اترپردیش اسمبلی الیکشن - مولانا توقیر رضا خان ایسا مشورہ نہ دیں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-23

اترپردیش اسمبلی الیکشن - مولانا توقیر رضا خان ایسا مشورہ نہ دیں

advice-by-maulana-tauqeer-raza-khan-unnecessary

اترپردیش اسمبلی الیکشن میں مسلمانوں کو مشورہ
مولانا توقیر رضا خان ! آپ ایسا نہ کریں !


حضرت مولانا توقیر رضا خان صاحب آپ ایسا نہ کریں۔
آنے والے اسمبلی الیکشن میں یہ فیصلہ کہ کسے یا کس سیاسی پارٹی کو یو پی کے مسلمان ووٹ دیں ، مسلمانوں پر ہی چھوڑ دیں۔ اب انہیں کوئی مشورہ دینے کا یہ وقت قطعی نہیں ہے ، کیونکہ اب مشورے مسلمانوں کو سوائے ذہنی الجھن میں مبتلا کرنے کے اور کوئی کام نہیں کریں گے۔
میری حضرت مولانا سے یہ اپیل ان کے اس بیان کی روشنی میں ہے ، جس میں انہوں نے مسلمانوں کو مشورہ دیا ہے ، یا پھر یہ کہہ لیں کہ مسلمانوں سے درخواست کی ہے ، یا اگر جانبدار میڈیا کی بات مانیں تو " فتویٰ " دیا ہے کہ وہ کانگریس پارٹی کو ووٹ دیں۔


اتحاد ملت کونسل کے سربراہ مولانا توقیر رضا خان صاحب نے باقاعدہ لکھنؤ میں واقع کانگریس پارٹی کے دفتر میں مشترکہ پریس کانفرنس میں شرکت کی اورکانگریس پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا۔ انہوں نے پرینکا گاندھی کے نعرے "لڑکی ہوں لڑ سکتی ہوں" کو دوہرایا اور ان کے ہاتھ مضبوط کرنے کی بات کہی۔
اگر اس پریس کانفرنس میں بات کانگریس کی حمایت تک ہی محدود رہتی تو بھی ٹھیک تھا ، انہوں نے ایک قدم آگے بڑھ کرجب یہ کہا کہ سماج وادی پارٹی ، بی جے پی سے کہیں زیادہ مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ہے ، تو انہوں نےگویا مسلمانوں کے ووٹوں کی تقسیم کا ایک بہت ہی خطرناک بیج بو دیا کیونکہ اس جملے سے بی جے پی کو تو ممکن ہے کہ فائدہ پہنچ جائے لیکن کانگریس کو کوئی فائدہ نہیں پہنچنے والا ہے۔ یہ جملہ مسلمانوں کو تذبذب میں ڈال سکتا ہے۔ ان کے ذہن کانگریس یا سماج وادی پارٹی یا کہ بی جے پی ، کسے ووٹ دیں ، کی گردان پر مجبور ہو سکتے ہیں۔
اور مس مایا وتی کی سیاسی پارٹی بہو جن سماج پارٹی ( بی ایس پی ) بھی راستے میں کھڑی ہوئی ہے ، جس نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو اسمبلی الیکشن لڑنے کے لیے ٹکٹ دیے ہیں۔ اور دوسری چھوٹی چھوٹی سیاسی جماعتیں مزید ہیں ، جو بھلے نہ جیتیں ووٹوں کا بٹوارہ تو کر ہی سکتی ہیں۔ گویا یہ کہ مسلم ووٹوں کے بکھراؤ کے سارے آثار ہیں۔


حضرت مولانا کے بیان پر ایک نظر مزید ڈال لیتے ہیں : انہوں نے اس موقع پر کہا کہ:
"ہم نے اکھلیش یادو کے سامنے اپنا صرف ایک مطالبہ رکھا تھا کہ حکومت بننے کے بعد اترپردیش میں دنگا جانچ کمیشن کی تشکیل ہو لیکن انہوں نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ پرینکا گاندھی سے بھی یہی مطالبہ کیا گیا ہے کہ اپنے منشور میں دنگا جانچ کمیشن کی تشکیل کو شامل کریں اور انہوں نے فوراً اس مطالبے کو تسلیم کیا ہے۔ آنے والے اسمبلی انتخابات میں ہم بغیر کسی اسمبلی نشست پر حصہ لیے کانگریس پارٹی کی حمایت کریں گے اور امید ہے کہ کانگریس پارٹی کو واضح اکثریت کے ساتھ اترپردیش میں حکومت سازی کا موقع ملے گا۔"
حضرت نے مزید کہا : "موجودہ انتخابات اترپردیش کے لیے کافی اہم ہیں اسی کے نتیجے سے 2024 پارلیمانی انتخابات کے راستے ہموار ہوں گے۔ جس طریقے سے اترپردیش میں نفرت کی سیاست جاری ہے اس کا خاتمہ بے حد ضروری ہے ، چاہے وہ دھرم سنسد کے نام پر یا اشتعال انگیز بیانات کے نام پہ ہو۔ اسمبلی انتخابات کے حوالے سے ہم نے ضلع کی سطح پر پختہ تیاری کی ہے ، اور ریاست میں گنگا جمنی تہذیب اور بھائی چارہ کے قیام کے لیے اپنی قربانی دی ہے۔ میں اسد الدین اویسی سے بھی اپیل کرنا چاہوں گا کہ اگر سچے مسلمانوں کے ہمدرد ہو تو نفرت کی سیاست کو ختم کرنے کے لیے ایک ساتھ آؤ ، اور سبھی چھوٹی سیاسی جماعتوں سے کہوں گا کہ اپنا نام واپس لے کر ریاست میں امن و امان کی فضا ہموار کرنے میں مدد کریں۔"


حضرت مولانا کی باتوں سے یہ لگتا ہے کہ انہیں مسلمانوں کی فکر ہے۔ ان کی باتوں سے یہ بھی عیاں ہوتا ہے کہ وہ مسلکی اختلافات میں بھی یقین نہیں رکھتے۔ انہوں نے چند سال پہلے یہ بات کہی تھی کہ: "بریلوی یا دیوبندی کے نام پر ہم آپس میں لڑ کر دوسروں کو اتحاد میں سیندھ نہیں لگانے دیں گے"۔
مجھے خوب یاد ہے جب حضرت مولانا " اتحاد ملت " کا عملی ثبوت پیش کرنے کے لیے دیوبند کی سر زمین پر پہنچے تھے۔ اس وقت اس کالم نگار نے لکھا تھا کہ:
"نبیرۂ اعلیٰ حضرت نے دیوبند کی سرزمین سے 'اتحاد ملت' کے لئے جو آواز بلند کی ، جو نعرہ لگایا اور اپیل کی ہے ، اسے بڑھ کر مضبوطی سے تھام لینے کی اور اس پر من وعن عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ آج کے نامساعد حالات میں ملک بھر کے مسلمانوں کے لئے اس پر عمل ہی سنگھی فتنے کی گرفت سے آزاد ہونے کا واحد ذریعہ ہے۔ مولانا توقیر رضا خان صاحب کا نعرہ اور اپیل بڑی سادا مگر مسلمانوں کے تن نیم جان کے لئے تریاق کی سی ہے ، مسلکی اور عقائد کے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اس ظلم کے خلاف مسلمانو ں کو متحد ہو جانا چاہئے"۔


مولانا محترم کی "اس ظلم" سے مراد پولس کے ہاتھوں کی جانے والی مسلم نوجوانوں کی بیجا گرفتاریاں ہیں۔ ایک اہم بات حضرت نے یہ بھی کہی کہ "بریلوی یا دیوبندی کے نام پر ہم آپس میں لڑ کر دوسروں کو اتحاد میں سیندھ نہیں لگانے دیں گے"۔ حضرت مولانا نے یہاں "ہم" کا صیغہ استعمال کیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ سارے مسلمانو ں کو بلا لحاظ مسلک ایک سمجھ رہے ہیں۔ سب کو اپنے ساتھ شریک کرکے "ہم" کا صیغہ استعمال کرکے یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ سنگھ پریوار چاہے جو کوشش کرلے مسلمان بلالحاظ مسلک اس کی آپس میں لڑانے کی ہر سازش کو ناکام بنادیں گے۔
اب یہ ملک بھر کے تمام مسلمانوں کا "فرض " ہے کہ دیوبند پہنچ کر مولانا توقیر رضا خان صاحب نے " اتحاد ملت" کا جو پیغام دیا اور متحد ہوکر آر ایس ایس سے لڑنے کی جو اپیل کی ہے اس کا عملی مظاہرہ کریں۔ متحد ہوں اور یک جٹ ہوکر ہر ظلم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جائیں۔


حضرت مولانا توقیر رضا خان صاحب کا دورۂ دیوبند ، دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم نعمانی اور حضرت مولاناسالم قاسمی سے ملاقات کی خبر ملک بھر کے مسلمانوں کے لئے تو ایک "خوشگوار حیرت" تھی ، دنیا بھر کے ان ملکوں کے لیے بھی یہ خبر "خوش کن" تھی جہاں بڑی تعداد میں مسلمان بستے ہیں اور صرف "مسلکی تنازعے" کی وجہ سے اپنے مسائل حل کرانے میں اور ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھنے میں ناکام رہتے ہیں۔
ہندوستان میں تو یہ "مسلکی تنازعہ" مسلمانوں کی جان سے کچھ ایسا چمٹ گیا ہے کہ وہ ملک میں تیسرے درجے کا شہری بن کر رہ گیا ہے بلکہ اب تو صورتحال یہ ہے کہ وہ دلتوں سے بھی بدتر ہو گیا ہے۔ سچر رپورٹ نے ساری صورتحال کو اجاگر کرکے رکھ دیا ہے۔ "مسلکی اختلافات" کی بناء پر ایک مسلمان کسی دوسرے مسلمان کی مدد کرنے سے یا ضرورت کے وقت میں اس کے لئے کھڑا ہونے سے انکار کر دیتا ہے۔ اسی کا نتیجہ بڑی تعداد میں ہونے والی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں ہیں۔


مولانا توقیر رضا خان صاحب نے کیا سچ بات کہی ہے کہ :
" اس ملک میں جمہوریت ، سیکولرازم اور ہندوستانی قوم کو متحد رکھنے کی زیادہ ذمے داری مسلمانوں کی ہے۔ اور یہ اسی وقت ممکن ہو سکتا ہےجب مسلمان خود متحد ہوگا۔ گزشتہ دنوں دہلی اور دیوبند سے کی جانے والی مسلم نوجوانوں کی گرفتاریاں 'عدم اتحاد' ہی کا نتیجہ تھیں۔ اگر سارے ملک کے مسلمان متحد ہو کر پہلے سے اس طرح کے مظالم کے خلاف آواز بلند کرتے چلے آتے تو یقیناً پولس کو بہت کچھ سوچنا اور سمجھنا پڑتا پھر وہ یہ گرفتاریاں نہ کرتی۔ بہرحال ابھی متحد ہونے کا وقت گزرا نہیں ہے ، بلکہ اب تو 'اتحاد' کے لئے حالات پہلے سے کہیں زیادہ ساز گار ہیں۔"


لیکن وہ دن ہے اور آج کا دن مسلمانوں کے آپسی اتحاد کی بات "مونگیری لال کے سپنے" ہی ثابت ہوئی ہے۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ خود حضرت مولانا اپنی اس تحریک کو آگے بڑھانے میں بہت کامیاب نہیں رہے ہیں ، بلکہ ان پر، دورۂ دیوبند کے سلسلے میں جو طعن و تشنیع ہوئی تھی ، اس نے انہیں بڑی حد تک اپنی اس تحریک کو بیچ منجدھار میں چھوڑنے پر مجبور کیا ہے۔ درمیان میں وہ ایک عرصے تک منظر نامہ سے غائب بھی رہے ہیں۔


لیکن ابھی حال ہی میں ، حضرت مولانا نے ، ہریدوار کے دھرم سنسد میں "سادھو ، سنتوں اور سادھویوں" کی طرف سے کی گئی اشتعال انگیزیوں اور ان کے ذریعے مسلمانوں کی نسل کشی کے لیے لوگوں کو اکسانے والے زہریلے بیانات کے بعد ، اپنی خاموشی توڑی ہے۔ اور یو پی کے بریلی ضلع میں ایک "مسلم دھرم سنسد" کا انعقاد کر کے انہیں ، جو مسلمانوں کی نسل کشی کی باتیں کر رہے تھے ، جواب دیا ہے کہ "مسلمان اپنا دفاع کرے گا۔ "
حضرت مولانا توقیر رضاخان صاحب کی اس للکار کو دو طرح سے دیکھا جا رہا ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ للکار ایک ایسے وقت میں سامنے آئی جب مسلمانوں کی قیادت ، چند ایک کو چھوڑ کر ، اپنے لب سیے ہوئے تھی۔ لہذٰا ممکن ہے کہ اس للکارسے اس ملک کے مسلمانوں کو ایک حوصلہ ملا ہو۔ حوصلہ ان معنوں میں کہ " زہریلے سادھو ، سنتوں اور سادھویوں " کے خلاف نہ مرکز کی مودی سرکار کوئی کارروائی کرنے کو تیار تھی اور نہ ہی یو پی کی یوگی سرکار ، جہاں ان 'زہریلے لوگوں' نے اپنے اڈے بنا رکھے ہیں۔ انہیں کھلی چھوٹ تھی اور آج بھی کھلی ہوئی چھوٹ ہے۔ کوئی ان کے خلاف آواز اٹھانے کو تیار نہیں تھا۔ گودی میڈیا 'زہریلے لوگوں' ہی کے گن گا رہی تھی۔
مین اسٹریم میڈیا سے ان کے خلاف بس گنی چنی آوازیں ہی اٹھ رہی تھیں۔ ایسے میں مولانا توقیر رضاخان نے ، اور جمعیتہ علما ءکے صدر مولانا سید اسعد مدنی اور جمعیتہ علما ء کے مولانا سید ارشد مدنی نے ، بالترتیب بیانات دے کر اور سپریم کورٹ کے دروازے کھٹکھٹا کر اپنا احتجاج بھی درج کرایا اور یہ پیغام بھی پہنچایا کہ:
" ہم دفاع کریں گے ، بول کر بھی اور قانونی طور پر بھی۔"
ہاں ، جمعیتہ کے لیڈران اور حضرت مولانا توقیر رضا کے احتجاج کے طریقۂ کار میں ایک فرق ہے۔ جمعیتہ کے لیڈران نے " دفاع " کے لیے قانونی کارروائی پر زیادہ زور دیا ہے ، اور آ ج ضرورت اسی کی زیادہ بھی ہے۔
کچھ لوگ اس بیان کو ایک الگ تناظر میں دیکھ رہے ہیں ، کہ مسلمانوں کے " متحد ہوکر دفاع " کرنے کی بات یو پی میں ہندو ووٹروں کو متحد کرنے کے لیے کہلائی گئی ہے۔


یہ نہ میرا الزام ہے نہ ہی میں اس بات کو کچھ اہمیت دیتا ہوں ، لیکن اس بات کا ایک تناظر ہے ، وہ یہ کہ مولانا توقیر رضاخان نے 2015 میں آر ایس ایس کی حمایت اور کانگریس سمیت تمام ہی سیاسی پارٹیوں کی مخالفت کی تھی ، انہوں نے کہا تھا کہ:
"مسلمانوں کے لیے ایس پی ، بی ایس پی ، کانگریس ، جے ڈی یو اور دیگر سیاسی جماعتوں سے آر ایس ایس بہتر ہے۔ یہ سیاسی پارٹیاں آر ایس ایس کا خوف دکھا کر مسلمانوں کا ووٹ بٹورتی ہیں ، لیکن کسی نے مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں کیا۔"
سوال یہ اٹھایا جا رہا ہے کہ کل کو آر ایس ایس کی حمایت اور کانگریس سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی مخالفت میں بولنے والے مولانا توقیر رضا خان صاحب آج کیوں کانگریس کی حمایت کر رہے ہیں؟ اس سوال سے یہ سوال بھی جڑا ہوا ہے کہ کہیں یہ در پردہ آر ایس ایس کے سیاسی ونگ بی جے پی کی حمایت تو نہیں ہے ؟ ایک طرح کی الجھن ہے ، خلجان پیدا ہو رہا ہے۔ یہ خلجان اس لیے بھی شدید ہے کہ بی جے پی یا یوگی کہہ لیں ، ہرحال میں یو پی جیتنے پر کمر بستہ ہیں ، اس کے لیے توڑ پھوڑ کی سیاست بھی کھیلی جا رہی ہے اور فرقہ پرستی کا بازار بھی خوب گرم کیا جا رہا ہے ، دھرم سنسد کی زہریلی تقریریں اسی کا ایک حصہ تھیں۔


اور اب یہ دیکھ لیں کہ اگر اکھلیش یادو نے بی جے پی میں سیندھ لگا کر موریہ اور دیگر کئی بھاجپائیوں کو سماج وادی پارٹی میں شامل کیا ہے تو یوگی نے اکھلیش کے گھر ہی میں سیندھ لگا دی ہے !
ملائم سنگھ یادو کی چھوٹی بہو اپرنا یادو بی جے پی میں شامل ہو گئی ہیں۔ ظاہر ہے اس سےسماج وادی پارٹی کے ووٹروں میں الجھن پیدا ہوگی ، اور بی جے پی کی یہی کوشش بھی ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین کا بھی ایک عنصر ہے ، یہ مسلمانوں کے ووٹوں کو حاصل کرنے کے لیے کوشاں پارٹی ہے ، یقیناً یہ مسلمانوں کے بالخصوص جذباتی مسلمانوں کے ووٹ کاٹ سکتی ہے۔ یہ بکھراؤ ان عناصر کو ہی ، جو آج حکمرانی کر رہے ہیں ، فائدہ پہنچائے گا۔
لہذٰا یہ ضروری ہے کہ ایسے موقع پر مسلمانوں کو الجھن میں نہ ڈالا جائے ، انہیں اپنے اچھے بُرے کا فیصلہ کرنے کی آزادی دی جائے۔ اگر مختلف مسلم قائدین مختلف باتیں کرتے رہے ، الگ الگ مشورے دیتے رہے تو مسلمان الیکشن کے دن اس تذبذب کا شکار ہوں گے کہ وہ کیا کریں ، کسے ووٹ دیں؟


حضرت مولانا توقیر رضاخان صاحب آپ نے اویسی کو ایک بہتر مشورہ دیا ہے کہ " ساتھ آؤ"۔ سوال یہ ہے کہ کس کے ساتھ ؟ کیا آپ کانگریس کو راضی کر سکیں گے کہ وہ اویسی کو اپنے ساتھ جوڑے یا کیا اویسی یہ چاہیں گے کہ وہ کانگریس کے ساتھ جڑیں؟ یہ اہم سوال ہیں۔
آپ کو کوئی ایجنٹ نہیں کہہ رہا ہے نہ ہی اویسی کو کہہ رہا ہے ، لیکن حالات ایسے بن رہے ہیں کہ آپ کے بیانات کا فائدہ بھی اور اویسی کے یو پی اسمبلی الیکشن لڑنے کا فائدہ بھی ، بی جے پی کو ہی پہنچتا نظر آ رہا ہے۔ لہذٰا یہی گزارش ہے:
"مولانا توقیر رضا خان صاحب آپ ایسا نہ کریں۔"

***
بشکریہ: شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن
khansh.rasheed[@]gmail.com

Elections in UP, Maulana Tauqeer Raza's unnecessary advice to Muslims. Column: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں