عابد سہیل کا افسانہ دشت تعلق : ایک تاثر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-04

عابد سہیل کا افسانہ دشت تعلق : ایک تاثر

abid-suhail-short-story-dasht-e-taalluq

عابد سہیل کا افسانہ دشت تعلق : ایک قاری کی نظر سے

عابد سہیل کا افسانہ: دشت تعلق (ریختہ پر یہاں پڑھیے)
خلاصہ: کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جو اپنے دوست سے بے پناہ محبت کرتا ہے۔ ان کے درمیان وقفہ وقفہ پر فاصلے آتے رہے ہیں لیکن اس کے دل سے اپنے دوست کی یاد نہیں جاتی۔ پھر ایک دن جب وہ اس کے بڑے بھائی کا تعاقب کرتے ہوئے دوست کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ وہاں دوست سے مل کر اسے احساس ہوتا ہے کہ ان کے درمیان رشتوں کی جو حرارت تھی وہ تو ختم ہو چکی ہے۔

افسانہ نگاری ادب کی وہ صنف سخن ہے جو اپنے اندر بیکراں وسعت رکھتی ہے۔ زندگی کے تمام رنگ چاہے وہ بہار کے ہوں یا خزاں کے ،افسانے کے دامن میں بکھرے نظر آتے ہیں۔ یوں تو ناول بھی زندگی کا آئینہ ہوتا ہے اور اس میں بھی ہر قسم کے موضوعات کا احاطہ کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن افسانہ چونکہ ناول کی بہ نسبت مختصر ہوتا ہے لہذا اسے قاری تک اپنا پیغام پہنچانے میں بہت کم وقت لگتا ہے۔ یکے بعد دیگرے رونما ہونے والے واقعات نہ صرف قاری کی دلچسپی برقرار رکھتے ہیں بلکہ اپنی تیزرفتاری کے باعث اس کے تجسس کو بھی بیدار رکھتے ہیں۔


افسانہ نگاری کی دنیا میں ایک اہم نام عابد سہیل بھی ہیں۔ جن کے افسانوں میں انسانی زندگی کے لاتعداد روپ نظر آتے ہیں۔ وہ پریم چند اور بیدی کی طرح رشتوں کی نفسیات پر مضبوط گرفت رکھتے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی سیدھے سادے انداز میں ہلکی سی کسک لئے ہوئے رواں دوا ں نظر آتی ہے۔ جس کے ہر موڑ پر ہم مختلف کرداروں سے ملتے ہیں۔ انہوں نے بچے بوڑھے جوان امیر غریب بیوہ فقیر مزدور غرض یہ کہ ہر قسم کے کردار تخلیق کئے۔
عابد سہیل نے کئی افسانے لکھے۔ لیکن ان کے افسانے 'دشت تعلق' نے تخلیق کی سطح پر مجھے جذباتی طور پر بے حد متاثر کیا۔ 'دشت تعلق' بظاہر دوستی کے موضوع پر لکھا گیا ایک عام سا افسانہ ہے لیکن اس افسانے میں احساس و جذبات کی سطح بہت بلند ہے۔ شہر کا جنگل روزگار کی تلاش میں آئے ہوئے انسانوں کو اس طرح اپنے شکنجے میں جکڑ لیتا ہے کہ بہت سے رشتوں کی ڈور کھنچتے کھنچتے بلآخر ٹوٹ ہی جاتی ہے۔ مذکورہ افسانے میں اسی کشمکش کا ذکر ہے۔


افسانے کی ابتدا ماضی کے ایک چھوٹے سے واقعے سے ہوتی ہے جہاں راوی اور اس کا جگری دوست ابراہیم ایک قبر کے نزدیک موجود گلاب کے پودے سے ٹوٹے ہوئے پھول کے لئے افسردہ ہیں۔ اس پھول کی تین نازک پنکھڑیاں اپنے پھول سے الگ ہوکر زمین پر بکھر گئی ہیں اور دو معصوم محبت کرنے والے دل اس جدائی پر نالاں ہیں۔
اس کے بعد راوی اپنے عزیز ترین دوست کو یاد کرتے ہوئے ماضی کی پرپیچ راہوں کے سفر پر نکل پڑتا ہے جہاں اسے تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے گھر اور دوست سے دور ہونا پڑاتھا۔ دو برس کے بعد جب راوی واپس اپنے گھر آیا تو ابراہیم سے ملتے ہی یہ دوسال کافرقت بھرا عرصہ جیسے دولمحوں میں زندگی کے ورق سے نکل گیا تھا۔ دو پنکھڑیاں ٹوٹ کر بکھرنے سے پہلے جڑ گئیں۔ دو دلوں کے پھول کھل گئے۔ افسانہ نگار کہتا ہے:
"میں چپکے سے اٹھا ۔ ہونٹوں کو جنبش دئیے بغیر آنکھوں سے کہا"ابھی آتاہوں"۔ اور پھر میں وہاں نہیں تھا۔
گھنٹے دو گھنٹے بعد جب میں اور ابراہیم اسی کھوبڑ کھابڑ میدان میں ایک پتھر پر بیٹھے جانے کیا کیا باتیں کررہے تھے کہ لوگ مجھے تلاش کرتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔
"میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ ابراہیم کے ساتھ ملے گا" مجھے ڈھونڈنے والوں میں سے کسی نے کہا تھا۔
اور پھر یہ دو سال درمیان سے اس طرح غائب ہوگئے جیسے کبھی آئے ہی نہ ہوں۔ "
(افسانہ' دشت تعلق'، مجموعہ جینے والے، ص: 51)


لیکن جیسا کہتے ہیں کہ زندگی پھولوں کی سیج نہیں ہے۔ یہ ایک انجان راستہ ہے۔ کب کہاں کون سا حادثہ آپ کا منتظر ہے آپ بے خبر ہیں۔ اسی طرح رونما ہونے والے ایک حادثے نے راوی اور اس کے دوست کو ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا۔ وقت گزرتا گیا اور محبت کے گلاب کی جڑیں سوکھتی چلی گئیں۔
دس سال کی طویل مدت گزر گئی۔ راوی نے لکھنؤ میں رہائش اختیار کرلی اور کاروبار زیست میں کچھ ایسا الجھا کہ ابراہیم تو کیا اپنی بھی خبر نہ لی۔ لیکن پھر یکایک جھیل کے پرسکون پانی میں ہلچل پیدا کرنے کے لئے ابراہیم کے بھائی کاضمنی کردار نمودار ہوتا ہے اور راوی بے چین و بے قرار ہو اٹھتا ہے۔
وقت نے یکدم پر پھیلائے اورپیچھے بہت پیچھے پرواز کرگیا۔
ابراہیم کیا یاد آیا ،یادوں کا ایک سلسلہ چل پڑا۔
اورگلاب کا ایک پھول تھا جو کب کا زمانے کی بے توجہی کا شکار ہو کر مرجھا گیا تھا۔
افسانہ یونہی میٹھی میٹھی کسک لئے کلائمکس تک جا پہنچتا ہے۔ جہاں راوی ابراہیم کے بھائی کا تعاقب کرتے ہوئے آخرکار ابراہیم کو تلاش کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔


اور پھر افسانے کا ٹرننگ پوائنٹ آتا ہے۔ راوی کو ایک عجیب و غریب بلکہ آکورڈ سی سچویشن سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
ابراہیم بدل گیا تھا۔ اس کے انداز و لب ولہجے میں وہ گرمجوشی مفقود تھی جو ان کی دوستی کا خاصہ تھی۔ یہ کیسی اجنبیت در آئی تھی ان دونوں کے بیچ وقت کا ایک طویل دریا تھا جو دلوں کے درمیان میں حائل ہوگیا تھا۔ محسوس کیجئے:
" ہم لوگ کتنے سال بعد مل رہے ہیں؟" میں نے پوچھا۔
اس نے انگلیوں پر کچھ حساب لگایا،پھر کچھ سوچا اور کہا:
"پندرہ سال بعد"
"غلط" میں نے جواب دیا۔ "پورے بیس سال بلکہ شاید اس سے بھی زیادہ"
مجھے کچھ سوچتے دیکھ کر اس نے پوچھا
"یہاں کیا کررہے ہیں آپ۔ ۔ تم؟"
الفاظ کی ترتیب کچھ ایسی تھی کہ آپ کو تم سے بدلنا ممکن نہ تھا۔ "
(افسانہ' دشت تعلق'، مجموعہ جینے والے، ص: 54)


اور پھر راوی کو احساس ہو گیاکہ وقت کے بے رحم ہاتھوں نے دوستی کے گلاب کی پنکھڑیوں کو کبھی نہ جڑنے کے لئے الگ کردیا ہے۔ اس آپ میں تکلف تھا،اپنائیت نہ تھی۔ اس آپ کے بعد جو گفتگو ہوتی ہے وہ ہمیشہ رسمی ہوتی ہے۔ اور جہاں رسم نبھائی جاتی ہے وہاں محبتیں پروان نہیں چڑھا کرتیں۔ ابراہیم کے رویے نے اسے کچھ اس طرح دلبرداشتہ کیا کہ اس کے پاس کہنے سننے کو کچھ باقی ہی نہ رہا۔
اس تعلق کے اختتام کے ساتھ ہی افسانہ بھی اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔
" اس نے کہا ملتے رہئے گا"
میں نے اس جملے کے وہی معنی لئے جو میں چاہتا تھا اور شاید تھے بھی۔
"ضرور کیوں نہیں" میں نے کرسی پر سے اٹھتے ہوئے کہا۔
ابراہیم مجھے باہر تک چھوڑنے آیا۔ میں نے سائیکل کا تالہ کھولا۔ پھر اس سے ہاتھ ملایا۔ اس کا ہاتھ ٹھنڈا تھا۔ میرا ہاتھ بھی کچھ ایسا گرم نہ تھا۔ میں نے پیڈل پر پیر رکھا تو وہ مجھ پر ایک نظر ڈالے بغیر گھر لے دروازے کی طرف مڑ گیا۔ میں نے بھی پلٹ کر نہ دیکھا۔ یہ ہم دونوں کی آخری ملاقات تھی۔ اسے پندرہ برس ہوچکے ہیں۔ "
(افسانہ' دشت تعلق'، مجموعہ جینے والے، ص: 56)


افسانے میں دلچسپی کی پہلی وجہ خود راوی کا کردار ہے۔ واحد متکلم میں لکھے گئے اس افسانے کی پہلی چونکانے والی بات یہ ہے کہ راوی نے ایک جگہ اپنا تعارف دیتے ہوئے کہا ہے:
"میں عابد سہیل ہوں"


یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ 'دشت تعلق' محض ایک افسانہ نہیں بلکہ آپ بیتی ہے۔ یہ تکلیف دہ واقعہ راوی کی زندگی کا ایک حصہ ہے جس کا درد وہ نجانے کب سے برداشت کررہا تھا لیکن جب درد حد سے سوا ہوگیا توگویا ضبط کا لاوا پھوٹ پڑا اور جدائی کے جلتے انگارے صفحہ قرطاس کو جلانے لگے۔
بچپن کے دوست سے بچھڑنا بظاہر ایک معمول کا واقعہ ہے جو ہم میں سے اکثر لوگوں کے ساتھ رونما ہوچکا ہوگا لیکن یہ عابد سہیل کا تخلیقی بیانیہ ہے جس نے اس معمولی واقعے کو اس تیر جیسا تکلیف دہ بنادیاجو دل میں پیوست ہو کر ٹوٹ جاتا ہے۔ یہ افسانہ ان کے ذاتی تجربے کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے اس لئے یہاں ایک بے ساختگی محسوس ہوتی ہے ۔ قاری ہمہ تن گوش ہو کر گویا ان کی داستان سننے میں محو ہوجاتاہے۔ یہ ان کے طاقتور بیانئے کا کمال ہے کہ ان کے لفظ پڑھے جانے کے بجائے سنے جانے لگتے ہیں۔ ان کے جملے دل پر اترتے ہیں۔ ان کے جذبے احساس کو جھنجھوڑ دیتے ہیں۔


فیاض رفعت نے اپنے مضمون "اردو افسانے کا پگمیلئن : عابد سہیل" میں لکھا ہے:
" سبھی افسانوں میں ان کا پرقوت بیانیہ قاری کو باندھے رکھتا ہے۔ زبان کی ثروت مندی اس کے تخلیقی استعمال سے ظاہر ہوتی ہے جسے عابد سہیل اس خوبی اور رسان سے برتتے ہیں کہ قاری پر انکشافات کی دنیا روشن ہوتی چلی جاتی ہے۔ "


'دشت تعلق' میں عابد سہیل کی زبان نزاکت اور لطافت سے پر ہے۔ ایک مکمل افسانوی زبان جس میں خوبصورت الفاظ اپنی درست جگہ پر استعمال ہوئے ہیں اور قاری پر وہی جذبات طاری کرتے ہیں جو راوی پر ماضی میں طاری ہوئے تھے۔
'دشت تعلق' میں عابد سہیل نے ایک رشتے کی موت کا بیان کیا ہے۔ وہ قصہ گوئی کے فن میں مہارت رکھتے ہیں اس لئے وہ افسانے کا آغاز بالکل پرسکون طریقے سے کرتے ہیں۔ پھر وہ کسی ماہر قصہ گو کی طرح یکے بعد دیگرے رونما ہونے واے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے سنسنی پیدا کرتے ہیں اور کلائمکس تک کہانی کی ڈرامائیت کو برقرار رکھنے میں مکمل کامیاب ہوتے ہیں۔ افسانے میں جہاں دلچسپی شروع سے آخر تک قائم رہتی ہے وہیں افسانہ وحدت تاثر قائم کرنے میں بھی کامیاب ہوا ہے۔


عابد سہیل نے افسانے کی شروعات گلاب کے پھول کے استعارے سے کی اور اسے کئی جگہ استعمال کیا ہے۔ گلاب کا پھول استعارہ ہے رشتوں کا۔ بچپن میں گلاب سے جدا ہو جانے والی پنکھڑیوں کے پردے میں انہوں نے اپنے اور ابراہیم کے خوبصورت رشتے کو تشبیہہ دی ہے۔ پنکھڑی بے حد نازک ہوتی ہے اور تیز ہوا کے جھونکے سے اگر ایک بار وہ ٹوٹ کر زمین پر گر جائے تو تاعمر گلاب سے واپس جڑ نہیں سکتی۔ عابد سہیل انسانی رشتوں کی نزاکت سے واقف ہیں۔ شہر کی مصروف اور پرہنگام زندگی میں رشتوں کے معدوم ہوتے ہوئے سکون کو دیکھ کر انہیں تکلیف ہوتی ہے۔ یہ ان کا غم ہے۔ 'دشت تعلق' کے ذریعے وہ یہی پیغام دینا چاہتے ہیں کہ رشتوں کے گلابوں کو اگر رابطے کا پانی نہ دیا جائے تو وہ وقت کی تیز دھوپ میں مرجھا کر ایک دن سوکھ جاتے ہیں۔ مضبوط ترین تعلقات کے درمیان بھی اگر ہجر کا جنگل اگ جائے تو پھر اسے عبور کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ ان کے افسانوں میں ان کی ذات کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔


محمد حسن نے ان کی افسانہ نگاری کے بارے میں لکھا ہے کہ:
"اپنی ہستی کی تلاش میں عابد سہیل کو کس حد تک کامیابی ملی ہے اس کا فیصلہ تو پڑھنے والے ہی کریں گے کہ ان افسانوں کا سارا دروبست کارگہہ شیشہ گری کا سا ہے کہ یہاں سانس بھی آہستہ لینا ضروری ہے اور اس بارے میں بقول شاعر 'جو کچھ کہا تو ترا حسن ہوگیا محدود'۔ "
('یہ افسانے'، مجموعہ ' سب سے چھوٹا غم'، ص: 13۔ مطبوعہ اترپردیش اردو اکادمی۔)


عابد سہیل کے افسانوں پر بات کرنے کے لئے موضوعات کی کمی نہیں ہے۔ ان کے افسانوں میں انسانی زندگی کے لاتعداد پہلو نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ زبان و بیان اور تکنیک کی سطح پر بھی ان کے افسانے تنقید کے لئے بے شمار مضامین فراہم کرتے ہیں۔ لیکن میں نقاد نہیں ہوں۔ اس لئے میں نے ان کے افسانوں کو قاری کی نظر سے پڑھا اور بطور قاری ان کے افسانے کو سمجھنے کی کوشش کی۔ مجھے اپنی کوشش میں کس حد تک کامیابی ملی ہے اس کا فیصلہ اب قارئین کے ہاتھوں میں ہے۔


***
حمیرا عالیہ (لکھنؤ)
humaira7.ha[@]gmail.com
A review of Abid Suhail's short story Dasht-e-Taalluq. - Reviewer: Humaira Alia

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں