تفسیر قرآن تفسیر ماجدی میں تفسیر المنار کے اقتباسات کی کثرت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-14

تفسیر قرآن تفسیر ماجدی میں تفسیر المنار کے اقتباسات کی کثرت

tafsir majidi

مولانا عبدالماجد دریابادی نے دیگر تصنیف و تالیف کے ساتھ ترجمہ قرآن انگریزی اور اردو ترجمہ تفسیر بھی چھوڑا ہے۔ ابتداء میں آپ نے انگریزی میں قرآن مجید کا ترجمہ کیا ہے، جس کی تکمیل 1941ء میں کی۔
اس کے بعد اردو میں ترجمہ و تفسیر کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کی ابتداء غالباً 1941ء میں کر کے 1944ء میں مکمل کی، اس کے بعد نظر ثانی و نظر ثالث بھی کی۔ اس کے بعد اس تفسیر کی طباعت ہوئی۔ تفصیل ملاحظہ ہو۔


"مولانا عبدالماجد صاحب نے دسمبر 1941ء میں اپنے انگریزی ترجمۂ قرآن کی تکمیل کے فوراً بعد ہی اردو ترجمہ و تفسیر کی تصنیف کرنا شروع کیا۔ جسے بمقام دریاباد، بارہ بنکی دوشنبہ 18/رجب 1363ھ مطابق 20 جولائی 1944ء کو مکمل کیا۔ اس وقت آپ کی عمر 51 سال تھی۔
یوم دوشنبہ 10/جمادی الاول 1367ھ مطابق 22 مارچ 1948ء کو ترجمہ و تفسیر کی نظر ثانی سے فراغت پائی اور نظر ثالث کی تاریخ یکشنبہ 4/ ذی الحجہ 1369ھ مطابق 16/ستمبر 1950ء ہے۔
تفسیر ماجدی کو پہلی مرتبہ اگست 1952ء میں تاج کمپنی کراچی نے مکمل شکل میں شائع کیا جس کی ضخامت ایک ہزار دو سو سولہ (1216) صفحات ہے جس میں تحت السطور ترجمہ اور حواشی پر تفسیر ماجدی ہے۔
ہندوستان میں اس کی صرف تین جلدیں شائع ہوئی جسے صدق جدید بک ایجنسی، کچہری روڈ لکھنو نے 1968ء (1387ھ) میں شائع کیا۔
اس کی پہلی جلد سورہ فاتحہ سے سورہ آل عمران تک ، جلد دوم سورہ نساء سے سورہ توبہ تک اور جلد سوم سورہ ہود (گیارہویں پارہ) تک مکمل ہے۔ جلد سوم کو اکتوبر 1976ء میں شائع کیا گیا۔ جلد دوم اور سوم میں مختصر اشاریہ (انڈکس) بھی شامل ہے۔"
بحوالہ: اردو تفاسیر بیسویں صدی میں۔ از: ڈاکٹر سید شاہد علی، مطبع: کتابی دنیا، دہلی۔ بار اول 2001ء، ص: 50۔


تفسیر بطور نمونہ درج ہے۔
سورہ آل عمران، آیت نمبر ایک۔
الم اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم
ترجمہ:
الف لام میم۔ اللہ وہ ہے کہ کوئی خدا نہیں بجز اس کے، ، زندہ (خدا ہے) سب کا سنبھالنے والا۔
تفسیر:
یہ حروف مقطعات کہلاتے ہیں۔ ان پر حاشیہ سورہ بقرہ کے آغاز میں گذر چکا ہے۔ عجب نہیں جو یہ حروف مخفف ہوں، فقرہ انا اللہ اعلم کے۔ (نہ بحیثیت اقنوم کے نہ کسی اور حیثیت سے) یعنی اس خدائے واحد کا شریک نہ کسی ذات میں ہے نہ افعال میں۔ دنیا میں بکثرت ایسے مشرک مذہبوں کا وجود رہ چکا ہے اور اب بھی ہے جو کہتے ہیں کہ خدائے اعظم تو ایک ہی ہے لیکن اس کے ماتحت شعبہ وار چھوٹے چھوٹے خدا دیوتا اور دیویاں تو بہت سی ہیں۔ قرآن مجید سب کی تردید کر کے کہتا ہے کہ نفس وجود ہی کسی دوسرے خدا کا نہیں، نہ چھوٹے کا نہ بڑے کا ، الوہیت و ربوبیت تمام تر ایک ہی ذات میں ہے۔ یہ آیت علاوہ ان جاہلی مذاہب کے خاص طور پر مسیحی عقائد کے بھی رد میں ہے۔


"الحی" وہ خدا ہے جو ہمیشہ زندہ ہی ہے، زندہ ہی رہا اور زندہ ہی رہے گا۔ موت کا اس کے لئے کوئی امکان ہی نہیں، نہ صلیب کے اوپر نہ کسی اور سطح پر۔ اس کی حیات جس طرح آج قائم ہے۔ یہ نہیں کہ اس سے بار بار قالب بدلتے رہنے کی ضرورت پیش آئے، کبھی وہ انسان بن جائے اور کبھی نعوذ باللہ حیوان۔ وہ زندہ معاذ اللہ اس طرح کا نہیں کہ اس پر موت طاری ہوا کرے اور پھر حیات تازہ حاصل کرتا ہے۔
"الحی" کے لفظ سے اس کی صفت حیات کا اثبات کر کے اس سارے خرافات کی تردید کر دی۔
"القیوم" وہ بذات خود قائم ہے اور ساری مخلوقات اس کے وجود سے قائم ہے، یہ نہیں کہ وہ خود بھی کسی معنی میں کسی دوسرے کا محتاج ہو۔ جیسا کہ مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ 'جس طرح بیٹا بغیر باپ کے تنہا خدا نہیں اسی طرح باپ بغیر بیٹے کے تنہا خدا نہیں'۔ (بحوالہ: انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس جلد 7، صفحہ 536)
گویا نعوذ بااللہ، ابن اللہ اور اللہ دونوں اپنی خدائی میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔ صفت قیومیت کا اثبات کر کے قرآن نے فرزندئ خدا عقیدے کی جڑ ہی کاٹ دی۔ بہت سے جاہل مذہب ایسے بھی ہیں جو ایک طرف خدا کو خدا بھی مانتے جانتے ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کے بھی قائل ہیں کہ وہ پیدا کسی اور سے ہے۔"
(حوالہ: تفسیر ماجدی، جلد اول۔ سن اشاعت: 1976ء)


حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی تفسیر ماجدی کے متعلق لکھتے ہوئے کہتے ہیں۔
"ایک بات جو پوری تفسیر میں بڑی شدت کے ساتھ کھٹکی، وہ یہ ہے کہ مولانا نے 'تفسیر المنار' کے اقتباسات بڑی کثرت کے ساتھ اپنی تفسیر میں درج کئے ہیں اور اکثر مقامات پر تو اس پر سکوت ہی اختیار فرمایا ہے اور بعض جگہ ان کی تحسین بھی کی ہے اور بعض جگہ ان کی تائید بھی۔ ہماری گذارش یہ ہے کہ 'تفسیر المنار' کے مصنف ہوں یا مرتب ، دونوں اپنی وسعت مطالعہ کے باوجود ذہنی طور پر مغربی افکار سے اتنے مرعوب اور جمہور سے اختلاف کرنے کے اتنے شوقین ہیں کہ ان کی تفسیر جگہ جگہ جمہور امت کے جادۂ اعتدال سے ہٹ گئی ہے اور بعض مقامات پر تو یہ حضرات نہایت خطرناک اور بے سر و پا باتیں بھی لکھ گئے ہیں۔"
(بحوالہ: تبصرے از مولانا مفتی تقی عثمانی۔ مکتبہ دارالسعادہ، ص:175)۔


ڈاکٹر سید شاہد علی تفسیر ماجدی کے تفسیری موقف کو بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:
"کلام اس غیرت والے غنی عن العالمین کا ہے جس سے بڑھ کر کوئی غیور ہے نہ بے نیاز اور متکلم کی شان غیرت و غنا کا عکس پوری طرح کلام میں جلوہ گر۔ جو بڑا بننا چاہتا ہے لازم ہے کہ وہ چھوٹا بن کر اس دروازے میں داخل ہو"۔


استاذ کی ضرورت جب چھوٹے سے چھوٹے علم اور سہل سے سہل فن میں پڑتی ہے تو قرآن کا علم تو سارے علوم کا بادشاہ اور سب سے بڑھ کر مہتم بالشان ہے۔ کیسے ممکن ہے کہ قرآنیات کا کوئی طالب علم استاد سے اور اگلے ماہرین فن کے نتائج تحقیق سے بے نیاز رہ کر اس کی منزلیں طے کر لے۔ اور اگر کسی کو بدقسمتی سے کوئی زنده استاذ کامل الفن نہ میسر آئے تو اس خلد کا اکابر مفسرین اور محقق شارحین کی کتابیں ایک بڑی حد تک پر کر سکتی ہیں۔
(بحوالہ: اردو مفسرین کا تفسیری موقف، از: ڈاکٹر سید شاہد علی۔ سن اشاعت: 2005، ص:52)۔


***
ماخوذ از مقالہ: اردو میں تفاسیر قرآن کا اجمالی جائزہ
پی۔ایچ۔ڈی مقالہ از: محمد کلیم اشرف (زیر نگرانی: ڈاکٹر سلیمہ بی۔اے۔کولور)
کرناٹک یونیورسٹی، دھارواڑ، کرناٹک۔ (شعبۂ اردو و فارسی، 2017-18)

A thorough analysis of Tafsir-e-Majidi. Article by: Md. Kaleem Ashraf

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں