صحرا میں اذاں - جامعہ اکل کوا مہارشٹرا - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-06

صحرا میں اذاں - جامعہ اکل کوا مہارشٹرا

jamia-akkalkuwa-nandurbar-district-maharashtra

اگر کوئی آپ سے یہ کہے کہ آسودہ شہر کی آرام دہ زندگی کو چھوڑ کر میلوں دور ایک ایسے صحرا میں جا کر گزر بسر کیجئے جہاں دور تک پینے کا صاف پانی میسر نہ ہو، جہاں چاروں طرف سے سیاہ گرد اُڑ کر آتی ہو، جہاں کوئی دور دور تک اپنا ہم مشرب نظر نہ آتا ہو، جہاں کے رہنے والوں کے چہرے مانوس نہ ہوں، جہاں تہذیب و تمدن کا کوئی گزر نہ ہو،جہاں کوئی کوچہ و بازار نہ ہو، جہاں کی آبادی کا بڑا حصہ خشک اونچے پہاڑوں پر آباد آدی باسیوں پر مشتمل ہو اورجہاں تھوڑے بہت آباد مسلمان خود لفظ مسلمان کا مطلب ہی نہ سمجھتے ہوں۔ ۔ ۔ مختصر یہ کہ جہاں انسانی دلچسپی کا کوئی سامان نہ ہو تو آپ وہاں آخر کس خواہش کے تحت جاکر بسنا چاہیں گے؟


آخر ایسی بے کیف بلکہ بد مزہ زندگی کو کوئی کیوں اپنائے گا؟ لیکن میں ایک ایسی شخصیت سے مل کر آ رہا ہوں کہ جس نے چار دہائی قبل آرام دہ شہری زندگی کو چھوڑ کر اس بے کیف زندگی کو اختیار کر لیا تھا۔ لیکن اس بے سر و سامانی کے عالم میں بھی اس نے جو علمی، تعلیمی، سماجی اور فلاحی کارنامہ انجام دے دیا ہے اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔


پچھلے ہفتہ سورت سے سڑک کے راستے پونے چار گھنٹے کی مسافت پر آباد مہاراشٹر کے گاؤں "اکل کوا" جانے کا موقع ملا۔ یہاں دینی اور عصری علوم کا مشہور ادارہ "جامعہ اشاعت العلوم" قائم ہے۔ جنہیں اس ادارہ کی خدمات کا علم ہے "اکل کوا" کا نام آتے ہی ان کی آنکھوں کے سامنے ایک ایسی یونیورسٹی کا منظر گھوم جاتا ہوگا جو شاید اکل کوا کے علاوہ ہندوستان میں کسی دوسرے مقام پر قائم نہیں ہوئی۔


اس ادارہ کی ابتدا ایک استاذ اور چھ بچوں سے ہوئی تھی۔ آج اس ادارہ کے احاطہ میں 16 ہزار طلبہ دینی اور عصری علوم حاصل کر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے دوسرے حصوں میں اس ادارہ کے زیر اہتمام جو مکاتب، مدارس، اسکول اور کالج چل رہے ہیں ان میں سات ہزار سے زائد اساتذہ اور دو لاکھ کے قریب طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ ہسپتال، ووکیشنل سینٹرس اور دوسرے فلاحی ادارے الگ ہیں۔


میں نے مولانا غلام محمد وستانوی کا نام اس وقت سنا تھا جب کوئی ڈیڑھ دہائی قبل انہیں دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوری نے دارالعلوم دیوبند کا مہتمم نامزد کیا تھا۔ اس نامزدگی پر افریقہ اور دوسرے ملکوں میں آباد گجرات کے بڑے تاجروں اور عطیہ دہندگان نے خوشی کا اظہار کیا تھا لیکن دیوبند میں کچھ حلقوں نے ان کے خلاف مہم چھیڑ دی تھی۔ یہ صورتحال دیکھ کر مولانا وستانوی نے اپنے قدم پیچھے کھینچ لئے تھے۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ آخر جب وہ پہلے سے ہی خود اپنے قائم کردہ ادارے کے مہتمم ہیں تو کیوں انہیں دارالعلوم دیوبند کا مہتمم نامزد کیا گیا اور کیوں بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کے انتخاب پر خوشی کا اظہار کیا۔
شاید یہ وجہ ہو کہ غیر ممالک میں آباد گجرات کے بڑے عطیہ دہندگان ان کا بہت احترام کرتے ہیں اور دوسرے مدارس کے حق میں ان کی سفارش کو بخوشی قبول کرتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کی رائے تھی کہ انہوں نے جو ادارے خود جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا میں قائم کردئے ہیں اور جو نظام تعلیم وہاں قائم کردیا ہے وہی اب دارالعلوم دیوبند میں بھی قائم کریں گے۔


اس سفر میں مولانا وستانوی سے پہلی غیر مشافہ ملاقات فجر کی نماز کے بعد بہت دور سے ہوئی جب وہ حلقہ اور ذکر الہی میں مصروف تھے۔ 85 ایکڑ قطعہ زمین پر تعمیر جامعہ اشاعت العلوم کے احاطہ میں چار بڑی مساجد ہیں۔ مولانا کے بڑے صاحبزادے مولانا حذیفہ وستانوی نے بتایا کہ ان کے ادارہ کے پاس کل سات سو ایکڑ زمین ہے۔ ادارہ کا تمام تعلیمی نظام مولانا حذیفہ وستانوی ہی دیکھتے ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی اویس وستانوی دیگر امور کی دیکھ ریکھ کرتے ہیں۔ جس مسجد میں، ہم نے نماز ادا کی اس کے کلیدی ہال میں ساڑھے تین ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔ بھری مسجد میں فجر کی سنت اور فرض کے درمیان جب بڑی عمر کے طلبہ قدرے آواز کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے ہیں تو ایک عجیب روحانی منظر ہوتا ہے۔


یہاں تجوید و قرات کے ساتھ قرآن پاک کی تعلیم و تفسیر کو اولیت دی جاتی ہے۔ باقاعدہ ایک بہت بڑی عمارت میں دارالقرآن قائم ہے۔ اس کا نظام بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ نوٹس بورڈ پر ہر دن کی تازہ معلومات درج ہوتی ہے کہ آج کتنے بچے درجات میں حاضر ہیں، کتنے غیر حاضر، چھٹی پر یا بیمار ہیں، کتنے اساتذہ حاضر ہیں، غائب یا بیمار یا رخصت پر ہیں۔ مرکزی مسجد سے متصل ایک کثیر منزلہ چوکور عمارت ناظرہ اور ابتدائی درجات کیلئے ہے جہاں چھ ہزار چھوٹے بچے پڑھتے ہیں۔ ان کی رہائش اور نمازوں کی ادائیگی کا نظم اسی عمارت میں ہے۔


اس ادارہ میں جو مختلف تعلیمی و تربیتی پروگرام چلتے ہیں ان کی تفصیل بہت زیادہ ہے۔ لیکن اس میں ایک شعبہ "علّمَ بالقلم" قابل ذکر ہے۔ اس شعبہ میں قرآن پاک حفظ کرنے والے ہر بچہ کو لازمی طور پر عربی خطاطی اور ابتدائی قاعدہ کے ساتھ ساتھ قرآن پاک تحریر کرنے کا فن سکھایا جاتا ہے۔ میں نے بچوں کے لکھے ہوئے کئی مجلّد نسخوں کا مشاہدہ کیا۔ یہ نسخے بچے اپنے گھر لے جاتے ہیں۔
اس ادارہ کا مرکزی دارالحدیث بھی دیکھنے کے لایق ہے۔ یہاں ایک ہزار سے زیادہ طلبہ بیٹھ کر درس حاصل کرتے ہیں۔ بخاری شریف کا درس مولانا حذیفہ وستانوی دیتے ہیں۔ وہ خود اپنے ہی لاء کالج سے قانون کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔


جامعہ کے وہ طلبہ جو عالمیت، فضیلت اور افتاء کا کورس کرتے ہیں وہ سرکاری ادارہ این آئی او ایس کے ذریعہ بارہویں کا امتحان بھی پاس کر لیتے ہیں۔ اب اگر وہ چاہیں تو جامعہ کے مختلف کالجوں سے حسب منشا پاس، آنرس، ٹکنکل، میڈیکل اور طب یونانی کے کورسز بھی کر سکتے ہیں۔ جامعہ نے ایک بہت وسیع وعریض رہائشی پرائمری اور ہائی اسکول بھی تعمیر کیا ہے۔ اور یہی ایک اسکول نہیں ہے، متعدد اسکول ہیں۔


دینی اور دنیاوی علوم کا ایسا امتزاج پیدا کیا گیا ہے کہ سڑک کے ایک طرف مدرسے اور دوسری طرف کالجوں کی عمارتیں ہیں۔ درمیان میں پہاڑوں کے سلسلے 'ست پڑا' کی طرف جانے والی شاہراہ ہے۔ یہاں چاروں طرف آدی باسی قومیں آباد ہیں۔ یہی شاہراہ گجرات کے اس مقام تک پہنچ جاتی ہے جہاں حکومت کے ذریعہ ساڑھے تین ہزار کروڑ روپیہ خرچ کرکے 'اسٹیچو آف یونٹی' کھڑا کیا گیا ہے۔
اکل کوا گاؤں کی کل آبادی 12 ہزار ہے۔ یعنی اس سے بڑا گاؤں تو جامعہ اشاعت العلوم میں آباد ہے جہاں 16 ہزار طلبہ ہیں۔ مولانا وستانوی نے کتنی باریک بینی سے ماڈرن تکنیک سے فائدہ اٹھایا ہے اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کی پنج وقتہ وضو میں استعمال شدہ پانی کو محفوظ کرکے باغبانی کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔


مولانا غلام وستانوی نے 70 کی دہائی کے اواخرمیں فراغت کے بعد گجرات کے کنتھاریہ میں ایک مدرسہ میں پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ وہاں انہیں اکل گوا کے کچھ طلبہ ملے جن سے مولانا کو اندازہ ہوا کہ اکل کوا میں تبلیغ و اشاعت دین کی سخت ضرورت ہے۔ یہاں آباد مسلمانوں کو اسلام کا کچھ اتہ پتہ ہی نہیں تھا۔ اس دور افتادہ گاؤں میں مولانا نے ہر ہفتہ دعوت کا کام شروع کر دیا۔ ایک مسجد تعمیر کرکے چھوٹا سا مکتب بھی قائم کر دیا۔ ایک استاذ کو درس و تدریس کی ذمہ داری سونپی اور ہفتہ میں ایک دن خود آ کر نگرانی کرنے لگے۔ لیکن آخر کار انہیں سب کچھ چھوڑ کر اپنے اہل خانہ کے ساتھ یہاں آ کر آباد ہونا پڑا۔


اس گاؤں میں آج بھی بجلی آتی جاتی رہتی ہے۔ علاقہ کی پسماندگی کا حال یہ ہے کہ اس گاؤں کے صدر مقام اور ضلع نندور بار میں بھی جامعہ کی ضرورت کی تمام اشیاء میسر نہیں ہیں۔نندور بار یہاں سے 45 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے۔ نندور بار سے ممبئی کا فاصلہ 8 گھنٹے کا ہے۔ بجلی کی فراوانی کا جامعہ کا اپنا انتظام ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں طلبہ کو ناشتہ اور دو وقت کا کھانا جس حسن انتظام سے تقسیم کیا جاتا ہے وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یہاں دنیا کا سب سے بڑا ڈائننگ ہال اور جدید ترین سہولیات سے آراستہ 'ماڈرن کچن' تعمیر ہو رہا ہے۔ اس ڈائننگ ہال کے بیچ میں کوئی ستون نہیں ہوگا۔ اس میں 12 ہزار طلبہ بیک وقت کھانا کھا سکیں گے۔ جب اس ہال کو کانفرنس کیلئے استعمال کیا جائے گا تو بیک وقت 25 ہزار سامعین اور ناظرین کے بیٹھنے کی گنجائش ہوگی۔


جامعہ میں حفظ اور ناظرہ سے لے کر عالمیت، فضیلت اور افتاء تک کے مختلف اداروں کے علاوہ رہائشی پرائمری اور ہائی اسکول، بی ایڈ اور ڈی ایڈ کالج، آئی ٹی آئی، پالی ٹیکنک کالج، فارمیسی کالج، یونانی کالج، لا کالج، میڈیکل کالج اور انجینئرنگ کالج بھی قائم ہیں۔ اکل کوا کے علاوہ دوسرے مقامات پر بھی درجنوں کالج قائم ہیں۔ لڑکیوں اور لڑکوں کیلئے الگ الگ ہاسٹل ہیں۔ ایک 300 بستروں پر مشتمل ہسپتال بھی ہے جس میں مفت علاج ہوتا ہے۔ یہاں ہر روز تین درجن سے زیادہ آپریشن ہوتے ہیں۔ کالج کے طلبہ کو بنیادی دینی تعلیم اور مدارس کے طلبہ کو بنیادی انگریزی، سائنس اور کمپیوٹر کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ یہاں پڑھانے والے استاذوں اور ان کے اہل خانہ کیلئے احاطہ کے اند رہی ساڑھے پانچ سو سے زیادہ کوارٹرس تعمیر کئے گئے ہیں۔ تمام اساتذہ یہیں مقیم رہتے ہیں۔


مولانا حذیفہ نے بتایا کہ کورونا اور لاک ڈاؤن کے دوران تمام اساتذہ ایک دن میں 100 بار قرآن اور 60 بار بخاری شریف کا ختم کرتے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ یہاں کورونا سے ایک بھی موت واقع نہیں ہوئی۔ جامعہ کے طلبہ کو ان کے گھروں تک پہنچانے کیلئے 6 اسپیشل ٹرینیں چلائی گئی تھیں۔


جامعہ کی طرف سے مختلف زبانوں میں مدرسے کے ترجمان اور دیگر دینی و اخلاقی رسائل و جرائد کی اشاعت کی جاتی ہے۔ ان کی سرکولیشن بھی ہزاروں میں ہے۔ جامعہ کے تحت مختلف سینٹر قائم کرکے خواتین کو سلائی کڑھائی اوردوسرے کام سکھائے جاتے ہیں۔ انہیں سلائی مشینیں بھی مفت دی جاتی ہیں۔ غریبوں کی ہمہ جہت مدد کے دوسرے بھی مختلف پروگرام جاری ہیں۔ جامعہ سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم پر بھی سرگرم ہے۔


جامعہ کا ایک کام مجھے سب سے زیادہ اچھا لگا۔ یہاں مفتیان کرام اور مجتہدین پر مشتمل باقاعدہ ایک شعبہ قائم کیا گیا ہے جہاں مسلمانوں کو نئے حالات میں پیش آنے والے مسائل کے قرآن و حدیث کی روشنی میں تحقیقی شرعی حل تجویز کئے جاتے ہیں اور ان تفصیلات کومختلف زبانوں میں کتابی شکل میں شائع کیا جاتا ہے۔ ایسے ایسے مسائل پر تحقیقی کام ہوا ہے کہ جو لوگوں کو ہر روز اور ہر میدان میں پیش آتے ہیں اور جن کا بظاہر کوئی شرعی حل موجود نہیں ہے یا ان مسائل میں مبتلا لوگوں نے ابھی تک مفتیان کی رائے معلوم نہیں کی ہے۔ اب تک ایسے سینکڑوں مسائل اور ان کے شرعی حل پر مشتمل کتابوں کے درجنوں نسخے شائع کئے جا چکے ہیں۔


مہاراشٹر کے جالنہ میں قائم جامعہ کا میڈیکل کالج آس پاس کی پانچ ریاستوں میں منظور شدہ واحد اقلیتی کالج ہے۔ یہاں ایم بی بی ایس میں داخلہ کیلئے بہت معمولی فیس پر 85 فیصد طلبہ کا انتخاب خود حکومت کرتی ہے۔ صرف 15 فیصد داخلوں کا اختیار جامعہ کو ہے۔ ہماری مشکل یہ ہے کہ ہم خود کام نہیں کرتے اور جو لوگ کام کرتے ہیں دور سے بیٹھ کر ان کی نیتوں پر سوال کھڑے کرتے ہیں۔ ادارے قائم کرنا اور پھر ان کو چلانا آسان نہیں ہے۔ ہمیں ملک بھر میں پھیلے ہوئے چھوٹے بڑے مدارس کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ یہ نہ ہوتے تو آج کوئی نمازجنازہ بھی پڑھانے والا نہ ملتا۔ ان مدارس کی وجہ سے بر صغیر کے گھروں میں اسلام زندہ ہے۔ کورونا جیسے عالمی حالات نے ان مدارس کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ۔ اپنے ارد گرد کے مدارس و مکاتب کی خبر لیجئے اور حسب استطاعت ان کی مدد کیجئے کہ اس وقت دین کی یہی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔


***
(بشکریہ: کالم ردعمل / روزنامہ انقلاب / 6 مارچ 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Jamia Akkalkuwa Nandurbar district Maharashtra - Column: M. Wadood Sajid.

1 تبصرہ:

  1. میں حافظ محفوظ الرحمن قاسمی بہیڑہ مدھو بنی بہار تعلق رکھتا ہوں
    میرے استاذ محترم حضرت مولانا عبد الحنان صاحب مرحوم اور حضرت مولانا محمد غلام وستانی صاحب دونوں
    دونوں ہم عصر تھے اور شاید دونوں درسی ساتھی بھی ہیں میری ملاقات مولانا غلام وستانوی اسوقت ہوئی تھی جب میں انکے ساتھی حضرت مولانا عبدالحنان صاحب مرحوم کا مدرسہ جامعہ اسلامیہ قاسمیہ دارالعلوم بالاساتھ سیتامڑھی میں عربی اول کا میں ریر تعلیم تھا اسی سال دارالعوام بالاساتھ کے کچھ طالب علم جامعہ اکل کواں کی جانب سے خیروا مدرسہ میں مسابقہ کا انعقاد کیا گیا تھا میں حصہ لیے تھے اور الحمد للہ کافی بچے کامیاب ہوئے تھے انھی بچوں کی حوصلہ افزائی کے لئے مولانا غلام وستانوی صاحب تشریف لائے تھے اسی وقت میری ملاقات مولانا غلام وستانوی صاحب سے ہوئی تھی
    اسی وقت سے میں جامعہ اکل کواں کی شہرت سن رہا ہوں جو کہ دینی اور دنیاوی علوم میں اچھے کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں
    چنانچہ میں بھی ادارے کی عمدہ تعلیمی سے متاثر ہوکر اپنے دو حافظ بھائی کو (جنکی عمر بارہ سے چودہ سال ہے) جامعہ میں داخلہ کروانے کا خواہشمند ہوں دور قرآن و عربی ساتھ ساتھ ادارے کے پرائمری اور ہائی اسکول کی تعلیم حاصل کرسکے
    فقط والسلام
    از قلم حافظ محفوظ الرحمن قاسمی بہیڑہ مدھو بنی بہار

    جواب دیںحذف کریں