کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-14

کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور

ghalib-unique-style-of-expression

مرزا اسد اللہ خاں غالب ہندوستان کے معروف اردو شاعر گذرے ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ اردو شاعری غالب کے بغیر ادھوری ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ جس طرح ہم کر سکتے ہیں۔ William Shakepeare کے بغیر انگریزی ادب نا مکمل ہے تو اس حقیقت سے انکار نہیں کہ غالب کے بغیر اردو ادب اور شاعری کا تصور ناممکن ہے۔ تاج محل کا شمار دنیا کے ہفت عجوبہ روزگار میں ہوتا ہے۔ جسے دیکھنے کیلئے دنیا بھر سے سیاحوں کی آمد ہوتی رہتی ہے۔ تاج محل شہر آگرہ میں ہے۔ لیکن ہمیں اس حقیقت سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے کہ شہر آگرہ وہ شہر ہے جہاں اردو کے مایۂ ناز، باعث افتخار شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب 27 دسمبر، 1797ء کو پیدا ہوئے۔
شہنشاہ شاہجہاں نے تاج محل جیسی خوبصورت عمارت بنواکر اپنی محبت کو دفن کرکے اسے ہمیشہ ہمیشہ کی زندگی بخشی۔ ناکام محبت مرزا غالب نہ تو کوئی شہنشاہ تھے اور نہ کسی شہنشاہ کے فرزند۔ محبت نے ان کے دل میں بھی ایسا ہی شگاف پیدا کیا جیسا کہ شہنشاہ شہاجہاں کے دل میں کیا تھا۔ لیکن مرزا غالب تاج محل جیسی خوبصورت عمارت تو نہ بنوا سکے لیکن اشعار کے گل و خشت سے خوبصورت عمارت تعمیر کرگئے۔ تاج محل جسے دیکھنا ہوا اسے چل کر جانا پڑتا ہے۔ لیکن غالب کے اشعار کسی ایک مقام ایک شہر سے وابستہ نہیں بلکہ خفیہ جوگی اور بہتی ندی کی طرح شہر بہ شہر اور دیش بدیش چلے جاتے ہیں۔ بلکہ آج digital world میں ایک ہلکے سے touch سے انٹرنیٹ کے ذریعہ پوری اردو دنیا میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔ ان کے اشعار جو بہت پر معنی ہوتے ہیں۔ اور تیر و نشتر کی طرح دل میں چھبتے ہیں۔ ایک ناکام محبت کی آہ۔ ایک ٹوٹے ہوئے دل کی صدا۔ ایک غم کے مارے کی پکار بن کر عالمِ ادب پر اجاگر ہوتے ہیں۔


غالب کا پورا نام مرزا اسد اللہ خاں غالب اور غالب تخلص تھا۔ دبیر الملک، نجم الدولہ سے انہیں خطاب ملا تھا۔ غالب صرف بر صغیر (ہندو بنگ و پاک) ہی نہیں پوری اردو دنیا کے معروف شاعر ہیں۔ غالب کے بغیر اردو شاعری تقریباً نامکمل ہے۔ غالب بلاشبہ اردو شاعری اور ادب کے ستون سمجھے جاتے ہیں۔


غالب نے جب آنکھیں کھولیں مغلیہ شیرازہ بکھر رہا تھا۔ ہندوستان وطنِ عزیز بحرانی کے دور سے گذر رہا تھا۔ پرانی بساط کے مہرے الٹ رہے تھے۔ ہندوستان فرنگیوں کے طوقِ غلامی میں جکڑا ہوا تھا۔ مرزا کی زندگی غم اور الم سے لبریز ہے۔ عالمِ طفلی میں ہی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ پھر بھائی بھی ختم ہوگئے۔ اور خدا نے 7 اولاد دی تھی۔ جو سب بچپن میں ہی ختم ہوگئے۔ غالب کا عالم شباب طرح طرح کی رنگ رلیوں سے پُر تھا۔ شراب جو ان کی فطرت میں شامل ہوچکی تھی۔ اس لئے 13؍سال کی عمر میں ہی ان کی شادی نواب الٰہی بخش کی بیٹی سے کردی گئی۔ غالب غزل گو شاعر، قصیدہ نگار اور اچھے نثر نگار تھے۔ خطوط نویسی میں ان کا جواب نہیں۔ انہوں نے پرانے القاب و آداب کو ختم کرکے مراسلے کو مکالمہ بنادیا۔
ان کے دیوان 1841ء ، 1847ء، 1861ء، 1862ء اور 1863ء میں شائع ہوئے۔ تمام زندگی پریشانی کے عالم میں گذری ہے۔ ان کے کلام میں سادگی، سلاست اور روانی ہے۔ غالب ایک کامل مصور ہیں اور خیالی تصویروں کو سادگی سے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔فلسفیانہ انداز، عشقیاں ، ان کے لطیف اشعار ان کی زندگی کا آئینہ دار ہیں۔ ان کے کلام میں فصاحت اور بلاغت کی روانی ہے۔ انہوں نے اردو اور فارسی میں شاعری کی ہے۔ غالب کو سات بچے خدائے تعالیٰ نے عطا کئے لیکن عالمِ طفلی میں ہی ختم ہوگئے۔ ایک ان کی متنبٰی اولاد تھی۔ عین جوانی میں وہ ختم ہوئی اس درد و رنج کا اظہار غالب اس شعر میں کرتے ہیں۔
قیدِ حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں


دنیا کو بازیچۂ اطفال سے تشبیہ دیتے ہوئے یہ شعر رقم کرتے ہیں ؂
بازیچۂ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے


غالب اپنے پینشن کے سلسلے میں کلکتہ آئے تو شہر نشاط کے عیش و طرب کے ماحول سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے او ر یہ شعر رقم کیا ؂

کلکتے کا جو ذکر کیا تو نے ہم نشیں
اک شہر میرے شینے پہ مارا کہ ہائے ہائے
وہ سبز زار پائے مطرہ کہ ہے غضب
وہ نازنین بتان خود آرا کہ ہائے ہائے

غالب کی ایک اہم غزل کے چند اشعار قارئین کے فن شناس نظروں کی نذر ہے ؂

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں لیکن پھر بھی کم نکلے
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے تھے لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے
محبت میں نہیں فرق جینے اور مرنے کا
اس کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
ڈرے کیوں مرا قاتل کیا رہے گا اس کے گردن پر
وہ خوں جو چشم تر سے یوں دم بدم نکلے
کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں واعظ
پر اتنا جانتا ہوں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

غالب نے شراب تو پی لی تھی لیکن انہوں نے اسے غلط قرار دیا تھا جو بذاتِ خود ان کے اس شعر سے ظاہر ہے ؂

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غم گسار ہوتا
یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا

غالب کی زندگی درد و رنج، مصائب و آلام سے لبریز ہے ؂

میں چمن کیا گیا گویا دبستان کھل گیا
بلبلیں سن کر مرے نالے غزل خواں ہوگئیں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں ہم پہ کہ آساں ہو گئیں

کل ملا کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ غالب کا کلام غالب کی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ اور غالب جیسا کوئی غالب شاید اب نہ آئے۔ سخنور تو بہت آئے لیکن غالب جیسا نہیں، بقول غالب ؂
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور


***
Mobile+WhatsApp : 09088470916
E-mail : muzaffarnaznin93[@]gmail.com

ڈاکٹر مظفر نازنین

Ghalib's style of expression is unique - Article: Dr. Muzaffar Naznin.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں