آن لائن تعلیم : مسائل اور امکانات - مضمون از محمد محبوب - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-02

آن لائن تعلیم : مسائل اور امکانات - مضمون از محمد محبوب

Online Education Problems and Prospects

ملک کی مختلف ریاستوں میں کورونا کیسوں اور دوسری طرف اومیکرون ویرینٹ کیسوں میں ہو رہے بے تحاشہ اضافہ کے پیش نظر ملک کی مختلف ریاستوں میں رات کے کرفیو ، ہفتہ وار لاک ڈاؤن ، تعلیم ، تجارتی و تفریحی مقامات پر پابندیاں عا ئد کی گئی ہیں۔
تلنگانہ میں کورونا اور امیکرون کیسوں میں روز بروز اضافہ کے پیش نظر حکومتِ تلنگانہ نے 8 جنوری سے تعلیمی اداروں کو تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔ تعطیلات میں ایک مرتبہ توسیع بھی کی گئی۔ جبکہ 24 جنوری سے حکومت نے اساتذہ کو 50 فیصد عملے کے ساتھ اسکولوں میں حاضری کو لازمی قرار دیا۔ لیکن طلباء کی تعطیلات بدستور برقرار ہیں اور امکان ہے کہ اس میں 5/فروری یا اس سے زائد کی توسیع کی جائے۔ تاہم ان تعطیلات میں طلباء کو تعلیمی نقصان سے محفوظ رکھنے کے لئے حکومت نے آن لائن تعلیمی شیڈول کو قطعیت دی ہے۔
اعلی جماعتوں کے اساتذہ کے لیے لازمی ہے کہ وہ آن لائن طریقے پر نصاب مکمل کریں اور صد فیصد نتائج سے ہمکنار کریں۔ آن لائن تعلیم سے طلبا کو فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن اب وقت کا تقاضہ تو یہی ہے کہ اس پر عمل کیا جائے۔ لیکن صورتحال کے قابو میں آتے ہی آف لائن کلاسیس کے انعقاد پر توجہ دی جائے۔

یہ تلخ حقیقت ہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات پر کورونا وبا نے اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں لیکن تعلیمی شعبہ اس وبا سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔ طلباء کی اکتسابی صلاحیتیں مرجھا رہی ہیں۔ آن لائن کلاسیں شہری علاقوں کے طلباء کے لئے تو کسی طر ح سود مند ثابت ہو رہی ہیں لیکن دیہی طلباء کے لئے آن لائن کلاس صدا بصحرا ثابت ہو رہی ہیں۔
خانگی تعلیمی ادارے بھی آن لائن کلاسوں کے نام پر مکمل فیس وصول کر رہے ہیں۔ دیہاتوں میں مقیم خانگی و سرکاری اداروں میں آن لائن کلاسوں کا انعقاد ہنوز ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ حالانکہ حکومت تلنگانہ نے آن لائن کلاسوں کے لئے گذشتہ سال یکم ستمبر سے ہی آن لائن اسباق کی نشریات کا آغاز کیا تھا۔ T- SAT دُور درشن اور سپتاگری چیانل کے ذریعہ آن لائن کلاسیں نشر کی جا رہی ہیں۔ ٹی سیاٹ پر آن لان ویڈیو اپلوڈ کئے گئے ہیں۔ طلباء اپنی سہولت سے اور فرصت کے اوقات میں ان ویڈیو اسباق کا مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ ویڈیو اسباق کمرۂ جماعت کی تدریس کا متبادل نہیں بن رہے ہیں۔


تدریس اس وقت موثر ہوتی ہے جب معلم اور طالب علم میں تال میل ہو، تبادلہ خیال ہو، معلم طلبہ کے سامنے ہو اور معلم کا مرکز طلبہ ہو تو معلم ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھ سکتا ہے۔ سبق کو بہترین پیرائے اور اچھے انداز میں طلبہ کے گوش گذار کر سکتا ہے۔ سوالات ، اشکالات کا ازالہ اور مناسب مثالوں کے ساتھ تدریس تو کمرہ جماعت میں ہی ہو سکتی ہے۔
آن لائن کلاسوں میں طلبہ کی عدم شرکت جہاں نامناسب وسائل کا اظہار کر رہی ہے وہیں ان کی سبق کی تفہیمی خامی کا بھی اشارہ دے رہی ہے۔ سرکاری مدارس ہوں کہ خانگی مدارس جب طلباء کے فہم سے سبق بالاتر ہوں تو وہ تعلیم کو بوجھ سمجھنے لگتے ہیں۔


ملک میں قانونِ حق تعلیم نافذ العمل ہے اور اس کے مطابق جہاں اساتذہ پر مختلف تحدیدات ہیں وہیں اب اساتذہ طلباء کو سزا بھی نہیں دے سکتے تو ایسے میں اکتساب میں اضافہ کے لئے اساتذہ کے پاس واحد راستہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے کمرۂ جماعت کو موثر بنائیں، تدریسی عمل متاثر کن ہو اور تدریس کے دوران، سبق میں موجود وہ ذیلی باتیں بھی طلباء کو بتائیں کہ جو کتابوں میں مو جود نہیں۔
مناسب مثالوں کے ساتھ اور مناسب تصاویر ویڈیوز اور دیگر تدرسی و اکتسابی اشیاء کا استعمال کیا جائے یعنی کہ اس طر ح کا تدریسی عمل ہو کہ طلباء اس کلاس میں شوق سے شرکت کریں۔ اگر کوئی استاد ٹرافک کا سبق پڑھا رہا ہے تو اسے طلبا کو مکمل مثالوں کے ساتھ پڑ ھانا ہوگا بلکہ اس سے متعلق یوٹیوب اور انٹرنیٹ پر اگر ویڈیو دستیاب ہیں تو انہیں دکھانا چاہیے۔ اکثر اساتذہ صرف رسم کی ادائیگی کے لئے تدریس کا فریضہ نبھاتے ہیں۔ کتاب میں موجود مواد بھی طلبا تک مناسب انداز میں منتقل نہیں کر پاتے، ایسے کاہل اساتذہ کی وجہ سے ہی تعلیم کے تئیں طلبا میں بیزاری پیدا ہوتی ہے، جو طالب علم کے اکتساب پر اثر انداز ہو رہی ہے۔ اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ کمرۂ جماعت میں پڑھائے جانے والے سبق کی ایک مرتبہ نظر ثانی کر لیں، اس کے متعلق طلباء میں پیدا ہونے والے امکانی اشکالات کے جوابات تلاش کر لیں۔ آن لائن تدریس ہو تو متعلقہ ویڈیوز اور تصاویر جمع کر لی جائیں۔ آن لائن کلاسوں کو بھی متاثر کن بنایا جا سکتا ہے۔ اس معاملے میں اساتذہ کو فکرمند ہونا چاہیے۔


آن لائن کلاسوں میں ایک اہم مسئلہ خانگی تعلیمی اداروں کا ہے کہ جو صرف مکمل فیس ادا کرنے والے طلبہ کو ہی زوم کلاسوں کا لنک روانہ کر رہے ہیں۔ جو کہ دیگر معنوں میں بروقت فیس ادا نہ کرنے والے طلبہ کو تعلیم سے محروم کیا جا رہا ہے۔ جب کہ کورونا میں لاکھوں خاندان بے روزگار ہو گئے ہیں۔ کئی زند گیاں اجیرن ہو گئی ہیں۔ کئی دولت مند طبقات قلاش ہو گئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں خانگی اداروں کی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ تعلیم سے کسی طالب علم کو محروم نہ کرے۔ فیس کی ادائیگی میں تاخیر کو برداشت کیا جائے۔ اگر ممکن ہو تو صرف ٹیوشن فیس ہی، وہ بھی کچھ رعایت کے ساتھ حاصل کی جائے۔ سطح غر بت سے نچلی زندگی گذارنے والے اور یتیم و یسیر بچوں کی فیس میں رعایت کی جائے۔ حکومت نے جی او 75 جاری کرتے ہوئے خانگی تعلیمی اداروں کو ہدایت دی ہے کہ اولیائے طلباء سے کوئی بھی اضافی فیس وصول نہ کی جائے لیکن اس جی او پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس ضمن میں خانگی اداروں کو پابند کرے کہ فیسوں کے معاملہ میں طلباء و اولیائے طلبہ کو مجبور نہ کیا جائے اور نہ کسی طالب علم کو محض فیس بروقت ادا نہ کرنے کی پاداش میں تعلیم سے محروم کیا جائے۔


اب ملک میں تقریباً صد فیصد ٹیکہ اندازی بھی ہو گئی ہے۔ 18 سال سے زائد عمر کے تمام افراد تقریباً پہلا اور دوسرا ڈوز مکمل کر چکے ہیں۔ حکومت نے 15 سال سے زائد عمر کے بچوں کو بھی ٹیکہ دینے کا آغاز کیا گیا ہے تو حکومت کو چاہئے کہ مکمل حفاظتی اقدامات کے ساتھ آف لائن تعلیم کے سلسلہ کو بحال کیا جائے۔ کمرۂ جماعت میں سماجی فاصلہ، ماسک کے لزوم کے ساتھ کلاسیں منعقد کی جائیں۔ بعض اولیائے طلبہ کا کہنا ہے کہ جب کورونا کے دوران انتخابات رک نہیں رہے ہیں تو تعلیم ہی کیوں روکی جائے۔ یہ سچ ہے کہ تعلیم سے زیادہ اہم طلبہ کی صحت ہوتی ہے۔ لیکن جو عالمی وبا سے ہم دو چار ہیں، یہ اتنا جلدی اپنا پیچھا چھوڑنے والی بھی نہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ کورونا کے ساتھ جینے کا سلیقہ سیکھا جائے۔ سماجی فاصلہ کے ساتھ کلاسوں کے انعقاد میں اگر ممکن ہو تو اضافی اساتذہ کے تقررات کئے جائیں۔ کمرۂ جماعت کی قلت ہو تو شفٹوں میں کلاسیں منعقد کی جائیں۔ کیوں کہ آن لائن تعلیم مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ آن لائن تعلیم کی بیساکھی کا سہارا دے کر طلباء کو معذور نہ کرے۔ آن لائن تعلیم کے حصول میں طلبہ جن دشواریوں سے دوچار ہیں، اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔


اکثر والدین کے تین یا چار بچے اسکولوں میں زیر تعلیم ہوتے ہیں جبکہ ان کے پاس ایک ہی موبائیل فون دستیاب ہے تو ایسی صورت میں بیک وقت صرف ایک ہی طالب علم اپنی کلاسوں سے استفادہ کر سکتا ہے۔ جبکہ مابقی طلباء کلاسوں سے محروم رہتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں نیٹ ورک کے مسائل بھی ہیں۔ زیادہ دیر تک طلبا کا موبائیل پر نظریں جمائے رکھنے سے ان کی بصارت پر بھی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ کمزور طلباء کے لئے آن لائن کلاسیس سود مند ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ جو والدین نا خواندہ ہیں اور جو ٹیکنیکی علم سے واقف نہیں وہ والدین کے بچے بھی آن لائن کلاسیس سے کماحقہ استفادہ سے محروم ہیں۔


حکومت کو چاہئے کہ اگر آن لائن تعلیم فراہم کرنا ہی اس کے لیے ناگزیر ہو تو طلبہ کو پہلے وسائل فراہم کئے جائیں۔ آن لائن کلاسیں لینے والے اساتذہ کی تربیت کی جائے۔ انہیں آن لائن کلاسوں کو دلچسپ بنانے کے لئے ضروری تربیت اور وسائل فراہم کئے جائیں۔ بعض طلباء نصابی کتابیں اور کاپیاں خریدنے کے موقف میں بھی نہیں ہیں۔ ایسے طلباء کہاں آن لائن تعلیم کے ناز و نخرے برداشت کر سکتے ہیں؟ کئی طلباء کے موبائیل کے ریچارج ختم ہو کر ایک عرصہ گذر جاتا ہے کہ وہ ریچارج نہیں کروا سکتے۔ ایک کمرۂ جماعت میں اگر 40 طلباء ہیں تو آن لائن کلاس میں صرف 4 تا 8 طلبہ ہی شریک ہوتے ہیں۔ مابقی طلبہ وسائل اور آن لائن کلاس کے سبق کی تفہیم کے مسئلہ کی وجہ سے شرکت نہیں کر رہے ہیں۔ دوسری طرف کئی طلبہ اب بھی اس خوش فہمی میں ہیں کہ حکومت امسال بھی انہیں گذشتہ سالوں کی طرح پرکٹیکل امتحانات کے نشانات یا رعایتی نشانات دے کر بغیر امتحانات کے کامیاب کرے گی یا اگلی جماعت میں پروموٹ کر دے گی۔ اس ضمن میں وزیر تعلیم محترمہ سبیتا اندرا ریڈی صاحبہ نے وضاحت کی ہے کہ امسال بغیر امتحانات کے، کسی جماعت بشمول ایس ایس سی اور انٹر سال دوم کے کامیاب نہیں کیا جائے گا۔ اس کے باوجود بھی اکثر طلباء بغیر امتحانات کے کامیابی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔


تعلیمی اداروں کو غیر متعینہ تعطیلات کی وجہ سے بچہ مزدوری میں بھی اضا فہ ہو رہا ہے۔ اسکول نہ ہونے کی وجہ سے پارٹ ٹائم یا جزوقتی طور پر بچے عارضی مزدوری کر رہے ہیں۔ بعض طلبہ تعلیمی سرگرمیوں کو خیرباد کہہ کر غیر سماجی سرگرمیوں کا بھی شکار ہو رہے ہیں۔ طلبا بظاہر آن لائن کلاسوں سے یا رعایتی طور پر کامیاب ہونے سے اگلی جماعت میں پروموٹ کئے جا رہے ہیں لیکن ان میں وہ قابلیت پیدا نہیں ہو رہی ہے۔
عمومی مشاہدہ ہے کہ بعض تعلیمی اداروں میں آج کل کمیونیٹی ذہین کام کر رہا ہے۔ جو بچوں کی ایسی ذہین سازی کر رہے ہیں کہ وہ کچھ سیکھنے کے بجائے صرف کامیابی کے حصول پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں۔ اور کچھ اساتذہ بچوں کو سالانہ امتحانات میں نقل نویسی کی ترغیب دلاتے ہوئے کامیاب بھی کروا رہے ہیں۔
ایسی تعلیم آج کل کے مسابقت کے زمانے میں طلباء کے لئے سم قاتل ثا بت ہوگی اور طلبہ چونکہ معصوم ہو تے ہیں، ان کا مستقبل صیغہ راز میں ہوتا ہے تو وہ ان اساتذہ کو ہی ہمدرد سمجھتے ہیں۔ جو انہیں کمرۂ جماعت میں ایک حرف بھی سکھانے کے بجائے کمرۂ امتحان میں نقل نویسی کا ماحول سازگار کر کے انہیں کامیاب کر دیتے ہیں۔ صرف کامیابی کے نشانات کے حصول تک ہی ان کی مدد کی جا تی ہے۔ لیکن ایک کلاس کے اختتام تک جو مہارتیں اور جو صلاحیتیں طلباء میں پیدا ہونا چاہئے وہ مفقود ہیں۔


ایسی صورتحال میں آن لائن کلاسیں طلباء کے مستقبل کے لئے نقصاندہ ہی محسوس ہو رہی ہیں۔ تعلیمی اداروں میں اساتذہ کو چاہئے کہ وہ کسی بھی طالب علم سے کسی بھی بنیاد پر مثلاً، لسانی، علاقائی، مذہبی، طبقاتی یا رنگ و نسل کا امتیاز نہ کیا جائے۔
سوچنا ہوگا کہ کمرۂ جماعت میں موجود تمام طلباء اساتذہ کے لئے معنوی اولاد کا درجہ رکھتے ہیں۔ اور ان کے مستقبل کو درخشاں بنانے کے لئے کوشش کی جانی چاہیے۔ حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ صد فیصد نتائج کے حصول کے علاوہ طلباء میں ایک کلاس کی کامیابی کے بعد طالب علم میں اقل ترین مہارتیں اور صلاحیت و قابلیت کا بھی جائزہ لے۔ اگر اس میں کوئی طالب علم کمزرو ہو تو متعلقہ استاد سے باز پرس کی جائے۔
تاہم آن لائن تعلیم کو مستقل نہ کیا جائے بلکہ آن لائن تعلیم کے ہوتے ہوئے جیسے ہی وبائی کیسوں میں قدرے کمی واقع ہو تو آف لائن یا فزیکل کلاسوں کی راہ ہموار کی جائے۔


***
محمد محبوب (ظہیرآباد، تلنگانہ)
ریسرچ اسکالر، عثمانیہ یونیورسٹی۔ موبائل: 09440777782
محمد محبوب

Online Education: Problems and Prospects. - Article: Mohd Mahboob

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں