سابق ریاست حیدرآباد (دکن) پر پولیس ایکشن کے نام سے ستمبر 1948 میں ہند یونین نے فوجی حملہ کیا تھا جسے "آپریشن پولو" کا نام دیا گیا۔ اس سانحے کے تمام تر مستند حقائق برسوں کی تحقیق و تدقیق، شبانہ روز کی جستجو و دوڑ دھوپ، واقعات کی چھان بین، عینی مشاہدوں، قدیم یادداشتوں، حکومتی اعلامیوں، نصف صدی قبل اور مابعد کے اخبارات و رسائل کی ورق گردانی اور معتبر ذرائع سے محمد مظہر الدین نے جمع کیے اور اسے کتابی شکل میں پیش کیا۔
اسی کتاب "زوالِ حیدرآباد اور پولیس ایکشن" کا پانچواں ایڈیشن، حیدرآباد دکن کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والے باذوق قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ تقریباً دو سو صفحات کی اس پی۔ڈی۔ایف فائل کا حجم صرف 9 میگابائٹس ہے۔
کتاب کا ڈاؤن لوڈ لنک نیچے درج ہے۔
اس کتاب کے مولف کا تعارف کراتے ہوئے خواجہ عبید اللہ (سابق رکن عاملہ مرکزی انجمن نوجوانانِ ملت) لکھتے ہیں ۔۔۔
ہند یونین کی طرف سے پولیس ایکشن کے فوری بعد، جبکہ حیدرآباد پر ہندوستانی فوج کا قبضہ ہو گیا تھا اور ہر طرف قتل و غارت گری، تباہی و بربادی کا بھیانک راج تھا، مسلم دشمنی کا جنون لاکھوں بےگناہ مسلمانوں کو تہ تیغ و تباہ تاراج کر رہا تھا، اس وقت آوازِ حق بلند کرنا گویا موت سے پنجہ آزمائی کرنے کے مترادف تھا۔
اس خوفناک ماحول میں محمد مظہرالدین (صدر مرکز انجمن نوجوانانِ ملت) نے 1949ء میں جیل سے اپنی رہائی کے فوری بعد جابرانہ طاقتوں کے خلاف سینہ سپر ہوتے ہوئے سیاسی اور مذہبی تقریروں کی شعلہ بیانی کے ذریعے حیدرآبادی مسلمانوں کے حوصلوں کو بلند کرنے میں مجاہدانہ کردار ادا کیا۔
محمد مظہرالدین، قائدِ ملت بہادر یار جنگ کے تربیت یافتہ نوجوان اور قائدِ رضاکاران جناب قاسم رضوی کے باڈی گارڈ دستے کے ایک سالار تھے۔ انہوں نے مختلف نمائندہ تنظیموں اور ریاستی جمیعت العلما ہند کے معتبر ذمہ داران کے ساتھ جدوجہد کرتے ہوئے مختلف ملی مسائل کو حل کرانے کا تاریخی کارنامہ انجام دیا، مثلاً: ہزاروں بیواؤں اور یتیموں کے امدادی کام، اغوا شدہ مسلم خواتین کی بازیابی، اجڑے ہوئے بےخانماں مسلمانوں کی باز آباد کاری، دار و گیر میں مبتلا مسلمانوں کی رہائی، مسلم عبادتگاہوں کا تحفظ، مسلم وقف بورڈ کا قیام وغیرہ۔
علاوہ ازیں ناموس رسالتؐ و قرآن اور اسلام پر منصوبہ بند رکیک حملوں اور شدھی تحریک کے فتنہ کے خلاف احتجاجی جلسوں اور جلوس کے ذریعے مسلم رائے عامہ کو متحرک کرتے ہوئے محمد مظہرالدین نے ان اسلام دشمن شیطانی فتنوں کے سدباب اور حکومت کے جبر و استبداد کے خلاف جو مجاہدانہ رول ادا کیا ہے، وہ ناقابل فراموش ہے۔ پولیس ایکشن کے بعد پہلی بار 1953ء میں منعقدہ "یومِ قائد ملت" کے عظیم الشان تاریخی جلسہ عام میں آپ کو ملی خدمات کے اعتراف میں "مظہرِ ملت" کا خطاب دیا گیا۔
مظہر ملت محمد مظہرالدین نے بڑی جانفشانی و تحقیق و جرات سے 'زوالِ حیدرآباد اور پولیس ایکشن' کے المناک حقائق کو، برصغیر ہند میں پہلی بار قلمبند کر کے برسہا برس سے جاری متعصبانہ پروپگنڈہ کو بےنقاب کر دیا ہے جو واقعتاً ایک اہم کارنامہ ہے۔
پولیس ایکشن کے بعد کا پرخطر اور خوفناک ماحول اکتوبر 1956ء تک برقرار رہا۔ نومبر 1956ء میں ریاست حیدرآباد کو تقسیم کر کے 'آندھرا پردیش' کا قیام عمل میں آیا اور یوں سابقہ حیدرآباد اسٹیٹ کانگریس اور اس کی مجلس عمل کے تخریب کار گروہ کی حکومت ختم اور بےدست و پا ہو گئی، جس کا ماقبل سقوط، آزاد حیدرآباد کے مسلم اقتدار اور رضاکاروں سے راست ٹکراؤ تھا۔
***
نام کتاب: زوالِ حیدرآباد اور پولیس ایکشن
مصنف و ناشر: محمد مظہر الدین
زیر اہتمام: حسامی بکڈپو، حیدرآباد۔ پانچواں ایڈیشن (سن اشاعت: 1984ء)
تعداد صفحات: 210
پی۔ڈی۔ایف فائل حجم: تقریباً 9 میگابائٹس
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Fall of Hyderabad and Police Action by Mohammad Mazharuddin.pdf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں