کیا آپ انہیں جانتے ہیں؟ انشائیہ از خواجہ عبدالغفور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-03

کیا آپ انہیں جانتے ہیں؟ انشائیہ از خواجہ عبدالغفور

kya-aap-inhe-jaante-hain-khwaja-abdul-ghafoor

یہ تو جانی پہچانی صورت لگتی ہے، اور وہ خود بھی مسکرا مسکرا کر علیک سلیک کر رہے ہیں۔ وہ دیکھئے اتنے بڑے مجمع میں دوسرے کونے سے ہماری طرف لپک کر آرہے ہیں۔ خندہ پیشانی سے مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا ہے اور بغل گیر ہونے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں۔ جب وہ اتنی بے تکلفی اور جان پہچان کا اظہار کر رہے ہیں تو ہم کو بھی چاہئے کہ انہیں پہچاننے کی کوشش کریں، لیکن دماغ پر لاکھ زور دینے پر بھی یہ مسئلہ حل نہیں ہوا۔ رسمی بات چیت بھی شروع ہو چکی ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر ان کا تعلق کس گروپ سے ہے۔۔ بچپن کے ساتھی ہیں؟۔۔ ہم پیشہ ہیں؟۔۔ ہم مشرب ہیں؟۔۔ کبھی ہم پیالہ و ہم نوالہ بھی رہے؟ محلہ داری رہی ہے؟ ایک ہی کلب کے ساتھی ہیں؟۔۔ اب یہ گتھی سلجھے تو کیسے ؟


ایسے کٹھن لمحے ہر ایک کی زندگی میں بارہا آتے ہیں اور بہت کم ان کا سیدھا سادا حل نکلتا ہے ورنہ ایک دماغی کشمکش رہ جاتی ہے اور اس محفل سے بھاگ نکلنے میں ہی خیریت نظر آتی ہے۔


مدتوں اس مصیبت کو جھیلنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ حاضر دماغی یا حافظہ کی گہرائی اور گیرائی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ چلئے اب ہم آپ کو ایک ایسا طریق کار بتاتے ہیں جو ایسے نازک موقع پر کام آئے اور الجھن دور ہو۔
ایسے وقت جب کہ آپ کا دماغ شل ہو رہا ہو، اپنا رد عمل اور رویہ کیسا ہونا چاہئے اس کے لئے ہم کچھ نکات پیش کرتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ ان سے آپ کو ضرور مدد ملے گی۔


لیجئے سب سے پہلے تو علیک سلیک ، آداب سلام انہی کو ایسا سٹ کر لیجئے اور کچھ مدارج ایسے قائم کر لیجئے کہ یہ آپ کی گتھی کو کسی حد تک اس طرح سلجھا سکیں اور پچھلی ملاقاتیں، سابقہ مراسم اور ایسی ساری باتین روز روشن کی طرح سامنے آ جائیں۔
اس کے لئے تو سب سے پہلے اس بات کا بخوبی اندازہ لگائیے کہ مد مقابل آپ کی طرف محض وقت گزاری اور اپنی بوریت کو مٹانے کے لئے آ رہا ہے یا کوئی خاص مقصد اس کے پیش نظر ہے؟ اگر وہ محض اپنے وقت کا گلا گھونٹنے کے لئے آپ کا سہارا چاہتا ہے اور اس کی یا اپنی کوئی بھی بات دماغ میں نہیں آ رہی ہے تو اپنا ہاتھ مصافحہ کے لئے بڑھاتے ہوئے بہ اطمینان خاطر آپ کہہ سکتے ہیں:
"افوہ! کیا عجیب اتفاق ہے، ہم آج ہی آپ کی بات سوچ رہے تھے اور دل میں یہ کہہ رہے تھے کہ مدت ہوئی آپ سے مڈبھیڑ نہیں ہوئی۔۔ کہئے کیا حال چال ہیں، زندگی کیسے بیت رہی ہے؟"
لیجئے سب کچھ کہتے ہوئے بھی آپ نے کچھ نہیں کہا اور اپنے انجانے پن کو چھپا لیا۔ اس پر لازماً وہ شخص آپ کو یاد دلانے کی کوشش کرے گا کہ اس سے آپ کی حالیہ ملاقات کہاں اور کب ہوئی تھی۔ یا تو وہ کہے گا ، کل پرسوں ہی تو آپ ان سے ریس کورس پر ملے تھے اور اس نے آپ کو جیتنے والے گھوڑے کی ٹپ دی تھی۔ اب اگر ان کا کا کل پرسوں، برسوں مہینوں کی بات ہو تو آپ ایک بار پھر اس الجھن سے نکلنے میں ناکام رہیں گے۔ اگر سچ مچ کل پرسوں کی بات ہے تو کیا کہنے اب آپ کا اسکور بآسانی بڑھ سکتا ہے۔ آپ ان کو پہچان جائیں گے اور آپ کا موڈ بہتر ہو جائے گا اور جو یہ نہ ہو تو اسی موضوع پر قائم رہئے۔ شاید بات بن جائے۔


یہاں پر آپ کا مشاہدہ تیز ہونا چاہئے۔ اب اس پر نظر رکھئے کہ مدمقابل کتنی بے تکلفی برت رہا ہے۔ اس کے چہرہ مہرہ پر یاری دوستی کے کیا نقوش ابھر رہے ہیں؟ اگر فی الواقع وہ یارِ غار ہونے کا دعوی کر رہا ہے تو اس سے اسی انداز سے مخاطب ہوئیے اور گرم جوشی سے کہئے۔۔۔
اے ہئے! کیا حسین اتفاق ہے کہ ہمارا لنگوٹیا یار اس طرح اچانک مل رہا ہے۔ افوہ ہم نے کوئی اور بھی خواہش کی ہوتی وہ بھی پوری ہو جاتی۔ بتاؤ یار کیا شغل ہے آج کل۔ کیا وہی پرانی عادتیں اور رفتار بے ڈھنگی۔ اور وہ تمہارا پنا یار۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔ اچھا سا نام ہے نا۔۔ وہ کیسا ہے؟ کہاں ہے کیا کر رہا ہے ؟"۔۔
اب اگر ان کی طرف سے کسی پرانے یار کے نام کا سہارا مل جائے تو کیا کہنے۔ اس طرح گفتگو کا سلسلہ ایک بار پھر شروع ہو جائے تو اس کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں کہ اس کو بہر صورت آگے بڑھایا جائے تاکہ اس دوران میں شاید کوئی سراغ لگے اور یادداشت کو کھنگالا جا سکے۔


بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے کے لئے آزمائے ہوئے کچھ نکات پیش ہیں :
سب سے پہلے تو سوالات کی بوچھار کر ڈالئے کہیں نہ کہیں تو قابل گرفت بات ہاتھ آ جائے گی۔
اگریہ شخص تن تنہا ہو تو پہلا سوال کر ڈالئے: "بتاؤ یار! بال بچے سب راضی خوشی ہیں؟ بھائی کہاں ہے ؟"
اور اگر کوئی خاتون ساتھ میں ہو تو بات اس رح اور آگے بڑھائی جا سکتی ہے۔۔۔ "تو بتائیے بھابی! یہ ہمارا یارِ غار ٹھیک ٹھاک تو ہے نا؟ اس کی پرانی عادتیں تو آپ نے ضرور سدھار دی ہوں گی۔۔۔ دیکھئے نا، یہ کتنا سنجیدہ لگ رہا ہے۔" اور جو یہ خاتون ان کی بیگم نہ ہوئی تو۔۔۔ اب آگے کی بات آپ ہی سوچ سمجھ کر نباہ لیجئے۔


اگر ساتھ میں کوئی صاحبزادے ہوں تو ان کی طرف دیکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے: "ارے یہ منا تو کتنا بڑا لگ رہا ہے۔" اور بچے سے مخاطب ہو کر: "دوست بتاؤ تو کیا کر رہے ہو۔۔۔ والد بزرگوار کی طرح اپنے استادوں کو تنگ تو ضرور کرتے ہوگے؟"


ان سوالات سے بھی بات نہ بنے تو پھر اس طرح سلسلہ گفتگو چھیڑا جا سکتا ہے :
"ہاں بتاؤ تو وہ اپنا دوست تھا ناں۔۔۔ بھلا سا نام ہے اس کا۔۔ (یہاں پر انتظار کیجئے کہ وہ لقمہ دے اور کسی عزیز دوست کا نام پیش کرے) کیسا ہے بھئی وہ۔۔؟ ملتا ہے کہیں۔۔۔؟ کرتا کیا ہے وہ ظالم۔۔۔؟"


اور جو ان پر صحت مندی کے آثار ہویدا ہوں تو پوچھئے۔۔۔ "کس چکی کا پسا ہوا آٹا کھاتے ہو یار، ماشاء اللہ بڑے تنومند ہو، خدا نظر بد سے بچائے۔"


راست سوال جواب سے ہٹ کر غور کیجئے کہ اگر ساتھ میں کوئی جانا پہچانا آدمی ہے تو نووارد یا اجنبی شخص سے چھٹکارا پانے کے لئے اس شخص کو بھی اسی زمرہ میں گھسیٹ کر گفتگو کا دائرہ وسیع کیا جا سکتا ہے لہذا فوراً آپ ان کا اچٹتا ہوا تعارف کرائیے:
"آپ تو یقیناً راجیندر کو جانتے ہوں گے۔ یہ ہمارے بڑے خاص الخاص دوست ہیں اور بڑے کام کے آدمی۔"


اس سے بڑھ کر کچھ نہ کہئے ، دونوں کو بھی سوچ میں غرق ہونے دیجئے اور پھر آپس میں ایک دوسرے سے نپٹ لینے دیجئے۔ جو دیوار ان دونوں کے بیچ کھڑی ہے، اس کو اوپر کے بتائے ہوئے طریق عمل سے گرانے کی کوشش کیجئے ، آپ کی مشکل تو ہٹ گئی۔ اب یہ ان پر چھوڑئیے کہ وہ کس طرح راجیندر سے آغاز گفتگو کرتے ہیں۔ آیا وہ بھی اسی طرح ٹٹولنے لگتے ہیں یا یکلخت اپنی نادانی یا کم فہمی کا اقرار کرکے باندازِ معافی پوچھتے ہیں۔۔
"رجیندار بابو ہم پہلے کہاں ملے ہیں، آپ کی رہائش کہاں ہے۔ کیا کام کرتے ہیں آپ؟"


لیکن ہم یہاں پر یہ بتا دیں کہ آج کل کی سماجی ڈپلومیسی کچھ اس ڈھنگ کی ہے کہ اس طرح کوئی اقرار کرتا ہے نہ اقبال۔۔ وہ اپنی ناواقفیت پر پردہ ڈالے اندھیرے میں ٹٹولنا شروع کرتا ہے اس لئے کہ ہر شخص اس بات کا خواہش مند رہتا ہے کہ ہر تقریب میں مدعو لوگوں سے گھل مل جائے اور ان کا قرب حاصل کرلے۔ یہ نہیں کہ کسی ایک سے لمبی چوڑی باتوں میں مصروف ہو جائے۔ اس کی نظر تو ہر آنے جانے والے پر لگی ہوتی ہے کہ کون اہم شخصیت ہے، کون مہمان خصوصی ہے ، کس کے ساتھ کس کی اچھی بنتی ہے ، کوئی مطلب کا آدمی ہو تو اس سے تعلقات بڑھائے جائیں، اور مطلب براری کا راستہ ڈھونڈھ لیا جائے۔


ان محفلوں میں نہ تو کسی کی بات کوئی کان دھر کر سنتا ہے اور نہ اس کا صحیح جواب دینا ضروری سمجھتا ہے۔ صرف نقلی قہقہے بکھیرے جاتے ہیں، جھوٹی مسکراہٹیں ہونٹوں پر ہوتی ہیں۔


روایت ہے کہ ایک صاحب اسی بات کا امتحان لینے کی غرض سے دروازے کے قریب ہی اپنا گلاس ہاتھ میں لئے کھڑے ہو گئے اور ہر آنے والے سے کہتے تھے:
"میری دادی کا ابھی ابھی انتقال ہوا ہے۔"
اب اس خوشگوار قہقہہ بردوش محفل میں کون جینے مرنے کی بات کہنے سننے چلا ہے ، اس لئے ہر شخص جواباً یہی کہتا ہوا سنا گیا:
"او ہ اوہ! بڑی دلچسپ بات ہے ، بہت خوب، بہت خوب۔۔"
اور لوگ آگے نکل جاتے۔ حساب لگایا گیا کہ دس میں سے نو نے کچھ اسی طرح کا جواب دیا۔ صرف ایک آدمی نے کان دھر کر سنا اور کچھ جملے تعزیت کے کہے اور مجمع میں گھل مل گیا۔ اس نے یقیناً آزادی کی سانس لی ہوگی۔


ایسے میں یہ بھی ہوتا ہے کہ اس طرح کی ذرا سی بھی الجھن درپیش ہو تو لوگوں کو اپنے اور بھی زیادہ ضروری کام یاد آتے ہیں اور وہ الگ سے کھسک جاتے ہیں۔
ہم آپ کو یہی مشورہ دیں گے کہ پہچان نہ سکیں تو الجھن کو نہ بڑھائیے۔ اپنے حافظہ کو نہ کوسئے بلکہ اپنے مدمقابل کو ابھی بتلائے ہوئے کسی نہ کسی طریق سے اسی الجھن میں پھنسا دیجئے۔ اور خود الگ ہو جائیے۔


اس کا بھی ذرا دھیان رکھئے کہ خدانخواستہ ہماری آپ سے مڈبھیڑ ہو جائے اور ہماری صورت شناسا نظر آتے ہوئے بھی انجانی لگے تو ان نسخوں کو ہم پر نہ آزمائیے ، بلکہ ایک ہلکی سی مسکراہٹ اور گردن کے خم سے اشارہ کرتے ہوئے آگے نکل جائیے تاکہ ہم دونوں ہی اس قسم کی مصیبت سے محفوظ رہیں اور اپنی اپنی جگہ خوش و خرم۔

***
ماخوذ از کتاب: گل و گلزار
مصنف: خواجہ عبدالغفور۔ ناشر: زندہ دلان، حیدرآباد۔ سن اشاعت: 1976ء۔

Kya aap inhey jaante hain? Light Essay by: Khwaja Abdul Ghafoor

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں