تربیت اطفال - کہانیوں کے ذریعے بھی ممکن - مضمون از شفق اسعد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-10

تربیت اطفال - کہانیوں کے ذریعے بھی ممکن - مضمون از شفق اسعد

children-training-by-stories

تربیت اطفال کے موضوع پر یو ں تو لاتعداد مضامین اور کہانیاں لکھی جاچکی ہیں۔ کہیں ماں کی گود سے ہی تربیت کرنا بتایا جاتا ہے تو کہیں دورانِ حمل ہی سے اپنی عادتوں اور روزوشب کو اسی پیکر میں ڈالنا سکھایا جاتا ہے جس قالب میں اپنے نورِ نظر اور لختِ جگر کو دیکھنے کی آرزو ہوتی ہے، تو کہیں احادیث مبارکہ کے ذریعے شادی سے پہلے ہی اپنے بچوں کی تربیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے شریکِ حیات کے انتخاب کی تلقین کی جاتی ہے۔ بہر حال عصرِ حاضر کا یہ ایک بے حد حساس موضوع ہے۔ تربیت اطفال ایک نہایت صبر آزما مرحلہ ہے خصوصاً نئی ماؤں کے لیے جن کے لیے اپنی پچھلی روٹین کو تبدیل کرنا اور اپنی ساری ایکٹیوٹیز کو پس پشت ڈالنا محال محسوس ہوتا ہے۔ لیکن حمل کی مدت شروع ہوتے ہی انہیں اپنے اوقاتِ کار میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ حمل کی مدت کے دوران ماں کی روٹین اور ترجیحات کا بچوں پر خاطرخواہ اثر پڑتا ہے۔


دورِ حاضر میں جب کہ موبائل اور انٹرنیٹ کے ذریعے بچوں کے بہکنے اور راہِ راست سے بھٹکنے کے امکانات کافی زیادہ ہیں تو ان کی تربیت کچھ ایسے نہج سے کی جانی چاہیے کہ ادب و لحاظ اور اخلاقیات کا پاس رکھنا ان کی گھٹی میں شامل ہو۔ کوئی بھی قابلِ اعتراض اور نامناسب چیز دیکھنے یا پڑھنے سے پہلے ان کا ضمیر انہیں پابندِ تربیت کردے۔ عصرِ حاضر میں بچوں پر ہمہ وقت نگاہ رکھنا ممکن بھی نہیں ہے اور نہ ہی انہیں یوں زیرِ پابندی اورزیر نگرانی رکھنا مناسب ہے۔کیوں کہ اس سے بچوں کی نشو ونما پر منفی اثر پڑے گا اور وہ ایک پراعتماد شخصیت بننے سے محروم رہ جائیں گے۔ بچوں کو اسپیس دینا بہت ضروری ہے تاکہ ان کی شخصیت مضبوط اور مستحکم ہوسکے اور ان کا اپنی ذات پر اعتماد قائم ہوسکے۔ لہٰذا آنے والی نسلوں اور زندگی کی دوڑ میں قدم رکھ رہی نسلوں کے قدم مضبوطی سے جمانے کے لیے ضروری ہے کہ ان کی تربیت میں زیادہ پند ونصائح سے کام لینے کے بجائے انہیں کچھ دلچسپ طریقے سے وہی باتیں سکھانے کی کوشش کریں، یوں وہ سیکھنے میں دلچسپی لیں گے اور انہیں یاد بھی رکھیں گے۔


بچوں کو فطری طور پر کہانیاں سننے اور پڑھنے کا بہت شوق ہوتا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ جونہی ایک بچہ ہوش سنبھالتا ہے اور ارد گرد کی چیزوں کو دیکھنا، سمجھنا اور بولنا شروع کرتا ہے تو اس کی توجہ کتابوں کی طرف ضرور ہوتی ہے اور وہ اپنے بڑوں کے طریقے پر اس کتاب کو پڑھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ابتدائی عمروں کے بچے نصیحتوں سے زیادہ دیکھ کر اور سن کر سیکھتے ہیں۔ اور اس عمر میں سیکھی جانے والی باتیں ذہن کے پردے پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں۔ جہاں تک کہانیوں کا تعلق ہے تو قصے کہانیاں اور وہ بھی بچپن کی عمر میں سنی جانے والی خاص طور پر شخصیت پر اثر انداز ہوتی ہیں اور انسان کی شخصیت سازی میں خواہ وہ مثبت ہو یا منفی اہم رول ادا کرتی ہیں۔ اچھی اور مثبت کہانیاں بچوں میں مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھاتی ہیں اور بری اور مخرب اخلاق کہانیاں اور واقعات منفی اخلاقی رویوں اور سوچ کو بنانے کا محرک بنتی ہیں۔


بچوں کو کہانیاں سنانا ہمیشہ سے لوگوں کا طریق رہا ہے۔ اور گھر کے بزرگ حضرات خواہ وہ دادا دادی ہوں یا نانا نانی، ان کے ذریعے بچوں کو کہانیاں سنانے سے بچوں کے سیکھنے اور سکھانے کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری رہتا ہے۔ والدین اس طریقے کو اپنا کر اپنے بچوں کو بہت کچھ فراہم کر سکتے ہیں، کیونکہ یہ کہانیاں ان کے تخیل، غور وفکر کرنے کی صلاحیت، کردار سازی اور شخصیت سازی میں بہت اہم رول ادا کرتی ہیں۔ کہانیاں سنانے کا یہ عمل والدین اور بچوں کے درمیان الفت ومحبت اور جذباتی تعلق کوبھی مضبوط کرتا ہے اور ان کی شخصیت کو مستحکم اور پر اعتماد بناتا ہے۔


بچوں کو کہانیاں سناتے وقت اس بات کا خاص طور پر خیال رکھا جائے کہ کہانی بچوں کے لیے دلچسپ ہو اور کوئی نہ کوئی سبق یا تربیتی تاثیر رکھتی ہو تاکہ وہ اس سے سبق حاصل کرسکیں اور اسے اپنا سکیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کہانی سنانے کے انداز اور آواز کے اتار چڑھاؤ اور ہاتھوں کی حرکت اور چہرے کے تاثرات سے کہانی کی تاثیر بڑھ جاتی ہے۔ کہانی کے الفاظ اور کہانی کا مقصد بچوں کی فہم کے مطابق ہونابھی بہت ضروری ہے۔ آپ کے آس پاس بہت سے واقعات، کہانیاں اور موضوعات بکھرے پڑے ہوتے ہیں جن کو مناسب الفاظ اور متاثر کن انداز میں بچوں کوسناکر ان کے دل میں دردِ انسانیت بھی بیدار کرسکتے ہیں اور آداب اور اخلاقیات کا درس بھی دے سکتے ہیں۔


بچوں کو تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دینے والی اور عملی رہنمائی کرنے والی کہانیاں آپ خود اپنے ذہن میں تخلیق کرکے بچوں کو سنائیں اور ہوسکے تو عظیم شخصیات کی ترقی اور کامیابی کے سفر کی روداد بھی ضرور سنائیں۔
آپ شرارت اور اس کے انجام سے آگاہ کرنے والی بے شمار کہانیاں اپنے ذہن سے بناکر بچوں کو سنا سکتے ہیں۔ اس طرح کی کہانیاں بچوں کو بدتمیزیوں سے دور رہنے اور تکلیف دہ شرارتوں سے بچنے کا درس دیتی ہیں۔


آپ جو صفت یا خوبی بچوں کے اندر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ مثلاً: سچائی، ایمانداری، محنت، ایثار، قربانی وغیرہ ان پر مبنی کہانیاں عظیم شخصیات کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کی روشنی میں بچوں کو سنائیں۔ اسی طرح برائیوں اور بداخلاقیوں سے بچنے کے لیے بھی عملی زندگی سے کہانیوں کے موضوعات کا انتخاب کیا جا سکتا ہے۔


اس ضمن میں یہ بات ہمیں نہیں بھولنی چاہیے کہ بچوں کو جن اخلاقی خوبیوں پر مبنی کہانیاں سنا رہے ہیں وہ خود ہمارے اندر موجود ہونا بہت ضروری ہے۔ خود بے ایمانی کی اورجھوٹ کی روش پر چل کر بچوں کو ایمانداری اور سچائی کی کہانیاں سنانا بے اثر اور بے فائدہ ہے۔ خود بزدل اور پست ہمت رہ کر بہادری اور بلند حوصلگی کی کہانیاں سنانا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ لہٰذا جو بھی خصوصیات آپ کو بچوں کے اندر دیکھنے کی خواہش ہے انہیں پہلے آپ کو خود اپنانا ہوگا تب ہی بعد کا مرحلہ نتیجہ خیز ہوسکے گا۔ بچوں کو نصیحت کرنے کے بجائے خود کو بطور نمونہ ان کے سامنے پیش کریں۔ آپ کے روز وشب اور رہن سہن کے طریقے جو بچہ دیکھے گا وہی خود بھی اپنانے کی کوشش کرے گا۔ اس لیے بچوں کو کہانیاں سنانے میں خود احتسابی اور اپنی تربیت کا پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے۔ اس طرح نہ صرف بچوں کی تربیت کرپائیں گے بلکہ اپنی بھی اصلاح کرسکیں گے۔


***
شفق اسعد (بنارس)
shafaqueasad2000[@]gmail.com
Kids training can be possible by stories also. - Article: Shafaque Asad

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں