شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز - ایک تعارف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-02

شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز - ایک تعارف

dr-kalim-ajiz-urdu-poet

آہ پدم شری کلیم عاجز! غزل میں کون نئی چاشنی چکھائے گا


ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب معروف عالمی شہرت یافتہ شاعر تھے۔ وہ پدم شری ایوارڈ یافتہ تھے۔ عموماً اردو ادب کی تاریخ میں دلّی، لکھنؤ اور دکن کو شعر و ادب کا اسکول قرار دیا گیا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہ کہ سر زمین بہار بھی شروع سے لیکر اب تک شعر و سخن کا نظریہ ساز اسکول نہ بھی رہی ہو مگر مرکز شعر و ادب ضروری رہی ہے۔ راسخ عظیم آبادی، شاد عظیم آبادی، مبارک عظیم آبادی سے لیکر ڈاکٹر کلیم عاجز تک زندہ رہنے والی شاعری تخلیق کرنے والوں کی ایک طویل فہرست ہے۔
ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کا پورا نام کلیم احمد اور تخلص عاجز تھا۔ ان کے والد ماجد کا نام شیخ کفایت حسین تھا اور والدہ محترمہ کا نام امت الفاطمہ شہید تھا۔


پیدائش :

کلیم عاجز صاحب کی پیدائش 11/اکتوبر 1926ء پٹنہ کے قریب نالندہ ضلع کے تلہاڑا میں ہوئی تھی۔


تعلیم :

ابتدائی تعلیم 1932ء میں اپنے نانا مولوی سید ضمیر الدین کے مکتب سے حاصل کی تھی۔ 1940ء میں میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور پورے بہار میں 5 ویں پوزیشن حاصل کی۔ 1942ء میں ان کی شادی رئیس پٹنہ 'شیخ کنواں' کی پوری انوار فاطمہ سے ہوئی۔ 1956ء میں بی - اے آنرس میں امتیازی کامیابی حاصل کی اور پورے بہار میں اوّل آئے۔ اور 4 طلائی تمغہ حاصل کیا۔ 1958ء میں M.A (Urdu) پٹنہ یونیورسٹی سے پاس کیا۔ اور یونیورسٹی میں اوّل رہے۔ اور پھر طلائی تمغہ کے حق دار ہوئے۔1965ء میں 'بہار میں اردو کی ارتقاء ' (Evolution of Urdu Literature in Bihar) پر مقالہ لکھ کر Ph.D کی ڈگری حاصل کی۔


ادبی سرگرمیاں :

1949ء میں 17سال کی عمر میں پہلی بار مشاعرے میں غزل پڑھی۔ 1951ء میں پہلی بار پٹنہ سے باہر 'بزم ِ فرخ' جمشیدپور میں مشاعرے میں بلائے گئے۔ 1966ء میں پہلی بار ہندوستان سے باہر جدہ میں مشاعرے میں بلائے گئے۔ 1984ء میں بحیثیت ریڈر ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔


انعامات و اعزازات :

1981ء میں میر اکاڈمی لکھنؤ سے 'امتیازِ میر ایوارڈ' سے سرفراز ہوئے۔ 1989ء میں حکومت ہند نے 'پدم شری ایوارڈ' سے نوازا۔ 2001ء میں پٹنہ کے راج بھاشا نے ایک لاکھ اکیاون ہزار اور مولانا مظہر الحق ایوارڈسے سرفراز کیا۔ 2008ء میں 'میر تقی میر' ایوارڈ سے نوازا گئے۔ 2012ء میں غالب اکیڈمی دہلی سے غالب ایوارڈ حاصل کیا۔


وفات :

قطعہ تاریخ ہجری :

تھا تخلص جن کا عاجز نام تھا جن کا کلیم
وہ تھے فرزندِ عظیم آباد ، تو اے پھول کہہ
شاعر شرین نوا کی بجھ گئی شمع حیات
کشف آدابِ عظیم آباد تاریخِ وفات

قطعہ تاریخ عیسوی :

جہاں سے اے پھول ادہ گئے ہے ادب میں جن کا تھا نام اونچا
بلندیوں کا نشان تھے وہ اصل پہ ان کی کر 'اوج' خارج
غزل کو بخشی تھی سر بلندی تو ان کو استاد شاعری کہہ
کلیم عاجز سخن کے سلطان کشادہ دل داد شاعری کہہ

تخلیقات :

شعری مجموعہ :
1- وہ جو شاعری کا سبب ہوا
2- کوچہ جان جاناں
3- مجلس ادب
4- پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا
5- ہاں چھیر و غزل عاجز


سفر نامہ :
1- ایک دیس ایک بدیس


خود نوشت سوانحی کتابیں :
1- جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی
2- ابھی سن لو مجھ سے


مجموعہ مضامین:
''میری زبان میرا قلم''


26/ اکتوبر 1946ء کو ڈاکٹر کلیم عاجز اپنی والدہ اور بہن کو چھوڑنے پٹنہ اسٹیشن آئے۔ وہ تلہاڑا جارہی تھیں کہ 28/ اکتوبر 1946ء کو پٹنہ اور تلہاڑا میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور کلیم عاجز صاحب کی والدہ اور ہمشیرہ سے یہ آخری ملاقات ہوئی۔ اور پھر ان کی والدہ بہن بشمول 22افراد خاندان کے شہید ہوئے۔ تلہاڑا کی زمین گنج شہیداں ہوگئی جو کلیم عاجز صاحب نے دیکھا۔ چشم پُر نم اور پھر اس کی کسک وہ زندگی کے آخری ایام تک محسوس کرتے رہے۔ اس جاں سوز حادثے نے ان کی شاعری کو ایک نئی روح اور نیا پیکر عطا کیا۔


کلیم عاجزصاحب کی غزلیں درد و کرب، مصائب و آلام اور نالہ و شیون سے لبریز ہیں۔ ان کے یہ شعر ان کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔
ہمیں اچھا ہے بن جائیں سراپا سرگزشت اپنی
وگرنہ لوگ جو چاہیں افسانہ بنا دیں گے


سرسید ڈے میں کلیم عاجز کی دعا
رات جی کھول کے پھر میں نے دعا مانگی ہے
اور اک چیز بڑی بیش بہا مانگی ہے
اور وہ چیز نہ دولت ، نہ مکاں ہے ، نہ محل
تاج مانگا ہے ، نہ دستار و جفا مانگی ہے
نہ تو قدموں کے تلے فرشِ گہر مانگا ہے
اور نہ سر پر کلہ بال ہما مانگی ہے
نہ سکندر کی طرح فتح کا پرچم مانگا
اور نہ مانندِ خضر عمر بقا مانگی ہے
نہ کوئی عہدہ ، نہ کرسی ، نہ لقب مانگا ہے
نہ کسی خدمتِ قومی کی جزا مانگی ہے
نہ تو مہمانِ خصوصی کا شرف مانگا ہے
اور نہ محفل میں کہیں صدر کی جا مانگی ہے
مے کدہ مانگا ، نہ ساقی ، نہ گلستاں، نہ بہار
جام و ساغر نہ مئے ہوشربا مانگی ہے
نہ تو منظر کوئی شاداب و حسین مانگا ہے
نہ صحت بخش کوئی آب و ہوا مانگی ہے
محفل عیش نہ سامان طرب مانگا ہے
چاندنی رات نہ گھنگھور گھٹا مانگی ہے
بانسری مانگی ، نہ طاؤس ، نہ بربط ، نہ رباب
نہ کوئی مطربۂ شیریں نوا مانگی ہے
چین کی نیند ، نہ آرام کا پہلو مانگا
بخت بیدار ، نہ تقدیر رسا مانگی ہے
نہ تو اشکوں کی فراوانی ہے مانگی ہے نجات
اور نہ اپنے مرض دل کی شفا مانگی ہے
نہ غزل کے لیے آہنگ نیا مانگا ہے
نہ ترنم کی نئی طرزِ ادا مانگی ہے
سن کے حیران ہوئے جاتے ہیں ارباب چمن
آخرش ! کون سے پاگل نے دعا مانگی ہے
آ ترے کان میں کہہ دوں اے نسیم سحری
سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے کیا مانگی ہے
وہ سراپائے ستم جس کا میں دیوانہ ہوں
اس کی زلفوں کے لیے بوئے وفا مانگی ہے

بحرین میں عالمی مشاعرہ 2010ء میں
مت برا اس کو کہو گرچہ وہ اچھا بھی نہیں
وہ نہ ہوتا تو غزل میں کبھی کہتا بھی نہیں
جانتا تھا کہ ستم گر ہے مگر کیا کیجیے
دل لگا نے کے لیے اور کوئی تھا بھی نہیں
جیسا بے درد ہے وہ پھر بھی ہے جتنا محبوب
ایسا کوئی نہ ہوا اور کوئی ہوگا بھی نہیں

1981ء میں
تو جب ساقی خوش انتظام ہے پیارے
نہ میرے پاس سبو ہے نہ جام ہے پیارے
دل و جگر مے میں قندیل آنسوؤں کے چراغ
تری گلی میں بڑا اہتمام ہے پیارے
یہ دور وہ ہے کہ ہر راہزن کی قامت پر
لباسِ خضر علیہ السلام ہے پیارے
خزاں کا دور بقری سے رنی کو کہتے ہیں
بہار تیری توجہ کا نام ہے پیارے
میں کیسے کہہ دوں کہ اب زخم دل نہ دے مجھ کو
ابھی تو مری غزل ناتمام ہے پیارے

ڈاکٹر کلیم عاجز صاحب کی درد بھری غزلیں جو درد و کرب ، مصائب و آلام ، نالہ و شیون سے لبریز ہیں :

جب فضل بہاراں آئی تھی گلشن میں انہیں ایام سے ہم
یاروں میں سناتے پھرتے ہیں کچھ پھول غزل کے نام سے ہم
اک شوخ کا بسمل کہتے ہیں مشہور ہیں اب اس نام سے ہم
فن ہم سے تڑپنے کا سیکھو واقف ہیں بہت اس کام سے ہم
کھوے ہوئے ہیں غزلوں کی دکاں ٹوٹے ہوئے دل کے نام سے ہم
چھلکائیں گے کتنے جام ابھی اس ایک شکستہ جام سے ہم
بجھنے کا خیال آتا ہی نہیں روشن جو ہوئے اک شام سے ہم
تکلف سلگتے ہی تک تھی جلتے ہیں بڑے آرام سے ہم
اک دن یہ ہے کتنی حسرت سے ذکر مے و مینا کرتے ہیں
اک دن تھے کہ کھلا کرتے تھے ساغر سے سبو سے جام سے ہم
چھائی ہے گھٹا شمشیروں کی زخموں کے پھواریں پڑتی ہیں
کہتے ہیں لہو کے پیمانے ارزاں ہیں مئے گلفام سے ہم
آج اپنے جھروکے پر بیٹھے پتھر ہمیں مارو ہو پیارے
کل پھول اچھالا کرتے تھے اس نام سے تم اس نام سے ہم


***
Mobile+WhatsApp : 09088470916
E-mail : muzaffarnaznin93[@]gmail.com

ڈاکٹر مظفر نازنین

Dr. Kalim Ajiz, a poet of his caliber - Article: Dr. Muzaffar Naznin.

1 تبصرہ: