علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کی عربی زبان و ادب میں خدمات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-02-28

علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کی عربی زبان و ادب میں خدمات

allama-syed-anwar-shah-kashmiri

شاہ صاحب کشمیر کے رہنے والے تھے۔ 27 شوال 1292ھ م 1875ء کو سادات کے ایک معزز علمی خاندان میں آپ کی ولادت ہوئی۔ یہ خاندان اپنے علم و فضل کے لحاظ سے کشمیر بھر میں ممتاز خاندان سمجھا جاتا تھا۔
ساڑھے چار سال کی عمر میں اپنے والد بزرگوار مولانا سیّد معظم شاہؒ سے قرآن مجید شروع کیا، غیر معمولی ذہانت و ذکاوت اور بے مثل قوت حافظہ ابتدا عمر سے موجود تھی۔ چنانچہ ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں کتاب اللہ کے ساتھ فارسی کی چند ابتدائی کتابیں ختم کر کے علوم متداولہ کی تحصیل میں مشغول ہو گئے۔ اور ابھی بمشکل 14 سال کی عمر تھی کہ حصول علم کے جذبۂ بے پایاں نے ترکِ وطن پر آمادہ کر دیا۔ تقریباً تین سال ہزارہ کے مدارس میں رہ کر مختلف علوم و فنون میں دستگاہ حاصل کی، مگر دیوبند کی شہرت نے مزید تکمیل کیلئے بے چین بنا دیا۔ چنانچہ 1310ھ م 1892ء میں دیوبند تشریف لائے ،حضرت شیخ الہند ؒ مسند صدارت پر متمکن تھے۔ استاد نے شاگرد کو اور شاگرد نے استاد کو پہلی ہی ملاقات میں دریافت کر لیا۔ تفسیر و حدیث کی کتابیں شروع کی اور چند ہی سال میں دارالعلوم میں شہرت و مقبولیت کے ساتھ ایک امتیازی شان حاصل کرلی۔ 1314ھ میں دارلعلوم سے فارغ ہو کر آپ حضرت گنگوہیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سند حدیث کے علاوہ باطنی فیوض سے بھی مستفیض ہوئے اور خلافت حاصل کی۔


دارالعلوم سے فراغت کے بعد آپ نے مدرسہ امینیہ دہلی میں کچھ دنوں فرائض تدریس انجام دئیے، 1320ھ م 1903ء میں کشمیر چلے گئے۔ وہاں اپنے علاقے میں فیض عام کے نام سے ایک مدرسہ قائم کیا۔ 1323ھ مطابق 1905ء میں حج بیت اللہ کیلئے تشریف لے گئے، کچھ مدّت تک حجاز میں قیام رہا اور وہاں کے کتب خانوں سے استفادہ کا موقع ملا۔ 1327ھ م 1909ء میں آپ دیوبند تشریف لائے، حضرت شیخ الہند ؒ نے آپ کو یہاں روک لیا۔ کئی سال سال تک بغیر مشاہرے کے، کتبِ حدیث کے درس و تدریس کی خدمت انجام دیتے رہے، اور جب تک دارلعلوم سے تنخواہ نہیں لی، حضرت حافظ محمد احمد صاحبؒ کے مہمان رہے۔ 1333ھ م 1915ء کے اواخر میں جب شیخ الہند ؒ نے سفر حجاز کا قصد کیا تو اپنی جانشینی کا فخر شاہ صاحب ؒ کو بخشا۔ دارالعلوم کی مسند صدارت پر تقریباً 12 سال تک جلوہ افروز رہے۔ 1346ھ م 1927ء کے اوائل میں اہتمام دارالعلوم سے بعض اختلافات کے باعث آپ فرائض صدارت سے دست کش ہو کر جنوبی ہند کے مدرسہ ڈابھیل میں تشریف لے گئے اور 1315ھ م 1932ء تک وہاں درس حدیث کا مشغلہ جاری رہا۔


قدرت کی جانب سے حافظہ ایسا عدیم النظیر بخشا گیا تھا کہ ایک مرتبہ کی دیکھی ہوئی کتاب کے مضامین و مطالب تو درکنار عبارتیں تک مع صفحات و سطور کے یاد رہتیں اور دورانِ تقریر بے تکلف حوالے پر حوالے دیتے چلے جاتے تھے۔ اسی کے ساتھ مطالعے کا اس قدر شوق تھا کہ جملہ علوم کے خزانے ان کے دامن جستجو کی وسعتوں کو مطمئن اور تشنگئ علم کو سیراب نہ کر سکتے تھے۔ کثرت مطالعہ اور قوت حافظہ کے باعث گویا آپ ایک متحرک و متکلم کتب خانہ تھے۔
صحاح ستّہ کے علاوہ حدیث کی اکثر کتابیں تقریباً بر نوک زبان تھیں تحقیق طلب مسائل میں جن کی جستجو اور تحقیق میں عمریں گزر جاتی ہیں، سائل کے استفسار پر چند لمحوں میں اس قدر جامعیت کے ساتھ جواب دیتے تھے کہ اس موضوع پر سائل کو نہ تو شبہ باقی رہتا تھا اور نہ کتا ب دیکھنے کی ضرورت۔ پھر مزیدلطف یہ کہ کتابوں کے ناموں کے ساتھ صفحات و سطور تک کا حوالہ بھی بتلا دیا جاتا تھا۔ وہ ہر ایک علم و فن پر اس طرح برجستگی کے ساتھ تقریر فرماتے تھے کہ گویا ان کو یہ تمام علوم مستحضر ہیں، اور ابھی ابھی ان کا مطالعہ کیا ہے۔


مولانا سید سلیمان ندویؒ نے شاہ صاحبؒ کی وفات پر "معارف" میں لکھا تھا :
"ان کی مثال اس سمندر کی سی تھی جس کی اوپر کی سطح ساکن لیکن اندر کی سطح موتیوں کے گراں قیمت خزانوں سے معمور ہوتی ہے۔ وہ وسعتِ نظر، قوت حافظہ اور کثرتِ حفظ میں اس عہد میں مثال تھے۔ علوم حدیث کے حافظہ و نکتہ شناس، علوم ادب میں بلند پایہ، معقولات میں ماہر، شعر و سخن سے بہرہ مند اور زہد و تقویٰ میں کامل تھے۔ مرتے دم تک علم و معرفت کے اس شیدا نے قال اللہ و قال الرسول کا نعرہ بلند رکھا"۔


مصرکے مشہور زمانہ عالم سید رشید رضا صاحب جب دیوبند تشریف لائے اور شاہ صاحبؒ سے ان کی ملاقات ہوئی تو بے ساختہ بار بار کہتے تھے:
مارأیت مثل ھذا الاستاذ الجلیل (میں نے اس قدر جلیل استاد جیسا کوئی عالم نہیں دیکھا)۔ علامہ رشید رضا نے مصر جا کر بھی اپنے رسالہ "المنار" میں ان کی جلالت علمی و عظمت شان کا اعتراف کیا ہے۔


بہرحال دارالعلوم کی یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت شیخ الہندؒ کے بعد صدارت تدریس کا کام آپ کے سپرد ہوا۔
علامہ اقبال مرحوم کو اپنی زندگی کے آخری ایام میں اسلامی تعلیمات سے جو شغف پیدا ہو گیا تھا، اس میں شاہ صاحب ؒ کے فیضان علمی کو بھی بڑا دخل حاصل ہے۔ علامہ موصوف نے اپنے کلامِ اسلامیات میں شاہ صاحبؒ سے بہت کچھ استفادہ کیا تھا۔ چنانچہ علّامہ اقبال مرحوم آپ کا بے حد احترام کرتے تھے اور عقیدت و محبت کے جذبات کے ساتھ شاہ صاحبؒ کی رائے کے آگے سرِ تسلیم کر دیتے تھے ۔
جب حضرت شاہ صاحبؒ دیوبند سے علیحدہ ہوئے تو علامہ اقبال نے کوشش کی کہ وہ مستقل طور پر لاہور میں قیام اختیارکرلیں تاکہ وہ ان کے ساتھ مل کر فقہ کی تدوینِ جدید کا کام کر سکیں۔ مگر حضرت شاہ صاحبؒ نے ڈابھیل والوں کی درخواست منظور فرما لی۔ تاہم علامہ اقبال نے اس سلسلے کے انگریزی لکچروں کی ترتیب میں حضرت شاہ صاحبؒ سے بہت استفادہ کیا اور اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ قادیانیت کے خلاف علامہ اقبال نے جو گراں پایہ مضامین لکھے ہیں ان میں حضرت شاہ صاحبؒ کی پوری مدد شامل رہی ہے۔


علمی ذوق کا طبیعت پر اس قدر غلبہ تھا کہ عرصے تک نکاح اور ازدواجی زندگی سے گھبراتے رہے، مگر بالآخر بزرگوں کے شدید اصرار پر 43 سال کی عمر میں ازدواجی زندگی اختیار کر لی تھی اور اس کے بعد تنخواہ لینے لگے تھے۔ ڈابھیل میں چند سال قیام فرمانے کے بعد آخر میں امراض کی شدت سے مجبور ہوکر دیوبند، جس کو آپ نے اپنا وطنِ اقامت بنا لیا تھا، چلے آئے اور یہیں 3 صفرالمظفر 1352ھ بمطابق 1933ء کو تقریباً 60 سال کی عمر میں رحلت فرمائی۔ آپ کی قبر مبارک عیدگاہ کے قریب واقع ہے۔

حوالہ جات:
1) الرباطۃ الاسلامیۃ للدعدۃ و الثقافہ و العلوم
2) الکفاح
3) حیات شیخ الہند ؒ
4) دارالعلوم کی پچاس مثالی شخصیات۔
5) حیاۃ علامہ انور شاہ کشمیری ؒ
6) آزاد ہنددستان میں عربی زبان وادب
***
ڈاکٹر عبدالصمد ندوی
صدر شعبۂ عربی، ملیہ آرٹس سائنس اور منیجمنٹ کالج، بیڑ۔ مہاراشٹرا

Arabic language and literature services of Allama Anwar Shah Kashmiri. Essay: Dr. Abdul Samad Nadvi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں