مولانا ابوالکلام آزاد : ایک ہمہ گیر شخصیت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-24

مولانا ابوالکلام آزاد : ایک ہمہ گیر شخصیت

Maulana-Abul-Kalam-Azad

مولانا ابو الکلام آزاد کی ولادت 11/نومبر 1888ء کو مکہ معظمہ میں ایک علمی گھرانے میں ہوئی۔ مولانا کا اصل نام محی الدین احمد تھا اور ان کے والد تاریخی نام فیروز بخت سے انھیں پکارا کرتے تھے۔ مولانا نے چودہ برس تک کی ابتدائی مشرقی علوم اپنے والد محترم مولانا محمد خیر الدین سے حاصل کی۔ مولانا کے والد بغرض علاج ہجرت کرکے مکہ معظمہ سے واپس ہندوستان آئے اور کلکتہ شہر میں مستقل سکونت اختیار کی۔
مادری زبان عربی ہونے کے باوجود بھی مولانا ابو الکلام آزاد اردو میں مہارت رکھتے تھے اور کافی ذہین اور بے پناہ فطری صلاحیتوں کے مالک تھے۔ جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں اپنے علمی و سیاسی سفر کا آغاز کیا اور ماہانہ جریدہ " لسان الصدق" جاری کیا جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی ستائش کی۔ پھر مولانا نے 1914ء میں "الہلال" جریدہ نکالا یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا جس کو برطانوی حکومت نے پریس ایکٹ کے تحت بند کر دیا تھا۔ یہ اخبار ترقی پسند سیاسی بصیرت اور انسانی عقل پر کھرا اترنے والی مذہبی عکاس کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔ مولانا بیک وقت سنجیدہ شاعرانہ مزاج، مفکر اسلام، بلند پایہ مقرر، مثالی صحافی اور ایک بہترین مفسر قرآن بھی تھے گویا کہ مولانا اپنے آپ میں ایک انجمن تھے۔ چونکہ آپ کی شخصیت ہمہ گیر ہے لہذا آپ کی خدمات اور حیات کو کسی چھوٹے سے مضمون کے ذریعے قلمبند نہیں کیا جا سکتاـ


مولانا آزاد کی شخصیت میں تمام تر قائدانہ صلاحیت موجود تھی۔ انھوں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز انڈین نیشنل کانگریس سے وابستہ ہو کر کیا۔ جب انگریز ہندوستان پر قابض تھے، تب مولانا نے الہلال، البلاغ جیسے جریدوں کے ذریعے عوام کے اندر آزادی کیلئے قربانیوں کو پیش کرنے کا شعور بیدار کیا۔ عوام کے اندر اپنے حقوق کو حاصل کرنے کی تڑپ پیدا کرنے کیلئے اپنی تحریروں کا بھر پور استعمال کیا۔ لیکن جب انگریز اس بات سے واقف ہو چکے تھے کہ مولانا کے رسالے ان کی سازشوں کا پردہ فاش کر رہے ہیں تو انگریزوں نے الہلال، البلاغ پر پابندی لگا دی۔ مولانا کو شہر بدر کیا گیا، نظر بند کیا گیا۔ انہیں ذہنی اذیتیں دی گئیں۔ لیکن مولانا نے اپنا عزم سفر جاری رکھا کبھی اپنے قدم پیچھے نہیں ہٹائے بلکہ اس نئی صبح کا وہ انتظار کر رہے تھے کہ ہندوستان ایک آزاد مملکت میں تبدیل ہو جائے۔ بالآخر وہ سورج طلوع ہو ہی گیا اور انگریز ہندوستان چھوڑ کر واپس چلے گئے لیکن یہ گوری رنگت کے انگریزوں نے گنگا جمنی تہذیب کو مٹانے کیلئے جاتے جاتے اکثریت اور اقلیت کا مذہبی فرق بتا کر ہندو مسلم میں دراڑ ڈال دی جس کا پیش خیمہ ملک کی تقسیم ثابت ہوا۔ حالانکہ مولانا نے تقسیم ہند کے وقت بڑی بے باکی اور جرات سے اس بڑھتی کشیدگی کو ختم کرنے کی ہر ممکنہ کوشش کی اور اسی وقت آپ نے ایک تاریخی جملہ بھی کہا تھا کہ:
"اگر دنیا دس ہزار سال یا دس لاکھ سال مزید قائم رہے تو پھر بھی دو چیزیں ختم نہیں ہوں گی ایک تو ہندو قوم کی تنگ نظری ، دوسرے مسلمان قوم کی اپنے سچے رہنماؤں سے بد گمانی"


یقیناً مولانا کا 75 سال قبل والا جملہ آج بھی ہمارے ملک پر صادق آتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد 15/اگست 1947کو ہندوستان دنیا کے نقشہ پر ایک آزاد ملک کی حیثیت سے اور دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک نمودار ہوا۔ اسی آزاد ہند کا پہلے وزیر تعلیم مولانا آزاد کو بنایا گیا۔ مولانا نے 1947 تا 1958 گیارہ سال تک وزارت تعلیم میں اپنی خدمات انجام دیں۔ ان گیارہ برسوں کے دوران مولانا نے تعلیمی اداروں میں اپنی گوناگوں صلاحیتوں سے تعلیم کو پروان چڑھایا بلکہ تعلیم نسواں و تعلیم بالغان کیلئے بھی آپ نے بہت کوششیں کی، عوامی شعور کو بھی اجاگر کیا۔ مولانا تعلیم کے متعلق کہا کرتے تھے کہ تعلیم کا مقصد روزی روٹی کی فراہمی کے ساتھ کردارسازی کا ذریعہ ہونا چاہئے۔
مولانا کے تعلیمی نظریات کی بنیاد چار امور پر استوار ہے:
1۔ذہنی بیداری 2۔اتحاد و ترقی 3۔مذہبی رواداری 4۔ عالمی اخوت۔
انہوں نے تعلیمی نظام کے استحکام کے لیے دو کمیشن قائم کیے۔ یونیورسٹی /کالج تعلیمی کمیشن اور ثانوی تعلیم کمیشن دونوں اداروں کی کارکردگی آج بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔


مولانا کی خصوصیت یہ تھی کہ آپ صرف قولی شہادت پر اکتفا نہیں کرتے تھے بلکہ جو بولتے تھے وہ کرکے بھی بتاتے تھے۔ مولانا نے ان گیارہ سالوں میں انگریزوں کی دی گئی تعلیمات کی تنگ نظری کو ختم کیا اور موزوں و مناسب نظام تعلیم کو حتی الامکان پروان چڑھایا، آپ نے عصری تعلیم کے تقاضوں کو پورا کیا۔ خاص طور پر آپ تعلیم صنعت اور حرفت پر بہت زور دیا کرتے تھے اسی وجہ سے مختلیف تعلیمی و تحقیقاتی ادارے قائم کیئے اور آج بھی مولانا کے نام سے منسوب یونیورسٹیاں ملک کے عظیم تر شہروں میں پھیلی ہوئی ہیں جن سے طلباء فیضیاب ہو رہے ہیں۔
مولانا آزاد کے ملک کے پہلے وزیر تعلیم ہونے کے ناتے ان کے یومِ پیدائش پر ملک بھر میں یومِ تعلیم کا انتہائی تزک و احتشام سے جشن منایا جاتا ہے۔ مولانا نے نہ صرف تعلیم کو فروغ دیا بلکہ شاعری کی دنیا کے بھی بےتاج بادشاہ رہے۔ انھوں نے شاعری کے ذریعہ بھی مسلم معاشرے کی اصلاح کی اور وقتاً فوقتاً ہندو مسلم اتحاد کی بھی شاعری کرتے رہے۔ ادب و ثقافت کے فروغ کیلئے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مولانا نے ہندوستان کے ادبی اور ثقافتی تنوع کو مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرنے کی غرض سے ساہتیہ اکیڈیمی، للت کلا اکیڈیمی اور سنگیت ناٹک اکیڈیمی جیسے اداروں کی بنیادیں ڈالی ہیں۔ بین الاقوامی سطح پر ہندوستان اور یہاں کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز کو قائم کیاـ


مولانا صحافت کے میدان کے بھی عظیم شہسوار تھے وہ صحافت کو آزاد اور خود مختار بنانا چاہتے تھے۔ وہ دوسرے فریقوں کے تعاون سے چلنے والے اخبارات اور رسائل کو صحافت پر بدنما داغ سمجھتے تھے مولانا نے الہلال اخبار کو خوبصورت بنانے کے لئے تصاویر کا بھی استعمال کیا اور اس کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ مولانا آزاد نے اردو صحافت کو ایک نئی فکر دی، لیکن ندامت کے ساتھ کہنا پڑتا ہیکہ مولانا نے اردو کے فروغ کی جو شمع روشن کی تھی وہ آج مدھم پڑ رہی ہے۔ اردو صحافت کا معیارگھٹ گیا ہے۔ لہذا موجودہ اردو صحافت کو دوبارہ اپنا کھویا ہوا مقام و وقار حاصل کرنے کیلئے مولانا کی وراثت کو اپنانا ہوگا۔


مولانا نے مفسر قرآن کی حیثیت سے ترجمان القرآن کی جو تفسیر لکھی، رہتی دنیا تک اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہےـ
مولانا ابوالکلام آزاد ایک عظیم مجاہد آزادی بھی رہے ہیں انھوں نے ہندوستان کو ایک آزاد مملکت بنوانے میں نہایت اہم رول ادا کیا، اپنی تمام تر صلاحیتوں کو داؤ پر لگا دیا۔ مسلمانوں کو اپنے مذہب پر قائم رہتے ہوئے جنگ آزادی میں حصہ لینے کی ترغیب دلاتے رہے۔ آپ کی فہم و فراست اور حکمت و دانشمندی کے گاندھی جی اور پنڈت جواہر لال نہرو بھی قائل تھے جو وقفہ وقفہ سےآپ سے تجاویز اور صلاح بھی لیتے رہتے تھے۔ خود گاندھی جی مولانا آزاد کی سیاسی و علمی بصیرت کی صلاحیتوں کو اپنی تقاریر میں پیش کرتے تھے۔
ہندوستان کے ایک جمہوری ملک ہونے کی وجہ سے مولانا ہمیشہ سوراج سے زیادہ قیمتی سرمایہ ہندو مسلم اتحاد کو سمجھتے تھے۔ مولانا نے رام گڑھ میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں کہا تھا کہ :
" آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بلندیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دے کہ سوراج 24 گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہو جائے تو میں سوراج سے دستبردار ہو جاؤں گا، مگر اس سے دستبردار نہیں ہوں گا۔ کیونکہ اگر سوراج ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالم انسانیت کا نقصان ہے"


غرض مولانا آزاد جو تعلیمات اور جو نقوش چھوڑ گئے ہیں ان پر ہندوستان آج بھی عمل پیرا ہو کر قومی یکجہتی اور ہندو مسلم اتحاد کو فروغ دے سکتا ہے۔ آج مولانا آزاد ہمارے درمیان نہیں ہیں لیکن ان کی تصانیف و تالیف، تقاریر، تحریریں خواہ سیاسی میدان کی ہوں یا علمی، یہ تمام اور جامع مسجد کے در و دیوار ہندوستان کے مسلمانوں کو پوری شعوری کیفیت کے ساتھ جاگتے رہنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد ایک تاریخ ساز شخصیت ہی نہیں بلکہ ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کے لیے مشعلِ راہ بھی ہیں۔ انہوں نے جدو جہد آزادی اور ملک کی آزادی کے بعد شاندار کارناموں کی میراث چھوڑنے کے ساتھ ایک اہم نظریہ ساز کے طور پر اپنا لوہا منوایا ہے۔ ایسی شخصیت کو صرف خراج پیش کرنا کافی نہیں ہے بلکہ ہمیں ان سے تحریک حاصل کرنی چاہیے، ان کی تصنیف کردہ کتابوں کا مطالعہ کرنا چاہیے۔


مولانا اپنی رحلت سے چند روز قبل فالج کے مرض میں مبتلا ہوئے اور مختصر سی علالت کے بعد 22/فروری کی نصف شب ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ مولانا کا مزار دہلی کی جامع مسجد کے قریب موجود ہے۔ مولانا کو سنہ 1992 میں بھارت رتن اعزاز سے بھی سرفراز کیا گیا۔ اس ہمہ گیر شخصیت کی خدمات کو ہندوستان کبھی فراموش نہیں کر سکتا۔


***
Email: saffusio34[@]gmail.com ; Mob.: 09014820913

Maulana Abul Kalam Azad. Essay by: Sarfaraz Ahmed

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں