مسلم بورڈنگ ہاؤس الہ آباد - مولوی سمیع اللہ خان کی فکر رسا کا عملی نمونہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-03-10

مسلم بورڈنگ ہاؤس الہ آباد - مولوی سمیع اللہ خان کی فکر رسا کا عملی نمونہ

muslim-boarding-house-allahabad

ہندوستان میں ان دنوں آزادی کا امرت مہوتسو منایا جا رہا ہے۔ اس اتسو کو منانے کا خاص مقصد آزادی کے ان جانبازوں کو یاد کرنا ہے جنھوں نے دامے درمے قدمے سخنے کسی بھی صورت ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرانے میں اپنا کردار ادا کیا۔ ان دنوں قوم کی تعلیمی ابتری کی جانب بھی دانشوروں کی نگاہ گئی اور انھیں محسوس ہوا کہ تعلیم حاصل کئے بغیر زمانے کا ساتھ نہیں دیا جا سکتا۔ اس لئے ان لوگوں نے ابنائے قوم کے درمیان تعلیم کے انتشار کو اپنا مقصد بنایا اور مختلف صورتوں میں اس میدان میں اپنی شراکت درج کرائی۔ قوم و ملت کی بہبود کی خاطر فکر مند ایک نام مولوی سمیع اللہ خان کا ہے جنھوں نے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کی بنیادی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے شہر الٰہ آباد میں ایک ہاسٹل قائم کیا جسے ہم "مسلم بورڈنگ ہاؤس" کے نام سے جانتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں مولوی سمیع اللہ خان کا یہ ایک منفرد کارنامہ ہے جسے سنہری حروف میں لکھا جانا چاہئے۔


مسلم بورڈنگ ہاؤس الہ آباد یونیورسٹی کا ایک ہاسٹل ہے جو عموماً ایم بی ہاؤس کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس کا قیام 1892ء میں عمل میں آیا اور جنگ بہادر مولوی سمیع اللہ خان ، سب جج علی گڑھ اس کے بانی ہیں۔ یوں تو الٰہ آباد یونیورسٹی نے ایک اسپیشل ایکٹ کے تحت 1921ء سے آزادانہ طور پر کام کرنا شروع کیا مگر یہاں تک پہنچنے کے لئے اسے تقریباً نصف صدی کا سفر طے کرنا پڑا۔
شہر الٰہ آباد کو انگریزوں کے وقت میں مرکزی حیثیت حاصل رہی لہٰذا انھوں نے اپنے بچوں کی تعلیم کے لئے یہاں اسکول قائم کر لئے تھے۔ بوایز ہائی اسکول 1864ء میں اور سینٹ جوزف اسکول 1884ء میں شروع کئے جا چکے تھے۔ میورآباد نام سے ایک بستی بسا دی گئی تھی۔ اس کے بعد اعلیٰ تعلیم کا مسئلہ درپیش تھا۔ محمڈن اینگلو اورینٹل کالج ، علی گڑھ کا قیام عمل میں آ چکا تھا۔ کلکتہ ،بامبے اور مدراس یونیورسٹیز اپنے وجود کا لوہا منوا رہی تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی اور اس کے اورینٹل ڈپارٹمنٹ کا شہرہ چاروں طرف تھا۔ ایک بڑی دقت جو سامنے تھی وہ یہ تھی کہ کلکتہ اور پنجاب کے درمیان لمبا فاصلہ تھا اور اعلیٰ تعلیم کے مراکز کا فقدان تھا۔ مشہور مؤرخ آوریل پاول کے مطابق سر سید احمد خاں اور لفٹننٹ گورنر سر ولیم میور کے درمیان اس سلسلے میں تبادلۂ خیال ہوا جس کے مدنظر سر ولیم میور ( 27 اپریل1819ء تا 11 جولائی 1905ء ، لفٹننٹ گورنر، نارتھ وسٹ پراونس) نے 1872ء میں ایک سنٹرل کالج کی شروعات کی جو بعد میں میور سنٹرل کالج کہلایا۔ جولائی 1872ء میں اس کا پہلا سیشن انڈین پریس کی بلڈنگ میں شروع ہوا۔ مولوی ذکاء اللہ کا تقرر ورناکیولر سائنس اور لٹریچر کے پروفیسر کی حیثیت سے ہوا جو عربی فارسی اور ریاضی پڑھاتے تھے۔ پنڈت آدتیہ رام بھٹاچاریہ سنسکرت اور مسٹر ڈبلیو ایچ رائٹ انگلش کے پروفیسر بنائے گئے۔ 1880ء تک اس کالج نے شمالی ہندوستان کے سب سے اچھے ادارے کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر لی تھی۔ ولیم میور نے محمڈن اینگلو اورینٹل کالج کے قیام میں بھی خاصی دلچسپی دکھائی تھی۔ مولوی سمیع اللہ سے بھی ان کے مراسم تھے جو بعد میں مسلم بورڈنگ ہاؤس کے قیام میں معاون ثابت ہوئے۔


انیسویں صدی اپنے آغاز سے ہی مسلمانوں کے لئے مذہبی ،فکری اور قومی سطح پر انتہائی کشمکش کی صدی رہی۔ سیاسی تنزل بھی پوری طرح اسی صدی میں رونما ہوا۔ مگر ابتری کی انتہا سے ہی بہتری کی ابتدا بھی ہوئی۔ شیخ محمد اکرام مؤلف 'موج کوثر' کے مطابق مذہبی احیاء، سیاسی ارتقاء، ملی نشو و نما اور معاشرتی اصلاح کا آغاز بھی اسی زمانے میں ہوا۔ انتہائی نامساعد حالات میں تعمیری کام ہوئے۔ مسلمانوں کی تعلیم کے لئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، ندوۃ العلماء، دارالمصنفین جیسے اداروں کا قائم ہونا اس کی مثال ہے۔
شاہ ولی اللہ ایک فکر لے کر نمودار ہوئے تو اقبال نے ان کی فکر کو آگے بڑھایا۔ دراصل ساری کشمکش قدیم و جدید رویوں کو لے کر تھی۔ جب کہ ضرورت اس بات کی تھی کہ معتدل فکر و نظر اپنایا جاتا۔ مغربی تمدن کی تمام خوبیاں اسلام کی خالص روح کو نقصان پہنچائے بغیر اپنائی جا سکتی تھیں۔ اپنے ماضی سے جڑ کر کشادہ ذہنی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں پوری کی جا سکتی تھیں۔
مسلمانوں کی پریشانی اقتصادی تو تھی ہی ساتھ ہی ذہنی پستی ان کا پیچھا کر رہی تھی۔ اس پر طرہ یہ کہ اب ان کے اظہار کا محکم وسیلہ یعنی ان کی زبان بھی کمزور پڑ گئی تھی۔ اب تک ان کی ادبی زبان فارسی تھی لیکن اس کا مستقبل تاریک ہو چکا تھا۔ اردو میں شعر تو کہے جا رہے تھے مگر نثر کی سطح پر زبان مستحکم نہیں ہوئی تھی۔ اس میں علمی مسائل پیش کرنے کی صلاحیت نہیں آئی تھی۔ یہ مسئلہ سنگین تھا۔ معاملات انگریزوں سے تھے۔ ان کی زبان کو سیکھے بغیر ان کی منشاء کو جاننا دشوار تھا۔ مگر مسلمان دشمن کی زبان سے دوری اختیار کئے ہوئے تھے۔ جس کی جانب توجہ دینا ضروری تھا۔ وقت کا تقاضہ تھا کہ وہ انگریزی سیکھتے ساتھ ہی اپنی زبان کی حفاظت بھی کرتے۔


اس کے پیش نظرسر سید کی علی گڑھ تحریک نہ فقط مسلمانوں کی تعلیمی اصلاح کا زمانہ ہے بلکہ اردو زبان و ادب کے ارتقاء کا بھی شاندار عہد ہے۔ حالی ،شبلی، نذیر احمد اور سر سید اس تحریک کے روح رواں رہے۔ سر سید نے ملازمت کی ابتدا صدر امین کے طور پر کی۔ 1841ء میں منصفی کا امتحان پاس کیا اور پھر بحیثیت منصف ان کا تقرر دہلی ، بجنور، مرادآباد، غازی پور، علی گڑھ اور بنارس ہوا۔ آپ جہاں بھی رہے تصنیف اور تعلیم کے ساتھ ساتھ اشاعت تعلیم میں مشغول رہے۔ سب سے پہلے 1859ء میں مرادآباد میں فارسی مدرسہ قائم کیا۔ جب غازی پور پہنچے تو 1864ء میں ایسے اسکول کی بناء ڈالی جہاں انگریزی پڑھائی جاتی تھی۔ قیام غازی پور کے دوران ہی آپ نے 1863ء میں سائنٹیفک سوسائٹی کی بنیاد ڈالی۔ اس کا اولین مقصد مغربی علوم کو ہندوستانیوں میں رائج کرنا تھا۔
ڈیوک آف آرگائل جو ممالک شمال مغربی اور پنجاب کے لفٹیننٹ گورنر اور نائب مربی تھے، وہ اس سوسائٹی کے مربی بنائے گئے۔ سر سید کا تبادلہ جب علی گڑھ ہو گیا تو وہاں اس سوسائٹی کے زیر اہتمام مختلف علمی مضامین پر تقریریں ہوا کرتی تھیں۔ اس کے تحت کئی انگریزی کتابوں کے اردو میں ترجمے بھی ہوئے۔ ایک اخبار جاری کیا گیاجس کا ایک کالم انگریزی اور ایک اردو میں ہوتا تھا۔ اخبار کا بیشتر حصہ ہندو مسلم دونوں کی معاشرتی اصلاح پر مبنی ہوتا تھا۔
جب تک سر سید علی گڑھ میں رہے ، اخبار اور سوسائٹی کا انتظام ان کے ہاتھ رہا۔ 1867ء میں ان کا تبادلہ بنارس ہو گیا۔ اب راجہ جے کشن داس نے اخبار اور سوسائٹی کی ذمہ داری سنبھالی۔ بنارس کے قیام کے دوران بھی سر سید کی دلچسپی سوسائٹی اور اخبار سے برقرار رہی۔ اب تک سر سید نے اشاعت تعلیم کے لئے جو بھی کوششیں کی تھیں،ان سے ہندو مسلمان سب مستفید ہو رہے تھے۔ خواہ وہ مرادآباد کا مدرسہ ہو، غازی پور اسکول یا پھر اخبار یا سائنٹیفک سوسائٹی، سب میں ابنائے وطن برابر کے شریک تھے۔ مگر سر سید کے قیام بنارس کے دوران چند ایسے واقعات پیش آئے جنھوں نے نہ فقط سر سید کے زاویہ نگاہ کو بدلا بلکہ پورے ملک اور بالخصوص مسلمانوں کی فکر پر اس کا بہت گہرا اثر پڑا۔
1867ء میں بنارس کے کچھ سربر آوردہ ہندوؤں کو یہ خیال پیدا ہوا کہ جہاں تک ممکن ہو تمام سرکاری دفتروں اور عدالتوں میں اردو کو موقوف کرانے کی کوشش کی جائے اور بھاشا دیوناگری خط میں متعارف کرائی جائے۔ یہاں سر سید ایک نئی حقیقت سے آشنا ہوئے۔ یکم اپریل 1869ء کو سرسید انگلستان کے لئے روانہ ہوئے۔ وہاں سے وہ اکتوبر 1870ء میں بنارس لوٹے۔ انگلستان کے قیام کے دوران انھوں نے انگریزوں کی خوبیوں اور ترقی کا بنظر غائر مطالعہ کیا۔ وہاں سے لوٹ کر انھوں نے تہذیب الاخلاق کا خاکہ بنایا اور اس کا پہلا شمارہ 24 دسمبر 1874ء کو جاری ہوا۔ اس رسالے کی بدولت اردو کو بہت فروغ ملا۔ جولائی 1876ء میں سر سید ملازمت سے سبکدوش ہو کر علی گڑھ لوٹے۔ اس وقت مولوی سمیع اللہ پوری لگن کے ساتھ ایم اے او کالج کا ابتدائی مدرسہ چلا رہے تھے۔ چنانچہ سر ولیم میور نے 24 مئی 1875ء کو اسکول کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ مولوی سمیع اللہ خان سب آرڈینیٹ جج نے دل و جان سے اس اسکول کے لئے محنت کی ہے اور تھوڑے ہی عرصے میں جو نمایاں ترقی اس اسکول نے کی وہ بہت حد تک انھی کی وجہ سے ہے۔ ولیم میور نے اس اسکول کی مالی اعانت بھی کی۔


مولوی سمیع اللہ خان منشی محمد عزیز اللہ خان کے صاحبزادے تھے۔ اس خاندان کا شمار دہلی کے عمائدین میں ہوتا تھا۔ آپ نے مولانا مملوک علی نانوتوی اور دہلی کے دیگر علماء کبار سے تعلیم حاصل کی۔ سر سید ، مولانا محمد قاسم اور مولانا رشید احمد گنگوہی نے بھی انھیں اساتذہ کرام کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا۔ 1858ء میں آپ منصف مقرر ہوئے اور 1873ء میں آپ سب جج ہوئے۔
اسی دوران آپ نے اینگلو اورینٹل اسکول کی ذمہ داریاں نبھائیں۔ 1884ء میں لارڈ نارتھ بروک ایک مشن لے کر مصر گئے تو آپ بطور مشیر اور عربی دان ساتھ گئے۔ وہاں سے واپسی پر آپ کو خطاب سے نوازا گیا۔ اس کے بعد آپ ڈسٹرکٹ جج اور پھر سیشن جج ہوئے۔ نومبر 1892ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ 1901ء میں حج کیا۔ سات اپریل 1908ء کو بمقام علی گڑھ انتقال کیا اور دہلی کے اطراف میں دفن ہوئے۔

مولوی سمیع اللہ نے عمر کا ایک بڑا حصہ سر سید کی معیت میں گذارا مگر یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ سر سید کی ہر بات سے اتفاق کرتے ہوں۔ مثلاً جب سر سید نے الفنسٹن کی کتاب تاریخ ہند کا ترجمہ کیا تو حضور ﷺ کی شان میں جو گستاخانہ لفظ الفنسٹن نے استعمال کیا تھا، وہی لفظ سر سید نے استعمال کر دیا۔ اس پر مولوی سمیع اللہ نے شدید اعتراض کیا۔ دوسرا موقعہ تب آیا جب علی گڑھ کالج کا انتظام بورڈ آف ٹرسٹیز کے ہاتھوں میں جانا تھا۔ ابھی تک کالج کا انتظام مینیجنگ کمیٹی کرتی تھی۔ جس کے سکریٹری سر سید تھے۔ 1889ء سر سید نے ایک ٹرسٹی بل کی تجویز رکھی۔ اس بل کی ایک دفعہ یہ تھی کہ بورڈ آف ٹرسٹیز کے سیکریٹری سر سید ہوں اور جوائنٹ سیکریٹری ان کے صاحبزادے سید محمود ہوں، تاکہ سر سید کے بعد وہ سیکریٹری ہو سکیں۔ مولوی سمیع اللہ خان نے اس دفعہ کی مخالفت کی کیونکہ سر سید کی غیر موجودگی میں انھوں نے بڑی جاں فشانی سے اس ادارے کو چلایا تھا دوسرے سید محمود سے زیادہ تر لوگ ناخوش تھے۔ ان سب کے باوجود جب بل پاس ہو گیا تو سمیع اللہ خان رنجیدہ خاطر ہوئے۔ قوم کی حالت ان سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔
اسی اثنا ایک منفرد خیال ان کے ذہن میں انگڑائی لینے لگا اور وہ الٰہ آباد چلے آئے۔ یہاں 1892ء میں انھوں نے مسلم بورڈنگ ہاؤس کی بنیاد ڈالی۔ مولانا سمیع اللہ خان کشادہ ذہن کے مالک تھے۔ مسلمانوں کی تعلیم کے لئے علی گڑھ کالج کے معاملات سے واقف تھے۔ الٰہ آباد میں میور کالج بڑی عمدگی سے چل رہا تھا۔ ولیم میور سے ان کی واقفیت تو تھی ہی، لہٰذا انھوں نے قومی تعلیم کے مسئلے کو حل کرنے کا ایک جداگانہ طریقہ نکالا۔ انھیں محسوس ہوا کہ جو ادارے خاص مسلمانوں کے لئے قائم ہیں ان کا تعلیمی معیار پست ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان بچوں کا ملنا جلنا دوسری قوم کے بچوں سے نہیں ہوتا اور نہ ہی ان کا مقابلہ ان سے ہو پاتا ہے۔
ان کے سامنے سر فضل حسنین کی کارکردگیاں بھی تھیں جو پندرہ سال انجمن حمایت اسلام لاہور کے سیکریٹری رہے اور اسلامیہ کالج لاہور کے روح رواں تھے۔ جب وہ پنجاب میں وزیر تعلیم مقرر ہوئے تو انھوں نے اسلامیہ اسکولوں کی مدد کرنے کی بجائے گورنمنٹ کالج لاہور، میڈیکل کالج لاہور اور دوسرے سرکاری اداروں میں مسلم طلباء کے داخلے کا خاطر خواہ انتظام کیا اور ان کی تعداد مقرر کر دی تاکہ ان کا داخلہ آسانی سے ہو جائے اور وہ دوسری قوم کے بچوں کے ساتھ تعلیم حاصل کریں۔


مولوی سمیع اللہ خان نے بھی مسلم بورڈنگ ہاؤس کی صورت میں ایک حل نکالا۔ ان کا خیال تھا کہ مسلم طلباء ایک جگہ رہیں گے تو اس سے ان کی قومی روایات محفوظ رہیں گی مگر وہ تعلیم دوسرے اداروں میں جا کر حاصل کریں گے۔ ان کے ساتھ کلاس روم میں ہوں گے اور ساتھ بیٹھ کر امتحان دیں گے۔ انھیں یہ حل قومی کالج قائم کرنے سے بہتر نظر آیا۔ مولوی سمیع اللہ کے اس اقدام کی سب سے زیادہ مخالفت شبلی نے کی۔ ٹرسٹی بل کے پاس ہونے کے وقت بھی شبلی سید محمود کی حمایت میں کھڑے ہو گئے تھے۔ حالانکہ یہ مولوی سمیع اللہ تھے جن کی مردم شناس آنکھوں نے شبلی کو پہچانا اور ایم اے او کالج کے فارسی کے استاد کے لئے سر سید سے ان کی سفارش کی۔ شبلی نے مولانا سمیع اللہ کے خلاف بہت زہر افشانی کی۔ مسلم بورڈنگ کو انھوں نے مسجد ضرار کا نام دے دیا تھا۔ حالانکہ کافی عرصہ بعد شبلی نے مولانا سمیع اللہ کی دور اندیشی کا اعتراف کیا اور اپنے 1913ء کے ایک خط میں لکھا کہ اسلامی بورڈنگ بنانا زیادہ مفید ہے جس میں اخلاقی اور مذہبی تربیت ہو۔ باقی تعلیم تو کسی بھی اسکول میں حاصل کی جا سکتی ہے۔


آج مولوی سمیع اللہ ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کے وژن کا ثمرہ ہمارے سامنے ہے کہ مسلم بورڈنگ ہاؤس کے طلباء ہندوستان کی کسی بھی قوم کے طلباء کے شانہ بہ شانہ قدم بہ قدم چل رہے ہیں۔ الغرض مولوی سمیع اللہ خان نے آزادی کی جنگ تیر و تفنگ سے تو نہیں لڑی مگر تعلیم کے بنیادی مسائل اور قوم کے بچوں کی ذہنی نشو نما کے لئے انھوں نے جس نہج پر کام کیا وہ ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔

***
پروفیسر صالحہ رشید۔ صدر شعبۂ عربی و فارسی (الٰہ آباد یونیورسٹی)
ای-میل: saleharasheed.au[@]gmail.com
پروفیسر صالحہ رشید

Muslim Boarding House at Allahabad. Essay by: Prof. Saleha Rasheed

1 تبصرہ:

  1. السلام علیکم ۔ میم نے جس وضاحت کے ساتھ مسلم بورڈنگ ہاوس کی تاریخ لکھ کر ہم۔سب کو روشناس کرایا یہ ان کا طرہ امتیاز ہے ۔ وہ ایسی ہی انوکھی تاریخیں تلاش کرکرکے امت کے افراد کے سامنے پیش کرتی رہتی ہیں فجزاہا اللہ تعالی خیرا فی الدارین۔ ڈاکٹر محمد ضیاء الدین ۔ الہ آباد

    جواب دیںحذف کریں