رؤف خلش : خوبصورت دل کا شاعر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-07

رؤف خلش : خوبصورت دل کا شاعر

raoof khalish and mukarram niyaz
(رؤف خلش کی دوسری برسی پر بزم صدائے اردو کا جلسہ، بمقام قدیم ملک پیٹ، حیدرآباد۔ بروز اتوار ، 2/جنوری 2022ء)

خوبصورت بھی ہے میرا دل ہے مگر
آپ ہی کے لیے آپ ہی کی طرح
یہ میرے والد مرحوم رؤف خلش کے پہلے مجموعے "نئی رتوں کا سفر" کی ایک غزل کا مقطع ہے۔ اسی شعر کے ذریعے ان کی فطرت اور ان کے مجموعی مزاج کا بآسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ برسوں قبل میرے ایک کزن نے اپنی آٹوگراف بک پر ان کی دستخط لینا چاہی تو بابا نے لکھا تھا:
"زندگی میں کوشش یہی کرنا کہ اپنی ذات سے کسی کو خوشی کے کچھ لمحات فراہم نہ کر سکو تو تکلیف بھی کسی کو کبھی مت دینا!"


میں نے جس غزل کا مقطع پیش کیا ہے، اسی غزل کے کچھ دیگر اشعار سے واضح ہوگا کہ کلام اگر موثر ہو تو کس طرح ہر دور ہر زمانے اور ہر معاشرے سے مناسبت رکھتا ہے۔۔۔ ملاحظہ کیجیے:

جتنے مہماں تھے، سب میزباں بن گئے
اپنے گھر میں ہیں ہم اجنبی کی طرح
خوف کیوں ہے ابھی سے کہ مرجھاؤ گے
پہلے کھلنا تو سیکھو کلی کی طرح
اونگھتی یہ صدی اور آنکھیں مری
گھپ اندھیرے میں ہیں روشنی کی طرح!

اپنے والد کی ہم چار اولادیں ہیں، دو بھائی اور دو بہن۔ اور یہ بات بھی ہمارے خاندان کے علاوہ والد مرحوم کے دوست احباب رشتہ دار محلہ دار بخوبی جانتے ہیں کہ ہم چاروں میں اردو شعر و ادب کا نہ صرف ذوق و شوق رہا ہے بلکہ کتب و رسائل کا مطالعہ آج بھی ہماری دوڑتی بھاگتی زندگی کا لازمی جز ہے۔ البتہ باقاعدگی سے لکھنے اور چھپنے کے معاملے میں صرف ہم دو بھائی ہی آگے ہیں۔ ناچیز مکرم نیاز اور برادر خورد معظم راز۔ اس کے علاوہ رؤف خلش کی تیسری نسل، کہ جس میں تیرہ نفوس شامل ہیں، سات لڑکے اور چھ لڑکیاں۔۔۔ یہ بھی اسی روایت کی پاسداری کر رہے ہیں۔ اردو زبان اور اس کے اصل رسم الخط سے نہ صرف یہ سب واقف ہیں بلکہ شعر و ادب کے مطالعے کا کسی قدر ذوق بھی رکھتے ہیں، گو کہ ان کے حصول کے ذرائع کتب و رسائل کے بجائے، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا زیادہ ہیں۔
یہاں یہ انکشاف بھی شاید دلچسپ ہو کہ والد مرحوم کی ایک پرانی مگر ہر زمانے کے لیے قابل قبول نظم، ان تیرہ بچوں کو نہ صرف ازبر ہے بلکہ میری سب سے چھوٹی بیٹی نے سات سال کی عمر میں اسے ترنم میں پڑھ کر ایم-پی-تھری آڈیو کی شکل میں سوشل میڈیا پر اپلوڈ بھی کر رکھا ہے۔
نظم کا عنوان ہے: نیا مفہوم
درد، مروت، رشتے ناتے // بچپن میں ان لفظوں کے کچھ معنی تھے
جیسے جیسے دن بیتے // ان نظموں کے معنی بدلے
اب یہ دنیا عمر کی جس منزل میں ہے // لگتا ہے، یہ سارے الفاظ
اندھے ہو کر // اپنے آپ کو ڈھونڈ رہے ہیں!


یہ بیسویں صدی کی چھٹی دہائی کا ذکر ہے جب ادب میں ترقی پسند تحریک کے اسٹابلشمنٹ کے خلاف ایک اہم آواز بلند ہوئی۔ یہ آواز رسالہ "پیکر" کی تھی۔ جس کی ادارت کے پیچھے اعظم راہی، رؤف خلش، حسن فرخ، محمود انصاری، احمد جلیس ساجد اعظم کا بڑا ہاتھ تھا۔ اسی گروپ میں بعد ازاں غیاث متین اور مسعود عابد بھی شامل ہوئے۔ انیس سو پینسٹھ (1965) میں الہ آباد سے "شب خون" کی اشاعت نے جدیدیت کے اس نئے ادبی رجحان کو اس کی مستحقہ ادبی حیثیت و اہمیت عطا کی۔ یہاں میرا مقصد کسی ادبی تحریک کی تاریخ بیان کرنا نہیں ہے بلکہ میں اس واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جس کی طرف ممتاز شاعر و صحافی حسن فرخ نے اپنے ایک مضمون میں اشارہ کیا ہے، اور جس کے ذریعے رؤف خلش کی علمی وسعت و انفرادیت کا ایک پوشیدہ گوشہ بھی نمایاں ہوتا ہے۔ حسن فرخ لکھتے ہیں:
"انیس سو بہتر (1972) میں ہمارے "پیکر" گروپ نے حیدرآباد کے نئے قلمکاروں کی تحریک پر دو روزہ "جشنِ پیکر" منایا جسے کئی اعتبار سے جدید طرزِ فکر رکھنے والوں کے پہلے کل ہند اجتماع کی حیثیت حاصل ہوئی۔ رؤف خلش نہ صرف اس جشن کی تیاری کمیٹی میں شامل تھا بلکہ اس نے اس اجتماع میں بالکلیہ فنی نوعیت کا ایک مبسوط پیپر بھی پڑھا تھا جو اردو الفاظ شماری، اردو ٹائپ رائٹر، اردو خوشنویسی اور اردو انگریزی لغت کے ماہرین سے لئے گئے انٹرویو پر مشتمل تھا"۔


جیسا کہ اہل علم اور اہل ذوق جانتے ہیں کہ رؤف خلش کے چار شعری اور دو نثری مجموعے طبع ہو چکے ہیں۔ شعری مجموعوں میں:
نئی رتوں کا سفر، صحرا صحرا اجنبی، شاخِ زیتوں اور شاخسانہ شامل ہیں۔ "حکایت نقدِ جاں کی" ان کے نثری مضامین کا مجموعہ ہے اور دوسری نثری کتاب "تلخیصِ ابن الوقت" ہے جو ڈپٹی نذیر احمد کے مشہور ناول کی تلخیص ہے۔
رؤف خلش کا قیام سعودی عرب میں 1981 تا 1996 رہا۔ اور سعودی ہی میں میرے قیام کا دورانیہ 1995 تا 2016 رہا ہے۔ 1996 تا 2000 والد محترم نے خطوط نویسی کے ذریعے رابطہ قائم رکھا، بعد کے ادوار میں یہ رابطہ فون اور ای-میلز میں تبدیل ہو گیا تھا۔ نجی نوعیت کے ان خطوط میں ہمیشہ دو چار پیراگراف علمی و ادبی بھی رہے ہیں، جسے ایک باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو علمی ورثے کی منتقلی بھی کہا جا سکتا ہے۔ ایسے تمام خطوط میرے پاس آج بھی محفوظ ہیں، جن سے علمی و ادبی مواد کو کشید کر کے مستقبل میں اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ بھی ہے۔ ان خطوط کے کچھ اہم حوالے پیش خدمت ہیں۔
آج سے تقریباً چوتھائی صدی قبل، یعنی نومبر 1996ء میں، اردو دنیا کی قدآور شخصیت شمس الرحمن فاروقی حیدرآباد تشریف لائے تھے، جس کا اپنے خط میں ذکر کرتے ہوئے والد مرحوم نے لکھا تھا:
پچھلے دنوں شمس الرحمن فاروقی حیدرآباد آئے تھے۔ ان کے اعزاز میں کئی نشستیں ہوئیں۔ انہوں نے مجھ سے کلام مانگا۔ میں نے ذریعہ ڈاک بھیجنے کا وعدہ کیا۔ اور وعدے کے مطابق اپنی چار نظمیں اور چار غزلیں ارسال کیں۔ چاروں نظمیں انہیں پسند آئیں اور دو غزلیں بھی۔ جس کے بارے میں لکھا:
"تمہاری نظمیں اور غزلیں خوب ہیں۔ صرف دو غزلیں میرے کام کی نہ نکلیں۔ ایک تو 'پاگل ہوا' والی اور دوسری غزل 'سرگم کا اکتارا رے' والی۔ یہ فقرہ "پاگل ہوا" کمزور شعرا نے برت برت کر پامال کر دیا ہے۔ ہندی غزل میرے مزاج کے خلاف ہے کیونکہ میں اردو کو ہندی سے الگ رکھنا چاہتا ہوں۔"


یہاں میں ایک بات یاد دلانا چاہتا ہوں کہ بابا کے تیسرے مجموعہ "شاخِ زیتوں" کی کمپوزنگ جب میں ریاض سعودی عرب میں اپنے قیام کے دوران انجام دے رہا تھا، تب مجھے اس میں دو ایسی کمزور غزلیں نظر آئیں جو بابا کے شعری مزاج اور آہنگ کے اعلیٰ معیار کے برخلاف تھیں۔ میں نے اسی وقت ایمیل کرکے بتا دیا کہ یہ غزلیں میں شامل نہیں کر رہا ہوں۔ جس پر انہوں نے دو متبادل غزلیں بھیج دیں۔ یہ بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ۔۔۔ پچھلے دنوں میں نے اپنے عزیز ترین چچا جان یوسف روش پر تحریر کردہ خاکے "چچا جان کی شعرگوئی اور چار ہزار مشاعرے" کے حوالے سے سوشل میڈیا پر ایک کمنٹ کر دیا تھا۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میرے اس منہ بھٹ بیان سے حیدرآباد کی بزرگ اور دگج علمی و ادبی شخصیات کی جبینوں پر کتنی شکنیں پڑتی ہیں۔ کیونکہ ظاہر ہے مجھے اپنے لکھے پر اعتماد نہ سہی مگر اس ادبی تربیت پر ضرور ناز ہے جس کے پس پشت رؤف خلش، غیاث متین، علی الدین نوید، اعظم راہی، مسعود عابد، بیگ احساس جیسی ممتاز شخصیات کا دستِ شفقت رہا ہے۔


سعودی عرب سے چھٹی پر حیدرآباد آمد کے دوران ایک مکالمے کے دوران بابا نے مجھے بتایا تھا کہ۔۔۔
جدیدیت کی تحریک سے جو ادیب و شاعر متاثر ہوئے یا اس میں شامل ہوئے ، شاعروں میں قاضی سلیم، بشر نواز ، وحید اختر، عزیز قیسی، شہر یار، ندا فاضلی، عادل منصوری، محمد علوی وغیرہ ہیں اور افسانہ نگاروں میں سریندر پرکاش، بلراج مین را ، انور سجاد ، انور رشید، عوض سعد۔ بھی اس میں شامل ہو گئے۔ "حلف" (یعنی کہ حیدرآباد کی مشہور ادبی تنظیم، حیدرآباد لٹریری فورم، کہ جس کے بانی اراکین میں والد صاحب بھی شامل ہیں) کے تمام اراکین اسی جدیدیت کے علمبردار ہیں۔ یہ بحث بہت دلچسپ ہے کہ جدیدیت تحریک ہے یا رجحان؟ دیکھا جائے تو حلف اور انجمن ترقی پسند مصنفین دونوں ہی خالص ادبی انجمنیں ہیں لیکن نظریات الگ الگ ہیں۔


اسی مکالمے کے زیر اثر۔۔۔ نوے کی دہائی کے ابتدائی برسوں کے اپنے ایک خط میں، میں نے والد صاحب کو لکھا تھا:
میری اپنی نظر میں اردو ادب کو آج کل ایک مشکل شکل میں پیش کیا جا رہا ہے ، اس لئے ہماری نئی نسل کو زبان اردو سے دلچسپی نہیں۔ اگر اردو ادب کو کچھ آسان فہم بنا دیا جائے اور جدید علامتی یا اشاراتی زبان میں پیش کرنے سے گریز کیا جائے تو شاید یہ زبان یا یہ ادب آج کی نئی نسل میں کچھ مقبول ہو سکے۔
جواب میں والد مرحوم نے نہایت تفصیل سے لکھا تھا کہ ۔۔۔
تم نے بہت کھلے انداز میں اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ تم نے اس میں زبان اور ادب کو ایک ہی صف میں لا کھڑا کیا ہے۔ یہ مسئلہ یعنی مشکل پسندی کا مسئلہ ادب کا ہے، زبان کا نہیں۔ اور یہ صورت حال اردو میں ہی نہیں ہر زبان کے ادب میں پائی جاتی ہے۔ کیا تم سمجھتے ہو کہ ہندوستان کی دیگر زبانیں اس صورت حال سے دوچار نہیں؟ ہندی کو ہی لے لو، ہندی میں اتنی تحریکیں اور رجحانات بدلتے رہے ہیں کہ حساب نہیں۔ یہ "ناکہانی" اور "اکویتا" یعنی ایسی کویتا جس میں کویتا پن نہ ہو یا "بھوکی پیڑھی" یعنی "بھوکی نسل" یہ سب تحریکیں ہندی میں چل رہی ہیں۔
ہماری نسل کو اردو سے دلچسپی نہیں ، یہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے۔ اس کا ادب کی مشکل پسندی سے کوئی تعلق نہیں۔
آج سے سو، دیڑھ سو سال پہلے جب ہندوستان میں اردو کا طوطی بول رہا تھا، غالب جیسا شاعر پیدا ہوا، جو مشکل پسندی میں ثانی نہیں رکھتا تھا۔ زبان کی ترویج و تشکیل کا ادب کی تحریکوں سے بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اسے کسی بھی عہد میں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ عوامی زبان کی شاعری تو نظیر اکبر آبادی نے بھی کی، لیکن اس سے کچھ فرق نہیں پڑا۔
اور پھر ہم کو ادیبوں شاعروں سے یہ مطالبہ نہیں کرنا چاہئے کہ آسان زبان میں ادب تخلیق کرو۔ ادب کے ہزارہا پہلو ہوتے ہیں۔ کئی ایسے ادیب و شاعر بھی ہوتے ہیں جو آسان زبان میں ادب تخلیق کرتے ہیں۔ کئی ایسے ہوتے ہیں جو مشکل پسند ہوتے ہیں۔ اس عمل سے زبان کو کچھ نقصان نہیں پہنچتا بلکہ زبان ہر اعتبار سے مالا مال ہوتی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ساحر لدھیانوی اور مجروح سلطانپوری ہمارے سامنے ہیں۔


ساحر کا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے فلمی زبان کو ادبی روپ کا خزانہ عطا کیا ہے۔ جانثار اختر، جو ان کے دوست بھی تھے اور صف اول کے ترقی پسند شاعر تھے، نے ایک جگہ لکھا ہے کہ ساحر کو یس۔ ڈی برمن نے فلم "جال" کے ایک نغمہ کی دھن سناتے ہوئے کہا تھا کہ اس پر مکھڑا لکھو۔ یعنی گیت کا پہلا بول/دھن کچھ یوں تھی:
لا لا / لالا / لا للا
اگر کوئی معمولی درجے کا نغمہ نگار ہوتا تو اس دھن پر کچھ ایسے بول فٹ کردیتا: آجا / آجا / بالما
لیکن ساحر لدھیانوی نغمہ و شعر کا نکھرا ستھرا شعور رکھتے تھے ، انہوں نے کیا خوبصورت مکھڑا دیا: سن جا / دل کی / داستاں
پھر اس پر بعد میں پورے گیت کی تخلیق عمل میں آئی۔ مکھڑے کے ابتدائی بول یہ ہیں، جسے ہمینت کمار نے گایا تھا۔
یہ رات ، یہ چاندنی، پھر کہاں // سن جا دل کی داستاں!


آگے خط میں مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھا:
علامتی ادب کی ایک خوبی یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اپنے انداز میں اس کا مطلب نکالے یا اس کی کئی تشریحیں کی جا سکیں۔ کوئی ضروری نہیں کہ ہر عام آدمی ادب میں دلچسپی لے۔ یہ صفت تو کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے۔ ہاں ادب سے لطف اندوز ہونے کے لئے ایک شرط ہے : وہ ہے بات کا سمجھ میں آ جانا۔
شاید اسی بنا پر تم نے یہ کہا ہے کہ زبان کو عام فہم ہونا چاہئے۔ لیکن معاملہ یہ نہیں ہے۔ علامتی اور اشاراتی زبان بھی سمجھ میں آتی ہے جب کہ ذہنی سطح اس معیار کی ہو۔ یہ معیار ضروری نہیں کہ بہت زیادہ پڑھنے لکھنے سے آتا ہے۔ یہ ماحول کی تربیت اور کچھ کچھ خداداد صلاحیت پر مبنی ہوتا ہے۔ ایک ادب ذوق قاری یا سامع کچھ عرصہ کے مطالعہ کے بعد اس دشواری پر قابو پا لیتا ہے۔ میں تو یہ کہتا ہوں اور یہ میرا استدلال بھی ہے کہ جب آج کے جدید دور کا انسان اتنا باشعور اور حساس ہو چکا ہے کہ وہ جنسی اشاروں کی زبان سمجھ سکتا ہے ، نئی نئی ایجادات کی تیکنک کو قبول کر سکتا ہے۔ لطیفوں میں جو علامتیں اور طنز و مزاح کی کاٹ ہوتی ہے (اپنی اپنی سطح پر سہی) لطف اندوز ہو سکتا ہے تو پھر جدید ادب کی مشکل پسندی یا علامتی انداز کو کیوں نہیں سمجھ سکتا؟ دراصل یہ چیزیں اس کے سر سے "سوپر فاسٹ ایکسپریس ٹرین" کی طرح اس لئے گزر جاتی ہیں کہ وہ ان علامتوں کے مبداء سے ناواقف ہے۔ جب اس پر اس کا انکشاف ہوتا جائے گا تو گرہیں بھی کھلتی جائیں گی۔ مگر یہ بہت بعد کی منزل ہے۔ ابتداء میں اسے عام فہم ادب کی منزل سے گذرنا پڑے گا۔ اس میں شک نہیں کہ یہ عوامی معیار کی چیز نہیں۔ خواص کے معیار کی چیز ہے۔


بہتر ہے کہ اس مضمون کا اختتام حسن فرخ کے ایک تجزیاتی قول سے کیا جائے۔ وہ کہتے ہیں:
خلش کی استعمال کردہ انفرادی علامتیں، تخلیق کا اس طرح سے جز بن چکی ہیں کہ وہ اساطیری یا نیم مذہبی ہونے کے باوجود اجتماعی یا معروف علامتیں معلوم ہوتی ہیں کیونکہ اس کے شعری برتاؤ کا تعلق اظہار کے لفظیات اور علائم کے ساتھ گہرے انسلاک سے ہے۔ یہی رؤف خلش کی پہچان اور اس کا اسلوب ہے جو اسے ہم عصر شاعروں میں شامل بھی کرتا ہے اور ان سے الگ اس کے وجود کی شناخت بھی ہے۔


***
منقول و بشکریہ : گواہ اردو ویکلی (14/جنوری تا 20/جنوری 2022)

gawahurduweekly[@]gmail.com


Raoof Khalish, a poet of humble and charming heart. Essay by: Mukarram Niyaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں