حجاب پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے نے مسلمانوں میں ایسی ہی بے چینی پیدا کردی ہے جیسی برسوں پہلے شاہ بانو معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے سے پیدا ہوئی تھی۔جس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے کو شریعت میں مداخلت قرار دیا گیا تھا، اسی طرح ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کو دین میں مداخلت اور اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح سے تعبیر کیا جارہا ہے۔عدالت عالیہ نے طویل بحث ومباحثے کے بعد اپنے حتمی فیصلے میں حجاب کو اسلام کا لازمی جز تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر عائد کی گئی پابندی کو برقرار رکھتے ہوئے عدالت نے کہا ہے کہ:
"اسکول کی وردی کا ضابطہ ایک مناسب پابندی ہے جو آئین سے تسلیم شدہ ہے۔ اس پر طالبات اعتراض نہیں کرسکتیں۔"
چیف جسٹس رتوراج اوستھی، جسٹس نیائے مورتی اور جسٹس جی ایم قاضی کی بنچ نے اس سلسلہ میں دائرکی گئی تمام عرضیاں بھی خارج کر دیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ یکم جنوری کو کرناٹک کے شہر اڈپی کے ایک پری یونیورسٹی کالج کی چھ طالبات نے حجاب پہن کر کلاسوں میں داخل ہونے سے روکے جانے پر احتجاج کیا تھا۔ بعدازاں معاملے کے طول پکڑنے کے بعد کرناٹک سرکارنے ایسے کپڑے پہننے پر پابندی لگادی تھی جس سے اسکول اور کالج میں یکسانیت اوریکجہتی متاثر ہوتی ہے یا امن عامہ میں خلل پڑتا ہے۔ مسلم طالبات نے اس حکم نامہ کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیا تھا' جس پر فیصلہ ان کے خلاف آیا ہے۔عدالت عالیہ نے اس معاملے کو طول دئیے جانے پر اپنی ناراضگی ظاہرکرتے ہوئے کہا کہ "جس طریقے سے حجاب تنازعہ سامنے آیا ہے، اس سے اس بحث کو تقویت ملتی ہے کہ کچھ 'نادیدہ ہاتھ' سماجی امن اور ہم آہنگی کو بگاڑنے کے درپہ ہیں۔" قابل ذکر بات یہ ہے کہ عدالت عالیہ نے حجاب کے خلاف فیصلہ سناتے وقت ان عناصر کے بارے میں کچھ نہیں کہا جو اس معاملے میں خدائی فوجدار بن کر سامنے آئے تھے اور جنھوں نے کالج کی طالبات اورانتظامیہ کے درمیان ایک قضیہ کو ہندومسلم تنازعہ بناکر فرقہ وارانہ منافرت پھیلائی اور عین اسمبلی انتخابات کے درمیان اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھی کوشش کی۔
یہ بات اب عام ہوچکی ہے کہ جب بھی مسلمانوں یا اسلام سے متعلق کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو ملک میں سرگرم فاشسٹ عناصر مسلمانوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس ملک کی سب سے بڑی بدقسمتی ہے کہ ایسے ہر موقع پر سرکاری مشنری اور کسی حد تک انصاف قایم کرنے والے ادارے بھی فسطائی عناصر کے شانہ بشانہ کھڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔اس معاملے میں بھی بالکل ایسا ہی ہوا ہے۔ جب مسلم طالبات حجاب پہننے کے اپنے دستوری حق پر زور دے رہی تھیں تو فرقہ پرست عناصر بھگوا شال اور رام نامی دوپٹے پہن کر کالجوں میں داخل ہوئے اور مسلم طالبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ اس دوران ایک طالبہ مسکان نے جب بھگوا دھاری طلباء کے 'جے شری رام' کے نعروں کے درمیان 'نعرہ تکبیر' بلند کیا تو ملک میں ایک عجیب وغریب صورتحال پیدا ہوگئی اور یہ طالبہ مسلم طالبات کے لیے ایک رول ماڈل بن گئی۔ کئی ملی تنظیموں نے اس پر لاکھوں کے انعام کی بارش کردی اور اسے سرپربٹھایا۔اس طرح حجاب کے مسئلہ نے اتنا طول پکڑا کہ ملک کے دیگر حصوں میں بھی باحجاب طالبات کا اسکولوں میں داخل ہونا مشکل ہوگیا۔ جگہ جگہ ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں اور انھیں بے حجاب کرنے کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے تازہ فیصلے کے بعدحجاب کے خلاف محاذ آرائی میں کئی گنا اضافہ ہوگیاہے، کیونکہ اس فیصلے کو ملک گیر سطح پر نافذ کرنے کی کوشش ہورہی ہے۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پرتمام ہی مسلم جماعتوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ "عدالت عالیہ کا فیصلہ اسلامی تعلیمات اور شرعی احکامات خلاف ہے۔ یہ فیصلہ دستور کی دفعہ 15 کی بھی خلاف ورزی ہے، جو مذہب،نسل، ذات پات اورزبان کی بنیاد پر ہرقسم کی تفریق کے خلاف ہے۔" پرسنل لاء بورڈ نے مزید کہا ہے کہ"جو احکام یا فرض واجب ہوتے ہیں، وہ لازم ہوتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی گناہ ہے۔ اس لحاظ سے حجاب ایک لازمی حکم ہے۔ اگر کوئی اس پر عمل نہ کرے تو اسلام کے دائرے سے نہیں نکلتا، لیکن وہ گناہ گار ہوتا ہے۔ اس وجہ سے یہ کہنا درست نہیں ہے کہ حجاب اسلام کالازمی حصہ نہیں ہے۔"مسلم پرسنل لاء بورڈ کے بیان کاقابل ذکر حصہ وہ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بہت سے مسلمان اپنی کوتاہی اور غفلت کی وجہ سے روزے اور نماز سے دور ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ نماز اور روزہ لازم نہیں ہیں۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے اس بیان سے واضح ہوتا ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کے بہت سے مسائل دین سے دوری کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عدالت میں حجاب پر طویل بحث کے دوران مسلمانوں کی بے عملی اور دین سے دوری کی بھی متعدد مثالیں پیش کی گئیں۔ اگر واقعی اس ملک میں مسلمان اپنی زندگی دینی شعائر کے تحت گزار رہے ہوتے تو کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے میں اس کا عکس صاف نظر آتا، لیکن جیسا کہ پرسنل لاء بورڈ نے کہا ہے کہ مسلمانوں کی بے عملی یا بے دینی کو شرعی احکام میں مثال نہیں بنایا جاسکتا، اس لیے دین کی غلط تشریح ناقابل قبول ہے۔اس معاملے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ یونیفارم مقرر کرنے کا حق اسکولوں کی حد تک ہے اور جو معاملہ ہائی کورٹ گیا ہے وہ اسکول نہیں بلکہ کالج کا تھا، اس لیے ضابطہ کے مطابق انتظامیہ کو اپنی طرف سے یونیفارم نافذ کرنے کا حق نہیں تھا۔
کرناٹک ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کو سپریم کورٹ میں ایک طالبہ کی طرف سے چیلنج کردیا گیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ میں اس معاملے کے فیصل ہونے تک صورتحال کیا رخ اختیار کرتی ہے۔باشعور لوگوں کا یہی کہنا ہے کہ اڈپی کالج کی طالبات اور انتظامیہ کے درمیان حجاب پر جوتنازعہ تھا، اسے کچھ سمجھدار لوگوں کو مقامی طورپر ہی گفتگو سے حل کرلینا چاہئے تھا۔ اس معاملہ میں کیمپس فرنٹ جیسی تنظیم کی شمولیت بھی بہت سے سوالوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر یہ معاملہ بات چیت سے حل ہوجاتا تو یقینا نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مسلمانوں کے شدید ردعمل اور احتجاج کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اب ان کی انرجی اسی طرح سڑکوں پر ضائع ہوگی جس طرح شاہ بانو معاملے میں ہوئی تھی۔
اس احتجاج کا نتیجہ حالانکہ پارلیمنٹ سے مسلم مطلقہ قانون کی صورت میں برآمد ہوا تھا جسے مسلمانوں نے اپنی بہت بڑی کامیابی قرار دیا تھا مگر المیہ یہ ہے کہ عدالتیں آج بھی اس قانون کے خلاف فیصلے صادر کررہی ہیں۔ لوگ اس بات کو بخوبی سمجھتے ہیں کہ فرقہ پرست اور فسطائی طاقتیں اس ملک میں مسلمانوں کو یونہی الجھاکر رکھنا چاہتی ہیں اوران کی شدیدخواہش یہی ہے کہ مسلمانوں کی قوت یونہی احتجاج کرتے ہوئے ضائع ہوجائے تاکہ وہ کوئی مثبت اور تعمیری کام کرکے سرخرو نہ ہوسکیں۔ بہرحال اس کی تحقیق بے حد ضروری ہے کہ فسطائی ٹولہ کے اس ایجنڈے کو تکمیل تک پہنچانے میں ہمارے اپنے کون کون شریک ہیں اور انھیں غذا کہاں سے مل رہی ہے؟ہماری رائے میں حجاب معاملے کو عدالت میں لے جانا سب سے بڑی غلطی تھی اور ایسا کرکے مسلمانوں نے اپنے لیے ایک بڑی پریشانی کھڑی کرلی ہے۔
معصوم مرادآبادی |
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں