فاتحہ - انشائیہ از شیخ زبیر اعجاز - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-19

فاتحہ - انشائیہ از شیخ زبیر اعجاز

fateha-humorous-essay-by-shaikh-zubair-ejaz

تقریباً گھروں میں کچھ " نمونۂ نایاب " ضرور ہوتے ہیں جنہیں " استاد " بننے کا نہایت شوق بلکہ ضرورت ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں بھی اسی قسم کے ایک چچا پائے جاتے ہیں۔ اب نہ جانے ساعتِ تقدیر کے وہ کون سے پیچیدہ حالات تھے جنہوں نے بغیر کسی مجبوری کے آپ کو میت پر پڑھی جانے والی فاتحہ یاد کروا دی۔ پھر رگِ تدریس پھڑک اٹھی ، ہر کسی کو پکڑ کر فاتحہ یاد کروا رہے ہیں۔ ایک بچے نے تھوڑی دیر کے لیے موبائل کی فرمائش کی ، گھنٹوں اسے بیٹھا کر فاتحہ یاد کرواتے رہے۔ اب یہ خوش نصیبی ہمارے نام بھی تھی۔ کسی کام سے ہم گاڑی مانگنے چچا کے پاس گئے ، کیوں نہ مانگتے کہ پچھلی بار آدھا لیٹر پٹرول ہم نے ہی بھروایا تھا۔ ( جہاں پورے پچاس روپے چلے گئے تھے )۔


چچا پہلے تو دیکھ کر مسکرا اٹھے ، پھر سوال کیا۔۔۔ " فاتحہ یاد ہے ؟ "
" جی ہاں "
" سناؤ "
ہم سورہ فاتحہ تیز رفتاری سے سنا بیٹھے۔ پھر چچا کا غصے سے گھورتا ہوا چہرہ دیکھ کر من ہی من دو دفعہ اور دہرا لیا کہ کہیں کوئی آیت رہ تو نہیں گئی۔
" ابے یہ نہیں۔۔۔ وہ فاتحہ جو میت پر پڑھتے ہیں "
" میت پر سورہ فاتحہ۔۔۔۔ " ہم سوچنے لگے۔ اوہ ! غالباً نمازِ جنازہ کے متعلق کہہ رہے ہیں۔
" جنازے میں کون سی سورہ فاتحہ پڑھی جاتی ہے ؟ "
" ابے سورہ فاتحہ نہیں ، صرف فاتحہ۔ جو میت کی قبر پر پڑھتے ہیں ، یا بعد میں کسی قبر کی زیارت کے لیے جائیں تو۔"
" لیکن بعد میں کسی میت کی قبر سے ہمیں کیا کام ؟ ، زندوں سے ملنا مشکل ہو رہا ہے ، مرنے کے بعد کیوں جانے لگے ؟ "۔ ہم روانی میں کہتے چلے گئے۔
اب حضرت سمجھ گئے کہ اسے سمجھانا مشکل ہے ، پھر ہاتھ پکڑ کر بٹھا دیا اور شروع ہو گئے۔ یوں آدھے لیٹر پٹرول کی ضد اور آدھا گھنٹہ رٹّا مارنے میں کوئی توازن نہیں تھا۔ ہم نے کبھی امتحان کے جواب یاد کرنے میں اتنی محنت نہیں کی تھی۔ بہر کیف ! اس مختصر سی تمہید کے بعد۔۔۔۔ ہمیں فاتحہ یاد ہو گیا۔


اب ہماری خوبی رہی ہے کہ جس چیز کے پیچھے ذرا بھی محنت صرف ہوئی ہو ، اس سے فائدہ ضرور حاصل کرتے ہیں۔ اگر امتحان کے لیے کسی سوال کا جواب یاد کیا ہو اور کسی موضوع پر مضمون ، اب پرچے میں بلا سے وہ سوال یا موضوع نہ آئے ، ہم ضرور لکھ آتے ہیں۔
یہاں فاتحہ کے پیچھے کافی محنت کر بیٹھے تھے۔ طبیعت مضطرب تھی ، بھاگے قبرستان پہنچے۔ اندر کچھ ہی دور چلے تھے کہ ایک گیسو دراز بڑے میاں نے پیچھے سے ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور گال پر زور سے جڑ دیا۔
" حرام خور ! قبرستان میں جوتا پہن کر گھوم رہے ہو۔ "
ناچار باہر آئے اور جوتا اتار کر پھر داخل ہوئے۔
کافی دیر چلنے کے بعد خیال آیا تو خود سے پوچھا کہ " بھئی جانا کہاں ہے؟"
اپنے باطن سے جواب ملا: " کسی رشتہ دار کی قبر پر "
لیکن یاد نہ آیا کہ یہاں کون کون سے رشتے دار موجود ہیں۔ سو وہیٖں کھڑے ہوکر آنکھ بند کی اور گھر کے جتنے بھی مرحوم یاد آسکے ، سب کے نام ایک فاتحہ پڑھ دیا اور واپس ہوئے۔ باہر آئے تو دیکھا کہ ہمارے جوتے کی جگہ ایک " بزرگ سلیپر " منہ چڑا رہی تھی۔

واپسی میں یہ احساس تھا کہ ایسے فاتحہ پڑھنے میں بالکل مزہ نہیں آیا۔ پھر گھر کے ایک بندے کو گھیرا گیا جسے ہر غیرضروری کام اور چیزوں کی تمام جانکاری حاصل رہا کرتی تھی۔
" پاس کے قبرستان میں ہمارے کتنے رشتے دار ہیں ؟ "
" پانچ۔۔۔ چھ ہوں گے "
" کیا۔۔! پانچ - چھ ؟ "
" ہاں بھئی۔۔۔ اپنے چھوٹے دادا ، خالو کے ابو ، حمزہ کا چھوٹا بھائی ، دلشاد بھائی کی پہلی بیوی اور بھی کئی لوگ ہوں گے۔ "
ہمیں تو بالکل یاد نہ آیا کہ گھر میں کبھی یہ حضرات بھی پائے جاتے تھے۔
" آج سب کی قبر پر چلتے ہیں۔ "
" کیوں ؟ " بندے نے حیرانی سے پوچھا۔
" فاتحہ پڑھنے۔۔۔۔۔ اور۔۔ پاس میں کوئی صاحب بڑا اچھا سیخ کباب بناتے ہیں۔"
بندے کو پہلی بات ہضم نہیں ہوئی لیکن اگلی بات پر حامی بھر لی گئی۔
جاتے وقت ہم نے ایک جھولا بھی ساتھ لے لیا۔
" پارسل بھی لینا ہے کیا ؟ "
" آپ چلیں تو سہی "


قبرستان پہنچ کر پہلے اپنے نئے جوتے جھولے میں ڈال لیے۔ پھر جھولا اٹھائے اندر داخل ہوئے۔
اندر جتنے بھی رشتہ داروں کا گمان ہو سکتا تھا سب پر فرداً فرداً فاتحہ پڑھ آئے۔ واپسی میں حضرت کہنے لگے۔۔۔۔
"یار ایسے پرانے لوگوں کی قبر پر جانے میں مزہ نہیں آتا ، کسی کا تازہ انتقال ہوا ہو تو زیادہ اچھا لگتا ہے۔ "
ہمیں بھی یہ بات درست معلوم ہوئی۔
" لیکن آج کل میں کسی کا انتقال ہی کہاں ہوا ہے۔ "
" ہمم۔۔۔ مگر ہو بھی سکتا ہے۔ گھر میں دو تین لوگ ایسے ضرور ہوں گے۔ "
" صحیح فرمایا۔ بڑے دادا کی عمر تو اسّی سے تجاوز کر رہی ہے۔ کچھ زیادہ وقت نہیں ہو گیا ؟ "
" نہ جانے اس عمر میں زندہ رہتے ہوئے کیا مزہ ہے ؟ "
" پتہ ہے۔۔ ؟ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی لمبی عمر کی وجہ موت کا ڈر ہے۔ اگر انہیں موت ذرا بھی اچھی معلوم ہو تو فوراً مر جائیں۔"


گھر پہنچتے ہی پہلی نظر دادا کی طرف اٹھ گئی جو بڑی شد و مد کے ساتھ سے کیلوں پر ٹوٹے ہوئے تھے۔ کیلوں سے ان کی رغبت سرِعام چھلک پڑ رہی تھی۔
" جتنی محبت انہیں کیلے سے ہے ، کاش کہ کچھ موت سے بھی ہو جاتی۔ " ہم یہ سوچتے ہوئے دادا کے پاس پہنچے۔
" دادا۔۔۔ آج ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ آدمی کے بدن کی ساری تکلیفیں احساس کی وجہ سے ہے۔ اگر احساس ختم ہو جائے تو کوئی تکلیف معلوم نہ ہو۔ "
دادا تعجب خیز نظروں سے ہمیں گھورنے لگے۔ آدھا کیلا ہاتھ میں پھنسا رہ گیا۔
" احساس ختم ہو جائے۔۔۔۔ کیا مطلب ؟ "
" دادا۔۔۔۔ جیسے ہی آپ مر جاتے ہیں ، سارا احساس ختم ہو جاتا ہے۔ "
اب ان کی آنکھوں میں کچھ کشمکش کے آثار نظر آنے لگے۔
" اور بتائیں۔۔۔ آج ہم نے کتاب میں پڑھا کہ موت سے زیادہ فائدہ مند کوئی چیز نہیں۔ مرزا غالب علیہ الرحمہ کہا کرتے تھے۔۔۔۔
مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
حضرت علامہ اقبال نے بھی کہا ہے کہ زندگی کی اصل صبح مرنے کے بعد ہوتی ہے۔ مولانا عامر عثمانی نے لکھا ہے کہ موت سے گھبرانے والے زندگی میں ہی مر جاتے ہیں۔ "


بچا ہوا کیلا دادا کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گر گیا۔
" اور پتہ ہے۔۔۔۔ ناصر کاظمی نے کیا کہا ہے ؟ " ہم نے دھیرے سے کہا۔
" کیا۔۔۔ ؟ "۔ دادا نے بھی سرگوشی میں پوچھا۔
اس لیے بھی مجھے عزیز ہے موت
موت آتا نہیں ہے ، آتی ہے


تھوڑی دیر تو مطلب سوچتے رہے پھر چہرے پر ایک شرماہٹ سی ظاہر ہونے لگی۔
" میں بھی کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ ایسے لاچارگی کی زندگی گزارنے سے کیا فائدہ ؟ "
" اصل میں آپ کی حالت بھی مرزا غالب کے جیسی ہے۔ انہیں بھی زندگی بھر موت کے فائدے نہ معلوم ہو سکے۔ اسی لیے تو انہوں نے اپنی جان کو جھوٹ قرار دیتے ہوئے کہا تھا ۔۔۔ ع
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا


اس تشریح پر اگر چہ ہم دل میں توبہ کر رہے تھے لیکن دادا کے چہرے کی کیفیت بدل چکی تھی۔ آنکھوں سے کچھ عظیم ارادے ظاہر ہونے لگے۔ ادھر ہم بھی زیرِ لب فاتحہ پڑھنے لگے۔


وہ رات ہمارے لیے مثلِ شبِ فراق طویل تھی۔ چشم۔۔۔۔ نم نہ ہوئی لیکن مسکراہٹ ضرور قائم رہی۔ اگلی صبح معلوم ہوا کہ۔۔۔۔۔ بہت زیادہ کھٹکھٹانے کے باوجود بھی دادا نے آدھے گھنٹے سے دروازہ نہیں کھولا۔
ہم بے چین سے ٹہلنے لگے۔ زبان پر کئی دفعہ فاتحہ آکر چلا گیا۔


اچانک اور ایکدم سے دروازہ کھلا ، دادا باہر آئے اور منہ بنا کر کہنے لگے۔۔۔۔
" ضعیفئ شکم کے ساتھ کیلے کی زیادتی نے درگت یہ بنائی کہ گھنٹوں بیت الخلاء میں بیٹھا رہ گیا۔ "


ہم مسمسی صورت بنائے انہیں دیکھتے رہے۔ پھر دادا کی نظر ٹکرائی اور آنکھوں کی شرمندگی کچھ یوں گویا ہوئی۔۔۔۔۔
قسمت میں تھی مرنے کی تمنا کوئی دن اور

***
Email: ibneejaz7558200321[@]gmail.com , Mob.: 07558200321

Fateha. Humorous Essay by: Shaikh Zubair Ejaz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں