شر پسندوں کا شور - وزیراعظم کی فکر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-30

شر پسندوں کا شور - وزیراعظم کی فکر

shouting-of-miscreants-on-india-tarnishing-global-image

ہندوستان کے سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری پھر زد پر ہیں۔ انہوں نے ایک عالمی فورم پر ہندوستان میں جاری عدم رواداری پرسخت نکتہ چینی کی ہے۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم نریندر مودی کہہ چکے ہیں کہ ہندوستان کی عالمی شبیہ کو داغدار کرنے کی کوشش ہو رہی ہے۔ تازہ معاملہ نے اس ایشو کو پھر گرم کر دیا ہے۔۔


ہمیں خوشی نہیں ہوتی جب ہندوستان کو عالمی سطح پرہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ اس وقت تو بالکل نہیں ہوتی جب شرپسندوں کی وجہ سے ہندوستان کی عالمی سطح پر بدنامی ہوتی ہے۔ ہمارے لئے یہ موضوع اتنی ہی تکلیف کا باعث ہے جتنی تکلیف ہمیں خود اندرون ملک شرپسندوں کے ذریعہ بے قصور افراد کو ستانے پر ہوتی ہے۔ لیکن کیا عالمی سطح پر ہندوستان کی بدنامی پر محض اظہار ناگواری اس مسئلہ کا حل ہے؟
اگر وزیر اعظم کو اس امر پر تشویش ہے کہ ہندوستان کو عالمی سطح پر بدنام کیا جا رہا ہے تو انہیں اس امر پر بھی تشویش ہونی چاہئے کہ عالمی سطح پر ہندوستان کی بدنامی کے اسباب نہ صرف اندرون ملک فراہم کئے جا رہے ہیں بلکہ غیر ملکوں میں مقیم بہت سے ہندوستانی بھی اس کا سبب بن رہے ہیں۔۔


اپریل 2019 میں متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی حکومت نے وزیر اعظم نریندر مودی کو اپنے سب سے موقر شہری ایوارڈ 'شیخ زائد بن سلطان النہیان' سے نوازنے کا اعلان کیا تھا۔ جب وزیر اعظم نے یو اے ای کا دورہ کیا تو 24 اگست 2019 کو انہیں ایک ہمالیائی تقریب میں یو اے ای کے شیخ محمد بن زائد النہیان نے اس اعزاز سے سرفراز کیا۔ یو اے ای نے یہ ایوارڈ اس امر کے اعتراف کے طور پر دیا تھا کہ مودی نے ہندوستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دو طرفہ تعلقات کو فروغ دینے کیلئے نمایاں کوششیں کی ہیں۔ لیکن محض 8 مہینے کے بعد اپریل 2020 میں متحدہ عرب امارات میں مقیم بعض ہندوستانیوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک زہریلی مہم چھیڑ دی۔


کورونا کے دوران اچانک عاید کی جانے والی پابندیوں کے سبب دنیا بھر سے آنے والے تبلیغی افراد ہندوستان میں پھنس گئے تھے۔ لیکن یو اے ای میں مقیم سخت گیر ہندوؤں نے اس کے بہانے اسلام پر ہی حملے شروع کر دئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ متحدہ عرب امارات کا شاہی خاندان، جو بذات خود آزاد خیالی کیلئے مشہور ہے، اس نفرت انگیز مہم پر برافروختہ ہو گیا۔ ایسے لوگوں کو جو یو اے ای میں رہ کر کھا کما رہے ہیں، سوشل میڈیا پر وارننگ دی گئی کہ یہاں کے قوانین بہت سخت ہیں اور اگر سخت گیر ہندوؤں نے یہ روش ترک نہ کی تو ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
شاہی خاندان کی بہو ہندہ القسیمی نے پے درپے مہم چلا کر شرپسندوں کا ناطقہ بند کر دیا اور پورے ملک میں ان کے خلاف ناگواری ظاہر کی گئی۔ ممتاز شہریوں نے ویڈیوز جاری کرکے سخت پیغام دیا۔ ایک شیخ نے یہاں تک کہا کہ کرہ ارض پر موجود ہر مسلمان ہمارا بھائی ہے اور اگر ہندوستان میں اسے تکلیف پہنچائی جائے گی اور یہاں ہمارے ملکوں میں شاندار زندگی بسر کرنے والے ہندو نفرت انگیزی کریں گے تو یہ ہم برداشت نہیں کریں گے۔


تبلیغی افراد اور عام مسلمانوں کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی اس کا ایک ہلکا سا نمونہ یہ ہے کہ انہیں 'شیطان کی اسلامی اولاد' کہا گیا۔ متحدہ عرب امارات میں یہ معاملہ اتنا بڑھا کہ وہاں مقیم ان شرپسندوں پر قانونی گرفت کے خوف سے ہندوستانی سفارتکاروں نے انہیں وارننگ جاری کی لیکن ان پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ ایسی وارننگ خلیج کے دوسرے ملکوں میں بھی جاری کی گئی۔ نتیجہ میں ان کی کمپنیوں نے ان شرپسندوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی۔ دو مئی 2020 تک ایک درجن سے زائد ہندو نوجوانوں کو نوکریوں سے برطرف کر دیا گیا اور ان کے خلاف ضابطہ کی کارروائی شروع کر دی گئی۔ ان میں کئی ایسے نوجوان بھی تھے جو اپنی کمپنیوں کے خازن تھے اور جن کی تحویل میں کمپنی کی رقم رہتی تھی۔ ہندوستانی مسلمانوں اور اسلام سے نفرت کی شدت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ایک عرب ملک میں، عربوں کی ان کمپنیوں میں رہ کر جنہوں نے اپنی پوری رقم ان نوجوانوں کے حوالہ کر دی ہو، وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سوشل میڈیا پر مسلسل 'لائیو' شو کر رہے تھے۔ کیا اس وقت ہندوستان کی شبیہ کو اس ملک میں داغدار کرنے کی کوشش نہیں کی جا رہی تھی؟ کہ جس ملک نے چند مہینوں قبل ہی وزیر اعظم کو اعلی ترین ایوارڈ سے سرفراز کیا تھا؟


ہم تو وزیر اعظم کو پورے ملک کا اور ملک کے ہر شہری کا وزیر اعظم مانتے ہیں۔ لیکن یہ شرپسند تو وزیر اعظم کو ہندوراشٹر کا سربراہ کہتے ہیں۔ ایسا راشٹر کہ جس میں مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہ ہو۔ یہی نہیں خود وزیر اعظم بھی ایسے عناصر کو سوشل میڈیا پر 'Follow' کرتے ہیں۔ ایسے میں یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ ہندوستان کو عالمی سطح پر بدنام اور اس کی شبیہ کو داغدار کرنے کی کوشش کون کر رہا ہے؟
متحدہ عرب امارات میں 34 لاکھ سے زیادہ ہندوستانی کام کرتے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد غیر مسلم افراد کی ہے۔ سعودی عرب میں 26 لاکھ اور قطر (کی کل 26 لاکھ کی آبادی ) میں سات لاکھ ہندوستانی کام کرتے ہیں۔


ہندوستان اور یواے ای کے درمیان تین ہزار کروڑ ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کے ساتھ ساڑھے تین ہزار کروڑ ڈالر اور قطر کے ساتھ 800 کروڑ ڈالر کا کاروبار ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں برسرکار ہندوستانیوں سے جو زر مبادلہ آتا ہے وہ الگ ہے۔ ان تمام ملکوں سے برآمد کم ہوتی ہے، لیکن ان ملکوں کو ہندوستان سے درآمد زیادہ ہوتی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں اس کی کوئی فکر نہیں ہے کہ یہ شرپسند عناصر وہاں رہ کر ہندوستان کی عالمی شبیہ کو داغدار کر رہے ہیں اور اگر تعلقات میں کوئی تلخی پیدا ہوتی ہے تو اس کا بڑا نقصان خود ہندوستا ن کو ہوگا۔


وزیر اعظم کو ایوارڈ سے نوازنے کا ذکر چلا ہے تو سب سے پہلے انہیں سعودی عرب نے اپریل 2016 میں اپنے سب سے اعلی ترین 'شاہ عبدالعزیز شہری ایوارڈ' سے نوازا تھا۔ اس کے بعد اسی سال جون میں افغانستان نے انہیں 'امیر امان اللہ خان' ایوارڈ دیا۔پھر فروری 2018 میں فلسطین نے انہیں اعزاز سے نوازا۔ جون 2019 میں مالدیپ نے انہیں 'عزالدین' ایوارڈ دیا۔ سدھانت سبل اور اسپرشتا سکسینہ نے لکھا ہے کہ یہ تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ ہندوستان اور اسلامی دنیا کے ساتھ اتنے بڑے پیمانے پر مراسم مضبوط اور خوشگوار ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم نے سب سے پہلے سعودی عرب کا 'شاہ عبدالعزیز' ایوارڈ وصول کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں ہندوستان کے 130کروڑ ہندوستانیوں کی طرف سے سعودی عرب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ظاہر ہے کہ ان 130 کروڑ میں ہندوستان کے 20 کروڑ سے زائد مسلمان بھی شامل تھے۔ اب اگر عالمی سطح پر ہندوستان کے مسلمانوں کے خلاف منافرت انگیزی پر بے چینی کا اظہار ہو رہا ہے اور وزیر اعظم اسے ہندوستان کی شبیہ کو داغدار کرنے کی عالمی کوشش قرار دے رہے ہیں تو وزیر اعظم کویہ بھی دیکھنا ہوگا کہ اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے اور کون سے عناصر اس کے پس پشت ہیں؟


گزشتہ 27 جنوری کو امریکہ میں قائم مختلف تنظیموں کے آن لائن پروگرام میں حامد انصاری نے جو کہا اگر اس پر ہم اس لئے برہم ہیں کہ وہ ہندوستانی ہو کر ہندوستان کے حکمرانوں پر تنقید کر رہے ہیں تو ان ممتاز افراد کے بیانات پر ہم کیا کہیں گے جو ہندوستان کے نہیں ہیں۔ جن تنظیموں نے مذکورہ پروگرام کیا تھا ان میں انڈین امیرکن مسلم کونسل کے علاوہ 'ہندوز فار ہیومن رائٹس'، 'امیریکن کمیشن فار انٹر نیشنل ریلیجئس فریڈم'، 'ایمنسٹی انٹر نیشنل'، 'جینو سائڈ واچ' اور 'نیو یارک اسٹیٹ چرچ کونسل' بھی شامل ہیں۔
ان تنظیموں کے ذمہ داروں میں صرف مسلمان ہی نہیں ہیں بلکہ ان میں ہندو اور عیسائی بھی ہیں۔ اسی طرح اس پروگرام کے دیگر مقررین میں ہندو، مسلم اورعیسائی کے علاوہ دوسرے مذاہب کے لوگ بھی شامل تھے۔


مسئلہ یہ ہے کہ ہماری حکومت کو مسلمانوں پر ہونے والی زیادتیوں یا شرانگیزیوں کے نام پر ہونے والی رسوائی کا کوئی خوف نہیں ہے۔ بلکہ اصل خوف یہاں کے ان مسائل پر عالمی بدنامی کا ہے جو ہندوستان کے ہر شہری کو درپیش ہیں۔ اس وقت مرکزی حکومت کے تحت آٹھ لاکھ اسامیاں خالی ہیں۔ لیکن بھرتیاں نہیں ہو رہی ہیں۔ اس پر الگ سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ آخر پڑھے لکھے اور اہل نوجوانوں کو اسامیوں کے باوجود کیوں نوکری نہیں دی جا رہی ہے؟ ریلوے میں بھرتی کے تعلق سے بہار اور ملک کے دوسرے حصوں میں جو ہو رہا ہے اسے بھی ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ شیئر بازار مسلسل اوندھے منہ گر رہا ہے۔ ان مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے عالمی شبیہ کو داغدار بنانے کی کوشش کا پتہ پھینک دیا جاتا ہے!


یہ وقت مسلم قائدین اور دانشوروں سے بھی ایک مخصوص حکمت عملی کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ وقت اپنے مسائل کے ساتھ ساتھ ملکی اور قومی مسائل کو بھی اٹھانے کا ہے۔ اردو اخبارات، مسلم قائدین اور دانشور قومی مسائل پر اگر کبھی آواز اٹھاتے بھی ہیں تو وہ آواز ان کے اپنے مسائل کی لہروں کے ساتھ مل کر چھوٹی ہو جاتی ہے۔ ہم مصلحت سے کام لیتے ہوئے قومی مسائل پر بولیں گے تو حکومت کیلئے شرپسندوں کے شور میں بچ کر نکل جانا آسان نہ ہوگا۔


***
(بشکریہ: ردعمل / روزنامہ انقلاب / 30 جنوری 2022ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

The Shouting of miscreants on India's tarnishing global image - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں