دور، بہت دور، سرسبز پہاڑیوں کے دامن میں ایک راجپوت حسینہ گھوڑا اڑائے چلی جا رہی تھی ، اچانک دو سوار بلند و بالا درختوں کی اوٹ میں سے نکل کر حملہ آور ہوئے۔ چیخ ایک خوفناک اور دلدوز چیخ فضا میں بلند ہوئی۔ ابھی سوار حملہ بھی نہ کرنے پائے تھے کہ ایک اور بانکا جوان سرپٹ آتا ہوا دکھائی دیا۔ ایک ہی لمحہ میں دونوں حملہ آوروں کے سر خاک و خون میں لڑھکتے ہوئے نظر آنے لگے۔
حسینہ ابھی تک خوف سے کانپ رہی تھی۔
بانکے راجپوت نے سہمی ہوئی حسینہ کی طرف دیکھا، وہ خوبصورت اور بلا کی خوبصورت تھی ، سیاہ لانبے بال کمر تک لٹک رہے تھے ، آنکھوں میں غضب کی مستی تھی اور نوجوان۔۔۔ ایک نہایت حسین اور سڈول بدن چہرے سے وقار اور تیج نمایاں، دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں، حسینہ کے لبوں پر مسکراہٹ تھی اور نوجوان ورطۂ حیرت میں گم۔
"بالے کیا نام ہے تمہارا؟" نوجوان نے محبت آمیز لہجے میں دریافت کیا۔
"میں مہاراج جے چند والئ قنوج کی پتری سنجوگتا ہوں، میں آپ کی دھنیہ وادی ہوں۔ آپ کی تعریف؟" اس نے نیم بار نگاہوں سے اس نوجوان راجپوت کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔۔۔
لیکن یہ کیا؟ راجپوت جواب دینے کی بجائے دوسری طرف مڑا اور گھوڑے کو ایڑ لگاتے ہوئے کہا:
"میں وہی کائر ہوں، جسے آپ لوگ پرتھو چوہان کہا کرتے ہیں۔"
سنجوگتا دیوانوں کی طرح ہوا میں دیکھنے لگی۔
پرتھوی راج چوہان کی شہ زوری اور بہادری کے قصے زبان زد خلائق تھے۔ یہاں تک کہ وہ گھروں کی چار دیواریوں میں جا پہنچے ، ویر بالائیں ، بہادر اور شجاع راجپوت کنیائیں اسے خاص نظروں سے دیکھتی تھیں۔ مگر کوئی چیز اس بہادر حکمران کو متزلزل نہ کر سکتی تھی۔
مگر اب۔۔ یہی بہادر چوہان راٹھور ساحرہ کے حسن ملائک افروز سے مسحور ہو چکا تھا۔ وہ سیاہ لانبے بالوں نالی نازک حسینہ اس کے صبر و قرار کو چھین لے گئی تھی۔
کئی روز تک بحر فکر میں غوطہ زن رہا، کوئی مناسب طریقہ نظر نہ آتا تھا۔ جے چند اس کا جانی دشمن تھا اور اسے ہر ممکن ذریعہ سے ذلیل اور تباہ کرنے پر تلا ہوا تھا۔ لیکن ع
عشق اول در دلِ معشوق پیدا می شود
اس کی امیدوں اور آرزوؤں کا باغ سر سبز و شاداب نظر آنے لگا جب ایک صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی ایک خط اسے ملا۔
"پریتم! چھما کرو، میں نے آپ کا اپمان کیا۔ لیکن یہ میرا دوش نہ تھا بلکہ پتا جی کے الفاظ تھے ، مجھ تک تو کبھی آپ کا پیغام پہنچنے ہی نہیں پایا، میں آپ کی شجاعت کے افسانے سن کر آپ کی ہو چکی ہوں۔ ہندو کنیا محض ایک مرتبہ پریم کرتی ہے۔ میں نے آپ کو پریم درشٹی سے دیکھا ہے ، اب آپ کی ہی رہوں گی۔ کیا چوہان ستی کی رکھشا کرنے کا حوصلہ رکھتا ہے ؟"
پرتھوی راج شوق و محبت سے دیوانہ ہو گیا۔ وہ سنجوگتا کے الفاظ کی صداقت اور اہمیت کو بخوبی سمجھتا تھا۔
دوسری طرف جے چند تڑپ اٹھا:
"میری بیٹی اور میرے ہی دشمن سے شادی کا ارادہ ، یہ کبھی نہیں ہو سکتا۔"
دوسرے ہی دن سنجوگتا، ستی اور باوفا سنجوگتا ایک محل میں نظر بند کر دی گئی۔ سوائے کرناٹکی کے کوئی اس کے پاس جانے نہ پاتا تھا۔ یہ سنجوگتا کی وفادار لونڈی اور مہاراج پرتھوی راج کی فرستادہ تھی۔ اسی کے ذریعہ اب تک نامہ و پیام جاری تھا۔
سوئمبر کی تیاریاں شروع تھیں۔ پرتھوی راج کو مدعو نہ کیا گیا، بلکہ اسے ذلیل کرنے کے لئے اس کا بت بنا کر بطور دربان کھڑا کرنے کا فیصلہ ہوا۔ سنجوگتا نے سنا، دل میں ایک شبہ نے سر اٹھایا اور جلد ہی شبہ نے یقین کی صورت اختیار کر لی۔ مگر راجپوت بالا اس کے خلاف عزم صمیم کر چکی تھی، دنیا کی کوئی طاقت ہندو کنیا کے پرن کو توڑ نہیں سکتی۔ اس نے تمام کیفیت بلا کم و کاست چوہان بہادر کو لکھ دی۔
ایک عورت گا رہی تھی ، آواز میں سوز تھا اور غضب کا درد۔
ساون کی رت آئی ساجن
ساون کی رت آئی
جاتی ہیں کنجوں کو سکھیاں، میں بیٹھی مرجھائی
ساجن۔۔ ساون کی رت آئی
کسی سے پریت لگا کر تو نے میری سدھ بسرائی
ساجن۔۔۔ ساون کی رت آئی
راہرو راجپوتوں نے سنا۔ ٹھٹک کر کھڑے ہو گئے۔ آواز لحظہ بہ لحظہ کم ہو کر سسکیوں میں تبدیل ہو رہی تھی۔
"کیا ارادہ ہے چاند؟" ایک نے دریافت کیا۔
"دیوار پھاند چلیں۔"
دونوں نے ادھر اُدھر متجسس نگاہوں سے دیکھا، یکے بعد دیگرے دیوار پھاند کر باغ میں اتر گئے۔ رات کا وقت تھا ، آسمان پر کالے بادل فراق زدہ عاشق کی طرح بے چینی و اضطراب سے منڈلا رہے تھے۔ اس ہاتھ سمجھائی نہ دینے والی تاریکی میں دونوں مکان کی طرف بڑھے۔ ان کے کانوں میں آواز آئی۔
"کیا وہ نہیں آئیں گے کرناٹکی۔"
"چھی پگلی ، سکھی تم چوہان مہاراج کو اب تک نہیں سمجھیں۔"
پھر سسکیوں کی آواز آئی اور کسی نے سسکیوں ہی سسکیوں میں گانا شروع کیا:
"دکھ کے دن اب بیت ناہیں۔"
نو واردوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ انہوں نے دروازہ پر دستک دی۔ آواز یکلخت بند ہو کر ایک خاموش ہل چل سی پڑ گئی۔ کرناٹکی نے بڑھ کر دروازہ کھولا ، پژمردہ دل از سر نو ہرے ہو گئے۔
"میں آگیا سنجوگتے۔"
راجکماری سنجوگتا نے ساڑھی ے پلو کو سر پر درست کیا اور فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔ وہ جواب میں مسکرائی ، لیکن اس مسکراہٹ کے پردہ میں یاس کی جھلک صاف دکھائی دیتی تھی۔ کرناٹکی کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب جاری تھا۔۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔
مہاراج پرتھوی راج نے سنجوگتا کو تسلی دیتے ہوئے کہا:
"مایوس کیوں ہوتی ہو سنجوگئے! اگر پرتھوی راج کے بازوؤں میں قوت ہے تو وہ تمہیں حاصل کر لے گا"۔
سنجوگتا کے چہر ہ پر مسرت کے آثار نمودار ہوئے۔ اس نے ایک ٹوکری میں سے پھولوں کی مالا نکال کر اس کے گلے میں ڈالتے ہوئے کہا:
"میں آپ کی ہو چکی۔ اب جائیے کہیں دشمنوں کو پتہ نہ لگ جائے۔"
دونوں آنسو گراتے ہوئے رخصت ہوئے ، معلوم نہ تھا کہ پھر ملاقات ہو یا نہ ہو۔
سوئمبر کا دن آ گیا۔
سینکڑوں راجپوت، راجے اور رئیس اپنی قسمت آزمانے کے لئے جمع تھے۔ پرتھوی راج کا بت بنا کر دروازہ پر نصب کر دیا گیا۔ چوہان دانت پیس کر رہ جاتے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا گویا کوئی خاص طاقت اور مقصد ان کی راہ میں حائل ہے اور جے چند ان کی اس خاموشی کو بزدلی سے تعبیر کرتا تھا۔
دربار آراستہ تھا ، دروازہ کھلا۔ سنجوگتا، زیورات اور ریشمی پارچات میں ملبوس اپنی حسین سہیلیوں کے ہمراہ نکلی۔ حاضرین کی نگاہوں میں چکاچوند پیدا ہو گئی۔ سب کے دل زور زور سے دھڑکنے لگے۔ جس جس کے پاس سے گزرتی جاتی تھی اس کا رنگ فق ہوتا جا رہا تھا۔ وہ تیزی سے چلتی ہوئی پرتھوی راج کے بت کے پاس پہنچ گئی۔
چاروں طرف غم و غصہ کی ایک زبردست لہر دوڑ گئی۔ لیکن پیشتر اس کے کہ جے چند اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے ہاتھوں سے مالا چھینے وہ بت کے گلے میں ڈالی جا چکی تھی۔
اور اسی وقت ایک غیر معمولی طاقتور اور قوی بازو نے تماشائیوں میں سے نکل کر ستی سنجوگتا کو اپنے گھوڑے پر ڈال لیا۔ یہ جا، وہ جا، اناً فاناً میں مارتا، کاٹتا نظروں سے اوجھل ہوگیا۔۔۔
یہ بہادر پرتھوی راج تھا۔
داستان از: راج کماری۔ ماخوذ از کتاب: بڑے آدمیوں کا عشق
تالیف: خوشتر گرامی۔ ناشر: پریم شاستر بک ڈپو (لاہور)۔ سنہ اشاعت: 1937ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں