نصرت ظہیر بحیثیت شاعر - مضمون از محمد اشرف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-29

نصرت ظہیر بحیثیت شاعر - مضمون از محمد اشرف

Nusrat Zaheer

نصرت ظہیر (پیدئش: 9/مارچ 1951ء - وفات: 22/جولائی 2020ء) اردو کے ایک اچھے طنز و مزاح نگار تھے۔ طنز و مزاح پر مشتمل ان کی پانچ کتابیں ہیں۔ ایک مترجم کی حیثیت سے بھی انہوں نے اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا اور مشہور صحافی افتخار گیلانی کی کتاب My Days in Prison کا ترجمہ "تہاڑ میں میرے شب و روز" (2005ء) کے نام سے کیا۔ جسے 2008ء میں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ برائے ترجمہ بھی مل چکا ہے۔ انہوں نے نین تارا سہگل(10/مئی1927ء) کا ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ ناول (1985ء) Rich Like us کا بھی اردو ترجمہ "ہم امیر لوگ" (2014ء) کے نام سے کیا۔
بعد ازاں گوپی چند نارنگ (پیدائش: 11/فروری 1931ء) کی مشہور کتاب "غالب معنیٰ آفرینی جدلیاتی وضع شونیتا اور شعریات" (2013ء) کو اپنی وفات سے قبل 2020ء ہی میں انہوں نے اردو سے ہندی زبان میں "غالب ارْتْھ وکْتا، رچْناتْمکْتا یوں شونِّیتا" کے نام سے منتقل کیا۔


نصرت ظہیر نے بحیثیت مدیر بھی اپنی شناخت قائم کی اور رجحان ساز رسالہ "نقوش" کے طرز پر "ادب ساز" جیسا ایک معیاری رسالہ بھی نکالا۔ جبکہ قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے تحت نکلنے والے تین مقبول رسائل سہ ماہی "فکر و تحقیق" ماہنامہ "اردو دنیا" اور "بچوں کی دنیا" (واضح رہے کہ "بچوں کی دنیا" کا پہلا شمارہ جون، 2013ء کو نصرت ظہیر کی ادارت میں شائع ہوا۔) کے ساڑھے پانچ سال تک مدیرِ اعزازی رہے۔ ان کے علاوہ نصرت ظہیر نے "ابن بطوطہ کا دوسرا سفر " (یہ ناول 1993ء-1994ء کے درمیانی عرصے میں "قومی آواز" کے ہفتہ وار ضمیمے میں بالاقساط شائع ہوا۔) نامی ایک ناول بھی لکھا۔ جبکہ "دریں اثنا" (2019ء) کے نام سے ان کا ایک شعری مجموعہ بھی ہے۔ اس میں نصرت ظہیر نے اپنی نظموں اور غزلوں کو شامل کیا ہے۔
ان کی غزلیہ اور نظمیہ شاعری کے مختلف رنگ و آہنگ پر یہاں کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔


نصرت ظہیر کی غزلوں کے بہت سارے مضامین فرسودہ، پامال ماخوذ اور مستعار ہیں۔ نصرت ظہیر کی شاعری کے سلسلے میں یہ میری تنہا رائے نہیں ہے، بلکہ مجھ سے پہلے بھی ڈاکٹر امتیاز وحید نے ماہنامہ "شگوفہ" کے نصرت ظہیر نمبر (اپریل 2013ء) پر تبصرہ کرتے ہوئے، ان کی شاعری کے تعلق سے اپنی اسی طرح کی بے باک رائے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے:
"اس خصوصی شمارے میں تین صفحات ان کی شاعری کے لیے بھی مختص ہیں، جن سے ان کے شعری ذوق کا پتہ چلتا ہے۔ گرچہ ان میں 'بوئے اسد اللّٰہی' اور۔۔۔ 'جیسے شراب چواتے ہیں' والی ان کے کالم کی حرارت محسوس نہیں ہوتی۔"
(بحوالہ، اردو دنیا، اگست:2013ء، صفحہ نمبر 74)


نصرت ظہیر کے شعری مجموعے "دریں اثنا" میں شاعری کی بہت ساری خوبیاں نہ سہی لیکن پھر بھی ان میں ندرت کا پہلو نمایاں ہے۔ جیسے ان کی نظم "ویمپائر"، یہ ایک ایسی خیالی مخلوق ہے، جو انسانی خون پر زندہ رہتی ہے۔ ہالی ووڈ میں اس موضوع پر بہت ساری فلمیں بنی ہیں، لیکن اردو اور ہندی میں اس موضوع پر نہ کے برابر لکھا گیا ہے۔


نصرت ظہیر تہذیب رفتہ سے شدید وابستگی رکھنے والے شاعر ہیں، انہوں نے تقریباً اپنے تمام متقدمین شعراء سے کسبِ فیض کیا ہے، جیسا کہ ان کے کلام سے یہ بات مترشح ہے۔ نمونے کے لیے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے۔


حکیم مومن خان مومن (1800ء-1852ء) کا ایک شعر ہے:
چل دیے سوئے حرم کوئے بتاں سے مومن
جب دیا رنج بتوں نے تو خدا یاد آیا


نصرت ظہیر نے اس مضمون کو یوں ادا کیا:
کبھی جس کی ضرورت ہی نہ جانی
محبت میں وہ رب یاد آ رہا ہے


جون ایلیا (1931ء-2002ء) کا ایک شعر ہے:
یوں جو تکتا ہے آسمان کو تو
کوئی رہتا ہے آسمان میں کیا


نصرت ظہیر نے اس مضمون کو اس طرح سے پیراہن عطا کیا ہے:
تکتا رہتا ہے خوب روؤں کو
دل پہ کس شکل کا یہ سایہ ہے


جمال احسانی (1951ء-1998ء) کا ایک شعر ہے:
یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ
بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے

نصرت ظہیر نے اس مضمون کو یوں ادا کیا ہے:
یاد بھی رکھتا ہے دل ہر وقت اس کو
بھول جانے کی بھی عادت چاہتا ہے


منشی امیر اللّٰه تسلیم (1819ء-1911ء) کا ایک شعر ہے:
ہم نے پالا مدتوں پہلو میں ہم کوئی نہیں
تم نے دیکھا ایک نظر سے دل تمہارا ہو گیا


اسی مضمون کو نصرت ظہیر نے ان الفاظ میں ادا کیا ہے:
یہ جو سینے میں دھڑکتا ہے یہ دشمن ہے مرا
بڑھتی ہی جاتی ہے اس کی بے قراریاں کیا کروں


غلام ہمدانی مصحفی (1751ء-1824ء) نے ایک مضمون کو اس طرح ادا کیا ہے:
تیرے کوچے اس بہانے مجھے دن سے رات کرنا
کبھی اِس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا


نصرت ظہیر نے کہا:
بس ایک وقت گزاری ہے شاعری ورنہ
تجھی سے بات کروں اور دن سے رات کروں


ایک مضمون ہے جسے شاد عظیم آبادی (1846ء-1927ء) نے یوں باندھا ہے:
تمناؤں میں الجھایا گیا ہوں
کھلونے دے کے بہلایا گیا ہوں


نصرت ظہیر نے اسی ایک مضمون کو دو مختلف انداز میں باندھا ہے:
بہت کچھ دل کو بہلایا گیا ہے
بڑی حکمت سے ترسایا گیا ہے


دل اپنا بھی بچہ ہو جاتا ہے لیکن
ہم اس کو کھلونوں سے تو بہلا نہیں سکتے


فراق گورکھپوری (1896ء-1982ء) کا ایک شعر ہے:
تم مخاطب بھی ہو قریب بھی ہو
تم کو دیکھیں کہ تم سے بات کریں


نصرت ظہیر نے اسی مضمون کو یوں باندھا ہے:
کچھ اپنے دل کی کہوں ذکر کائنات کروں
ترے خیال سے چھوٹوں تو تجھ سے بات کروں


یاد رہے کہ محبوب کے "خیال" کو شہریار (1936ء-2012ء) نے اس طرح سے باندھا ہے:
تیرا خیال بھی تیری طرح ستم گر ہے
جہاں پہ چاہیے آنا، وہیں نہیں آتا


میر تقی میر (1723ء-1810ء) کا ایک شعر ہے:
شام سے ہی بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

نصرت ظہیر نے اس شعر کو ذہن میں رکھ کر ایک دوسرا شعر یوں کہا ہے:
دل ہمارا بھی میر کا نکلا
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے


فارسی کا ایک شعر ہے:
کند ہم جنس، باہم جنس پرواز
کبوتر با کبوتر باز با باز


اسی مضمون کو نصرت ظہیر نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
جانتا خوب ہے پرواز کا انجام مگر
باز کے پیچھے اڑا ہے وہ کبوتر دیکھو


داغ دہلوی (1831ء- 1905ء) کا ایک مشہور شعر ہے:
شبِ وصال ہے گل کر دو، ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا


نصرت ظہیر نے اس مضمون کو اس طرح سے ادا کیا:
یہ شبِ وصل ہے احتراماً ذرا
چاند تاروں کی شمعیں بجھا دیجیے


فانی بدایونی (1879ء-1941ء) کا شعر ہے:


ہر نفس عمرِ گزشتہ کی ہے میت فانی
زندگی نام ہے مر مر کے جیے جانے کا


اسی مضمون کو نصرت ظہیر نے اس طرح ادا کیا ہے:


ہر اک نفس پہ موت کا سایہ ہے دوستو
یہ زندگی عجیب تماشہ ہے دوستو


ایک شعر ہے:


صیاد کی سیاست کس درجہ سیانہ ہے
کوّے کی طرف رخ ہے، بلبل پہ نشانہ ہے


اسی مضمون کا ایک شعر نصرت ظہیر کے یہاں بھی ہے:


وہ فارغ ہو کے آیا ہے سیاست کے مدارس سے
بڑا مشکل ہے کہنا کس طرف اس کا نشانہ ہے


سماجی اور معاشرتی برائیوں کو بہت سارے شعرا نے اپنی تخلیق کا موضوع بنایا ہے جیسے حمزہ ناوک پوری (پیدائش:1933ء) کا ایک شعر ہے:
اہل خانہ گھر کی تاریکی پہ ہیں ماتم کناں
جل رہے ہیں مقبروں پر اعتقادوں کے چراغ


نصرت ظہیر نے بھی سماجی برائیوں پر جا بجا طنز کیا ہے۔ جیسے:

آپ کے جلسوں کو اللّٰه میاں روشن رکھے
بستیوں میں تو اجالا نہیں ہونے والا
شکست و ریخت مقدر رہی ہے صدیوں سے
کبھی وفاق سے ٹوٹے، کبھی کبھی نفاق سے ہم
خوشامد، چاپلوسی، سجدہ ریزی، جو بھی کہہ لیجیے
کبھی تالی بجانا ہے، کبھی گن گائے جانا ہے

دل، بھیڑ، آنگن، صبح، شام، دن، رات، خدا، ہجر، وصال، شب، آنکھیں، الجھن، جسم، عشق، عاشقی، راستے، منزل، زمین، آسمان، گاؤں، شہر، دیوار، سورج، چاند، بدن، موسم، رہبر، رہنما، کارواں غیرہ نصرت ظہیر کے کلام میں کلیدی حیثیت کے حامل الفاظ ہیں۔


بیک وقت موضوع اور مہمل الفاظ کے حسین امتزاج سے مملو راحت اندوری (1950ء-2020ء) کی ایک بہت ہی مشہور و معروف غزل ہے۔ اسی کا ایک شعر ہے:
عشق وشق کے سارے نسخے مجھ سے سیکھتے ہیں
ساغر واغر منظر ونظر جوہر ووہر سب


اسی طرح کے اشعار نصرت ظہیر نے بھی کہے ہیں جیسے:
میں کہاں شعر وعرکہتا ہوں
خود کہے جا رہی ہے تنہائی


نصرت ظہیر بنیادی طور پر کمیونسٹ خیالات کے حامل تھے، جیسا کہ انہوں نے وقتاً فوقتاً اپنی اس صفت کا اعتراف بھی کیا ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنی نظم و نثر کی تمام تخلیقات میں جا بجا اس نظام کی وکالت بھی کی ہے، ساتھ ہی جمہوریت کے سیاسی اور عدالتی نظام کو براہِ راست اپنی تنقید کا بھی نشانہ بنایا ہے۔ سیاسی نظام پر طنز کرتے ہوئے انہوں نے کئی اشعار کہے ہیں، بطور نمونہ چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اپنی تہذیب کا ایک یہ بھی مرقع ہے جناب
ہار پہنے ہوئے سڑکوں پہ فسادی جائے
سیاست میں ضرور آنا مگر اتنا سمجھ لینا
یہاں چھوٹی نہیں، موٹی رقم کی بات چلتی ہے
کبھی نعروں سے حاکم کی نظر میں آئے جانا ہے
ملے موقع تو پھر تصویر بھی کھنچوائے جانا ہے
سیاست دین و مذہب کی خریداری کو بیٹھی ہے
عمامے ہی نہیں، بِکنے کو اب ممبر بھی چلتے ہیں

عدالتی نظام پر بھی طنز کرتے ہوئے انہوں نے کچھ اشعار کہے ہیں، بطور مثال چند اشعار ملاحظہ ہوں:

اگر چہ عارضہ منصف کو ہے ضعفِ سماعت کا
اسے پھر بھی ہمارا بولنا اچھا نہیں لگتا
ہم لوگوں کی ناکردہ گناہی تو وہی ہے
اس پر بھی عدالت میں گواہی تو وہی ہے
سماعت پر سماعت اور تاریخوں پے تاریخیں
ترا قانون کچھ ہے، فیصلہ کچھ اور کہتا ہے
عدالت سے کسی انصاف کی امید مت رکھنا
اسی سے دل کو بہلانا کہ سنوائی تو ہونی ہے

نصرت ظہیر نے "دریں اثنا" میں اپنا تخلص عموماً "نصرت " استعمال کیا ہے، لیکن ایک جگہ انہوں نے اپنا تخلص "ظہیر" بھی استعمال کیا ہے۔ جس سے یہ معلوم پڑتا ہے کہ انہوں نے اپنے نام کے دونوں حصوں کو حسبِ موقع بطور تخلص استعمال کیا ہے۔ نصرت ظہیر کے شعری مجموعے کی ورق گردانی کرتے ہوئے مجھے چند اچھے اشعار ملے، جن میں سے کچھ یہ ہیں:

لفظوں کے پھول بھیجتے رہیئے خطوط میں
جذبوں کی آنچ ہوگی نہ ترسیل ڈاک سے
وہ بدن اور بدن کے دل آویز خطوط
خواب بن کر کوئی آنکھوں میں بسا ہو جیسے
ہمیں اک روز اس کارِ جہاں سے لوٹ جانا ہے
نکل کر تیر کو اپنی کماں سے لوٹ جانا ہے
وہ نہیں ہم کہ تڑپنے لگیں، چلانے لگیں
دل میں ہر غم کو سجایا ہے بڑے پیار کے ساتھ
اس سے بچھڑ کر اور تو ہم کچھ سیکھ نہ پائے
روتے روتے ہنسنا ہنسانا سیکھ لیا
جو جسم سے مرتے ہیں، وہ شور مچاتے ہیں
جو جان سے جاتے ہیں، اعلان نہیں کرتے
کافر نے پکڑ رکھی ہے اللّٰه کی رسی
مومن کو مگر یہ بھی دکھائی نہیں دیتا
آرزو کا ایک دامن دور تک پھیلا ہوا
اور اس پر گھر، گرہستی، ذمہ داری کیا کروں

حالانکہ مرزا محمد رفیع سودا (1713ء-1781ء) نصرت ظہیر سے بہت پہلے اس مضمون کو یوں باندھ چکے تھے:
فکر معاش، عشق بتاں، یاد رفتگاں
اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے


نصرت ظہیر کی شاعری پر گفتگو کرتے ہوئے "دریں اثنا" کے فلیپ پر ہندوستان کے مشہور شاعر فرحت احساس (پیدائش:1952ء) نے ایک معتدل رائے پیش کی ہے، وہ لکھتے ہیں:
"محاورے اور روزمرہ پر وہی گرفت، بیان کی وہی شفّافی، لفظ ومعنیٰ کے ساتھ مناسب حال معاملہ اور سلوک کرنے کی وہی صلاحیت اور اپنے آپ کو اور اپنی دنیا، زمانے انسان کو سمجھنے اور اسے اظہار دینے کا وہی انداز جو ان کی نثری تحریروں میں نظر آتا ہے، یہاں بھی ہے۔"
(بحوالہ، دریں اثنا: نصرت ظہیر، فلیپ، 5/اگست 2017ء)


نصرت ظہیر کے اس شعری مجموعے میں "تمہاری نظم"، "غلط فہمی"، "خواب کا سفر"، "مجھ کو آواز تو دو"، "تم سے ملنے کے بعد"، "تم نہیں آؤ گی"، "خوابوں کی البم"، "ایک نظم اپنے لیے"، "بے بسی"، "بے رشتگی"، "دیوار"، "ناراضی"، "تنہائی"، "ہم سفر"،"خود گرفتہ"، "گریز"، "انکاونٹر کے بعد"، "اداکاری"، "ویمپائر"، "میری نظم"، "یہ تم سے نہیں ہوگا"، "قوس و قزح کے راستے"، "امرت منتھن"، "ایک نامکمل نظم"، "لمحہء صفر"، "آخری خواہش"،"راضی نامہ"، "بولو تو" اور "منّو کی شادی نامہ" وغیرہ نظمیں شامل ہیں۔ ان من جملہ نظموں میں مجھے "تم نہیں آؤ گی"، "خوابوں کی البم" اور "ایک نظم اپنے لیے" (جسے پڑھ کر اختر الایمان (1915ء-1995ء) کی مشہور نظم "ایک لڑکا" (یہ نظم ان کے مجموعے "یادیں:1961ء" میں شامل ہے۔) کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔
اور "قوس و قزح کے راستے" بھی ایک اچھی نظم ہے، جس میں مسلم، ہندو اور عیسائی و بدھ مت وغیرہ کی مذہبی تعلیمات کی طرف نہایت بلیغ اشارہ کیا گیا ہے، ساتھ ہی ان مذاہب کے پیرو کاروں کی غلط روش اختیار کرنے کو معیوب بتلایا گیا ہے۔


نصرت ظہیر کی نظمیہ شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے ہمارے زمانے کے مشہور فکشن رائٹر سید محمد اشرف (پیدائش:1957ء) لکھتے ہیں:
"ان کی رومانی نظمیں اور مختصر نظمیں دامنِ دل کو اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ نصرت ظہیر کی غزلوں اور نظموں میں ہجر وصال کا بیان جابجا ملتا ہے۔ کہیں کہیں معاملاتِ عشق بھی آ جاتے ہیں۔ لیکن ان کا بیان مطالعہ کرنے والے کو مسرت دیتا ہے تلذذ نہیں۔"
(بحوالہ، دریں اثنا: نصرت ظہیر کا پچھلا صفحہ، 31/ مئی 2017ء)


نصرت ظہیر کی شاعری میں شعری لوازمات کی کمی کھٹکتی ہے۔ تشبیہ، استعارہ، مجازِ مرسل، کنایہ، تلمیح اور تلمیع وغیرہ کے اشعار پورے مجموعے میں تلاشِ بسیار کے باوجود بھی بہت ہی کم ملتے ہیں، واضح رہے کہ یہ سب شعری لوازمات ہیں، ان کی بہتات اور کثرت شاعری کو مجروح کر دیتی ہے۔ لیکن ان لوازمات کی عدم موجودگی بھی شاعری کی شعریت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ عناصر اگر ان کی شاعری میں مزید موجود ہوتے تو بلاشبہ اِن میں مزید معنویت اور تہہ داری کی توقع کی جاسکتی تھی۔


نصرت ظہیر کی شاعری پر اپنے نپے تلے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے، معروف طنز و مزاح نگار اسد رضا نے شگوفہ میں لکھا ہے:
"نصرت ظہیر نثر میں طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ شاعری بھی کرتے ہیں۔۔۔ نصرت صاحب شروع میں رومانی پھر انقلابی اور اکیسویں صدی میں مابعد جدید اشعار لکھتے رہے ہیں۔ ابتدائی شاعری پر داغ دہلوی کے اثرات ملاحظہ فرمائیں۔
درد بھی بخشتی ہے لذت بھی
ہائے کیا چیز ہے محبت بھی


کوئی گل چیں ہے نہ صیاد بڑی مشکل ہے
کس سے اب کیجیے فریاد بڑی مشکل ہے


نصرت ظہیر ترقی پسند شعرا بالخصوص فیض احمد فیض، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی، مخدوم محی الدین وغیرہ سے کافی متاثر رہے اور ان کی شاعری پر بھی ترقی پسند تحریک کے اثرات مرتب ہوئے۔ تاہم ان دنوں ان کی شاعری میں فنی لوازمات، ادراک کی گہرائی، فکر کی بلندی اور جذبات واحساسات کی گیرائی کے ساتھ ساتھ ایک دلکش توازن بھی ہے۔"
(بحوالہ، شگوفہ کا نصرت ظہیر نمبر، صفحہ نمبر 76)


میرے خیال سے کسی بھی شاعر کی تخلیقی کائنات کو جاننے کے لیے تین عوامل کا تجزیہ بہت ضروری ہوتا ہے۔ پہلا یہ کہ شاعر "انسانوں" کو دوسرا "زندگی" کو اور تیسرا یہ کہ وہ اپنے "عہد" کو کس طرح سے دیکھتا ہے۔ مندرجہ بالا تینوں چیزوں کی دریافت کے لیے جب ہم نصرت ظہیر کا مجموعہ کھنگالتے ہیں۔ تو ہمیں اس طرح کے اشعار ملتے ہیں، جیسے کہ نصرت ظہیر نے اپنے دور کے "انسانوں" کو کئی طرح سے دیکھا، پرکھا، سمجھا اور جانا ہے۔ اسی لئے لوگوں کے بارے میں ان کی متعدد اور متضاد رائیں ملتی ہیں۔ جو ندا فاضلی (1938ء-2016ء) کی زبان میں کچھ یوں ہے:
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا


اپنے عہد کے "انسانوں" کو دیکھنے کے پس منظر والے نصرت ظہیر کے کچھ اشعار:

کتنا دل سادہ کو سمجھایا تھا مت الجھو
انجان سے لوگوں سے پہچان نہیں کرتے
کام آپڑا ہے ہم سے بھی شاید انہیں کوئی
ملنے لگے ہیں لوگ بڑے ہی تپاک سے
لوگوں نے اب بھلا سا دیا ہے مجھے مگر
مجھ کو تو بات، بات پہ یاد آرہے ہیں لوگ
یہ لوگ نعرے لگانے میں کام آئیں گے
کچھ اور روز انھیں بے مکان رہنے دو
اگر کچھ جھوٹ کہنا ہے تو کہہ لو
ابھی اس کی سزا کوئی نہیں ہے

شاعر نے "زندگی" کو کس طرح سے سمجھا، برتا اور جانا ہے۔ زندگی کی مناسبت سے خلیل الرحمٰن اعظمی (1927ء-1978ء) کا ایک شعر بہت ہی حسبِ حال معلوم ہوتا ہے:
یوں تو مرنے کے لیے زہر سبھی پیتے ہیں
زندگی تیرے لیے زہر پیا ہے میں نے


نصرت ظہیر کا "زندگی" کو دیکھنے کا اپنا نقطۂ نظر ہے، جس کا اندازہ ان کے حسب ذیل چند اشعار سے ہو سکتا ہے:

قید تا عمر کو بھی لوگ سزا کہتے ہیں
کھل کے جینے میں بڑا لطف ملا ہو جیسے
اِک خوشی ہے جو ازل سے نہیں پائی ہم نے
ایک غم ہے جو سدا دل سے لگا رہتا ہے
دل نے سوچا تھا کہ لگ جائیں گے پار
سامنے ہیں پھر وہی گہرائیاں
یہ پھول ہیں، خوشبو ہیں، انہیں دل سے لگاؤ
زخموں کی یہ سوغات کہاں لے کے چلے ہو۔
علیل ہوتی چلی جا رہی ہے روز حیات
کہیں علاج نہیں ہے، کہیں طبیب نہیں
روح الجھی ہے حسرتوں میں کہیں
حسرتیں جسم کے حصار میں ہیں
یہ کیسا درد مہکنے لگا ہے چاروں طرف
یہاں نہ زخم، نہ گل ہے، نہ کوئی دشت، نہ باغ
کچھ خبر نہیں نصرت لوگ کیسے جیتے ہیں
موت کے بگولوں میں زندگی کے صحرا میں
زندگی اقرار تھی کل تک تو نصرت
آج کیوں انکار بنتی جا رہی ہے
اپنے کاندھوں پہ خود اپنی ہی صلیبیں لے کر
رینگتے رہتے ہیں کچھ لوگ سدا سڑکوں پر
بڑے پہنچے ہوئے صوفی نے اِک دن مجھ کو سمجھایا
میاں جی ٹوٹتے رہنے سے دل مضبوط رہتا ہے
سانس لینے اور جینے میں یہی تو فرق ہے
زندگی کانٹوں میں ہو، گلزار کی باتیں کریں

نصرت ظہیر نے اپنے "عہد" کو جس انداز میں دیکھنے کی کوشش کی ہے وہ حسب ذیل ہے:

مشاعرے میں داد چاہیئے تو پھر ظہیر جی
یہ شاعری فضول ہے مشاعری کیا کرو
منزل میں ہی کچھ کھوٹ ہے اس بار وگرنہ
راہوں سے الجھتا ہوا راہی وہی تو ہے
وہ جس کے نیچے ملّا جی الف بے تے پڑھاتے تھے
سنا ہے آج کل اس پیڑ پر ایک بھوت رہتا ہے
نہ کوئی خواب زندہ ہے، نہ حسرت سانس لیتی ہے
ہماری بستیوں میں صرف قبرستان رہتے ہیں
اس قلم سے بھی یہ تاریخ رقم کرتا ہے
وقت کے ہاتھ میں لہراتا ہے خنجر دیکھو
اتنا نہ اسے چاہو، کچھ سمجھو میاں نصرت
اس عمر میں وحشت کا سامان نہیں کرتے
بوڑھے حقے گفتگو کرتے رہے
آنگنوں میں بچھ گئیں چارپائیاں
اپنی اپنی ذات کو تکمیل دینے کے لئے
دائروں کی تاک میں نقطے ہیں کچھ باریک سے
یہ تیرگی ہے اسے دیکھنے سے کیا حاصل
وہ روشنی ہے نظر کو سنبھال کر دیکھو
بہکے ہوئے لفظوں کو بھٹکی ہوئی باتوں کو
اے کاش کوئی منزل دکھلانے لگے کوئی
عقل کو بھی تو ذرا تازہ ہوا درکار ہے
آئیے باہر چلیں، بے کار کی باتیں کریں
جو ظلم ہوا ہے، تیری مرضی سے ہوا ہے
بڑھ چڑھ کے کوئی اتنی صفائی نہیں دیتا
مومن بھی خدا سے وہ محبت نہیں رکھتا
کافر کو بھی کچھ رغبتِ اسلام نہیں ہے
یہ ہم نے کون سے ڈھب کا چمن تعمیر کا ڈالا
یہاں خوشبو بھی چلتی ہے، یہاں خنجر بھی چلتے ہیں

نصرت ظہیر نے بھی میر تقی میر کی طرح چھوٹی چھوٹی بحروں میں بہت اچھے اشعار کہے ہیں جیسے:

کوئی آیا نہ آنے والا ہے
جانے ہم کس کے انتظار میں ہیں
رنج دل نے بہت اٹھایا ہے
شور پھر بھی نہیں مچایا ہے
ڈھونڈ سکتے ہو اِن میں خود کو بھی
شعر میری غزل کے دیکھو تو

اردو زبان و ادب کی تاریخ میں بہت سارے تخلیق کاروں نے اپنی تخلیقی کائنات کو نئی سمت و رفتار دینے کی غرض سے کئی فرضی اور خیالی کردار وضع کیے ہیں۔ جیسے رتن ناتھ سرشار (1846ء-1903ء) نے"فسانہ آزاد" (اشاعت:1880ء) کے لیے "خوجی"، ڈپٹی نذیر احمد (1830ء-1912ء) نے اپنے ناول "ابن الوقت" (1888ء میں لکھی گئی، لیکن اشاعت 1989ء میں عمل میں آئی) کے لیے "مرزا ظاہر دار بیگ"،منشی سجاد حسین (1856ء-1915ء) نے"حاجی بغلول"، سید امتیاز علی تاج (1900ء-1970ء) نے "چچا چھکن"، مشتاق احمد یوسفی (1923ء-2018ء) نے "مرزا عبدالودود بیگ"، شوکت تھانوی (1904ء-1963ء) نے"قاضی جی "، مشفق خواجہ (1935ء-2005ء) نے "لاغر مرادآبادی"، وغیرہ۔ اسی طرح سے نصرت ظہیر نے بھی کئی فرضی کردار وضع کیے ہیں، نثر کے لیے "مرزا"، "میاں عبدالقدوس"، "بقراطی"، "خان صاحب"، اور نظم کے لیے "رضیہ" ان دونوں کرداروں کی زبانی انہوں نے بہت ساری باتیں کہلوائی ہیں۔


نصرت ظہیر نے ادبِ اطفال میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا ہے۔ جب شاہد علی خان (1932ء-2021ء) مکتبہ جامعہ سے وابستہ تھے، تو انہوں نے نصرت ظہیر سے بچوں کے مشہور ماہنامہ "پیامِ تعلیم" کے لیے بہت سارے مضامین لکھوائے، جو بعد میں "خراٹوں کا مشاعرہ"(2002ء) نامی کتاب میں ایک ساتھ شائع ہوئے۔ NCPUL (قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، جسولہ، نئی دہلی- 25) میں ملازمت کے دوران ایک مدتِ مدید تک انہوں نے رسالہ "اردو دنیا" کے علاوہ "بچوں کی دنیا" کی بھی ادارت کی۔ جس کے تحت انہوں نے بچوں کے لیے سیکڑوں کالم اور مضامین لکھے۔ "دریں اثنا" میں بھی بچوں کے لئے ایک نظم "منّو کا شادی نامہ" شامل ہے، جو اس مجموعے کی سب سے آخری نظم ہے۔

حوالہ جات
(1) دریں اثنا: نصرت ظہیر، عرشیہ پبلی کیشنز، ڈاکٹر اظہار احمد، دہلی 95، اشاعت 2019ء
(2) ماہنامہ اردو دنیا، اگست 2013ء، قومی کونسل برائے فروغ اردو، جلد نمبر 15، شمارہ نمبر 08، صفحہ نمبر 74، مدیر پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، مبصر : احمد امتیاز
(3) ماہنامہ شگوفہ نصرت ظہیر نمبر، اپریل 2013ء حیدرآباد، صفحہ نمبر 76، مہمان مدیر: پروفیسر محمد ظفر الدین، ایڈیٹر ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال
(4) ماہنامہ، شگوفہ، بہ یادِ نصرت ظہیر: جولائی،اگست،ستمبر 2020ء حیدرآباد، صفحہ نمبر :27، 28، ایڈیٹر ڈاکٹر سید مصطفیٰ کمال


***
محمد اشرف (دہلی)

Email: mdashrafyaseen[@]gmail.com

محمد اشرف

Nusrat Zaheer as a poet. - Article: Mohd Ashraf

2 تبصرے:

  1. عمدہ مضمون ہے ...مبارکباد

    جواب دیںحذف کریں
  2. بہت خوب ۔۔۔۔
    عمدہ اور معلوماتی مضمون لکھا آپ نے بھائی ۔۔۔۔
    نصرت ظہیر کی ادبی خدمات لائق ستائش ہیں!!!

    جواب دیںحذف کریں