میری چاہت کے گلاب : احمد حسنین کے افسانوں کے مجموعہ پر طائرانہ نظر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-06

میری چاہت کے گلاب : احمد حسنین کے افسانوں کے مجموعہ پر طائرانہ نظر

meri-chahat-ke-gulab

معروف افسانہ نگار احمد حسنین کا تعلق ضلع امبیڈکر نگر(اتر پردیش) سے ہے۔ مگر عرصۂ دراز سے وہ الٰہ آباد میں سکونت پذیر ہیں۔ آپ برسوں یادگار حسینی انٹر کالج کے پرنسپل رہے۔ آپ کا غائبانہ تعارف آپ کی تخلیق کی بنا پر بحیثیت ناول اور افسانہ نگار تو تھا ہی مگر میرے بڑے بھائی معروف قلم کار و سابق رکن مغربی بنگال اردو اکاڈمی، جناب خواجہ احمد حسین نے نہ صرف آپ کا مکمل تعارف آپ کی تخلیقات اور کتابوں سے کرایا بلکہ آپ سے بذریعہ فون بات بھی کرائی۔ ان کی تخلیقات پر اپنے تاثرات کا اظہار صفحۂ قرطاس پر بکھیرنے کی میں نے سعی کی ہے۔


احمد حسنین کا ادبی سفر طویل ہے۔ آپ کی تخلیقات میں ناول کے علاوہ سماجیات اور شکاریات پر مشتمل کہانیاں شامل ہیں۔ ان کا پہلا افسانوی مجموعہ "روشنی اور سائے"، دوسرا افسانوی مجموعہ "میری چاہت کے گلاب" جو زیر تبصرہ ہے۔ اس کے علاوہ شکاریات پر منفرد کہانیوں کا مجموعہ "شکار اور شکاری" مزید "جنگل کی ادبھت کہانیاں" ہندی میں زیر طبع ہے۔ ان کے دو ناول "اندھیروں کے مسافر" اور "منزل منزل" منظر عام پر آچکے ہیں۔


یہاں زیر تبصرہ احمد حسنین کا دوسرا افسانوی مجموعہ اور کتابوں میں چوتھی کتاب "میری چاہت کے گلاب" جو ابھی میری چاہت کی کتاب ہے۔ اسی چاہ نے مجھے کچھ لکھنے پر مجبور کیا۔ دوسری وجہ اِن کا منفرد اسلوب جو میری پسندیدگی کا باعث ہے۔ قاری کی پسند ہی تخلیق کار کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ پروفیسر صالحہ رشید معروضات میں لکھتی ہیں کہ:
"آپ باذوق قارئین کی داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں" جو صد فیصد درست ہوگا اور یہ بھی حق بیانی ہے کہ ان کے افسانوں میں "حق باطل کی کشمکش، نیکی بدی کا تصادم، انسانیت اور انسان دوستی کی فتح یہ سبھی کچھ دیکھا جا سکتا ہے"۔


احمد حسنین کی انفرادیت یہ ہے کہ افسانہ کا آغازا ور اختتام خوبصورت مناظر سے کرتے ہیں۔ اس کتاب کا پہلا افسانہ " حاشیے پر رہنے والے" میں شکتی، جگا اور تانو تین منچلے نوجوان دوستوں کی کہانی ہے۔
آغازِ افسانہ کا منظر دیکھئے ؂
"ڈاک یارڈ ریلوے اسٹیشن سے ملحق مجگاؤں کی گود میں بیٹھی تقریباً دو سو فِٹ اونچی پہاڑی پر نگر پالیکا کا ہرا بھرا پارک ہے، اس پارک کی خوبصورتی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جیسے جیسے دن ڈ ھلنے لگتا ہے، شام کی پُر کیف فضا کا مزہ لینے کے لئے بھیڑ بڑھنے لگتی ہے"
اس کے علاوہ مناظر میں درختوں،چڑیوں، تتلیوں، پھولوں، بھونروں اور لوگوں کی کیفیات کی مرصع سازی وغیرہ۔ اس طرح سے قاری کا دل احمدحسنین موہ لیتے ہیں پھر کہانی کی طرف بڑھتے ہوئے کہانی کے اندر ایک نئی کہانی اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ قاری کا تجسس مزید بڑھ جاتا ہے اور پڑھتے ہوئے افسانہ کے اختتام تک پہنچتا ہے۔ یہ ایک کامیاب افسانہ نگار ہونے کا ثبوت ہے۔
اختتام کا منظر کچھ یوں ہے کہ ؂
"شام کا ہلکا آنچل اتار کر رات نے گہری دبیز چادر اوڑھی تو چاند نے اپنے سفید پھول بکھیر دیئے۔ تانو نے اچانک سفینہ کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے کہا: 'وقت اور تقدیر کے مزاج کو کون سمجھ سکا ہے۔ اب یہ دیکھو تمہیں پاکر مجھے یہ لگتا ہے کہ میں نے مالتی کو پا لیا'
سفینہ نے سمندر کی لہروں میں تھرتھراتے ہوئے چاند کو دیکھتے ہوئے کہا: 'لاکھ کوشش کرو کچھ نہ کچھ زندگی میں چھوٹ ہی جاتا ہے تو جو مل گیا اسی میں ہمیں خوش رہناچاہیے۔ آؤ ہم پرانے غموں کو بھلا کر زندگی کو حال کی خوشبو سے بھر دیں'۔


اس کتاب کا آخری افسانہ "موسموں کے درمیاں" جو مجھے سب سے زیادہ پسند آیا۔ اس افسانہ میں سلیم اور شائستہ کی کہانی بہت ہی عمدہ طریقے سے پیش کی گئی ہے اور افسانہ کے بالکل آخر میں منظر کشی اور اقتباس، دیکھئے اور پڑھئے اور جانیے کہ دل کیسے باغ باغ ہو جاتا ہے۔۔۔۔
"اب حمید کے ہاتھ میں شائستہ کا ہاتھ تھا، ایک عزم تھا محبت کی تڑپ۔ دونوں ہینگنگ گارڈن کی طرف بڑھ گئے،جہاں جھکے آسمان پر کہکشاں کی سترنگی سایہ کئے ہوئے تھی۔ درختوں سے لگی ڈالیاں نئی کونپلوں کو جنم دے کر خزاں کو الوداع کہہ چکی تھیں۔ شائستہ کے دل میں دوسری بہار کے نغمے تھے۔ نظروں کے سامنے ایک پہاڑی تھی۔ اس نے غور سے دیکھا تو اسے لگا کہ پہاڑی پر کوئی چیز متحرک ہو۔ اس نے محسوس کیا جیسے اس نے اس متحرک شئے کی شبیہ کو پہچان لیا ہو۔
اچھا تو سلیم ہے اس نے حیرت سے پھر دیکھا تو اسے لگا جیسے سلیم ان دونوں کو گھور رہا ہے۔ اچانک سلیم نے پہاڑی سے چھلانگ لگائی اور گہری کھائی میں جا گرا۔ وہ اب تک طے نہیں کر پا رہی تھی یہ جو کچھ اس نے محسوس کیا وہ کوئی خیال تھا یا حقیقت"
اس طرح کی انفرادیت ان کے سبھی افسانوں میں ملتی ہے۔


اس کتاب کا نام نواں افسانہ" میری چاہت کے گلاب" سے منسوب ہے۔ اس افسانہ میں دو پیار کر نے والوں کی وہ نایاب کہانی ہے۔ جو 45 سال کا عرصہ طے کر تے ہیں۔ اس میں مشرقی اور مغربی تہذیب و تمدن کی مکمل عکاسی کی گئی ہے۔ جاوید کا جشنِ آزادی کے موقعے پر ہارس ریس کے دوران رکاب پر لٹک کر ایک بچی کی جان بچانا اور روزینہ کے پیار میں مبتلا ہو کر غیر ملک میں سکونت پذیری اختیار کرنا۔ پھر ازدواجی زندگی کی شروعات اور پُر مسرت لمحات سے لے کر اپنی اولاد کی بے راہ روی تک بہت ہی خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ اولاد کی بے راہ روی سے والدین کی بیزاری اور ان سے نالاں ہو کر والد (جاوید فیضی) کا اپنے وطن عزیز ہندوستان لوٹ آنا۔
یہاں نئی نسل کی خاطراپنی پانچ بیگھہ زمین کالج کھولنے کے لیے وقف اور کالج کے لئے گیارہ لاکھ کا چیک ساجد کے نام کر کے اپنے وطنِ عزیز میں اس دیار فانی سے رخصت ہونے کا اسلوب بہت ہی خوب ہے۔ واقعی اس کتاب کی روح اس افسانہ میں موجود ہے۔


اس کے علاوہ باقی دوسرے افسانوں میں ؂ "رپورٹر"، جو ایک ایماندار پولیس انسپکٹر کی کہانی ہے۔ اس افسانہ میں اترا کھنڈ میں آئے سیلاب اور اس کی تباہی، راحت کاری کے کام ، رپورٹر کا فرض اور پولیس والوں کے کرتوتوں کو اس مربوط انداز میں پیش کیا ہے کہ قاری آخر تک بغیر پڑھے نہیں رہ پاتا۔
"بھینی بھینی سی خوشبو" اس میں رنجیت، ریکھا بائی، جاسمین اور جوالا کی کہانی نہایت ہی سلیقے سے بیان کی گئی ہے۔
"منجدھار ہی ساحل" اس میں اندھیرے اور اجالے کے درمیان ایک پر کشش مکالمہ، پر کشش انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کبھی اجالے کا راج تو کبھی اندھیرے کا ، بہر حال آخر میں اندھیرے کو اجالا مات دے ہی دیتا ہے۔ اجالے کی جیت ہوتی ہے اور اندھیرے کی ہار۔
"نائٹ سروس" اس میں ڈاکوؤں اور ایک امریکی لڑکی کی کہانی ہے۔ اس افسانہ میں ڈاکوؤں سے لوٹ مار کے عوض ایک لاکھ خراج وصول کرنے والے لوگوں کی طرف اشارہ ہے، جو اس ملک کے لئے ڈاکوؤں سے زیادہ خطر ناک ہیں۔


"نفس کی لہریں" ایک بہترین افسانہ ہے۔ باپ اور بیٹے کی کہانی ہے۔ کم آمدنی اور سر چڑھتی مہنگائی کے دور میں گھر کے اخراجات کو پورا کرنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ اسی میں دوا علاج جیسے اضافی خرچ کو برداشت نہ کرنے والے حضرات سے کبھی کبھی ایسا قدم اٹھ جاتا ہے۔ بیٹا تنگ دستی کے سبب اپنے ضعیف بیمار و لاچار باپ کو کاندھے پر اٹھائے پانی کی لہروں پہ جیسے ہی اپنا قدم بڑھاتا ہے ویسے ہی اس کے والد اپنے والد کے ساتھ بالکل یہی ماضی میں کی گئی خطا پرخود کو اسی سزا کے مستحق قرار دیتے ہوئے پر نم آنکھوں سے ندی میں غرق ہونے کے لئے اپنے آپ کو تیارکر ہی رہے تھے کہ عین اسی وقت بیٹا اپنے والد کی بات سن کرفوراً اپنے بیٹے کا رد عمل محسوس کر تے ہوئے کانپ اٹھتا ہے اور والدکو کاندھے پر لئے واپس ساحل کی طرف لوٹ آتا ہے۔


"کھارے پانی کا موتی" اجیت اور کونیکا کی کہانی اچھوتے انداز میں تحریر کی گئی ہے۔


"عزمِ روح" اس افسانہ میں شہر ممبئی کے مضافاتی علاقہ لوناولا کی رہنے والی ایک کالج کی طالبہ رمبھا اور سائمن کی کہانی ہے۔ رمبھا کے والد کے انتقال کے بعد ، وہ ان کے لیے ہوئے بینک لون کی مقروض ہو گئی اور اس کی ادائیگی وہ کس طرح کرے ، اسی کشمکش میں کسی کے مشورے پر پیسے کی لالچ میں پونا جاکر اپنا مذہب تبدیل کر کے ہندو سے عیسائی اور رمبھا سے روزلِن ہو گئی۔ دو لاکھ کا چیک حاصل کر کے عارضی سکون حاصل کیا تاکہ بینک کا قرض ادا ہو سکے۔ اسی کے تین دن بعد سائمن لوناولا کے جین مندر میں عیسائی سے جین اور سائمن سے پرکاش ہو گیا اور تین لاکھ کا چیک لیکر خوشی سے جھوم اٹھا۔ ان دونوں کی مذہبی تبدیلی کوئی دل کی آواز نہیں تھی بلکہ غربت سے جوجھ رہے حالات کا تقاضہ تھا۔ دونوں کو چیک حاصل کر کے بھی ذہنی آسودگی نہ ملی بلکہ انھیں ایسا لگ رہا تھا کہ اس سے قیمتی چیز کھو گئی۔


"سورگ ہاٹ" اور "مشینوں کے ہاتھ" بدلتے سماج، افکار اور حالات پر مبنی یہ دو افسانے بھی قابل تعریف ہیں۔
"پر اسرار حویلی" نام سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھوت پریت یا بھٹکتی آتما کی کہانی ہوگی اور ایسا ہی ہے لیکن انفرادیت یہ ہے کہ اس میں کہیں ڈراؤنا پن نہیں ، اگر کہیں اس کی ہلکی جھلک ہے بھی، تو فوراً وہ رفو چکر کیونکہ افسانہ نگار کا اسلوب ہی کچھ ایسا ہے۔


"سچ کے اجالے" حالات حاضرہ پر مبنی ایک بہترین افسانہ ہے۔ موجودہ دور میں عام آدمی مذہبی منافرت اور سیاست دانوں کی منافقت سے بیزار ہے۔ پھر بھی سیاسی لوگ اسے سیاسی ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کر نے میں جیسے ہی کامیاب ہوتے ہیں دو فرقوں میں فساد ہو جاتا ہے۔ یہ جہالت کا نتیجہ ہے جو ہم بہکاوے میں آکر اپنا ہی نقصان کرتے ہیں۔ چنانچہ علم کی شع جلا کر جہالت کے اندھیروں کو ہم دور کر سکتے ہیں۔
مجموعی طور پر ان کے کچھ افسانے نئے نہیں ہیں لیکن دلکش بیانیہ اور اچھوتے اسلوب کی وجہ سے قاری کے لئے دلچسپی کا سامان بنتے ہیں۔ سماج کے ہر طبقہ کی کہانی انھوں نے اپنے افسانوں میں ایک منفرد انداز و اسلوب میں پیش کی ہے۔ ایک بہتر افسانہ نگار کی یہی خوبی ہے کہ اپنے اسلوبِ بیانی سے قاری کا دل جیت لے اور پرھنے میں دلچسپی اور تجسس ایسا ہو کہ قاری کہانی کے اختتام کو پہنچے۔ یہ ایک کامیاب افسانہ نگار کی پہچان ہے۔ جس میں احمد حسنین پوری طرح سے کامیاب نظر آتے ہیں۔


ان کے افسانوں میں موضوعات کی عمدگی،دلچسپی کا عنصر، زمان و مکان، کردار نگاری، مربوط انداز، منظر کشی اور موضوع میں نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ نقطہ عروج اور اختتامِ افسانہ کو مد نظر رکھتے ہوئے احمد حسنین نے زبان و بیان کی شگفتگی سے قاری کو باندھنے رکھنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور افسانے کو ہمارے سامنے لانے میں کامیاب رہے۔ جس سے ان کی ذہنی بالیدگی اور بالغ نظری سے ہمیں کما حقہ واقفیت ہوئی۔ ان کی فکر میں گیرائی و گہرائی ہے۔ آغاز و اختتام پرمنظر کشی کا انداز ان کے افسانے کو منفرد کرتا ہے اور اس سے ان کے افسانے کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ میرے خیال میں انہی اوصاف کی وجہ سے احمد حسنین اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں میں امتیازی حیثیت رکھتے ہیں۔


میری چاہت کے گلاب مجموعی طور پر چودہ (14) افسانوں پر مشتمل ہے۔ جس کی ضخامت 128 صفحات اور قیمت 200 روپئے ہے۔
ملنے کا پتا : نشیمن 156B/15B، شمس نگر، کریلی ، الہ آباد۔
رابطہ: 9869321477/93201133631

***
خطاب عالم شاذ، کانکی نارہ، مغربی بنگال
موبائل: 8777536722

A review on short-stories book 'Meri chahat ke gulab'. Book Review by: Khatab Alam Shaaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں