ماچس تمہارے ہاتھ میں ہے : شعری مجموعے کا ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-07

ماچس تمہارے ہاتھ میں ہے : شعری مجموعے کا ایک جائزہ

maachis-tumhare-hath-mein-hai-zafar-sahbai

ظفر صہبائی بھوپال کے ان بزرگ شعراء میں ہیں جنہوں نے آزادی کے بعد اردو شاعری کے بدلتے رنگوں کو بھی دیکھا اور کم ازکم دو نسلوں کی ذہنی تربیت سازی بھی کی۔
ان کے اب تک پانچ مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے مجموعے سے ہی ادب کے ثقہ حضرات کی توجہ حاصل کر لی تھی، جوکہ یقیناً ایک بڑی بات ہے۔ ادب کے میدان میں صاحبان نقد و نظر سے خراج وصول کرنے میں اک عمر لگ جاتی ہے مگر جیسا کہ ان کے احوال و آثار میں بیان ہوا ہے، انہوں نے اپنے پہلے شعری مجموعے "دھوپ کے پھول" سے ہی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا اور آج وہ اس مقام پر ہیں جہاں ہم جیسے طالب علم ان کی رہ گزر پہ جلتے چراغوں کی روشنی میں اپنی منزل طے کر سکتے ہیں۔
ان کی شاعری کیا اور کیسی ہے اس پر گفتگو ہو بھی چکی اور ہوگی بھی۔ "ماچس تمہارے ہاتھ میں ہے" کے مطالعے کے دوران جن اشعار نے راقم الحروف کو خصوصی طور پر متوجہ کیا انہیں کی روشنی میں، ایک مختصر جائزہ پیش ہے۔


جہاں تک میں نے محسوس کیا ہے ان کے اشعار کے استعاراتی نظام میں وقت (پیریڈ) کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ وقت سماجیات کے حوالے سے بھی ہے، سیاسیات کے حوالے سے بھی، اور نشاط و ملال کے حوالے سے بھی۔ دیکھا جائے تو وقت کے کینوس پر انسانی زندگی کے عروج و زوال کے تمام شوخ رنگ پوری طرح نمایاں ہیں۔ ظفر صہبائی کی شاعری میں بھی ہمیں اس کے عکس نظر آتے ہیں۔


چلو شاہِ جہاں مسند سے اترو
بہت سن لی تمہاری لن ترانی
جن کی تعلیم بھی مشکوک سند بھی مشکوک
وہ وزرات کا قلمدان سنبھالے ہوئے ہیں
گنہگاروں میں جو انتخاب ٹھہرے ہیں
ہمارے شہر میں عزت مآب ٹھہرے ہیں
ہائے کیا لوگ تھے کردار سے اپنے نہ گرے
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ سیاست نہیں کی
بدن کو روح سے کیسے جدا کیا جائے
وطن لباس نہیں ہے بدل لیا جائے
معجزہ ہوگا اگر حرمتیں اپنی بچ جائیں
سارے کم ظرف ہی ذیشان ہوا چاہتے ہیں
رہنماؤں نے کتابوں کا لکھا جھٹلا دیا
کام اس دنیا کا چل سکتا ہے دانش کے بغیر

علامہ اقبال کی شاعری میں جو خطیبانہ رنگ ہے اس کو ترقی پسندوں نے بھی خوب استعمال کیا۔ حالانکہ یہاں وہ ترقی پسند بھی تھا جس نے تم کی جگہ ہم کہا اور ہر بات کو اپنی ذات سے منسوب کیا۔ یعنی کہ فیض احمد فیض ع
ہم دیکھیں گے لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے
ظفر صہبائی نے ہم عصروں اور خُردوں کو مخاطب کر کے جو پیغام دیا ہے یا جو اشعار کہے ہیں وہ ہمیں نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ زندگی کے رنگ بھی دکھا جاتے ہیں۔


اپنی کمیوں سے کچھ سیکھنا ہے تجھے
اتنی جلدی نہ کر اپنی تکمیل میں
رنگ و خوشبو کی اگر تم نے حفاظت نہیں کی
عمر بھر ہاتھ ملوگے کہ محبت نہیں کی
سنجیدگی کے ساتھ بہت جی نہ پاؤگے
بڑھتی رہے گی عمر اگر مسکراؤگے
ماچس تمہارے ہاتھ میں ہے تم ہی طے کرو
اس سے دیے جلاؤگے یا گھر جلاؤگے
تمہیں ضد ہے چلو تم بھی نئی بیعت کرلو
چلو ہم بھی سراپا پیکرِ انکار بنتے ہیں
در د کے امتحان میں ضبط کی کوئی حد نہ ہو
صبر کر و تو یوں کرو، ورنہ کمال کیا ہوا
آنسوؤ! اس قدر تو برسو تم
اس کی آنکھوں تلک نمی جائے
اتنی جلدی میں ہیں اب لوگ کہ یہ چاہتے ہیں
ہاتھ بھر کھودیں زمیں، ہاتھ خزانے لگ جائیں

آج صورتحال واقعی یہ ہے کہ نئی نسل فوراً عمل کا رد عمل یا یوں کہیں کہ اپنی کوششوں کا صلہ فوراً چاہتی ہے ورنہ آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک۔ ایسے موقع پر ضیا فاروقی کا یہ شعر یاد آتا ہے ؎

شعور تشنگی ایک روز میں پختہ نہیں ہوتا
مرے ہونٹوں نے صدیوں کربلا کی خاک چومی ہے

بہرحال ظفر صہبائی سماج کے بدلتے رنگوں کو پوری شدت سے نہ صرف محسوس کرتے ہیں بلکہ ان کی لفظی تصویر بھی پیش کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں زندگی کے جو عکس لرزاں نظر آتے ہیں، اس سے ایک عام آدمی بھی متاثر ہوتا ہے۔ رنج و غم کے یہ بادل جو شعر بن کر ظفر صہبائی کے یہاں برستے ہیں وہ یقیناً سننے والے کو شرابور کر دیتے ہیں۔ اس حوالے سے درج ذیل اشعار ملاحظہ فرمائیں۔


شاہد ہیں دیکھ لیجے یہ خونچکاں سی آنکھیں
کرتے ہیں آنسوؤں سے یادوں کی میزبانی
چند قطروں سے مری پیاس بجھے گی کیسے
اتنے آنسو تو مجھے دیجے کہ دریا ہوجاؤں
اب آنسوؤں سے ہر اک شب کہانیاں لکھو
کہ رت جگوں کے لیے کوئی مشغلہ تو رہے
بچے کہاں ہیں اب آنسو بھی دل کے شیشے میں
کہ بھر دیا ترے دامن میں یہ خزانہ بھی
آنسوؤں سے بھی لیا کام چمن کرنے کا
اپنے احساس کے پودوں کو شجر کرتے رہے
آنسوؤں سے کوئی تعبیر نہیں ہوسکتی
آپ کیوں میر ؔ کا دیوان سنبھالے ہوئے ہیں
میں تو رویا ہی نہیں ہوں پھر یہ آنسو کس کے ہیں
جانے کیوں دامن مرا نمنا ک ہوتا جائے ہے
دکھوں کو خوبصورت استعارہ کردیا ہوتا
خدا تھے تم تو ہر آنسو ستارہ کردیا ہوتا

آنسو خوشی کی علامت بھی ہے اور غم کا استعارہ بھی۔ درج بالا اشعار میں آنسو کا استعارہ براہِ راست یاسیت کا وہ منظرنامہ پیش کرتے ہیں جو ہماری آنکھوں سے اکثر گزرتا رہتا ہے۔
ظفر صہبائی کے یہاں یہی نہیں کہ حالات اور وقت کو ہی موضوعِ سخن بنایا گیا ہے بلکہ ان کے یہاں ایک حساس اور درد مند دل بھی ہے جو جمالیاتی شعور بھی رکھتا ہے اور یہی جمالیاتی شعور جو کہیں تو لباس مجاز میں حقیقت کا اشاریہ ہے اور کہیں واقعی گھر آنگن کی منظر کشی ہے۔


کسی کو دیکھنا، پھر اس پہ پیار آجانا
یہ وہ گناہ ہیں بے اختیار ہوتے ہیں
آکے روزن سے یہ پھر کس نے چھوا ہے مجھ کو
دھوپ کہتی ہے کہ میں نے تو شرارت نہیں کی
وہیں ہے میری رہائش کبھی نگاہ تو ڈال
وہ گھر جو ترے در و بام کے برابر ہے
ذرا سا چھونے میں اس کو سرور تھا کتنا
ذرا سا ہاتھ پکڑنے میں تھیں لذتیں بہت
ہر ایک لفظ میں رہ رہ کے جو چمکتا ہے
یہ اور کچھ نہیں کاغذ پہ دل دھڑکتا ہے
پھول ہوں، ستارے ہوں،یا حسیں نظارے ہوں
سب کو رنگ تیرے ہی پیرہن سے ملتے ہیں

ظفر صہبائی کے بظاہر مجازی رنگوں سے عبارت اشعار میں بھی اگر غور سے دیکھا جائے تو حقیقت کی جلوہ گری نظر آتی ہے۔ غزل کے حوالے سے، کبھی نہ مرجھانے والے پھولوں کی طرح کے درج ذیل اشعار اس کا ثبوت بھی ہیں۔


شاہکار بننے کی سب کو چاہ ہوتی ہے
موم ہوکہ پتھر بھی اہلِ فن سے ملتے ہیں
ہمیں تو پار اترنے کا حوصلہ ہے بہت
ہمارے پاس یہ کاغذ کی کشتیاں ہی صحیح
اسے کہاں ابھی فرصت کہ خواب سچ کردے
دکھا رہا ہے تماشائے انتظار ابھی
کیا کیا ہیں تماشے در و دیوار کے باہر
ہم آگئے تہذیب کے معیار سے باہر
الفاظ بھی باز ار کے سکوں کی طرح ہیں
گھس جائیں تو ہوجاتے ہیں بازار سے باہر
اخبار میں حالات قرینے سے سجے ہیں
بکھراؤ ہی بکھراؤ ہے اخبار کے باہر

***
رضوان الدین فاروقی۔ عیدگاہ ہلز، بھوپال
ایمیل: rugenious[@]gmail.com

A review on poetry book 'Maachis tumhare hath mein hai'. Book Review by: Rizwan Uddin Farooqui

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں