جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کا شعبہ اردو - ایک تاریخ ایک المیہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-25

جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کا شعبہ اردو - ایک تاریخ ایک المیہ

osmania-university-urdu-department-history-tragedy

سنہ 1983ء کی بات ہے اردو آرٹس ایوننگ کالج سے بی کام کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لئے جامعہ عثمانیہ میں داخلہ لینے کے لئے انٹرنس امتحان دینا تھا۔ ہم نے بی سی جے، ایم کام، اسلامک اسٹڈیز اور اردو میں انٹرنس امتحان لکھا۔ کامیاب تو سب میں ہوئے۔ میرٹ میں اردو میں دوم اور اسلامک اسٹڈیز میں تیسرا مقام آیا۔ اسلامک اسٹڈیز کے شعبہ میں جب سلمان صدیقی صاحب سے بات کی تو انہوں نے کہا کہ یہاں انگریزی میں تعلیم ہوگی۔ مجبوراً ہم نے ایم۔اے اردو کا رخ کیا اور اس میں داخلہ لے لیا۔ اس وقت صدر شعبہ اردو (آرٹس کالج میں) محترمہ زینت ساجدہ تھیں۔ اس وقت شعبہ اردو کا اہتمام چار مقامات پر تھا: ایک آرٹس کالج ، دوسرے ویمنس کالج کوٹھی ، تیسرے پوسٹ گریجویٹ کالج بشیر باغ ( نظام کالج ) چوتھے، پی جی کالج سکندرآباد۔
ان چاروں کالجس میں تمام نشستیں پر ہو جاتیں اور میرٹ کی بنیاد پر داخلہ ملتا تھا۔ اس دور میں جو اساتذہ تھے، اس کی تفصیل کچھ اس طرح رہی ہے:
پروفیسر زینت ساجدہ، پروفیسر یوسف سرمست ، پروفیسر مغنی تبسم، ڈاکٹر عقیل ہاشمی ، ڈاکٹر محمد علی اثر، ڈاکٹر بیگ احساس، پروفیسر ابوالفضل محمود قادری، پروفیسر مجید بیدار، پروفیسر اختر شاہ خاں ، غیاث متین ، ڈاکٹر نذیر احمد کے علاوہ ویمنس کالج کے اساتذہ بھی تھے۔ اس وقت اس شعبہ میں 19 اساتذہ تھے۔


میرے ساتھ اس وقت ایم۔اے میں، پروفیسر ایس۔ اے۔ شکور اور وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی کی اہلیہ طیبہ بیگم بھی ہم جماعت تھیں۔ 1997، تک شعبہ اردو میں اساتذہ کی تعداد مناسب تھی۔ پھر اسی سال سے اردو کو خطرہ لاحق ہو گیا۔ درمیان میں ڈاکٹر تاتار خاں ، ڈاکٹر معید جاوید ، عطیہ سلطانہ اور دیگر کے تقرر ہوئے۔ اس کے بعد ایک ایک کر کے اساتذہ سبکدوش ہوتے رہے۔ مگر ان اساتذہ کو اتنی حرص تھی کہ وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہونے کے باوجود عارضی طور پر پڑھاتے رہے جس سے ریسرچ اسکالرس کو اپنے تقررات کی جو بھی امیدیں تھیں، ان پر پانی پھر گیا۔
اس دور میں یونیورسٹی کے وائس چانسلر پرفیسر ہاشم علی اختر تھے، جنھوں نے یونیورسٹی کو کچھ ترقی دی۔


مگر افسوس اس بات کا ہے کہ 1984ء میں شعبہ اردو کے سال دوم میں 50 نمبر کا ہندی کا پرچہ رکھ دیا گیا۔ ہم نے احتجاج کیا کہ شعبہ ہندی میں بھی اردو کا پرچہ شامل کیا جائے مگر ہماری آواز کو دبا دیا گیا۔ اور اتنی چھوٹ دی گئی کہ ہندی کا پرچہ اردو میں لکھیں۔ اس سے اردو والوں کی بےبسی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی نے اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی۔


جب بھی یونیورسٹی میں نئے تقررات ہوئے، شعبہ اردو کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا۔ اور آج شعبہ اردو کی تمام پوسٹس جن کی تعداد 19 ہے، خالی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے اساتذہ پروفیسر ثمینہ شوکت ، پروفیسر سیدہ جعفر ، پروفیسر بیگ احساس اور دیگر نے حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی کا رخ کر کے ان عہدوں کو خالی کر دیا۔ اس طرح ان اساتذہ کی وجہ سے جامعہ عثمانیہ کے شعبہ اردوکو زوال آ گیا۔ سکندرآباد پی جی کا اور پوسٹ گرائجویٹ کالج بشیر باغ کا وجود بھی یوں ختم ہو گیا۔ اور یہ عمارتیں دوسرے شعبہ جات کے حوالے کر دی گئیں۔ سال 2021 میں جامعہ عثمانیہ شعبہ اردو کے اکلوتے پروفیسر ایس۔ اے۔ شکور بھی سبکدوش ہو گئے۔ اور اس طرح شعبہ اردو نہ صرف یتیم و یسیر ہو گیا بلکہ اردو کا ایک مقبرہ بن گیا۔ جہاں صرف زائرین (عارضی لکچرر ) ان پر فاتحہ پڑھ کے چلے جاتے ہیں اور اپنے نام کے ساتھ سابقہ اور لاحقہ لگا کر خوش ہو جاتے ہیں۔


یہی حال شعبہ فارسی کا ہے اب وہ دن دور نہیں جب اردو، فارسی اور عربی کا مشترکہ شعبہ ہوگا!
اردو کے نام پر دم بھرنے والے، لاکھوں روپے تنخواہ اٹھانے والوں کو اس طرف توجہ دینا چاہیے۔ پرائمری، ہائی اسکول، جونیر و ڈگری سطح پر اردو کی ترویج کا کام کریں تاکہ یونیورسٹی کا یہ شعبہ قائم رہ سکے۔ کیونکہ ماتم یہ ہے کہ ان شعبہ جات میں طلبہ کی تعداد نہیں کے برابر ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی سبز باغ دکھا کر اردو طلبا کو داخلے دے رہی ہے۔ جبکہ عثمانیہ یونیورسٹی میں ایسا کچھ نہیں ہے۔ البتہ شعبہ فارسی میں ہمارے دور میں ایرانی کونسلیٹ سے امداد ملا کرتی تھی، اب امداد کا یہ سلسلہ جاری ہے یا نہیں، اس کا کوئی علم نہیں ہے۔ البتہ شعبہ عربی، اردو اور فارسی سے بہتر حالت میں ہے۔


پچھلے کچھ برسوں میں اردو آرٹس ایوننگ کالج ، کالج آف لینگویجس ، نامپلی اور اورینٹل اردو کالج حمایت نگر کو بند کر دیا گیا اور یہاں کے اساتذہ کو یونیورسٹی کالجس میں منتقل کر دیا گیا۔ دو مسلم وائس چانسلر رہنے کے باوجود شعبہ اردو میں کسی کا تقرر عمل میں نہیں آیا۔ ہمارے لیے یہ ایک المیہ ہے۔


ریاستی حکومت اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیتی ہے مگر دوسری طرف ہر سال اردو کے چند کالجس کو یا ان کے اردو سیکشن کو بند کرا کر اردو کے ساتھ اپنا سوتیلا رویہ اپنا رہی ہے۔


یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے جو عارضی اساتذہ ہیں ان کے عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ صرف اردو جلسوں ، رسم اجراء تقاریب یا پھر سمینار میں شرکت کے ذریعے مالی فوائد حاصل کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔
کاش کہ یہ اساتذہ سامنے آئیں اور احتجاجی مہم چلائیں۔ جب مذکورہ کالجس بند ہوئے تھے تو کسی نے آواز بلند نہیں کی۔ انجمن ترقی اردو، ادارہ ادبیات اردو نے تک اس ضمن میں کوئی احتجاجی بیان جاری نہیں کیا۔ تلنگانہ ریاستی اردو اکیڈیمی بھی خاموش تماشائی بنی رہی۔ اردو کی انجمنوں، بزموں اور اداروں کا حال تو کسی تذکرے کے قابل بھی نہیں۔


آج وقت کی اہم ضرورت نونہالوں کو اردو پڑھانا ہے۔
اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اردو اساتذہ کا تقرر بھی وقت کی شدید ضرورت ہے۔
یونیورسٹی کے اساتذہ جو سبکدوش ہو گئے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اردو کے نام پر روٹیاں سینک رہے ہیں۔ ان مخلوعہ جائیدادوں پر بے روزگار ڈاکٹرس، ریسرچ اسکالرس کا تقرر کیا جائے۔ تاکہ وہ روزگار سے منسلک ہوں نہ کہ سبکدوش شدہ اساتذہ کو دوبارہ فرائض سونپے جائیں۔ ایسا منفی عمل سب سے زیادہ مولانا آزاد اردو یونیورسٹی میں دیکھا جا سکتا ہے، جس کے بعد عثمانیہ یونیورسٹی دوسرے نمبر پر ہے۔


جب تک اردو کے یہ اژدھے زندہ ہیں وہ اردو کو خاک ترقی نہیں دلا سکتے بلکہ اس زبان پر اپنا قبضہ برقرار رکھ کر اسے آہستہ آہستہ زہر پلا رہے ہیں۔ ان زہریلے سانپوں کو ختم کرنا ہی پہلا ہمت والا کام ہوگا۔ بقول آتش ؎
کام ہمت سے جواں مرد اگر لیتا ہے
سانپ کو مار کے گنجینۂ زر لیتا ہے


نوجوان ڈاکٹروں اور ریسرچ اسکالروں سے گذارش ہے کہ ہمت سے کام لیں اور ان اداروں سے ان وظیفہ یاب (اژدھوں) کو ہٹانے بلکہ ختم کرنے کی مہم چلائیں۔ یہ لوگ ہزاروں کا وظیفہ لے کر بھی حرصِ مزید کی خاطر اس شعبہ کو بدنام کر رہے ہیں۔ نو جوان نسل آئے گی تو دوبارہ رونق آئے گی۔ ورنہ شعبہ اردو آرٹس کالج ایک مقبرہ میں تبدیل ہو کر رہ جائے گا۔


ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی (اسسٹنٹ پروفیسر این۔ٹی۔آر گورنمنٹ ڈگری کالج فار وومن، محبوب نگر) اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں ۔۔۔

اب ہم زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی کے دور سے گزر رہے ہیں۔ تبدیلی ناگزیر ہے اور زندگی کے لیے ضروری ہے۔ بہت جلد ہندوستان میں تعلیم کا ڈھانچہ بدل جائے گا۔ ساتھ ہی تعلیم کے لئے مارکیٹ ڈیمانڈ بھی بدلے گا۔
جامعہ عثمانیہ کا قیام دور اندیشی سے کیا گیا تھا اور اس جامعہ نے ساری دنیا کو اپنے فرزندوں کے ذریعے فیض پہنچایا ہے یہ اب بھی اے پلس نیاک گریڈ یونیورسٹی ہے۔ اب سائنس و ٹیکنالوجی کی مقبولیت کا دور ہے۔ مصنوعی ذہانت اور مشین لرننگ کے چرچے ہیں۔ زبان کی تعلیم کے لئے یونیورسٹی سطح پر بھاری بھرکم شعبہ جات کی شائد اب ضرورت نہیں ہے یا اگر زبان کی تعلیم سے ہم مستقبل کے مارکیٹ کی ضروریات کی تکمیل کر سکتے ہیں تو پھر طلبا کا رجحان داخلوں کی طرف ہوگا اور یونیورسٹی کے ارباب مجاز شعبہ برقرار رکھنے کے لیے سوچیں گے۔
جس وقت جامعہ عثمانیہ کا شعبہ اردو اپنی بہار پر تھا اس وقت بھی اساتذہ اپنے طالب علموں کو قریب آنے نہیں دیتے تھے۔ ایک یونیورسٹی دوسرے یونیورسٹی کے اسکالر کو قریب آنے نہیں دیتی تھی کبھی اردو کے اسکالر کو آگے کے مواقع کی رہبری نہیں کی گئی۔ اردو فیسٹیول کے علاوہ شعبہ اردو سے کوئی سمینار یا کانفرنس منعقد نہیں ہوا۔ چند ایک سمینار ہوئے بھی تو اس میں اساتذہ کی ہی شرکت رہی۔


جب سے نظام آباد اور کریم نگر میں ریاستی اردو یونیورسٹی میں اردو کے شعبے قائم ہوئے حیدرآباد میں جامعہ عثمانیہ کے ایم اے اردو میں داخلے کم ہونے لگے جن اساتذہ کے نام اس مضمون میں گنائے گئے ان کے علاوہ یونیورسٹی کے شعبہ جات میں کسی اسکالر کا تقرر نہیں ہوا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد اسکالرز کو نااہل سمجھنا اور پچیس چالیس ہزار کی خاطر وہی اساتذہ کی دوبارہ عارضی خدمات پر بحالی، اس سے بھی اردو پڑھنے والے اسکالر شعبہ سے دور ہوتے گئے۔
ایم اے اردو کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اس میں کمپیوٹر اور صحافت کو شامل کیا جائے اس کے ساتھ ضمانتِ روزگار ڈپلومہ کورس شامل کیا جائے۔ نئے موضوعات کو نصاب کا حصہ بنایا جائے تب ہی کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔


عثمانیہ یونیورسٹی سے محبوب نگر کے ڈگری امتحانات کے لئے پرچہ امتحان بن کر آتا ہے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پرچہ سوالات قلم سے لکھ کر بھیجے جاتے ہیں۔ اساتذہ نہ اردو کمپوزنگ جانتے ہیں نہ کمپوز کرا کر پرچہ بھیجنے کی زحمت کرتے ہیں۔ اس لئے امید کم ہے کہ جامعہ عثمانیہ کا شعبۂ اردو مستقل تقررات حاصل کر پائے گا۔ موجود شعبہ کو بچانے کے لیے کچھ شوقیہ ایم اے کرنے والوں کو داخلہ دلانا ہوگا تاکہ ارباب مجاز کو شعبہ کی اہمیت واضح ہو۔ شعبہ کے موجودہ اکیڈمک کنسلٹنٹ باہر آئیں، اردو حلقوں کا دورہ کریں، داخلوں کو یقینی بنائیں، خود بھی عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں اور اسکالرز کو بھی مستقبل کی راہ دکھائیں تو کچھ بات بنے۔


تاریخی عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے وجود کو خطرہ، گذشتہ کئی ریکروٹمنٹ ڈرائیوز میں ایک بھی تقرری نہیں (از: رحمان پاشا)
نیوز اسٹوری بہ شکریہ: روداد عالم (حیدرآباد)۔ بتاریخ: 7/جنوری 2022ء

حیدرآباد دکن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہاں آزادی سے قبل اردو ذریعہ تعلیم کے لیے سب سے اولین علمی دانش گا ہ جامعہ عثمانیہ یونیورسٹی کا قیام عمل میں آیا جہاں مختلف علوم وفنون کی تعلیم و تدریس اردو زبان میں انجام دی جاتی تھی۔ لیکن 17 ستمبر 1948 کو حیدرآباد میں پولیس ایکشن کے کچھ برس بعد جامعہ عثمانیہ میں اردو ذریعہ تعلیم کا خاتمہ کر دیا گیا اور اب اس تاریخی یونیورسٹی میں اردو کی رہی سہی نشانی یعنی اس کے شعبہ اردو کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ شعبہ اردو میں 1997کے بعد سے کیے گئے گذشتہ کئی ریکروٹمنٹ ڈرائیوز کے دوران ایک بھی تقرری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ تدریسی عملہ کی تقرری نہ ہونے کی وجہ سے شعبہ اردو میں داخلوں لینے والے طلبہ کی تعداد میں بھی کمی دیکھی جارہی ہے۔ اسی لیے اردو داں حلقوں میں یہ شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ طلبہ کی تعداد کو کم کرنے کے لیے تدریسی عملہ کا تقرر نہیں کیا جا رہا ہے تاکہ بعد میں طلبہ کی کم تعد اد کا بہانہ بناکر شعبہ اردو کو بند کردیا جائے۔


عثمانیہ یونیورسٹی کے حکام کے مطابق سال 1999، 2000، 2007 اور 2013 میں یونیورسٹی کے مختلف شعبوں میں تقرارت کیے گئے تھے لیکن شعبہ اردو کو مسلسل نظر انداز کرتے ہوئے ایک بھی تقرری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تدریسی عملہ کے 19 پوسٹس خالی ہیں۔ جس میں یونیورسٹی کالج آف آرٹس میں 11، نظام کالج میں 2، کوٹھی ویمنس کالج میں 1 اور پی جی کالج سکندرآباد میں 5 اردو کی تدریسی جائیدادیں خالی ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لگاتار ریکروٹمنٹ ڈرائیوز کے دوران عثمانیہ یونیورسٹی انتظامیہ نے شعبہ اردو کے ساتھ مسلسل ناانصافی کی۔ حتٰی کہ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور اردو کے سپوت پروفیسر سلیمان صدیقی کے دور میں صرف ایک جائیداد کو نوٹیفکیشن میں شامل کیا گیا تھا لیکن امیدواروں کی ناکافی اہلیت کا بہانہ بناتے ہوئے اس واحد پوسٹ پر بھی تقرری نہیں کی گئی۔


حیدرآباد سینٹرل یونیورسٹی کے پروفیسر حبیب نثار نے عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں تدریسی عملہ کی تعداد صفر ہوجانے پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تلنگانہ میں اردو والوں میں جذبۂ سرگرمی کی کمی ہے۔ اگر شہرحیدرآباد کے اردو والے گذشتہ ریکروٹمنٹ ڈرائیو زکے دوران صدائے احتجاج بلند کرتے تو شاید آج عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو کا یہ حال نہ ہوتا۔


کبھی شعبہ اردو میں 12 پروفیسرس تھے اور آج:
عثمانیہ یونیورسٹی کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر مجید بیدار کا کہنا ہے کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی موجودہ حالات کے لیے اردو داں حضرت ذمہ دار ہے۔ پروفیسر مجید بیدار نے کہا کہ سال 1997میں عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبہ اردو میں 12 پروفیسرس تدریسی خدمات انجام دیا کرتے تھے جبکہ یہ تعداد سال 2012 صرف 2 ہوگئی تھی لیکن پھر بھی اردو کے فروغ کے لیے کام کرنے والی کسی تنظیم نے حکومتی سطح پر نمائندگی نہیں کی تھی۔ پروفسیر مجید بیدار نے کہا کہ اردو داں حضرات کی لاپرواہی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ ریاستی حکومت نے شہرحیدرآباد کے 3 انٹرمیڈیٹ اور ڈگری سطح کے اردو میڈیم کالجس کو بند کر دیا، اس کے باوجود بھی اردو حلقوں کی جانب سے کسی قسم کی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا گیا ہے۔ یادر ہے کہ تلنگانہ حکومت نے طلبہ کی تعداد کم ہونے کا بہانہ بناتے ہوئے اردو آرٹس کالج حمایت نگر، کالج آف لینگویجس نامپلی اورینٹل کالج آف لینگویجس، حمایت نگر کو بند کردیا ہے۔


شعبہ اردو کی موجود حالات سے سب سے زیادہ متاثر ہونے طلبہ نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از جلد شعبہ اردو میں مخلوعہ تدریسی جائیدادوں پر تقرری کی جائے۔ مستقل تدریسی عملہ نہ ہونے کی وجہ سے نہ صرف ڈگری اور پی جی بلکہ ریسرچ کے طلبہ بھی شدید مسائل سے دوچار ہیں۔ آرٹس کالج کے ایک طالب علم نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ تدریسی شعبہ کی غیر موجودگی کی وجہ سے اس وقت صرف 3 گیسٹ لیکچرز پر تدریس کی ذمہ داری ہے اور اسی لیے زیادہ تر طلبہ کالج آنے سے گریز کررہے ہیں۔


طلبہ کا مستقبل:
عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پارٹ ٹائم لیکچرر کے طور پر خدمات انجام دینے والے محمد مشتاق نے روداد عالم کو بتایا کہ عثمانیہ یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں زیادہ تر اضلاع کے طلبہ داخلہ لیتے ہیں۔ گذشتہ تعلیمی برس میں 16 سے زائد طلبہ و طالبات کا داخلہ ہوا تھا۔ فی الوقت عثمانیہ یونیورسٹی کے تحت ایم اے اردو آرٹس کالج عثمانیہ یونیورسٹی اور کوٹھی ویمنس کالج میں ہی داخلے ہو رہے ہیں، جب کہ پی جی کالج سیکندرآباد میں بھی ایم اے اردو کا سنٹر تھا، وہ برخواست کردیا گیا ہے۔ روداد عالم کے نمائندہ نے جب محمد مشتاق سے سوال کیا کہ آخر آرٹس کالج کے شعبہ اردو میں مستقل اساتذہ نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ حکومت اس سلسلسے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ قابل ترین اشخاص کی بھرتی کرے تاکہ یہاں زیر تعلیم طلبہ کا مسقبل بہتر ہوسکے۔


قیام تلنگانہ کے بعد اردو داں حلقوں میں اردو کے مستقبل کے ضمن میں کافی امیدیں وابستہ تھیں۔ ان کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ لگا تار ریاست تلنگانہ میں اردو تعلیمی اداروں کے ساتھ حکومت امتیازی سلوک کرے گی۔ تلنگانہ حکومت نے اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ تو دیا ہے لیکن یہ درجہ صرف کاغذ تک ہی محددو ہوگیا ہے۔

***
بہ شکریہ: پندرہ روزہ" ادبی منظر نامہ"، حیدرآباد۔ 20/جنوری 2022ء
موبائل: 09849406501

Department of Urdu, Osmania University Hyderabad - A History A Tragedy. Column by: Meem Quaf Saleem

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں