یہ مودی ملک کو کہاں لے جاکر چھوڑیں گے؟
وزیراعظم نریندر مودی یہ دعویٰ تو کر رہے ہیں کہ یوکرین-روس جنگ سے کسی بھی ہندوستانی طالب علم کو متاثر ہونے نہیں دیں گے ، ایک ایک کو واپس لے کر آئیں گے۔ اور بہت سے بچے واپس آئے اور لائے بھی گئے ہیں، لیکن ابھی بھی ہزاروں بچے وہاں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور جو طلباء واپس آئے ہیں وہ مودی سرکار کی ناکامی کی کہانیاں سنا رہے ہیں۔ ویسےسب ہی جانتے ہیں کہ مودی اُن ہندوستانی طالب علموں کی واپسی کے تعلق سے ، جو روس ، یوکرین اور اطراف کے علاقوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے گئے ہیں ، جو بھی دعوے کر رہے ہیں ، یو۔پی الیکشن میں بی جے پی کی ڈوبتی نظر آ رہی نیّا کو پار لگانے کے لیے کر رہے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ مودی اور ان کی حکومت کے دعوؤں میں اور جو طلباء واپس لوٹے ہیں ان کی داستانِ الم میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔ واپس لوٹنے والے نوجوان ایسا تجربہ اپنے ساتھ لائے ہیں جسے وہ ساری زندگی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ بے بسی کا تجربہ ، موت کو آہستہ آہستہ قریب آتے محسوس کرنے کا تجربہ۔ بھوک پیاس، شدید ترین ٹھنڈک اور سینکڑوں کلو میٹر کا پیدل سفر ، نہ ہندوستانی سفارت خانے سے کوئی خیر خبر اور نہ ہی ملک واپسی کی کسی منصوبہ بندی کا پتہ۔ اس پر شدید ترین ذلت۔ پولینڈ کے حکام ، افسران اور سیکیوریٹی فورسیز کے ذریعے روکا جانا ، یوکرین سے باہر نہ نکلنے دیا جانا ، رومانیہ میں تنہا پڑ جانا ، ہنگری پہنچ کر خود کو بے یار و مدد گار پانا۔
یہ خطرہ تو ایک عرصے سے سر پر منڈلا رہا تھا کہ یوکرین پر روس حملہ کر دے گا۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن کا چیخ چیخ کر گلا بیٹھ گیا تھا کہ بس اب روس یوکرین پر حملہ کرنا ہی چاہتا ہے۔ لیکن مودی اور ان کی سرکار یوپی اسمبلی کے الیکشن میں مصروف تھی۔ ویسے بھی یہ وہ سیاست داں ہیں جنہیں الیکشن سے زیادہ کوئی اور چیز عزیز نہیں ہے ، ووٹ دینے والے بھی نہیں ! ہاں لیکن ان سیاست دانوں کو ایک "ہنر" خوب آتا ہے: "آپدامیں اوسر ڈھونڈنا"۔ جی ہاں ، یہ ہر طرح کی مصیبت میں ، ہر طرح کی تکلیف میں ، مواقع تلا ش کر لیتے ہیں۔۔۔ مواقع اپنی "تعریف" کے اور اُن کاموں یا کارناموں کی تشہیر کے ، جو کئے ہی نہیں گئے ہیں !
مودی سرکار صرف دعوے ہی نہیں کرتی رہی کہ طالب علموں کو واپس لایا جائے گا ، اس نے اپنے خرچ ، اپنی مشقت، اپنی تکلیف اور اپنی ہمت پر جنگ زدہ علاقوں سے نکل کر طالب علموں کے گھر پہنچنے کا سارا "سہرا" اپنے سر باندھنے کا کام بھی کیا ، بلکہ پروپگنڈا کچھ ایسا رہا جیسے کہ اگر نریندر مودی اس ملک کے وزیراعظم نہ ہوتے اور انہوں نے روس اور یوکرین ، ان دونوں ملکوں کے حکمرانوں کو ڈانٹ نہ پلائی ہوتی تو آج یہ طلباء یوکرین سے باہر نہیں نکل پاتے۔
جو بچے واپس آئے ہیں ، ان کے سامنے مودی کی کابینہ کے وزراء نے مودی کے لیے طلباء سے نعرے لگوائے ہیں ، اور باقاعدہ یہ کہا ہے کہ آپ سب کی واپسی صرف اور صرف مودی جی کی وجہ سے ہی ممکن ہو سکی ہے ، یعنی:
"مودی ہے تو ممکن ہے!"
لیکن جو سچ ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ مودی سرکار طلباء کو بھلے ہی واپس لا رہی ہو ، لیکن طلباء جنگ زدہ علاقوں سے اپنے بل بوتے پر نکلے ہیں ، مودی سرکار نے انہیں نہیں نکالا ہے ،یہ کہنا زیادہ درست ہوگا کہ اس سرکار نے طلباء کو نکالنے سے زیادہ مصیبت میں ڈالنے کا کام کیا ہے۔ وزارتِ خارجہ اور وزیرخارجہ جئے شنکر ہمیشہ کی طرح ناکام رہے ہیں۔ سوال یہ ہیکہ کیا ہندوستانی ایجنسیاں ،جو یوں تو پاتال میں جو چھپا ہے اسے کھوج لانے کا دعویٰ کرتی ہیں ، سو رہی تھیں کہ انہیں روس اور یوکرین کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کا پتہ نہیں چلا ، اور وہ اس قدر بے خبر رہیں کہ یہ اندازہ تک نہیں لگا سکیں کہ جنگ چھڑے گی ہی؟
یوکرین میں کوئی 20 ہزار ہندوستانی طلباء تھے ، انہیں بس یہ اطلاع دینے کی ضرورت تھی کہ بھارت واپسی کے لیے تیار ہیں۔ اس کے بعد طلباء کو سرحدوں پر گاڑیوں کا انتظام کرکے یوکرین کے پڑوس ممالک میں لے جا کر جہازوں میں بیٹھا کر بھارت بھیج دینا تھا۔ مگر یہ کام نہیں کیا گیا ، اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کرناٹک کا ایک طالب علم نوین یوکرین حملے میں مارا گیا ، ایک طالب علم چندن جندل اسٹروک اٹیک کے بعد آئی سی یو میں داخل ہوا مگر جنگ زدہ ملک میں ناکافی طبی سہولت کی بنا پر اس کی جان گئی۔ ہرجوت سنگھ کو گولی لگی ہے ، اسے کیف کے اسپتال میں داحل کیا گیا ہے ، اس کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی حالت سنگین ہے اور اس نے یہ درخواست کی ہے کہ اسے نکالنے کے لیے چارٹرڈ طیارے کا بندوبست کیا جائے۔
اور وہ طلباء بھی ہیں ، جو ابھی تک یوکرین سے باہر نہیں نکل سکے ہیں ، ان کی کیا تعداد ہے، اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے ، مگر یہ ڈھائی تین ہزار سے کم نہیں ہیں۔ اور وہ طلباء بھی ہیں جو پولینڈ ،رومانیہ اور ہنگری وغیرہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر ایسے ہیں جو یوکرین سے ٹیکسی ، بس یا پیدل سفر کر کے کسی محفوظ مقام پر پہنچے ہیں اور ان کے پاس اب کوئی روپیہ پیسہ نہیں بچا ہے۔
سورج پال کی مثال لے لیں جو یوکرین سے ممبئی پہنچا ہے ، اس کا کہنا ہے کہ بہت سے طلباء ہیں جو سرحد پار کرنا چاہتے ہیں لیکن یوکرین کی فوج ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس کا استعمال کر رہی ہے اس لیے مارے ڈر کے وہ سب یوکرین ہی میں پھنسے ہوئے ہیں۔ سورج پال آٹھ گھنٹے پیدل چل کر رومانیہ پہنچا تھا، اس کا کہنا ہے کہ:
"ہماری حکومت کو چاہیئے تھا کہ سرحدوں پر کچھ اہلکاروں کو تعینات کر دیتی۔"
مطلب صاف ہے ، سورج پال جب یوکرین سے رومانیہ کی سرحد پر پہنچا تو ہندوستان کے سفارت خانے کا کوئی اہلکار وہاں موجود نہیں تھا۔
بھائندر کا ایک طلب علم عتیق احمد پولینڈ میں پھنسا ہوا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ جب 24/فروری کو صبح یوکرین میں اس کی آنکھ کھلی تو گولیاں چل رہی تھیں، اسے چار دن اپنی بلڈنگ کے بنکر میں رہنا پڑا ، پانچویں روز وہ تین کلو میٹر پیدل چل کر قریبی ریلوے اسٹیشن پہنچا ، وہاں سے لیو شہر کے لیے ایک ٹرین میں چڑھا اور 16 گھنٹے کھڑے کھڑے سفر کیا اور لیو پہنچا۔ وہاں سے وہ پولینڈ کی سرحد پار کرکے پولینڈ میں داخل ہوا۔ اس کے ہزاروں روپئے اسی میں چلے گئے، کہیں سے کوئی مدد نہیں ملی۔ سرحد پر کوئی بھارتی اہلکار موجود نہیں تھا۔
ممبئی کے مضافاتی علاقے پنویل کی رہنے والی پراچیتی پوار واپس تو آ گئی ہے لیکن یوکرین کی یاد اس کے لیے بڑی ہی ہولناک ہے۔ پراچیتی کا کہنا ہے کہ ہندوستانی سفارت خانے نے کوئی مدد نہیں کی ، اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ اور یوروپ کے بچے پہلے ہی یوکرین سے نکل گئے تھے۔ کیا ہندوستان کی مودی سرکار بھی یہ کام نہیں کر سکتی تھی، امریکہ اور یوروپ کی حکومتوں کی طرح ہندوستانی بچوں کو پہلے نکالنے کا کام ؟
یہ یکم مارچ کی خبر ہے ، دس ہندوستانی طلباء کا ایک گروپ جنگ زدہ کیف سے پیدل روانہ ہوا اور 32 گھنٹے مسلسل چل کر وہ رومانیہ پہنچا جہاں بخارسٹ میں طلباء کی باز آبادکاری کے ایک مرکز میں اسے پناہ ملی۔ اس گروپ کا کہنا ہے:
"ہندوستانی سفارت خانے نے ہمیں اللہ بھروسے چھوڑ دیا تھا۔"
دیپنشو گوتم ایم بی بی ایس کے تیسرے سال کا طالب علم ہے ، وہ بتاتا ہے کہ صرف 6 کلو میٹر کے سفر کے لیے 45 سو روپئے خرچ کرنا پڑے۔ وہ بتاتا ہے کہ:
"بھوک اور پیاس سے ہماری جان جا رہی تھی۔"
طلباء کے اس گروپ کے مطابق یوکرین کے فوجی، سرحد پر جمع ہجوم سے نمٹنے کے لیے ہوائی فائرنگ کر رہے تھے ، طلباء سے بدسلوکی کر رہے تھے اور ان کے ساتھ مارپیٹ کررہے تھے:
"ہم نے دیکھا کہ طلباء پیٹے جا رہے ہیں ، انہیں زمین پر گرا کر گھسیٹا جا رہا ہے ، ہم سب بہت ڈرگئے ، ہم سب سے بھی بدسلوکی کی گئی ہمیں بری طرح سے دھکے دیئے گئے ، مگر پھر بھی شکر ہے کہ ہم بری طرح مار کھانے سے محفوظ رہے۔"
رومانیہ میں وہاں کے شہری یوکرین سے آنے والوں کو کھانے پینے کی اشیاء تقسیم کر رہے تھے ، پناہ دے رہے تھے۔ یہ اور بات ہے کہ ہمارے وزیر ہوا بازی جیوترادیہ سندھیا نے یہ جتانے کی کوشش کی کہ یہ سب بھی ، یہ کھانا پینا، ان کی اور بھارتی سرکار کی طرف سے ہے۔۔۔ اور پھر رومانیہ کے میئر نے یہ کہہ کر ان کی بولتی بند کردی کہ:
"کھانے پینے اور ان طلباء کے رہنے کا انتظام ہم نے کیا ہے آپ نے نہیں۔"
مگر اس پر بھی کہاں شرم آئی ہے۔ اب بھی کریڈٹ لینے کی کوششیں جا رہی ہیں ، ہر جگہ یہ دعویٰ ہے کہ مودی نے کمال کر دکھایا ، ساری دنیا مودی کو مان گئی !
بس ایک سوال ہے مودی جی سے ، آخر یہ آپ کے راج میں بار بار بھارتی شہریوں کو یہ لمبے لمبے سفر وہ بھی پیدل کیوں طئے کرنا پڑ رہے ہیں ؟ ایک سوال مزید ہے ، جب آپ کو اپنی مرضی یا پسند کا کوئی کام کرنا ہوتا ہے تو جھٹ کر بھی دیتے ہیں اور اس کے نتائج پر غور کیئے بغیر اس کا اعلان بھی ہو جاتا ہے ، بھلا ان بچوں کو جھٹ پٹ لانے کا کیوں نہیں سو چ لیا تھا ؟
آپ نے جھٹ نوٹ بندی کا اعلان کیا اور سارے ہندوستانیوں کو سڑکوں پر لا کھڑا کر دیا ، لمبی لمبی قطاریں لگوا دیں۔ آپ نے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا اور سارے ہندوستانی سڑکوں پر آگئے ، ہزار ہزار کلو میٹر دور تک کا سفر طے کیا۔ اور اب یہ بیچارے طلباء ، یہ تو اپنے ملک سے باہر ہیں ، انہیں تو طویل مسافت کے پیدل سفر سے بچا لیا ہوتا!
بھلا بار بار اپنے ہی شہریوں کے ساتھ آپ یہ کیوں کر رہے ہیں ؟ پتہ ہے کہ آپ الیکشن میں مصروف ہیں۔ اور یہ بھی پتہ ہے کہ روس-یوکرین جنگ کو آپ الیکشن میں بھنانے کے لیے کوشاں ہیں ، آپ ووٹروں سے کہہ رہے ہیں کہ داروغہ مضبوط چاہیئے جیسے کہ پوتن۔
پوتن کے نام پر ووٹ مانگے جارہے ہیں ، لیکن پوتن میں اور آپ میں ایک بڑا فرق ہے ، صدر روس نے اپنے شہریوں کو نہ غیر محفوظ رکھا نہ مصیبت میں ڈالا ، آپ نے تو یوکرین میں اپنے شہریوں کو ، وہ بھی طلباء کو بے یار و مددگار چھوڑے رکھا ، جب جنگ تیز ہوئی ، والدین نے شور مچایا تب آپ کی حکومت حرکت میں آئی۔
مضبوط داروغہ عمل سے ہوتا ہے صرف یہ کہنے سے نہیں کہ چھاتی 56 انچ کی ہے !
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں