موسیٰ ندی کو خوبصورت بنانے کے لیے تلنگانہ ریاستی حکومت کے اقدامات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-11

موسیٰ ندی کو خوبصورت بنانے کے لیے تلنگانہ ریاستی حکومت کے اقدامات

musi-river-hyderabad

وزیر بلدی نظم و نسق و انفارمیشن ٹکنالوجی کے ٹی راما راؤ نے کہا ہے کہ موسی ندی کو ملک کی سب سے خوبصورت ندی بنانے کے لئے حکومت اقدامات کر رہی ہے۔
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی راست نگرانی میں موسی ندی کی جامع ترقی کا ایک تفصیلی منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔ شہر کے تمام ارکان اسمبلی بھی اس کے شراکت دار ہیں۔ موسی ندی کو برقرار رکھتے ہوئے اسے خوبصورت بنانے اور شہریوں کی سہولت کے لئے جو کام کروائے جائیں گے اسے نہ صرف حیدرآباد بلکہ پورا ملک یاد رکھے گا۔ تقریباً 17 ہزار کروڑ روپے موسی ندی اور اس سے مربوط کاموں پر خرچ ہوں گے۔


کے ٹی راما راؤ نے آج اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران جناب اکبرالدین اویسی قائد مجلس مقننہ پارٹی کے علاوہ مجلسی ارکان جناب سید احمد پاشاہ قادری (معتمد عمومی مجلس) ، ممتاز احمد خان ، محمد معظم خان ، احمد بن عبداللہ بلعلہ، جعفر حسین معراج ،کوثر محی الدین کے سوال پر اپنے تفصیلی جواب میں یہ بات بتائی۔
کے ٹی راما راؤ نے بتایا کہ موسی ندی پراجکٹ پر تقریباً 9 ہزار کروڑ روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ اس کا مکمل یعنی 100 فیصد پانی کا ٹریٹمنٹ کیا جائے گا۔ اس سال کے آخر تک موسی ندی میں مکمل صاف پانی لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سابق میں موسی ندی کے پانی کو 46 فیصد صاف کرنے کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ وہ نشانہ بھی دیگر شہروں کے مقابلہ میں بہتر تھا لیکن اب حکومت موسی ندی اور اس سے مربوط تالابوں کے پانی کی 100 فیصد صفائی کرے گی۔


سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کے لئے 3866 کروڑ روپے خرچ کئے جا رہے ہیں۔ تقریباً 36 مقامات پر یہ پلانٹ نصب کئے جار ہے ہیں۔ ندی کو خوبصورت بنانے کے لئے 2 ہزار کروڑ روپے ، موسی ندی پر 14 مقامات پر 545 کروڑ روپے کی لاگت سے پل بنائے جا رہے ہیں۔ اس طرح سے تمام اخراجات اس پر جو عائد ہو رہے ہیں، اس کے جملہ اخراجات 17 ہزار کروڑ ہوں گے۔
وزیر بلدی نظم و نسق کے۔ٹی۔آر نے بتایا کہ حکومت نے "موسی ندی ریور فرنٹ ڈیولپمنٹ" کارپوریشن کی تشکیل کی ہے۔ موسی ندی کو خوبصورت بنانے کا کام حکومت کے لئے اہمیت کا حامل ہے۔ اس کا منصوبہ ایسے ہی تیار نہیں کیا گیا بلکہ چیف منسٹر نے اس کے لئے زبردست تیاری کی ہے۔ ہندوستان کی مایہ ناز آرکیٹکچرل فرم (ممبئی) آرکیٹکٹ حفیظ کنٹراکٹر کے ذریعہ موسی ندی کی ترقی کی تجاویز طلب کی گئیں۔ موسی ندی پر پلوں اور دیگر ترقیاتی کاموں کے لئے عالمی سطح کے کنٹراکٹرس سے ڈیزائن کا مقابلہ کیا گیا۔ اس میں 9 فرموں نے حصہ لیا۔ کے ٹی راما راؤ نے کہا کہ 545 کروڑ روپے کی لاگت سے موتی اور عیسی ندی پر 14 بریجس بنائے جا رہے ہیں جس میں ایک مشہور بریج سالار جنگ میوزیم کے قریب بنایا جائے گا جس کا ذکر بیرسٹر اسد الدین اویسی رکن پارلیمان حیدرآباد اور صدر مجلس اور جناب اکبرالدین اویسی نے کیا تھا۔


موسی رام باغ بریج کے علاوہ شہر میں دیگر مقامات پر پل تعمیر کئے جائیں گے۔ ان 14 پلوں کی تعمیر کے لئے انہوں نے عہدیداروں کو بھی پیرس اور یورپ کے دیگر مقامات کے دورے کی ہدایت دی ہے۔ اگر ارکان اسمبلی بھی اس دورے میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو بہتر ہوگا کیوں کہ ان پلوں کو تاریخی اعتبار سے بنایا جائے گا تاکہ حیدرآباد کا نام تاریخ میں یاد رکھا جائے۔ ان پلوں کی ایک ممتاز پہچان ہوگی۔

  • آوٹر رنگ روڈ کو شہر کے درمیان سے مشرق سے مغرب تک مربوط کرنے کا پلان
  • فور لین ایلی ویٹیڈ اسکائی وے، ریڈیل روڈس اور حصول اراضی کے لئے 9 ہزار کروڑ
  • 36 سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹس کی تعمیر کے لئے 3866 کروڑ روپے
  • شہر میں 14 مقامات پر 545 کروڑ روپے کی لاگت سے پلوں کی تعمیر
  • ندی کو خوبصورت بنانے کیلئے 2 ہزار کروڑ روپے کا خرچ
  • تاریخی اعتبار سے پلوں کی تعمیر کیلئے عالمی ڈیزائن مقابلہ
  • جاریہ سال کے آخر تک موسی ندی کے پانی کی صد فیصد صفائی کے اقدامات

کے ٹی آر نے کہا کہ موسی ندی پر مشرق سے مغرب یعنی آوٹر رنگ روڈ کے مشرقی حصہ سے مغربی حصہ تک تقریباً 55 کلومیٹر کی مسافت کے درمیان 4 لین ایلی ویٹڈ اسکائی وے [four-lane elevated skyway] کا منصوبہ ہے۔ اس پر 4240 کروڑ روپے کا خرچ عائد ہو رہا ہے۔ اس کے ریڈیل روڈس [radial roads] کے لئے 2350 کروڑ روپے اور ان سڑکوں کی تعمیر کے لئے حصول اراضی پر 2380 کروڑ روپے خرچ ہوں گے۔ اس طرح سے ان پلوں کے لئے تقریباً 9 ہزار کروڑ روپے کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ اگر آوٹر رنگ روڈ سے اس کا تقابل کیا جائے تو شہر کے اطراف میں 6 لین کی 160 کلومیٹر طویل آوٹر رنگ روڈ پر 7440 کروڑ روپے خرچ ہوئے۔ یہ اخراجات ٹول ٹیکس کے ذریعہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن شہر میں اگر ٹول مقرر کیا جائے تو مجلس اسے مقرر کرنے نہیں دے گی تو اسے مالیاتی اعتبار سے کیسے مستحکم بنایا جائے، اس کے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔


کے۔ٹی۔آر نے مزید بتایا کہ بارش اور سیلاب میں جو پانی آتا ہے اس سے نمٹنے کے علاوہ پینے کے پانی کے مسائل کو ہمیشہ ختم کرنے کے لئے عثمان ساگر کو کونڈا پوچماں ساگر سے مربوط کرنے کا پروگرام ہے۔ موسی ندی میں جو نالے مل رہے ہیں ان میں بڑے نالوں کی تعداد 54 ہے۔ گریٹر حیدرآباد کے 600 مربع کلومیٹر کا 90 فیصد سیوریج موسی ندی میں داخل ہوتا ہے۔ ان تمام سیوریج کا ٹریٹمنٹ کیا جائے گا۔ موسی ندی میں سیوریج کے پانی کے آنے سے یہ گندے پانی کی ندی بن گئی ہے۔ تلنگانہ حکومت کے قیام کے بعد اس کے 100 فیصد پانی کے ٹریٹمنٹ کا اہم فیصلہ لیا گیا۔ نہ صرف موسی ندی بلکہ اس سے مربوط تالابوں کا پانی بھی، جو اس میں آ رہا ہے، ان کا بھی ٹریٹمنٹ ہوگا۔ ملک کے کسی شہر میں اس طرح کا پروگرام نہیں بنایا گیا ہے۔


کے۔ٹی۔آر نے کہا کہ گذشتہ 65 برس میں کسی حکومت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ موجودہ حکومت نے اس پر تفصیلی تجزیہ کیا اور ٹکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ سیلابی پانی کی سطح آب مقرر کی ، بفر زون مقرر کیا ، ڈرون کا استعمال کیا اور اس بات کی نشاندہی کی کہ موسی ندی میں کتنے قبضے ہیں۔ موسی ندی میں تقریباً 10 ہزار قبضے ہیں جو ملک پیٹ اور دیگر مقامات پر ہیں۔
زیادہ سے زیادہ سطح آب موسی ندی میں 1,05,000 کیوزکس ہوتا ہے۔ موسی ندی کا مشرق سے مغرب تک تجزیہ کیا گیا تو یہ پتہ چلا کہ موسی ندی 1.5 کلومیٹر کی گہرائی کے ساتھ بہتی ہے اس کے لئے تین چیک ڈیم بنانے کا منصوبہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موسی ندی کی ترقی کا کام پہلے ہی شروع ہو چکا ہے۔ تقریباً 3800 کروڑ روپے کے کام پہلے ہی چل رہے ہیں۔ اب 545 کروڑ روپے کی لاگت سے 14 پلوں کی تعمیر کا ٹنڈر طلب کیا جا رہا ہے۔ حکومت ان تمام کاموں کو ایک حکمت عملی کے ساتھ انجام دینا چاہتی ہے۔
انہوں نے مجلسی ارکان اسمبلی کو دعوت دی کہ وہ ان کاموں کا معائنہ کریں کیوں کہ وہ بھی حیدرآباد کی ترقی کے شراکت دار ہیں۔ کے ٹی آر نے کہا کہ عنبر پیٹ تالاب، کاپرا تالاب ، پدا چیروو، آر کے پورم چیروو، الوال چیروو، پلے چیروو، عمدہ ساگر تالاب اور دیگر تالاب جوم وسی ندی سے مربوط ہیں ان تمام کے پانی کا ٹریٹمنٹ کیا جا رہا ہے۔


انہوں نے بتایا کہ موسی ندی سے مربوط شہر کے ارکان اسمبلی کے ساتھ وہ اجلاس منعقد کرتے ہوئے ان کی تجاویز پر عمل کریں گے۔ اس سوال پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے مجلسی رکن اسمبلی احمد بن عبداللہ بلعلہ نے حکومت سے یہ جاننا چاہا تھا کہ موسی ندی کے کام عرصہ دراز سے جاری ہیں لیکن اب تک مضبوط اقدامات نہیں کئے گئے۔2017 میں چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے ایک اجلاس منعقد کرتے ہوئے شہر میں ٹریفک کو بہتر بنانے کے لئے آوٹر رنگ روڈ پر مشرق سے مغرب تک موسی ندی سے گزرنے والی سڑک کی تعمیر کی تجویز رکھی تھی تاکہ شہر کے درمیان ٹریفک میں آسانی ہو سکے اور ندی کو بھی خوبصورت بنایا جا سکے۔ احمد بلعلہ نے بتایا کہ انہوں نے موسی ندی ریور ڈیولپمنٹ کارپوریشن کے صدرنشین سدھیر ریڈی کے ساتھ موسی ندی کا دورہ کیا۔ اس کی خوبصورتی کا کام اچھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ متحدہ آندھرا پردیش میں موسی ندی میں ہائی کورٹ کے روبرو ایک ربر ڈیم بنایا گیا تھا اور واکنگ ٹریکس اور سبزہ زار بنایا گیا تھا لیکن جب بھی عثمان ساگر سے پانی چھوڑا جاتا ہے، ندی کی خوبصورتی تباہ ہو جاتی ہے اور کوئی بھی کام باقی نہیں رہتا۔


مجلسی رکن اسمبلی نے حکومت سے یہ جاننا چاہا کہ موسی ندی میں کتنے نالے آ کر ملتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ سابق میں جواہر لال نہرو اربن رینیول مشن کے تحت سیوریج ٹریٹمنٹ کے انتظامات کئے گئے تھے۔ انہوں نے یہ بھی جاننا چاہا کہ موسی ندی میں کتنے ٹریٹمنٹ پلانٹس لگائے جا رہے ہیں؟ ان نالوں کے پانی کو کیا ٹریٹمنٹ کر کے ملایا جا نہیں سکتا ؟
احمد بلعلہ نے بتایا کہ موسی ندی میں املی بن کے پاس مہاتما گاندھی بس اسٹیشن بنایا گیا اور میٹرو ریل کا جنکشن بھی بنا دیا گیا۔ حالیہ عرصہ کے دوران جو سیلاب آیا، اس دوران بس اسٹیشن اور میٹرو ریل جنکشن کی وجہ سے جو تباہی ہوئی اسے سب نے دیکھا ہے۔
انہوں نے یہ جاننا چاہا کہ موسی ندی کے کیا حدود مقرر کئے گئے ہیں۔ اس کی وسعت کتنی ہے۔ ان تمام تفصیلات کی فراہمی ضروری ہے۔
مجلسی رکن نے کہا کہ انہوں نے بلدی نظم ونسق کے کئی عہدیداروں سے یہ جاننا چاہا کہ موسی ندی میں کتنے نالے مل رہے ہیں۔ اس کی تفصیلات کوئی نہیں بتا سکا۔ موسی ندی کے قبضے کب تک برخاست کئے جائیں گے اس کی تفصیلات بتائی جائیں۔


احمد بلعلہ نے کہا کہ موسی رام باغ میں حالیہ سیلاب کے وقت جو تباہی ہوئی تھی اور وہاں جو جھونپڑیاں تھیں انہیں منتقل کیا جا رہا ہے۔ وہ جگہ خالی ہو گئی ہے۔ اس پر فوری سڑک کی تعمیر کی ضرورت ہے کیوں کہ ناگول سے موسی رام باغ تک 100 فیٹ وسیع سڑک ہے۔ موسی رام باغ میں اس کی وسعت 40 فیٹ ہو گئی ہے۔
انہوں نے حکومت سے یہ جاننا چاہا کہ جب ندی کو خوبصورت بنایا جا رہا ہے تو اس میں جو پانی چھوڑا جاتا ہے تو اس کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے بارے میں حکومت کس طرح کے اقدامات کرے گی؟


TRS committed to develop Musi in comprehensive manner: KTR
Telangana Government will spend Rs 16,600 cr for Musi makeover, says KTR

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں