حجاب سے بھی بڑا مسئلہ - ارتداد ! - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-13

حجاب سے بھی بڑا مسئلہ - ارتداد !

hijab-controversy-and-apostasy

شمالی ہندوستان کی پانچ اہم ریاستوں میں الیکشن کی گہما گہمی کے باوجود جنوبی ہندوستان کی ریاست کرناٹک ان دنوں موضوع بحث ہے۔ حجاب کے موضوع پر انقلاب میں اپنے ہنگامی کالم 'نوائے امروز' کے تحت میں دو قسطیں پیش کرچکا ہوں۔ حجاب کے ضمن میں کرناٹک کا ساحلی علاقہ اوڈپی سب سے زیادہ روشنی میں ہے۔


17/مئی 2015 کو 'کوسٹل ڈائجسٹ ڈاٹ کام' نے ایک خبر شائع کرکے بتایا تھا کہ 4/مئی 2015 کو ضلع اوڈوپی کے کرکلا تعلقہ میں اجیکر گاؤں کی جو 24 سالہ مسلم لڑکی 'نینا' گھر سے غائب ہوگئی تھی اس نے دراصل کرکلا کے ہی رہنے والے اپنے ہندو 'بوائے فرینڈ' ہرشت سے ہندو رسم ورواج کے مطابق شادی کرلی ہے۔
تفصیلات کے مطابق نیناکا رشتہ بیلور کے رہنے والے ایک مسلم لڑکے سے طے ہوگیا تھا۔ منگنی کی باقاعدہ تقریب بھی منعقد کی گئی تھی۔ لیکن کچھ ہی دن کے بعدنینا پر اسرار طور پر گھر سے غائب ہوگئی۔ اس کے ماں باپ نے تھانہ میں اس کے غائب ہونے کی شکایت درج کرائی۔ پولیس نے اس کی سرگرمی کے ساتھ تلاش شروع کی۔ لیکن نینا اپنے 'شوہر' ہرشت کے ساتھ منگلورو کے سب مجسٹریٹ کی عدالت میں پہنچی اور ہندو میرج ایکٹ کے مطابق اپنی شادی کو رجسٹرڈ کرالیا۔ مذکورہ 'ڈائجسٹ' نے ان دونوں کی ایک تصویر بھی شائع کی ہے جس میں نینا نے بھی ماتھے پر سندور لگا رکھا ہے۔

آئیے اب اس سے بھی آگے بڑھتے ہیں۔ اوڈوپی کا جو علاقہ اس وقت سب سے زیادہ خبروں میں ہے وہ مانڈیا ہے۔ مسکان نامی اس بچی کا کالج بھی، جس نے پوری دنیا میں اپنے ایک 'ایکٹ' کے سبب 'دھوم' مچا ڈالی، مانڈیا میں ہی واقع ہے۔ 'کوسٹل ڈائجسٹ ڈاٹ کام' نے 6 جون 2016 کو ایک خبر شائع کی کہ مانڈیا کے جس 'بین المذاہب جوڑے' نے بھاگ کرشادی کرلی تھی اسے دونوں کے والدین نے قبول کرلیا ہے اور ان کی شادی کو اپنی رضامندی دیدی ہے۔


23سالہ ہندو لڑکا نوین اور 22 سالہ مسلم لڑکی فرحانہ پچھلے دو سال سے ایک دوسرے کے دام محبت میں گرفتار تھے اور دونوں برابر ملتے رہتے تھے۔ فرحانہ ہرچند کہ ایک سال چھوٹی تھی لیکن تعلیم میں وہ لڑکے سے ایک سال آگے تھی۔ فرحانہ کے ماں باپ اس رشتہ کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے لہذا دونوں گھر سے بھاگ گئے۔ پولیس نے انہیں تلاش کرلیا اوردونوں کے والدین کو تھانہ میں بلاکر انہیں اس پر 'آمادہ' کرلیا کہ وہ اس رشتہ کو قبول کرلیں۔
مانڈیا میں اس طرح کے کئی معاملات روشنی میں آتے رہے ہیں۔ پورے اوڈوپی کے احوال بھی مختلف نہیں ہیں۔ کرناٹک میں دوسرے مقامات پر بھی اس طرح کے درجنوں واقعات روشنی میں آچکے ہیں۔ اور یہ قضیہ صرف ایک ریاست کا ہی نہیں ہے ملک کے باقی حصوں میں بھی ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔


19/دسمبر 2020 کو ٹائمز نیوز نیٹ ورک کے سندیپ رائے نے رپورٹ لکھی کہ میرٹھ کی ایک 23 سالہ مسلم لڑکی فرح کو ایک کنفیکشنری کا کیک بہت پسند تھا۔ اس کنفیکشنری کا مالک ایک 25 سالہ ہندو لڑکا 'نامان مدان' تھا۔ وہ خود ہی ڈلیوری لے کر اس مسلم گھرانہ میں جاتا تھا۔ کیک کے بعد فرح نے مدان کو بھی پسند کرنا شروع کر دیا۔ 13دسمبر 2020 کو یہ دونوں گھر سے بھاگ گئے۔ لڑکی کے بھائی نے مدان کے خلاف بہن کو اغوا کرنے کی رپورٹ درج کرائی۔ پولیس نے ان دونوں کو رشی کیش سے برآمد کر لیا۔ فرح نے مذہب بدل کر اپنا نام 'ماہی' رکھ لیا اور ایک مندر میں شادی کرلی۔
پولیس نے دونوں کو مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا جہاں لڑکی نے اپنے بھائی کے ذریعہ عاید اغوا کے الزام کو جھٹلاتے ہوئے بیان دیدیا کہ میں اپنی مرضی سے اس کے ساتھ گئی تھی اور اب میں اسی کے ساتھ رہوں گی۔
اس خبر پر بہت سے تبصرے سائٹ پر موجود ہیں۔ لیکن سب سے اوپردنیش نامی ایک ہندو نے یہ تبصرہ لکھا ہے:
"میں نے اپنی زندگی میں پہلی بار ایسا واقعہ سنا ہے کہ مسلمان لڑکی نے مذہب بدل کر ہندو لڑکے کے ساتھ شادی کرلی ہے، جے ہو یوگی جی کی"۔


'لیٹسٹ لازڈاٹ کام' نے اتر پردیش کے سنبھل کے تعلق سے 5 اگست 2021 کو ایک خبر شائع کی کہ ایک 15 سالہ مسلم لڑکی اپنے ہندو بوائے فرینڈ کے ساتھ فرار ہو گئی تھی۔ اس کے ماں باپ نے لڑکے کے خلاف اس کے اغواء کی شکایت درج کرائی۔ لڑکی نے فون پر اپنے ماں باپ سے رابطہ کیا تو ان کی لوکیشن کا علم ہوگیا۔ پولیس نے تلاش کی تو معلوم ہوا کہ پچھلے 15 دن سے وہ ہندو لڑکے کے ساتھ گوا میں رہ رہی ہے۔ پولیس نے اسے گوا سے سنبھل لاکر بچوں کی عدالت میں پیش کیا۔ یہاں اس لڑکی نے بیان دیا کہ اسے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ وہ اپنی مرضی سے اس لڑکے کے ساتھ گئی تھی۔


16 اپریل 2021 کو ٹائمز آف انڈیا اور 'ورلڈ وژن انڈیا' نامی ویب سائٹ نے ایک خبر شائع کی جس میں بتایا گیا تھا کہ گزشتہ 22 فروری کو نوئیڈا کے سیکٹر 9 سے جو 23 سالہ مسلمان لڑکی غائب ہو گئی تھی اس نے ہندو مذہب قبول کرکے اپنے ہندو بوائے فرینڈ سے شادی کرلی ہے۔ اس کے ماں باپ نے سیکٹر 20 کے تھانہ میں اس ہندو لڑکے کے خلاف اپنی لڑکی کو اغوا کرنے کی شکایت درج کرائی تھی۔ پولیس نے انہیں الہ آباد میں تلاش کرلیا جہاں وہ شادی شدہ زندگی گزار رہے تھے۔ لڑکی نے پولیس کو بتایاکہ ان دونوں کے درمیان پچھلے 12 سال سے شناسائی ہے اور اس نے ہندو مذہب اختیار کرکے مندر میں شادی کرلی ہے۔ پولیس نے لڑکی سے کہا کہ وہ اپنے ماں باپ سے تعلقات استوار کرلے لیکن اس نے صاف انکار کر دیا۔


ورلڈ وژن انڈیا نامی ویب سائٹ کے علاوہ درجنوں ایسی ویب سائٹس کا مطالعہ کرکے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو اس طرح کے واقعات تیزی کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں اور دوسری طرف ان ویب سائٹس پر مسلمانوں کے ہی خلاف اپنی لڑکیوں کے ذریعہ ہندو لڑکوں کو پھنسانے اور 'لو جہاد' کی مہم چلانے کے الزامات عاید کئے جا رہے ہیں۔ مذکورہ ویب سائٹ پر ہی لکھا تھا کہ پچھلے دو مہینہ میں ایسے 20 سے زائد واقعات ہو چکے ہیں۔


بیشتر واقعات سے اور مذکورہ پانچوں واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھاگ جانے کا واقعہ اچانک ظہور پذیر نہیں ہوتا بلکہ پہلے برسوں شناسائی جاری رہتی ہے۔ ایک واقعہ میں تو دونوں کے درمیان 12 سال تک معاشقہ جاری رہا۔ حیرت ہے کہ اس دوران ماں باپ کیا کرتے رہے۔ جب اپنی لڑکی فرار ہوگئی تو نامزد رپورٹ درج کرا دی۔


انٹرنیٹ پر درجنوں ایسی ویب سائٹس ہیں جہاں ہزاروں ہندو لڑکوں نے اپنے سوالات ڈال رکھے ہیں۔ ان میں زیادہ تر نے یہ سوال کر رکھا ہے کہ:
"کیا وہ مسلمان لڑکی سے شادی کر سکتا ہے۔ "
اس پر کچھ نام نہاد 'ایکسپرٹس' انہیں جوابات بھی دیتے ہیں۔ ایک غیر مسلم لڑکے نے لکھا:
"میں ایک مسلمان لڑکی سے محبت کرتا ہوں۔ اس کی بڑی بہن پہلے ہی کسی اور ہندو لڑکے کے ساتھ بھاگ کر شادی کرچکی ہے۔ کیا میں بھی ایسا کرسکتا ہوں؟"
اس پر بہت سے لوگوں نے اپنی اپنی آراء لکھی ہیں۔
ایک ہندو خاتون نے قدرے پروقار جواب دیا ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ:
محبت کرناکوئی گناہ نہیں لیکن بھاگ کر شادی کرنا ٹھیک نہیں۔ سوچ کر دیکھو کہ اس کے ماں باپ پر کیا گزرے گی جو اسے تم سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ اگر اس کے ماں باپ تیار نہیں ہیں تو تم اپنا مذہب بدلنے کی پیش کش کر سکتے ہو، ممکن ہے کہ وہ تیار ہو جائیں، پھر بھی تیار نہ ہوں تو اس لڑکی کاخیال دل سے نکال دو۔ اگر بے انتہا محبت ہے (جیسا کہ تمہارا دعوی ہے) تو اس کی شادی کہیں اور ہو جانے دو اور اسے یکطرفہ طور پر محبت کرتے رہو اور خود بغیر شادی کے زندگی گزار دو۔
تاہم دوسرے 116 لوگوں نے مختلف آراء دی ہیں۔ ان میں اسے بھاگ جانے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ کسی نے کہا ہے کہ لڑکی کو ہی ہندو بنا کر اپنے لوگوں سے مدد طلب کرو۔ ان جوابات کو ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ لوگوں نے 'لائک' کیا ہے۔


میں پچھلے دو ہفتوں سے ان تفصیلات کا وقتاً فوقتاً مطالعہ کر رہا ہوں۔ دوران مطالعہ میری روح لرز جاتی ہے۔ میرا مضمون ایک سے زائد نشستوں میں تیار ہوتا ہے۔ جب بھی لکھتا ہوں تو انگلیاں کانپنے لگتی ہیں۔ میں نے اپنی بڑی دو بچیوں کی تعلیم اس طرح مکمل کرائی ہے کہ خود چھوڑ کر آتا تھا اور خود لے کر آتا تھا۔ اس مقصد کیلئے میں نے ڈرائیور تک کی خدمات نہیں لیں۔ اس موضوع کے ہزاروں نکات ہیں۔ سب پر بات کرنا ممکن نہیں۔


کرناٹک میں جو ہو رہا ہے اس کا صرف ایک رخ نہیں ہے۔ مسلمانوں کے نام پر وہاں ناکام سیاسی گروہ عواقب و عوامل کا جائزہ لئے بغیر جو آگ دہکا رہے ہیں اس کی تپش دوسرے اہم موضوعات کو جلا کر بھسم کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا اور دوسرے ذرائع سے اپنے جوش کی گرمی بکھیرنے والے گروہوں کو اپنے گھروں کی خبر نہیں ہے۔ انہوں نے بچیوں کو ایسے وقت میں سڑکوں پر دھکیل دیا ہے جب امتحانات سر پر ہیں۔ کتنے ہی گھروں میں ارتداد نے گھس پیٹھ کرلی ہے۔


پورے ملک میں اور خاص طور پر شمال اور جنوب کی ریاستوں میں ایسے واقعات ہر روز رونما ہو رہے ہیں۔ لیکن اس وقت پوری قوم حجاب پر نعرے بلند کر رہی ہے۔ حجاب کے پردہ میں ان کے ساتھ کیا کچھ ہو رہا ہے اس کی تلافی تو شاید ان کے حق میں آنے والا ممکنہ فیصلہ بھی نہیں کر پائے گا۔ مجھے معلوم ہے کہ 'اہل حجاب' اب لعن طعن کا پٹارہ کھول دیں گے۔۔۔ لیکن مسلمانوں کو یہی نکتہ سمجھنا ہوگا کہ ان کے نام نہاد 'خیر خواہوں' اور جوشیلے نعرے بازوں کی بس یہی حقیقت ہے۔


***
(بشکریہ: ردعمل / روزنامہ انقلاب / 13 فروری 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Apostasy is more dangerous than Hijab controversy - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں