اوصاف قدرمشترک کے طورپر ان میں سے ہر صنف میں پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً قصہ یا واقعہ نگاری ان سب میں موجود ہے۔
غیر افسانوی نثر کا معاملہ ذرا مختلف ہے ۔ خاکہ ، انشائیہ ، سفر نامہ، رپورتاژ، سوانح ، خطوط و ڈائری ہوں یا طنزومزاح ۔ یہ سب اپنے آپ میں مکمل اور ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہیں لیکن خاکہ میں سوانحی رنگ ، سفرنامہ میں خاکہ ، رپورتاژ میں سفر نامہ ، خطوط میں خاکہ ، ڈائری میں سوانح ، انشائیہ میں طنزومزاح، سوانح میں خاکہ کے رنگ ملتے ہیں جو فطری ہے اور انہیں الگ نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں ہم نے غیر افسانوی نثر کہہ کر ، افسانوی نثر سے الگ کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ لیکن ان سب میں آپ کو افسانوی عناصر یعنی افسانویت تلاش کرنے کے لیے بہت زیادہ تگ ودوکی ضرورت نہیں ۔ آپ سوال کر سکتے ہیں کہ ایساکیوں ؟ اس کا واضح اور صاف سا جواب یہ ہے کہ یہ مصنف پر منحصر ہوتاہے۔ ان میں سے بیشتر میں واقعہ موجود ہوتا ہے۔ اب واقعے کی پیش کش میں تخلیقیت، ا سے افسانوی رنگ عطا کرہی دیتی ہے۔غیر افسانوی نثر میں پائی جانے والی مماثلت اور امتیازات پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔
رپورتاژ اورسفر نامے:
رپورتاژ کو بھی غیر افسانوی نثر میں صنف کا درجہ حاصل ہے۔ رپورتاژ دراصل خبرنویسی کی ہی ترقی یافتہ شکل ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کسی واقعے کا تخلیقی بیان رپورتاژ ہے۔ لفظ رپورتاژ فرانسیسی ہے۔ ترقی پسندعہد میں یہ صنف ہمارے یہاں شروع ہوئی۔ انگریزی میں اسے Reportage کہتے ہیں ۔مغرب میں رپورتاژ کو خبر یا رپورٹ کے زمرے ہی میں رکھا جاتاہے۔ پروفیسر احتشام حسین اس کی تعریف یوں کرتے ہیں :
" رپورتاژ کو ہم واقعات کی ادبی اور محاکا تی رپورٹ کہہ سکتے ہیں۔ "
(جب بندھن ٹوٹے تا جو رسامری ، تعارف : احتشام حسین، ص:5)
احتشام حسین کی رائے سے اتفاق کیا جاسکتا ہے۔ کہ کسی واقعہ کو بہت زیادہ تفصیل کے ساتھ، ادبی پیرائے میں تحریر کرنا ، رپورتاژ نگاری ہے ۔ اس میں مصنف واقعہ کے بیان میں اپنے تاثرات اور آس پاس کے ماحول کا بیان بھی کرتا ہے۔ یہ خبر نگاری سے قدرے مختلف ہے۔ یہ خالصتاً ادبی صنف ہے اور صحافیانہ طریقہ اظہار سے بالکل الگ ۔ بعض صحافی اسے صحافت کا ہی ایک روپ مانتے ہیں۔ شمیم احمد کے مطابق :
"دراصل رپورتاژ ادب کانہیں بلکہ صحافت کا ادبی اسلوب ہے۔"
(بحوالہ اردو رپورتاژ ، طلعت قل ، ص: 6 ، مطبوعہ کتابی دنیا ، دہلی۔2004)
اردو میں رپورتاژنگاری کی ابتداء کب ہوئی ؟ پہلا رپورتاژ کس نے تحریر کیا؟ یہ بہت واضح نہیں ہے بلکہ اس میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ دراصل رپورتاژ کا مآخذ سفرنامے رہے ہیں ۔ بعض سفر ناموں کو رپورتاژ کے درجے میں شامل کیا جاتاہے۔ یہی سبب ہے کہ بعض لوگ کرشن چندر کے رپورتاژ "پودے" مطبوعہ 1945 کو اردو کا پہلا رپورتاژ قرار دیتے ہیں تو بعض سجاد حیدر یلدرم کے " سفر بغداد " مطبوعہ 1904 کو اردو کا پہلا رپورتاژ قرار دیتے ہیں لیکن بعض ناقدین کا خیال ہے کہ ‘سفربغداد، میں رپورتاژ نگاری کے بجائے سفرنامہ نگاری زیادہ ہے اور اصل میں رپورتاژ نگاری کی ابتدائی نقوش مولانا آزاد کے "جشن تاجپوشی کے موقع میں دلچسپ مشاعرہ"مطبوعہ 5؍ جولائی 1902 میں ملتے ہیں۔ اس میں مولانا آزاد نے جشنِ تاجپوشی کے مشاعرے کی افسانوی انداز میں رپورٹنگ کی تھی۔
اردو میں رپورتاژ نگاری نے ترقی پسندعہد میں خاصا عروج حاصل کیا ۔ممبئی کے اخبار "نظام" نے رپورتاژ کے فروغ و ارتقاء میں زبردست کردار ادا کیا ۔ اردو میں سینکڑوں یادگار رپورتاژ تحریر ہوئے ہیں ۔ جن میں" سرخ زمین اور پانچ ستارے " ( خواجہ احمد عباس) پاکستان میں چندروز (ظ۔ انصاری ) یادیں (سجاد ظہیر) چھٹا دریا(فکرتوسنوی) صبح ہوتی ہے( کرشن چندر)،ستمبر کا چاند، کوہ ِ دماوند ، لندن لیٹر(قرۃالعین حیدر )، لبیک(ممتاز مفتی)،مہربہ لب (احمد ندیم قاسمی)،ایک ہنگامہ ( صفیہ اختر)،اے بنی اسرائیل (قدرت اللہ شہاب)، کرن پھول کے دیس میں (صہبا لکھنوی)، یاترا(محمد طفیل)، جشنِ شاعری(ندافاضلی)، نقاب اورچہرے(سلمیٰ صدیقی)، احساس کی یاترا (رام لعل)، دودن (آمنہ ابوالحسن)،سفرہے شرط (قاضی عبدالستار)،ذکی انور کی موت پر(منظر کاظمی)جیسے رپورتاژ کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن ان میں بعض سفرنامے کے زمرے میں بھی شامل کیے جا سکتے ہیں۔
سفر نامہ ، اردو کی ایسی صنف ہے جس کے ڈانڈے رپورتاژ کے علاوہ انشائیہ ، طنز ومزاح ،سوانح وغیرہ سے بھی ملتے ہیں ۔ سفر باعث ظفر ہوتا ہے ۔ اس میں ہجرت کی سنت بھی پوشیدہ ہوتی ہے۔ اسی باعث سفرجہاں معلومات ، تجربے اور مشاہدے میں اضافے کا سبب بنتا ہے وہیں عزت وتوقیر بھی عطا کرتا ہے۔ سفرنامہ ایسی صنف ہے، جس کا تعلق تقریباً ہر انسان سے ہوتا ہے یعنی سفرتو ہر شخص کرتاہے۔ سفر کا بیان ہی سفرنامہ ہوتاہے۔ سفر نامہ کی تعریف پروفیسرخالد محمود ان لفظوں میں کرتے ہیں :
"سفرنامہ ایک قدیم بیانیہ صنف ِ ادب ہے جو انسان کی متلون مزاجی کی بدولت ظہور میں آئی ۔ سفر نامہ نگار دورانِ سفر یا سفر سے واپسی پر اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات اور تاثرات و احساسات کو ترتیب دے کر جو تحریر رقم کرتاہے، وہ سفرنامہ کہلاتا ہے۔"
(اردو سفر ناموں کا تنقیدی مطالعہ ، خالد محمود ، ص22،مطبوعہ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، 1995ء)
خالد محمود صاحب نے ممکنہ حدتک سفر نامہ کی تعریف پیش کی ہے۔ سفر نامہ نگاری کے باضابطہ متعےّنہ اصول نہیں ہیں ۔ یہ سفر نامہ نگارکی ذہانت ، اسلوب اور تخلیقیت پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے سفر کا حال کن لفظوں میں کس طرح بیان کرتاہے۔ لیکن سفر ناموں میں تاریخ اور جغرافیہ کا استعمال ، کبھی کبھی سوچنے پرمجبور کردیتا ہے کہ سفر نامے کہیں تاریخ اور کہیں منظر نگاری کے مرقع بن جاتے ہیں ۔ بعض سفر نامے رپورتاژ نگاری کے بہت قریب ہو جا تے ہیں اور ان میں امتیاز مشکل ہو جاتاہے۔
اردو میں سفرنامہ نگاری کا آغار ، بعض اصناف کے مقابلے کافی پہلے ہوا ۔ انیسویں صدی میں شائع ہونے والا یوسف خاں کمبل پوش کا سفر نامہ " عجائبات فرنگ" (1847ء)اردو کا پہلا سفر نامہ ہے جسے"تاریخ یوسفی "کے نام سے بھی شہرت حاصل ہے۔ یہ یوسف خاں کمبل پوش کے 1837 ء میں انگلستان کے سفر کی روداد ہے۔ عجائباتِ فرنگ سے طائرِ آوارہ (عارف نقوی 2018ء)تک اردو میں ہزاروں سفرنامے قلم بند ہوئے ہیں ۔سفر ناموں کی تکنیک اور بیانیہ میں بھی خاصی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔ پہلے طویل سفر نامے تحریر کیے جاتے تھے اور ان میں ناول کی طرح ابواب ہوا کرتے تھے۔ ساتھ ہی جس ملک کا سفر نامہ ہوتا تھا، ا س کی تاریخ، جغرافیہ ، تہذیب و تمدن وغیرہ کا تفصیلی ذکر ہوا کرتاتھا۔ آزادی کے بعد سفرنامہ نگاری میں خاصا بدلاؤ آیا ۔ اب سفر نامہ نگار کی موجودگی میں کمی آئی ہے۔ تاریخ وجغرافیہ کے بیان میں بھی تفصیل کے بجائے اختصار در آیا ہے ۔ اسلوب پر زیادہ توجہ صرف ہونے لگی ہے۔ بیسویں صدی کے ا و اخر اور اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں سفرنامہ ، افسانے کے قریب آنے لگا ہے۔اب افسانے کی طرح چھوٹے چھو ٹے سفرنامے تحریر ہورہے ہیں۔ ان میں نہ صرف افسانوی رنگ بخوبی دکھائی دینے لگا ہے بلکہ کرداروں کی نفسیات بھی تحریر میں شامل ہو رہی ہے۔ لالی چودھری ، عارف نقوی اور جدید سفر نامہ نگاروں کے یہاں یہ رنگ بخوبی دیکھے جاسکتے ہیں۔
انشائیہ اور طنز و مزاح :
غیر افسانوی نثر میں انشائیہ کو خاصی اہمیت حاصل ہے ۔ لیکن یہاں طالب علموں کے لیے ان کی حدود کے تعین کا مسئلہ در پیش ہوتا ہے۔ انشائیہ جہاں مضمون ، طنزومزاح اور دیگر نثری فن پاروں سے بہت حد تک ملتاہے وہیں اپنے امتیاز بھی رکھتا ہے۔ ابتدا ء میں انشائیہ کے لیے Light Essay استعمال ہوتاتھا اور اس کی ابتدا ء اردو میں سرسید سے ہوتی ہے۔ مضامین سرسید میں ایسے کئی مضامین ہیں جن میں انشائیہ کا رنگ جھلکتا ہے لیکن ان کا مقصد صرف اور صرف اصلاح تھا۔ جب کہ انشائیہ عمیق مشاہد ے سے نثری تحریر میں پیدا ہونے والا وہ رنگ ہے جس میں ظرافت بھی ہو، سنجیدگی بھی ہو زندگی کا فلسفہ بھی۔ بقول سیدہ جعفر " انشائیہ وہ مخصوص قسم کی تحریر ہے جس میں شخصی تجربات ، تاثرات میں اختصار کا بھی خاصا عمل دخل ہوتا ہے"چھوٹے چھوٹے جملے زندگی کے فلسفوں سے پ ر ہوتے ہیں اور بعض اوقات کوزے میں سمندر دکھائی دیتا ہے۔
انشائیہ اور مضامین میں سنجیدگی ، فلسفۂ حیات اور بے ضابطگی کا فرق ہوتا ہے۔ مضامین ایک مقصد اور موضوع کے تحت لکھے جاتے ہیں ۔ ان میں ایک ضابطہ ہوتاہے، طوالت کی بھی حدود ہوتی ہیں۔ انشائیہ میں ذہنی ا ڑان کے ساتھ کسی بھی موضوع پر ذاتی تجربے کو فلسفۂ حیات اور اسلوب کی چاشنی کے ساتھ اس طرح پیش کرتا ہے کہ قاری فرحت محسوس کرتا ہے، اس کی ذہنی ورزش ہوجاتی ہے اور کبھی کبھی تبسم کی ہلکی لکیرہونٹوں کو مس کرتی ہوئی گذرجا تی ہے۔ اس ضمن میں معروف انشائیہ نگار ڈاکٹر وزیر آغا لکھتے ہیں:
"انشائیہ مزاحیہ اور طنزیہ مضامین سے مختلف چیزہے ۔ اس کا مقصد نہ تو اصلاح و احوال ہے اور نہ وہ قہقہہ لگواکر اور اندر کی فاضل اسٹیم کو خارج کر کے آپ کو آسودگی مہیا کرنے کا متمنی ہے۔ "
(انشائیہ اور انشائیہ نگاری ، وزیر آغا)
طنز و مزاح کے عناصر انشائیہ میں موجود ہوتے ہیں لیکن فکر و فلسفے اور مقصد کے تحت، طنز ومزاح کا انشائیہ میں ہونا ضروری اورلازمی نہیں ہے۔ طنز ومزاح کو آج تک بعض ناقد ین صنف کا درجہ نہیں دیتے۔یہ زندگی کے نشیب و فراز کا ایسا بیان ہے جو آپ کو بعض اوقات قہقہے لگانے پر بھی مجبور کر دیتا ہے اور کڑوی کسیلی باتوں کو طنز کی چاشنی میں اس طور پیش کردیتاہے کہ سانپ بھی مر جاتا ہے اور لاٹھی بھی نہیں ٹوٹتی ۔ طنز و مزاح ہو یا انشائیہ یا مضامین (اس میں مقالے ، اور خطوط کو بھی شامل کرسکتے ہیں)،ان کی اپنی اپنی تعریفیں ہیں، حدود ہیں۔ لیکن طالب علم کے لیے ان میں امتیاز کرنابڑا مشکل ہوتا ہے ۔ ان کی سرحدیں ایک دوسرے میں پیوست ہوتی ہیں ۔ ایک باریک سی لکیر ہوتی ہے جو حد فاصل ہوتی ہے۔ مختصراً یوں کہا جا سکتا ہے کہ مضمون نگار اپنے موضوع کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے مقصد کو بیان کرتا ہے۔ طنزومزاح زندگی کے چھوٹے بڑے واقعات کا ایسا بیان ہوتا ہے جو آپ کو ہنسا تا بھی ہے، طنز بھی کرتا ہے اور زبان یعنی لفظوں سے کھیلتا بھی ہے۔ انشائیہ زندگی کی سچائیوں کا ایسا بے ربط، زندگی سے بھر پور بیان ہوتاہے جس میں لطافت ، فلسفۂ حیات اور اسلوب کی دلکشی ہوتی ہے۔
انشائیہ کی ابتداء اور تعریف کے تعلق سے ابھی تک بہت کچھ صاف نہیں ہے۔ وزیر آغا نے خود کو انشائیہ نگاری کا پہلا شہسوار ثابت کرنے کے جنون میں قبل کے انشائیہ نگاروں کو طنزومزاح یا مضامین سے وابستہ قرار دیا ۔ اور انشائیہ کی ابتداء ترقی پسند تحریک سے ثابت کی ۔ جبکہ مضامین سرسید ، مولانا محمد حسین آزاد کی تحریر یں اور مرزا فرحت اللہ بیگ کی نگارشات میں انشائیہ کے ابتدا ئی عناصر کو بہ آسانی تلاشا جا سکتا ہے اور اس کا باضابطہ آ غاز بیسویں صدی کی ابتداء کے ساتھ تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ سجاد حیدر یلدرم ، خواجہ حسن نظامی ، مولوی ذکراللہ، نیاز فتح پوری اور مولانا ابوالکلام آزاد سے انشائیہ نگاری کو مضبوط ومستحکم بنیادیں ملیں۔ان مستحکم بنیادوں پر ہی وزیر آغا ، پطرس بخاری ، رشید احمد صدیقی ، مہندی افادی ، اشرف صبوحی ، محمود بیگ ضمیر حسن دہلوی، فر قت کاکوری وغیرہ نے انشائیہ کو بطور صنف استناد و عتبار بخشا۔
سوانح اور خاکہ :
اردو میں سوانح نگاری کی روایت بھی خاصی قدیم ہے۔ اس کے مقابلے خاکہ نگاری کچھ بعد کی دین ہے۔ سوانح ، خودنوشت سوانح اور خاکہ ، غیر افسانوی نثرکی یہ ایسی اصناف ہیں کہ ان کی تعریف اور حدودواجزائے ترکیبی بہت حد تک ایک دوسرے سے قریب ہیں ۔ سوانح اور خاکہ بعض اوقات ایک دوسرے کے بہت قریب آجاتے ہیں۔ خاکہ کسی شخص کی خوبیوں اور خامیوں کا ایسا بیان ہے کہ اپنے مقصد کی مکمل شناخت ظاہر کردیتا ہے۔ سوانح میں بھی کسی شخص کی زندگی کے نشیب وفراز کا بیان ہوتا ہے۔خودنوشت سوانح میں بھی خاکے کے اوصاف شامل ہوتے ہیں اور ان سب میں افسانوی طرز اور رنگ بھی دیکھنے کو مل جاتاہے۔ یوں دیکھا جائے تو افسانوی رنگ ، غیر افسانوی نثرپاروں میں اس طرح شامل ہوتاہے کہ صاف دِکھتا بھی نہیں اور غور سے دیکھا اور تلاش کیا جائے تو مل بھی جاتاہے۔ دراصل افسانوی رنگ تو اسلوب کی رنگینی اور سنجیدگی میں شامل ہوتا ہے۔ جو کسی واقعے ، حادثے یا کسی بات کے بیان کو پ ر اثر بناتا ہے۔ چند مثالوں سے یہ بالکل آئینے کی طرح صاف ہو جائے گا۔
"ایک دن فجر کے وقت سیدانی کو دروازے پر کچھ آہٹ سی سنائی دی۔ دستک کی آواز تو نہیں تھی لیکن انہوں نے دروازہ تھوڑا سا کھول کر جھا نکا تو وہ چادر میں لپٹی سر جھکائے کھڑی تھی، آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ۔ اسے دیکھ کر اور دروازہ کھلا چھوڑ کر خود پیچھے ہٹ گئیں۔ وہ اب بھی دروازے کے باہر چپ چاپ کھڑی آنسو بہاری تھی۔ سیدانی بھی خاموش تھیں ۔ ان کی آنکھوں میں تو اب کوئی آنسوبھی باقی نہیں رہا تھا۔ گلی میں آمدورفت شروع ہوچکی تھی۔"
خودنوشت
(جورہی سوبے خبری رہی ، ادا جعفری ، ص 275 مطبوعہ، کتب جامعہ لمٹیڈ 1996)
"تو صاحبو ! یہ حقیر پ ر تقصیر جو ستم ہائے روزگارکا ماراہوا، کرم ہائے بے روز گاری کا ستایاہوا، یو نیورسٹی سے نکالاہوا، کالج کی نازنینوں کا نچایا ہوا ، والدین کا دھتکارا ہوا، رہنے والا ملک دکن کا ہے جہاں کا مشہور میوہ املی ہے۔ صاحبو! میرا جنم ایک تحصیل دار کے گھر انے میں ہوا ۔ پس مجھے وہ ساری سہولتیں حاصل تھیں جو دیگر تحصیل داروں کے بیٹو ں کو حاصل تھیں۔ میری ابتدائی تعلیم جو اتفاق سے آخری تعلیم بھی تھی گھر پر ہوئی۔ وہ گھر کرایہ کا تھا اور قلبِ شہر میں واقع تھا جس کے حدودِاربع یہ تھے کہ ا س کے شمال میں ایک ہوٹل تھا ، اس کے جنوب میں ایک چائے خانہ ، اس کے مشرق میں ایک رسٹورنٹ اور اس کے مغرب میں گ لنار کیفے واقع تھا۔ غرض ہوٹلوں نے نام بدل بدل کر ہمارے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا ۔ دوستو، وہ بھی عجیب دن تھے کہ جب ہر صبح مرغانِ خوش الحان ریڈیو سے فلمی نغمے س نایا کرتے تھے۔اور کانوں میں گنّے کا رس گھولا کرتے تھے۔"
(تکلف بر طرف، مجتبیٰ حسین ص68-69 مطبوعہ حالی بک ڈپو، حیدر آباد 1983)
"انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکّا بازی شروع کر دی ۔ کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالمِ خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر ، جاگیں گے تو لاحول پڑ ھ لیں گے لیکن یہ گولہ باری لمحہ لمحہ تیز ہوتی گئی اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرز نے لگیں ، صراحی پر رکھا ہوا گلاس جل ترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈرپنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگا تار کھٹکھٹایا جارہا ہے۔ میں کیا میرے آبا واجدادکی روحیں اور میری قسمتِ خوابیدہ تک جاگ اٹھی ہوگی۔"
انشائیہ
(پطرس کے مضامین ، احمد شاہ بخاری ، ص48-49،مطبوعہ مکتبہ جامعہ لمٹیڈ، دہلی 2011)
"میرے جسم میں کپکپی سرایت کرنے لگی ۔ اپنے آپ کوکو مپوز کرنے کے لیے میں ایک طرف ہٹ کر کھڑی ہو گئی ۔ لوگ نامانوس زبانوں میں مسلسل باتیں کیے جارہے تھے اور ان کے پیچھے ا ٹھتا ہوا آوازوں کا مدھم شور مجھے ا ن کہانیوں کی یاددلارہاتھا جن میں شہزادے درویش کا بتایا ہوا پھل توڑ کر جب واپس لوٹتے تو ا ن کے پیچھے عجیب سا شور ا ٹھتا ۔ درویش کی نصیحت بھول کر جیسے ہی وہ پیچھے مڑکر دیکھتے تو پتھر کے مجسمے بن جاتے۔"
سفرنامہ
(لالی جودھری کے سفرنامہ ، مرتبہ ڈاکٹر رفیعہ سلیم ، ص79مطبوعہ عرشیہ پبلی کیشنز ، دہلی 2016)
مقام : لمبو، تاریح :17؍دسمبر 1979ء
جان ِ من!
ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں
"ویسے اس کا پہلا مصرع میرے احساسات کی نفی ہی کرتا ہوا ساہے۔ کونساپل گزرتاہے جو تمہاری یاد نہ دلاتاہو۔ جب کسی گنہگار حسین چہرے پر نظر پڑتی ہے تم یاد آجاتی ہو۔ یہ تشبہیہ گنہگاری پر مبنی نہیں بلکہ حسن پر دال ہے نیکوکارو پارسا چہرے تو دنیامیں بھی سات پردوں میں ہوا کرتے تھے، یہاں کیا خاک نظر آئیں گے۔ اسی لیے اہل نظر کو صرف اسی حسن پر اکتفا کرنا پڑا جو بے نقاب وبے حجاب رہا۔"
(مشاہیر خطو ط کے حوالے سے، رؤف خیر ، ص 60، مطبوعہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس ، دہلی 2015)
"یہ عورت پاکستان سے میرے ہمراہ آئی ہے لیکن چنددنوں سے اداس سی رہتی ہے ۔وجہ یہ ہے کہ کچھ لوگ پچھلے دنوں سے اس سے نفرت کرنے لگے ہیں نہ صرف اس سے بلکہ مجھ سے بھی۔ کل کا ذکر ہے ایک لمبی چوٹی والے پنڈت جی جو میرے ہمسایہ ہیں، مجھ سے کہنے لگے ۔ "لا لہ جی کیا مجاک ہے آپکے گھر میں ایک ایسی عورت رہتی ہے جس کا باپ مسلمان تھا اور میرے کئی ملنے والے دوست مجھ سے بار بار کہہ چکے ہیں آپ خوامخواہ اسے ساتھ لے آئے ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ سرحد پار کرنے سے پہلے اسے ستلج کی لہروں کی نذر کر دیتے۔"
انشائیہ
(برج بانو ، کہنیا لال کپور ، ص 188)
"چند منٹ بعد ایک اور جنازہ اندر لاتا جاتا ہے اسے بھی عورتوں نے ا ٹھا رکھا ہے۔ اس کے اندر بھی ایک ضعیفہ لیٹی ہے۔ یہ کم از کم سو برس کی ہو کر مری ہے کیونکہ بے چاری کے جھریوں سے بھرے چہرے پر کرب موت کے گہرے نقوش منجمد ہو گئے ہیں، اس کا ایک ادھیڑ عمر کا رشتے دار ـــ۔۔۔۔۔۔۔ غالباً بیٹا ۔۔۔۔۔۔ ٹوپی ہاتھ میں سنبھالے خاموش کھڑا ہے۔"
رپورتاژ۔
(کوہ دِماوند ، قرۃالعین حیدر ، ص 184 ، مطبوعہ ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی 2000ء)
درجِ بالا اقتباسات سے دو باتیں مزید واضح ہوجاتی ہیں ایک یہ کہ انشائیہ ، رپورتاژ ، خاکہ ، طنزومزاح ، سفرنامہ ، خطوط جیسی غیر افسانوی نثر ی اصناف میں بہت زیادہ مماثلتیں ہیں اور امتیازات بھی۔ اب یہ لازمی ہو جاتا ہے کہ ان کا مطالعہ کرتے وقت ، ان کے امتیازات پر گہری نظر ہو، تاکہ ہر صنف کی حدوداور دائرہ بالکل نہ سہی ، کچھ واضح ضرور ہو۔
دوسری بات یہ واضح ہوتی ہے کہ افسانوی رنگ ، نثر کی تقریباً (تنقید و تحقیق، کو چھوڑ کر) ہر صنف میں پایا جاتا ہے کہ اس کا تعلق اسلوب سے ہے اور واقعے ، حادثے یا کسی شخص کی زندگی کا بیان کہیں نہ کہیں افسانوی رنگ اختیار کر ہی لیتا ہے اور یہ بات اس وقت صدفی صد درست ہو جاتی ہے جب غیر افسانوی نثر کا مصنف فکشن نگار ہو۔
پروفیسر اسلم جمشید پوری۔ صدر شعبہ اردو، سی سی ایس یونیورسٹی، میرٹھ۔ اترپردیش۔
ماخوذ از رسالہ: قومی زبان، اشاعت: دسمبر-2019
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں