اویسی پر قاتلانہ حملہ : مجرم کون ہیں؟ - کالم از معصوم مرادآبادی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-06

اویسی پر قاتلانہ حملہ : مجرم کون ہیں؟ - کالم از معصوم مرادآبادی

Attack on Asaduddin Owaisi in UP

مجلس اتحاد المسلمین کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی گزشتہ جمعرات کو ایک قاتلانہ حملہ میں بال بال بچ گئے۔ وہ میرٹھ کے کٹھور اسمبلی حلقہ میں انتخابی مہم سے واپس آرہے تھے کہ ان پر ڈاسنہ کے قریب ٹول پلازہ پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی۔ گولیاں ان کی گاڑی کے دروازوں پر لگیں اورایک ٹائر پنکچر ہوگیا۔ ایک حملہ آور کو ان کے ساتھیوں نے موقع پر ہی دبوچ لیا جبکہ دوسرے کو پولیس نے بعد میں گرفتار کیا۔ حملہ آوروں کے نام سچن اور شوبھم بتائے جاتے ہیں۔ پولیس نے ان دونوں کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ درج کرکے جیل بھیج دیا ہے۔ اویسی نے اس حملہ کو ایک بڑی سازش سے تعبیر کرتے ہوئے اس کی اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے اس کی شکایت الیکشن کمیشن اور لوک سبھا اسپیکر سے بھی کی ہے۔ انھوں نے حکومت کی طرف سے دی گئی زیڈ پلس سیکورٹی لینے سے انکار کردیا ہے اور حملہ آوروں کے خلاف یو اے پی اے کے تحت کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ میں کہا کہ:
"اویسی کی جان اخلاق اور پہلو خان سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ مجھے سیکورٹی نہیں چاہئے، آپ تمام لوگوں کو تحفظ فراہم کیجئے۔ جولوگ مذہبی جنون پھیلاتے ہیں، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کارروائی کیجئے، میں خود بخود محفوظ ہو جاؤں گا۔ "


یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ انتہا پسندوں نے اویسی کو نشانہ بنایا ہے۔ اس سے پہلے دہلی میں اشوکا روڈپر واقع ان کی رہائش گاہ پر کئی بارحملے ہوچکے ہیں۔ ہندو انتہا پسند تنظیموں کے اراکین نے وہاں توڑپھوڑ مچائی ہے اور سب کچھ تہس نہس کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن اب تک پولیس نے قصورواروں کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے۔ پولیس کی اسی ڈھیل سے فائدہ اٹھاکر اب انتہا پسندوں نے اویسی کو براہ راست نشانہ بنایا ہے۔ ہم آپ کو بتا دیں کہ جس کوٹھی میں اسدالدین اویسی مقیم ہیں، اسی میں ان کے والد سلطان صلاح الدین اویسی مرحوم بھی رہا کرتے تھے۔ اس کوٹھی کی تاریخی حیثیت یہ ہے کہ بابری مسجد بازیابی کی پوری تحریک یہیں سے چلی۔ یہ کل ہند بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا مرکزی دفتر تھا اور اس کی تمام میٹنگیں یہیں ہوتی تھیں۔


اسدالدین اویسی پر حملے کے بعد سب سے زیادہ تنقید اترپردیش میں نظم ونسق کی صورتحال پر ہوئی ہے۔ اویسی نے سوال کیا ہے کہ:
"اترپردیش میں قانون کی حکمرانی ہے یا لاقانونیت کا بول بالا ہے؟ اگر حکومت گن کلچر کو فروغ دینا چاہتی ہے تو ملک میں قانون کا راج ختم ہوجائے گا۔ "
اہم بات یہ ہے کہ اویسی اس حملے سے قطعی خوفزدہ نہیں ہیں اور نہ ہی انھوں نے یو پی میں انتخابی مہم سے ہاتھ کھینچے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ وہ یوپی میں اپنی مہم جاری رکھیں گے اور جب تک زندہ ہیں، حق کی آواز بلند کرتے رہیں گے۔


قابل ذکر بات یہ ہے کہ اویسی پر قاتلانہ حملہ اسی اترپردیش میں ہوا ہے جہاں کے نظم ونسق پر مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ اور وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کو بڑا ناز ہے۔ وہ خودہی اپنی پیٹھ ٹھونک کر کہتے ہیں کہ اب اترپردیش غنڈوں اور موالیوں سے پاک ہوگیا ہے۔ حالانکہ جرائم پیشہ عناصر روز ہی امت شاہ اور یوگی کے اس بیان کو منہ چڑاتے نظرآتے ہیں۔ نظم ونسق کے معاملہ میں اس سے بڑی چوک کیا ہوسکتی ہے کہ یوپی اور دہلی کی سرحد پر ایک ممبرپارلیمنٹ اور پارٹی سربراہ کو اندھا دھند گولیوں کا نشانہ بنایا جائے اور وہ بھی ایک ایسے موقع پر جب اسمبلی چناؤ کی وجہ سے امن وقانون کی مشنری ہائی الرٹ پر ہو۔


یہ بات سبھی کو معلوم ہے کہ اسدالدین اویسی نے اترپردیش کے انتخابات میں 80 سے زیادہ سیٹوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں اور وہ ان کی کامیابی یقینی بنانے کے لیے رائے دہندگان سے رابطہ کر رہے ہیں۔ مسلم حلقوں میں ان کی خاصی پذیرائی بھی ہو رہی ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر جس انداز میں مسلم مسائل کو اٹھاتے ہیں، اس سے مسلم نوجوانوں میں ان کی قدر و قیمت سب سے زیادہ ہے۔ اس کا اندازہ ان کے انتخابی پروگراموں میں امڈ کر آتی ہوئی بھیڑ کو دیکھ کر ہوتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو اویسی سے پریشانی لاحق ہے جو اب تک خود کو اترپردیش میں مسلم ووٹوں کاواحد ٹھیکید ار سمجھتے رہے ہیں۔ اسی لیے ان پر طرح طرح کے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ ان پر سب سے بڑاالزام بی جے پی کی’بی ٹیم‘ ہونے کا ہے۔ حالانکہ وہ اپنی تقریروں اور گفتگو میں سب سے زیادہ بی جے پی کو ہی نشانے پر لیتے ہیں۔


اسدالدین اویسی کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ نہ تو کسی قسم کا حفاظتی دستہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں اورنہ ہی بلٹ پروف کار استعمال کرتے ہیں۔ وہ زندگی اور موت کا مالک اللہ کو سمجھتے ہیں۔ جب ایک ٹی وی چینل نے ان سے پوچھا کہ کیا وہ حملے کے وقت ڈر گئے تھے تو انھوں نے کہا کہ:
"نہیں میں نے کلمہ پڑھ لیا تھا کیونکہ مجھے ایسا لگا کہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کا وقت آ پہنچا ہے۔ "


پہلی نظر میں ان پر کیا گیا قاتلانہ حملہ منافرانہ سیاست کا نتیجہ ہی معلوم ہوتا ہے۔ یوں تو اترپردیش کئی برس سے فرقہ وارانہ سیاست کا مرکز بنا ہوا ہے، لیکن جب سے وہاں اسمبلی الیکشن کا بگل بجا ہے، فرقہ واریت کی بہار آ گئی ہے۔ بیرسٹر اویسی پر حملہ کا ایک قابل غور پہلو یہ ہے کہ یہ اسی ڈاسنہ علاقہ میں کیا گیا ہے جہاں ڈاسنہ دیوی مندر ہے اور اس کا پجاری بدنام زمانہ یتی نرسنگھانند ہے۔ یتی نے اس علاقہ کو مسلم دشمنی کا مرکز بنا رکھا ہے۔
پچھلے سال یہاں مندر میں پانی پینے آئے ایک مسلم نوجوان کے ساتھ جو وحشیانہ سلوک کیا گیا تھا اس کے بعد ہی یتی نرسنگھانند سرخیوں میں آیا تھا۔ بعد کو اس نے باقاعدہ مسلم دشمنی کا کاروبار شروع کردیا۔ یتی نرسنگھا نند ہریدوار دھرم سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کے اعلان کے بعد سلاخوں کے پیچھے ہے۔ جن لوگو ں نے یتی نرسنگھا نند کے خلاف ہریدوار معاملے میں ایف آئی آر درج کرائی ہے، ان میں مجلس اتحاد المسلمین کا بھی ایک کارکن شامل ہے۔


گرفتارحملہ آوروں میں ایک نوجوان سچن شرما کا تعلق گوتم بدھ نگر کے بادل پور گاؤں سے ہے۔ اسے اویسی کے ساتھیوں نے ہی پکڑکر پولیس کو سونپا تھا۔ حملہ میں استعمال کی گئی غیرلائسنسی پستول اورایک سفید آلٹو کار بھی ضبط کی گئی ہے۔ دوسرے حملہ آورشوبھم کو سہارنپور سے گرفتار کیا گیا ہے۔
سچن شرما کے فیس بک اکاؤنٹ میں بی جے پی لیڈروں کے ساتھ اس کی تصویریں ملی ہیں۔ اس نے یتی نرسنگھانند کا ایک اشتعال انگیز ویڈیو بھی شیئر کیا ہوا ہے۔ شرمانے اپنے فیس بک پیج پرجامعہ میں سی اے اے مخالف مظاہرین پر فائرنگ کرنے والے رام بھکت گوپال کے ساتھ بھی اظہار یگانگت کیا ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس کے ڈانڈے کہاں سے ملے ہوئے ہیں۔ اگر پولیس غیرجانبداری اور کسی دباؤ کے بغیر تحقیقات کرے تو وہ اصل مجرموں تک پہنچ سکتی ہے۔ مگر پولیس نے تحقیقات شروع ہونے سے پہلے جو کچھ کہا ہے، وہ اس کی تحقیقات کا رخ طے کرتا ہے۔


پولیس افسران نے حملہ آور سچن شرما سے ابتدائی پوچھ تاچھ کی بنیاد پر کہا ہے کہ وہ دراصل اویسی کی تقریروں سے ناراض تھا۔ ا س معاملے میں خود اسد الدین اویسی کا کہنا ہے کہ اگر وہ غیر قانونی تقریر یں کرتے ہیں تو پولیس نے اب تک ان کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی ہے۔ انھوں نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں اور یہ کام آخری دم تک کرتے رہیں گے۔ اگر مظلوموں کے حق میں آواز بلند کرنا کوئی جرم ہے تو وہ اس جرم کو بار بار دہرائیں گے۔
بہرحال اسد الدین اویسی پر اس بزدلانہ حملے نے اتنا تو ثابت کرہی دیا ہے کہ اترپردیش میں امن و قانون کی مشنری پوری طرح مفلوج ہے اور الیکشن کے موقع پر بھی وہ صرف حکمراں جماعت کے مفادات پورے کرنے میں لگی ہوئی ہے۔


***
بشکریہ: معصوم مرادآبادی فیس بک ٹائم لائن - روزنامہ اعتماد اتوار ایڈیشن (جائزہ)
masoom.moradabadi[@]gmail.com
موبائل : 09810780563
معصوم مرادآبادی

Attack on Asaduddin Owaisi in UP - Column: Masoom Moradabadi.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں