"دھت۔۔۔ دھت۔۔۔ ابے بھاگ۔۔۔ دھت۔۔۔ دھت۔۔۔ "
راکیش کتوں کو بھگا رہا تھا پھر بھی وہ ہٹنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے اور جب راکیش نے محسوس کیا کہ وہ ان کے درمیان گھر گیا ہے تو بے اختیار اس کے منہ سے چیخیں نکلنے لگیں۔۔۔
"ارے بچاؤ ۔۔۔ بچاؤ۔۔۔ "
لیکن راکیش سڑک کے نشیب میں تھوڑی دور تھا اس لیے جب تک راہ گیر اس کی مدد کو پہنچتے ایک کتے نے اس کے پیر کے پچھلے حصے میں کاٹ ہی لیا۔ کتے شاید اس کو بھنبھوڑ ہی ڈالتے لیکن کئی راہ گیروں کے بر وقت پہنچ جانے کی وجہ سے کتے بھاگ گئے اور راکیش مزید زخمی ہونے سے بچ گیا۔
"کیا ہوا تھا بھائی کیا بات تھی، اتنے سارے کتے" ایک راہ گیر نے متحیر کن لہجے میں دریافت کیا۔
" کچھ نہیں اچانک کتوں نے حملہ کر دیا تھا۔ میں اکثر یہاں کوڑا ڈالنے آتا ہوں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا۔ ۔ آج پتہ نہیں کیوں ایسا کیا۔ ۔ اور اب تعداد بھی زیادہ ہو گئی ہے۔ ۔ پہلے اتنے نہیں تھے" راکیش نے جواب دیتے ہوئے کہا
" زخم گہرا تو نہیں ہے " ایک دوسرے راہگیر نے پوچھا
" نہیں زیادہ گہرا تو نہیں ہے، بس پیر کے پچھلے حصے میں نرم گوشت میں دانت لگ گئے ہیں"
" درندے نرم گوشت ہی پکڑتے ہیں" ایک اور راہگیر نے کہا
" آپ لوگوں کا شکریہ۔۔۔ آپ لوگ وقت پر نہ آتے تو کتے مجھے نوچ ہی ڈالتے" راکیش نے سب کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا۔
" ٹھیک ہے اب جلد سے جلد آپ علاج کروائیں اور انجکشن لگوانا نہ بھولنا" ایک اور راہگیر نے کہا جو دیکھنے میں عمر دراز لگ رہا تھا۔
" بالکل ابھی جاکر انجکشن لگواؤں گا"
اس کے بعد سب اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ راکیش وہاں سے سیدھا اپنے اسپتال پہنچا، جہاں کوڑا اٹھانے پر وہ معمور تھا۔ پھر ڈاکٹر اے۔ ایس۔ پربھاکر سے مل کر تمام روداد سنائی۔ ڈاکٹر پربهاکر نے کچھ دوائیں اور انجکشن پرچہ پر لکھا اور اس کو دیتے ہوئے کہا
"ڈسپنسری میں جا کر یہ دوائیں لے لو، اور انجکشن لگوا لو، بالکل فکر نہ کرنا، کوئی ڈرنے کی بات نہیں ہے"
راکیش ڈاکٹر پربهاکر کو تب سے جانتا تھا جب وہ اس نرسنگ ہوم میں نہیں بلکہ ایک چھوٹی سی دکان میں بیٹھ کر مریض دیکھا کرتے تھے۔ راکیش پیسے کمانے کے لیے گاؤں سے شہر آیا تھا۔ اس کے بوڑھے والدین کی ذمے داری بھی اسی کے کندھے پر تھی۔ وہ یہاں اس شہر میں اپنے دوست دنیش کے بھروسے پر آیا تھا، دنیش یہاں کئی سالوں سے رہ رہا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ دنیش نے اس کے ساتھ وفا نہ کی ہو لیکن ان پڑھ ہونے کی وجہ سے اُسے کوئی اچھا کام نہ مل سکا اور تھک ہار کر دنیش نے راکیش کو رکشا چلانے کا مشورہ دیا اور ایک صاحب سے مل کر اس کو رکشا دلوا دیا۔ ابتدا میں دونوں ساتھ ہی رہتے تھے لیکن تھوڑی ناچاقی ہو جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کا ساتھ چھوڑ دیا۔ اس طرح راکیش تنہا رہنے لگا۔ راکیش کو رکشا چلاتے کئی سال ہو گئے تھے ایک بار وہ بہت بیمار ہو گیا اور علاج کے لیے ڈاکٹر اے ایس پربهاکر کی کلینک جا پہنچا اس طرح پہلی بار اس کی ملاقات ڈاکٹر پربهاکر سے ہوئی تھی۔
اُسے ڈاکٹر کا مزاج بہت پسند آیا تھا۔ ڈاکٹر کی خوش اخلاقی اور بات چیت میں اپنا پن محسوس ہوا تو باتوں باتوں میں اس نے ڈاکٹر کو اپنے بارے میں سب بتا دیا۔ ڈاکٹر کے پاس مریضوں کی آمد و رفت بھی کم تھی اس لیے باتوں کا وقت بھی زیادہ مل گیا۔ اُسے ڈاکٹر پربهاکر سے بہت انسیت ہو گئی تھی اس لیے جب بھی کوئی پریشانی ہوتی وہ ڈاکٹر کے پاس پہنچ جاتا اور وہ بھی اس سے مل کر خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے۔ دو سال پہلے کی بات ہے ایک روز گرمیوں کی دوپہر میں راکیش سر سے پیر تک پسینے میں ڈوبا ہوا کلینک جا پہنچا۔
پربهاکر نے بھی بڑی محبت سے اُسے بٹھایا، پانی پلایا۔ پھر تھوڑی دیر بعد مخاطب ہوا:
" اتنی گرمی میں جب کہ آسمان سے آگ برس رہی ہے۔ ہوائیں آگ کی لپٹیں معلوم ہو رہی ہیں۔ تم رکشا کیسے چلا لیتے ہو"
" چلا لیتے ہیں ڈاکٹر صاحب۔ آخر اس پاپی پیٹ کو بھی تو پالنا ہے"
" اچھا اگر میں تمہارے لیے کوئی دوسرا آسان کام بتاؤں تو تم کرو گے"
" وہ کیا ہے ڈاکٹر صاحب؟"
" میں ایک نرسنگ ہوم کھول رہا ہوں۔ اور وہاں کا کوڑا اٹھانے کی ذمے داری تمہاری۔ تم وہاں صاف صفائی نہیں کروگے۔ صاف صفائی کرنے والے کوڑا جمع کرکے رکھ دیں گے۔ تم بس اس کوڑے کو گاڑی پر لاد کر ندی کنارے جہاں کوڑا ڈالا جاتا ہے، وہاں اسے پھینک دینا ہوگا۔ بولو کرو گے"
" جی ڈاکٹر صاحب ضرور کریں گے"
" اور ہاں تم کو اس کے عوض پانچ ہزار مہینہ تنخواه اور اسی نرسنگ ہوم میں رہنے کے لیے ایک کمرہ بھی ملے گا"
" تب تو ہم ضرور کریں گے ڈاکٹر صاحب، یہ تو آپ کا بہت بڑا احسان ہے"
" یہ کمرہ میں اس لیے تم کو رہنے کے لیے دے رہا ہوں کہ تم وہاں کی دیکھ ریکھ بھی رکھو گے، اور یہ اس لیے کہ تم ایمان دار آدمی ہو"
" یہ تو آپ کا بڑا پن ہے ڈاکٹر صاحب"
" ٹھیک ہے، تو پھر کل تم اپنی تین چار فوٹو اور اپنا آئی ڈی کارڈ لے کر آ جانا"
اگلے دن صبح ہی راکیش اپنی فوٹو اور آئی ڈی کارڈ لے کر پہنچ گیا۔ ڈاکٹر نے کاغذات کی فوٹو کاپی کروا کر اپنے پاس رکھ لی، اور مزید دو تین کاغذات نکال کر ان پر راکیش سے انگوٹھا لگوا لیا اور وہ کاغذات اپنے پاس رکھتے ہوئے کہا۔
" اب تمہاری نوکری پکی ہو گئی"
راکیش بہت خوش تھا اسےاب جلتی دھوپ میں لوگوں کی گالیاں کھانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اب وہ نرسنگ ہوم میں ادھر اُدھر گھومتا، آرام کرتا اور وقت مقررہ پر کوڑا (جو اُسے بڑی بڑی تھیلیوں میں بھرا ہوا ملتا) گاڑی میں رکھتا اور ندی کی جانب روانہ ہو جاتا، یہی اس کا روزآنہ کا معمول تھا۔
لیکن آج کے اس واقعہ نے اسے ڈرا دیا تھا، ایسا نہیں تھا کہ اُس نے پہلی بار ان کتوں کو دیکھا تھا، وہ جب بھی کوڑا ڈالنے ندی کنارے جاتا وہاں ایک دو کتوں کو موجود پاتا۔ کچھ ہی دنوں میں اُن کی تعداد بہت زیادہ ہو گئی تھی لیکن اس کے باوجود بھی کتوں نے کبھی اس پر حملہ نہیں کیا۔ معلوم نہیں کہ آج ایسا کیا ہوا؟
" ہوگا کچھ۔ جانور ہیں، کبھی بھی پاگل ہو سکتے ہیں۔۔۔ اب احتیاط کریں گے اور ڈنڈا ساتھ لیکر جائیں گے"
ایسا سوچتے ہوئے وہ پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا۔
اُسے بڑی خوشی تھی کہ اتنی جلدی ڈاکٹر پربھاکر کے نرسنگ ہوم نے ترقی کی منزلیں طے کر لی تھیں۔ اس نے کہیں سنا تھا کہ ہر کامیاب آدمی کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے لیکن یہاں تو وہ دیکھ رہا تھا کی تین تین جوڑی ہاتھ ڈاکٹر کی کامیابی میں شریک تھے اس لیے کامیابی و کامرانی نے جلد ہی ڈاکٹر کا دروازہ دیکھ لیا تھا۔ مریضوں کی تعداد بہت بڑھ گئی تھی ہر وقت لوگوں کا آنا جانا لگا رہتا اس لیے راکیش کا کام بھی بڑھ گیا تھا، پھر بھی وہ بہت خوش تھا اور پوری ایمانداری سے اپنا کام انجام دیتا۔
لیکن ایک چیز اُسے ہمیشہ پریشان کرتی وہ یہ کہ اُن آنے جانے والے مریضوں میں کچھ مریض ایسے بھی ہوتے تھے جن کے چہروں پر کبھی کوئی خوشی محسوس نہیں ہوتی، چہرے کا جو رنگ یہاں آتے ہوئے دکھائی دیتا وہی رنگ بلکہ اس سے بھی گہرا سیاہ یہاں سے جاتے ہوئے دکھائی دیتا اُسے یوں محسوس ہوتا جیسے وہ علاج سے خوش نہیں ہیں۔ اس نے کئی بار سوچا کہ ڈاکٹر سے اس بارے میں بات کرے اور بتائیے کی اس سے نرسنگ ہوم کی شہرت میں کمی آ جائے گی۔ لیکن پھر اس کی ہمت نہ ہوئی۔ وہ بس اپنے کام میں مصروف رہتا اور مریضوں کو آتے جاتے دیکھتا رہتا۔
کبھی بڑی بڑی گاڑیوں میں مریضوں کو لایا جاتا اور کبھی آٹو رکشا یا رکشا وغیرہ میں، وہ ہر طرح کے مریضوں کو آتے جاتے دیکھتا لیکن چہروں کا وہی رنگ نہ آنے میں خوشی نہ جانے میں مسرت۔ اُن آنے جانے والے چہروں میں کئی بار اُسے آشنا چہرے بھی دکھائی دیے جن کو اکثر اس نے خوش فعلیاں کرتے ہوئے اس پارک میں دیکھا تھا جہاں دوپہر میں وہ کچھ دیر آرام کرنے کے لیے درختوں کے نیچے رکشا کھڑا کر کے لیٹ جایا کرتا تھا، ان کو دیکھ کر کتنی ہی دفعہ اس کو یہ خیال آیا تھا کہ ترقی نے انسان سے کتنا کچھ چھین لیا ہے، انسان نے ترقی تو حاصل کر لی، لیکن اس کی قیمت ضمیر دے کر ادا کی ہے، وہ اُن کو دیکھ کر سوچتا کہ اگر تعلیم کا راستہ اس منزل سے گزرتا ہے تو وہ ان پڑھ ہی ٹھیک ہے، اور پھر وہ اپنا رکشا لے کر اپنی راہ ہو لیتا۔ وہ اُن آشنا چہروں کو دیکھتا ماضی کو یاد کرتا اور اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔
آج بھی وہ اپنے روزمرہ کے کاموں میں مصروف تھا کہ دو تین گاڑیاں آ کر رکیں اُن میں سے کئی افراد پولیس کی وردیاں پہنے نکلے اور جلدی جلدی نرسنگ ہوم میں داخل ہو گئے، وہ بھی ان کے پیچھے اندر داخل ہوا، اس نے دیکھا کہ ان لوگوں نے ڈاکٹر پربھاکر کا کیبن پوری طرح گھیر لیا تھا اور اُن میں سے دو وردی والے اندر کیبن میں داخل ہو گئے تھے۔ جو عہدے میں باقیوں سے اعلیٰ معلوم ہو رہے تھے۔ تھوڑی دیر سنّاٹا رہا، پھر وہ باہر نکلے اور اُن میں ایک نے زور دار آواز میں وہاں موجود لوگوں سے کہا۔
" راکیش کون ہے"
" جی صاحب میں ہوں"
راکیش کے اتنا کہتے ہی دو سپاہی اس کی طرف بڑھے اور اُن میں سے ایک نے کہا:
" ہم تمہیں یہاں غیر قانونی اسقاط حمل اور کوں؎کھ میں پل رہے بچوں کی جنس کی جانچ کر کے ان کو مارنے کے جرم میں حراست میں لیتے ہیں"
"لیکن میں نے کیا کیا۔ مجھے تو کچھ نہیں معلوم" راکیش نے ملتجیانہ نظروں سے حیرت زدہ آواز میں کہا۔
"بہت بھولا بنتا ہے، نرسنگ ہوم کا مالک ہوتے ہوئے بھی ایسی حالت بنا کر رکھتا ہے کہ کوئی شک نہ کرے اور ڈاکٹروں کو پیسوں کے دم پر ایسا ذلیل کام کرنے پر مجبور کرتا ہے، سیدھی طرح چل ورنہ اور بھی طریقے ہیں"
اتنا کہتے ہوئی ایک سپاہی نے اس کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں اور راکیش کو کھینچتے ہوئے لے کر چل دیا۔
مرسلین سخی ندوی
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی لکھنؤ کیمپس، ملت نگر، فیض اللہ گنج، لکھنؤ۔
Email: jmursleen[@]gmail.com
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں