حبہ خاتون - خطۂ کشمیر پر سید نظر زیدی کے ناول کا خلاصہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-13

حبہ خاتون - خطۂ کشمیر پر سید نظر زیدی کے ناول کا خلاصہ

habba-khatoon-novel-by-syed-nazr-zaidi

کشمیر پر لکھے گئے ناولوں میں سے ایک ناول سید نظر زیدی کا لکھا ہوا "حبہ خاتون" ہے۔حقیقت اور رومان کا حسین امتزاج ناول "حبہ خاتون" نویں صدی ہجری کی عظیم کشمیری شاعرہ "حبہ خاتون" کی داستان حیات کے گرد گھومتا ہے۔ "حبہ خاتون" کی کہانی کے ساتھ ساتھ اس دور کے کشمیر کا ایک خوبصورت مرقع ہے۔


کشمیر کے دریائے جہلم کے کنارے وادی کشمیر میں ایک گاؤں موضع چندن رہا ہے۔ اس گاؤں میں ایک معمولی سے تاجر کا گھر ہے۔ تاجر کا نام عبدل راتھر ہے۔ سوداگر کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی اس کا نام "زون" رکھا گیا۔ زون نے نوجوانی کی دہلیز پر قدم رکھا تو اس کے حسن کی شہرت چہار اطراف پھیل جاتی ہے۔۔۔۔ زون کا باپ اپنی بیٹی کی خوبصورتی سے بہت خوف زدہ ہے۔ بیٹی نے اس دور کی روایت کے مطابق کچھ تعلیم وغیرہ بھی حاصل کی۔ اس لڑکی کی طبیعت شاعری کے لئے موزوں ہوتی ہے۔


نوجوانی کے اوائل ہی میں اس کی شادی ایک اجڈ اور گنوار گھرانے میں کر دی جاتی ہے۔ جہاں ایک جاہل اور روایتی قسم کی ساس اس کے ساتھ بدترین سلوک کرتی ہے۔ اس کا خاوند اس کے حسن خداداد کو "خطرناک" سمجھ کر اس کے ساتھ بہت ناروا سلوک کرتا ہے۔ دھان پان سی، کومل سی اور نازک سی یہ لڑکی مویشی چرانے ، ان کا گھاس کاٹنے ، ان کا گوبر صاف کرنے میں مشغول ہوتی ہے۔ گھر کے جملہ کام کاج جن میں دھان سے چاول الگ کرنا ، چکی سے آٹا پیسنا وغیرہ بھی شامل ہے، یہ سب کام اس کو کرنے پڑتے ہیں۔
اس دوران اگر فرصت کے کچھ لمحات میسر آتے ہیں تو صرف وہ لمحات ہیں جب وہ اپنی سکھیوں کے ساتھ یا تنہا پانی بھرنے کے لئے آبادی سے کچھ فاصلے پر گھنے درختوں کی چھاؤں میں ایک چشمے پر پانی بھرنے جاتی ہے اور ان غنیمت لمحوں میں وہ کبھی کبھی اپنے ہی تخلیق کردہ اشعار گنگناتی رہتی ہے۔


زون کی زندگی جبر مسلسل کی طرح کٹتی رہی اور ایک روز جب وہ پانی بھرنے چشمے کی طرف جا رہی ہے اور اپنی مدھر اور سریلی آواز میں اپنے ہی گیت الاپ رہی ہے تو اسی دوران ایک جوان رعنا "عطا محمد" درختوں کی چھاؤں میں اس کے اشعار اور آواز کی داد دیتا ہے۔ زون پریشان ہوتی ہے۔ عطا محمد اور زون کا چند لمحوں کے لئے سامنا ہوتا ہے۔ مگر اس وقت زون کے لئے قیامت ڈھانے کا سبب بن جاتا ہے، جب زون کی ساس دور سے اس منظر کو دیکھ لیتی ہے اور یہ منظر اس بوڑھی عورت کی نظروں میں زون کی "بدکرداری" کا واضح ثبوت بن جاتا ہے۔ اور پھر ساس اور بندوں کی گفتگو کے کچوکے اور خاوند کا بدترین تشدد اس کا مقدر بن جاتا ہے۔
عطا محمد زون اور اس کے کلام کا دیوانہ ہو جاتا ہے۔ وہ ایک بڑے پیر سید مسعود کا مرید ہے۔ زون کے کلام کی شہرت ان پیر صاحب تک بھی پہنچتی ہے۔ ایک دن گاؤں کی لڑکیاں مرادیں مانگنے پیر صاحب کے آستانے پر جاتی ہیں۔ زون کے ہاں بھی ابھی تک کوئی اولاد نہیں ہوئی ہے۔ اس کی ساس اس کو پیر صاحب کے ہاں جانے کے لئے کہتی ہے۔ ایک طویل مدت بعد زون کو اپنے سسرال سے باہر نکلنے کا موقع ملا ہے۔ جب گاؤں کی خواتین دعا کروانے اور تعویز لینے پیر صاحب کے گاؤں میں پہنچتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آج بڑے پیر صاحب دورے پر گئے ہیں۔ اور ان کی جگہ ان کے خلیفہ دعا اور تعویز دینے پر مامور ہیں۔ زون نے دیکھ لیا کہ یہ وہی شخص ہے جس نے چشمے کی طرف جاتے ہوئے اس کا کلام سن کر داد دی تھی۔ زون نے دعا کرانے یا تعویز لینے سے انکار کر دیا۔۔۔۔۔۔


ایک روز پیر صاحب زون سے ملنے اور اس کا کلام سننے کے لئے اس کے گھر آ جاتے ہیں۔ زون کے خاوند عزیز راتھر کے لئے یہ واقعہ بہت عزت کا باعث بن جاتا ہے۔ لیکن ایسے موقع پر جب پیر صاحب زون سے اس کا کلام سنانے کی فرمائش کرتے ہیں، زون اپنے منہ سے ایک لفظ نہیں نکالتی۔ اور اس موقع پر عطا محمد زون کے کلام کو گا کر سناتا ہے۔ محفل میں موجود لوگ بہت متاثر ہوتے ہیں۔ پیر صاحب زون کے خاوند عزیز راتھر کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنی بیوی کو ہرگز نہ ستائے۔


پیر صاحب کی رخصتی کے ساتھ ہی زون کے لئے ظلم و جبر کا ایک ایک نیا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ خاوند کے بدترین تشدد کازون کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ زون کا خاوند یہ سمجھتا ہے کہ زون کی شاعری کی شہرت سے اس کی بے عزتی ہوئی ہے۔
زون کے کلام کی شہرت آہستہ آہستہ پھیل رہی تھی اور ساتھ ہی اس پر تشدد کا سلسلہ بھی زور و شور سے جاری تھا۔ جسمانی تشدد، روحانی اور نفسیاتی اذیتیں اور پھر سخت قسم کی گھریلو مشقت اس حساس ، نازک اور خوبصورت ترین خاتون کے لئے سب کچھ قیامت سے کم نہ تھا۔۔۔۔
پھر ایک مرتبہ زون گاؤں کی لڑکیوں کے ہمراہ پیر سید مسعود شاہ کی زیارت کے لئے جاتی ہے۔ پیر صاحب جو "زون" کی شاعری اور اس کے حالات سے بخوبی آگاہ تھے، انہوں نے زون کو تعویز دینے سے انکار کر دیا اور پیشن گوئی کی کہ اس لڑکی کے سر پر کشمیر کی بادشاہت کا تاج رکھا جائے گا، یہ ایک روز کشمیر کی ملکہ بنے گی۔


یہ زمانہ یوسف شاہ چک کے والد علی شاہ چک کی بادشاہت کا تھا۔ بادشاہ کا فرزند اور تخت کا وارث یوسف شاہ چک شکار کے لئے جنگل میں جاتا ہے اور اس علاقے سے گزر ہوتا ہے جہاں زون کا سسرال تھا۔ زون پر نظر پڑتی ہے اور اس کو کسی حیلے سے شاہی محل میں پہنچا دیا جاتا ہے اور زون کے خاوند تک یہ اطلاع پہنچتی ہے کہ "زون" اس کو چھوڑ کر بھاگ گئی ہے۔
عزیز راتھر "زون" کی بے وفائی کی شکایت لے کر بادشاہ تک جاتا ہے اور "بے وفا" بیوی کو پانچ ہزار درہم لے کر طلاق دے دیتا ہے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد زون "حبہ خاتون" کا لقب اختیار کرتی ہے اور یوسف شاہ چک سے اس کی شادی ہو جاتی ہے اور یوں پیر سید مسعود کی پیشن گوئی درست ثابت ہوتی ہے۔
اس طرح زون کی شاعری ، اس کا حسن ، اس کا حسن سلوک، نظام مملکت میں اس کا طرز عمل ، بادشاہ کو راہ راست پر رکھنے کے لئے اس کی سعی ، رعایا کے دکھ درد میں اس کی شرکت، ان سب کچھ نے "زون" کو "حبہ خاتون" کشمیر کی تاریخ کا ایک تابندہ ستارہ بنا دیا۔ اس کی ذہانت و فطانت، اس کی معاملہ فہمی، انسانی نفسیاتی کیفیات کی جانچ پرکھ نے زون کو کشمیری عوام کی آنکھ کا تارا بھی بنا دیا۔


یہی سید نظر زیدی کے ناول "حبہ خاتون" کی مختصر کہانی ہے۔


ناول نگار خود شاعر بھی ہے۔ لہذا اس نے ناول کو لکھتے وقت اپنی شعری صلاحیتوں کو بھی خوب بروئے کار لایا ہے۔ ناول میں واقعات کے بیان کے ساتھ ساتھ خوبصورت منظر کشی کے مرقعے بھی نظر آتے ہیں۔ ناول میں مختلف مقامات پر ناول نگار نے کشمیر میں ہونے والی شادیوں کے رسم و رواج کا تذکرہ بھی کیا ہے اور بعض کشمیری ناموں اور حبہ خاتون کی شاعری کے تراجم بھی درج کیے ہیں۔
سید نظر زیدی کے اس ناول کا ایک ادبی وصف یہ بھی ہے کہ اس ناول میں بعض مقامات پر "حبہ خاتون" کی کشمیری شاعری کا منظوم اردو ترجمہ بھی ناول نگار نے پیش کیا ہے۔ اگر کسی مقام پر منظوم اردو ترجمہ سے زون یا حبہ خاتون کی کشمیری شاعری کا مفہوم ادا کرنا مشکل نظر آتا ہے تو ناول نگار نے زون کی شاعری کا سلیس اردو ترجمہ حواشی میں درج کر دیا ہے۔


ناول "حبہ خاتون" میں کشمیر کی دھرتی کی ایک عظیم شاعرہ، ایک عظیم ماں اور ایک عظیم ملکہ کا کردار ہر صورت میں نمایاں نظر آتا ہے۔ ناول نگار نے تاریخ کشمیر کے اس اہم کردار کو بنانے، سنوارنے اور نمایاں کرنے میں بڑی فنی مہارت سے کام لیا ہے۔
حبہ خاتون نے کشمیر کے تخت کے وارث اور پھر تخت نشین کو راہ راست پر لانے کے لیے جس حکمت عملی، تدبر اور ذہانت سے کام لیا ہے، اس نے اس عظیم خاتون کو پانچ صدیاں گزرنے کے باوجود زندہ رکھا ہے۔ بلکہ حبہ خاتون کے کلام کو پڑھنے والوں کو جب اس کے کردار کا یہ پہلو نظر آتا ہے تو اس سے اس کے کلام کی دلکشی اور چاشنی میں اور زیادہ اضافہ محسوس ہوتا ہے اور یوں یہ خاتون کشمیر کی عظیم شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ عظیم محسنہ کے طور پر ابھرتی ہے اور تاریخ کے صفحات پر اپنا ایک نمایاں مقام بناتی ہوئی نظر آتی ہے۔


***
ماخوذ از پی۔ایچ۔ڈی مقالہ: اردو ناول میں کشمیر (شعبۂ اردو جموں یونیورسٹی۔ سنہ 2018ء)
مقالہ نگار: صاعقہ ناہید۔ نگراں: ڈاکٹر محمد ریاض احمد

Habba Khatoon, a novel on Kashmir background by Syed Nazar Zaidi. Article: Saiqa Nahid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں