صبحی - افسانہ از قیصر تمکین - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-11

صبحی - افسانہ از قیصر تمکین

afsana-subhi-qaiser-tamkeen

قیصر تمکین - ہندی ، سنسکرت ، فارسی ، عربی ، فرانسیسی ، انگریزی اور اردو پر عبور رکھنے والے نامور ادیب ، نقاد اور صحافی 67 سال کی عمر میں 25-نومبر-2009ء کو عالمی اردو ادب کے منظر نامے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ان کا تعلق لکھنؤ سے تھا جو بعد میں برطانیہ میں جا بسے۔ یوروپ میں اردو لکھنے والوں کی نظریں اپنی رہنمائی کے لئے قیصر تمکین کے تخلیق کردہ ادب پر اٹھتی رہی ہیں۔ ان کے علمی، ادبی، تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی بیسویں صدی کی آٹھویں اور نویں دہائی میں روزنامہ "سیاست" حیدرآباد کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
مختلف مگر اہم علمی و ادبی موضوعات پر ان کے 15 مضامین کا ایک موقر مجموعہ کتابی شکل میں "اے دانشِ حاضر" کے زیرعنوان 2008 میں اشاعت پذیر ہوا۔
جون ایلیا کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے "انشاء" کے شمارہ: مئی 1960ء سے ماخوذ قیصر تمکین کا افسانہ "صبحی" یہاں پیش خدمت ہے۔

آج کی رات نہ جانے کیوں بالکل اندھیرا تھا۔
صبحی کمرے میں اکیلی بیٹھی تھی۔ جب اس کے پاس اپنے غم کو سینے سے لگانے کے سوا کچھ اور نہ رہ جاتاتووہ اسی طرح اس کمرے میں آکر پڑ رہتی۔
یہ کمرہ گھر کے سب صاف ستھرے کمروں سے الگ تھا۔ اس میں ہر وقت سیل کی وجہ سے ایک بد مزہ سی نمی رہتی تھی۔ اس کی کھڑکی صاف ستھری ، سڑک مکان کے لان یا با غ کی طرف نہیں کھلتی تھی بلکہ اس کا رخ اندھیر ی گلی کی طرف تھا جہاں کوٹھی کے پیچھے رکشے والوں کی بستی تھی۔ کھڑکی سے میونسپلٹی کی لالٹین کی روشنی بڑے ماتمی انداز میں اس کمرے میں آکر پڑتی تھی جس سے صرف اتنا فائدہ ہوتا کہ صبحی کو اپنے بچھونے بچھانے میں آسانی ہوتی تھی۔
جب وہ گھر بھر میں اپنی جگہ نہ ڈھونڈ پاتی یا ہنستے کھیلتے بچوں میں اس کو کوئی منہ نہ لگاتا تو وہ آکر اس کوٹھری نما کمرے میں آ پڑتی اور میونسپلٹی کی لالٹین کی بتی کو بغور دیکھتی رہتی اس وقت نجانے اس کے ننھے سے ذہن میں کیا کیا باتیں ہوتیں جب تیز بارش اور طوفان کی رات کو میونسپل لالٹین کی ننھی سی بتی خوفناک جھونکوں کا۔۔۔ مقابلہ کرتی ہوتی تو صبحی کا دل بھی اس کے ساتھ ڈولتا رہتا۔ وہ اس نراش کے عالم میں بڑی بے کسی سے اس بتی کی جدو جہد کو دیکھتی رہتی۔ اس کے دل میں یہ بے چین تمنا جاگتی کہ طوفان گزر جائے اور یہ بتی برابر جلتی رہے۔ جب کبھی یہ بتی طوفانی ہواؤں کے مقابلے میں جیت جاتی اور اپنی مختصر زندگی کو بچالینے میں کامیاب ہوجاتی تو صبحی بہت خوش رہتی۔


اس رات کو بھی بہت تیز بارش ہورہی تھی اور چاروں طرف اندھیرا چھایا ہوا تھا اور صبحی اس کمرے میں آگئی تھی۔ جب اس نے دیکھا کہ میونسپل لالٹین بھی نہیں جل رہی ہے تو اس کے ننھے سے دل کو چوٹ لگی۔ اور وہ خود ہی گودڑ میں منہ چھپا کر سسکیاں بھرنے لگی۔
لیکن گھر میں سناٹا تھا، سب بچے اچھل کود میں مشغول تھے۔ کچھ تو اس تیز بارش میں خوش تھے اور کچھ اس وجہ سے کہ اس دن شکیل بھائی آگئے تھے۔


شکیل بھائی پندرہ بیس دن بعد جب بھی آتے تو بچوں کی پوری قوم میں ہنگامہ مچ جاتا۔ شکیل بھائی کو بچوں سے بہت محبت تھی اوراس لئے جب وہ آتے تو فرداً فرداً ہر بچے کے لئے کچھ نہ کچھ تحفہ ضرور لاتے۔ ان کے آتے ہی بچوں میں مقابلے شروع ہوجاتے۔ جنرل نالج کا مقابلہ، انگریزی لفظوں کے معنی اور کون شہر کہاں واقع ہے وغیرہ وغیرہ جو بچہ صحیح جواب دیتا اس کو چاکلیٹ یا چوئنگ گم انعام میں ملتی۔ مگر صبحی اس ہنگامے سے دور رہتی ، اس وجہ سے نہیں کہ وہ تنہائی پسند تھی بلکہ اس وجہ سے کہ وہ میلی میلی رہا کرتی تھی۔ اس کی ناک میں لٹکتا ہوا بلاق اور سر پر اجڑے اجڑے انداز میں بندھی ہوئی پٹیاں اور پرانے دھرانے کپڑے ، یہ چیزیں بہر حال ایسی تھیں کہ بچوں سے ہزار محبت کرنے کے باوجود شکیل بھائی کبھی اس کی طرف نگاہ بھر کر بھی نہیں دیکھ سکے۔ ایک دفعہ عجیب واقعہ ہوا ، شکیل بھائی نے پوچھا اچھا بچو بتاؤ دنیا کا سب سے بڑا شہر کون سا ہے؟
بچے چپ ہوگئے ، دو ایک نے جواب دینے کی کوشش میں کلکتہ، بمبئی بتایا بھی مگر پھر خاموشی ہوگئی۔ دو ایک منٹ بعد صبحی نے جو بالکل کنارے الگ کھڑی تھی آہستہ سے کہا"لندن"۔ سب بچے چونک پڑے۔ شکیل بھائی نے بھی دیکھا مگر صبحی پر نظر ڈالتے ہی ان کا جی عجیب سا ہونے لگا ایک گھناؤنی گھناؤنی لڑکی کھڑی تھی ، جس کا نام بہت سنا تھا مگر یہ ایسی گندی ہوگی اس کا ان کو اندازہ بھی نہ تھا۔ انہوں نے چاکلیٹ یا چوئنگ گم بچانے کے لئے بات ٹال دینے کی کوشش کی۔ دوسرے بچوں کو بھی برا لگا کہ یہ کیوں بیچ میں بولی۔ سب سے زیادہ غصہ اس بات کا تھا کہ اس نے صحیح بتایا تھا اور وہ لوگ بتا نہیں سکے تھے۔ حالانکہ تین دن پہلے جب لڑائی ٰختم ہونے اور ہٹلر کے ہارنے کی خبریں آرہی تھیں تو میاں جان اور بڑ؁ پاپا نے کہا تھا کہ لندن دنیا کا سب سے بڑا شہر ہے۔ مگر صبحی کے سوا باقی سب بچے اس بات کو بھول چکے تھے۔
اس وقت ایک عجیب ناگواری سی فضا پیدا ہوگئی جس کو شریر ببو نے یہ کہہ کر دور کیا: "سب سے بڑا تیرا کمرہ ہے حلامجادی۔ چل۔بھاگ۔"
شکیل بھائی نے رسماً کہا "نا۔ بری بات گالی نہیں دیتے۔" مگر صبحی کے چلے جانے کے بعد ان کو بھی سکون ہوا۔ اور پھر ہنسی مذاق اور ہنگامہ شروع ہوگیا۔


صبحی کسی ملازمہ یا نوکرکی لڑکی نہیں تھی بلکہ بڑے پاپا کی سگی بھانجی تھی ، اس کے باپ لڑائی پر گئے تھے۔ جہاں سے مفقود الخبر ہوگئے اور ماں اس گھر میں بچوں کا گو موت دھونے اور برتن مانجھنے اور جھاڑو لگانے میں چل بسی۔ مرتے مرت بھی ستم ظریفی یہ کہ اپنی چھ سات برس کی بچی صبحی کو یوں ہی چھوڑ گئی اور اس لئے اب صبحی اس گھرانے میں اچھوت بنی ہوئی تھی، اس کا زیادہ تر وقت بچوں کو کھلانے میں گزرتا جب دیکھو کسی نہ کسی موٹے تازے بچے کو سنبھالے ہوئے دوہری ہوئی جارہی ہے مگر وہ خود بھی تھی بڑی ڈھیٹ اور بے حیا کہ خود ہر جگہ بچوں میں گھستی پھرتی تھی اور نتیجہ میں مار بھی کھاتی تھی اور گالیاں بھی سنتی تھی۔


پھر پتہ نہیں حالات نے کیا کروٹ بدلی، عجب ہنگامے ہوئے لوگ اپنا جان مال سمیٹ کر بھاگے نہ جانے کون کس سے کہا ں بچھڑ گیا۔ اسی نفسی نفسی کے عالم میں صبحی کو کسی نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا کہ وہ کہاں رہ گئی۔ ان دس گیارہ برسوں میں شکیل بھائی میں کوئی خاص فرق نہ آیا صرف اتنا ہی ہوا کہ وہ تعلیم وغیرہ مکمل کر کے بے فکری کے دن گزار رہے تھے کبھی کبھی ایک آدھ انٹر ویو میں بھی کہیں کہیں ہوآیا کرتے تھے۔ مگر ان کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی صبحی کا کوئی دھندلا سا عکس باقی نہیں رہ گیا تھا۔
وہ گاف کلب میں بیٹھے ہوئے تھے ، حسب معمول تین چار بچوں نے ان کو گھیر رکھا تھا۔ اور وہ ان سے طرح طرح کے دلچسپی سوال پوچھ رہے تھے۔ اتنے میں انہوں نے دیکھا کہ ایک نوجوان لڑکی تیزی سے گھوڑا دوڑاتی ہوئی آئی، کلب کی باؤنڈری کے پاس وہ گھوڑیے سے کود کر اتری اور پھر دو ایک منٹ کے وقفے کے بعد درشت لہجے میں پکارا۔" منجو۔۔ منجو۔۔ کم ہیر۔"


ایک لڑکی جو شکیل بھائی کے سگریٹ کیس سے کھیل رہی تھی تیزی سے اٹھ کر بھاگی اس لڑکی نے پھرتی سے منجو کو اٹھا کر گھوڑے پر بٹھایا اور انگریزی میں اس کو ڈانٹا۔" اجنبیوں کے پاس مت جایا کرو۔"
وہ گھوڑا دوڑاتی ہوئی سامنے کی پہاڑیوں میں گم ہوگئی۔
شکیل بھائی کو کچھ عجیب سا لگا۔ ہمیشہ تو یہ ہوتا تھا کہ ان کو بچوں سے دلچسپی لیتے دیکھ کر لوگ خوش ہوتے تھے۔ رنگین تصویریں، ٹکٹ، چاکلیٹ، اور معلومات عامہ کی چھوٹی چھوٹی کتابیں یہ چیزیں ایسی تھیں جن کے ذریعے شکیل بھائی ہمیشہ ہر گھرانے کے بچوں سے ان کے ذریعے ان کے گھر والوں سے دوستی کرلیتے تھے ، لیکن آج پہلی مرتبہ ان کو اس طرح ٹوکا گیا تھا۔ کیوں کہ واقعی اگر اس لڑکی کے جملے کا مطلب نکالاجاتا تو یہ ہوتا کہ اس نے منجو کو نہیں بلکہ شکیل بھائی کو ڈانٹا تھا کہ "خواہ مخواہ اجنبی بچوں کو کیوں خراب کرتے ہو؟"


وہ سوچتے رہے دو تین بچے جو موٹے موٹے اونی کپڑے اور نوک دار کنٹوپ پہنے ہوئے گڈے، ایسے لگ رہے تھے۔ ان کو خاموش دیکھ کر وہاں سے چل دئیے۔۔ کلب کے استقبالیہ ہال میں بچوں نے شور مچانا شروع کردیا۔ ان کی ممیاں اور ڈیڈی بیٹھے بیئر پینے اور تاش کھیلنے میں مصروف تھے۔ کچھ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گاف کورس میں گھوڑا سواری میں مشغول تھیں، ان میں اکثر کبھی کبھی وہ اسمارٹ لڑکی بھی دکھائی دیتی جس نے منجو کو ڈانٹ کر بلایا تھا۔ شکیل بھائی بور ہوکر اکیلے ان پہاڑو کی طرف چل دئیے جن کی چوٹیوں پر ڈھلی ہوئی چاندی کی طرح برف چمک رہی تھی۔ ہوٹل کے ڈائننگ روم کی طرف چلتے ہوئے انہوں نے ایک بار پھر اس لڑکی کو اپنے پاس سے گھوڑے پر گزرتے ہوئے دیکھا۔ اب کی اس لڑکی نے بھی ان کو بغور دیکھا اور عجیب طنزیہ انداز میں منہ بناتی آگے بڑھ گئی۔
شکیل بھائی برابر اس کے بارے میں سوچتے رہے۔


دوسرے دن رات کے کھانے کے بعد ہوٹل کے ہال ہی میں وائلن کا ایک پروگرام تھا۔ وائلن کا ایک مشہور مغربی ماہر اپنے کمال کا مظاہرہ کرنے والا تھا۔ اس لئے پورا ہال کچھا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شکیل بھائی بھی اپنے جاننے والوں کے ساتھ وہاں موجود تھے۔ اس چھوٹے سے خوبصورت پہاڑی شہر میں ہوٹل سے اچھی سو سائٹی اور کہیں نہیں تھی اور یہاں کے تقریبا ًہر شخص سے شکیل بھائی واقفیت پیدا کرچکے تھے۔
تھوڑی دیر میں انہوں نے دیکھا کہ وہی لڑکی منجو کو ساتھ لئے ہوئے ایک معمر یورپین کے ہمراہ آرہی ہے۔ وہ تینوں آکر شکیل بھائی کے برابر ہی صوفے پر بیٹھ گئے وہ لڑکی شکیل بھائی کو اور شکیل بھائی اس کو ایک دوسریے کی نظر بچاکر دیکھتے رہے شکیل بھائی کے رسم وراہ پیدا کرنے کا ایک ہی پاسپورٹ تھا کہ بچوں سے گھل مل جانا مگر منجو ایک مرتبہ ڈانٹ کھاچکی تھی لہٰذا اب کی دفعہ کئی بار کے اشارے کے باوجود وہ ان کے پاس نہ آئی۔


پروگرام شروع ہونے سے قبل ایک بہت ہی اسمارٹ نوجوان نے جو کسی ریاست کے گورنر کا اے، ڈی سی تھا اعلان کیا کہ پروگرام کی منتظم مس صبیحہ انعام الرحمن تعارفی تقریر کریں گی۔
جو لڑکی اس وقت شکیل بھائی کے لئے ذہنی الجھن کا سبب بنی ہوئی تھی بہت ہی تکلف سے اٹھ کر اپنا مغربی لباس سنبھالتی ہوئی ڈائس پر پہونچی۔ اس نے انتہائی مہذب اور شائستہ انداز سے انگریزی میں وائلن کے ماھر کا تعارف حاضرین سے کرایااور پانچ ہی چھ منٹ بعد بڑے وقار کے ساتھ تالیوں کی گونج میں اپنی جگہ واپس آکر بیٹھ گئی۔


پروگرام کیسا رہا۔ شکیل بھائی کو نہیں معلوم۔ لیکن اکو یہ ضرور معلوم رہا کہ اس پورے عرصہ میں صبیحہ نے کتنی بار پہلو بدلا اور کتنی بار اپنے تراشیدہ بالوں کو جھٹکا دے کر سنبھالا۔
دوسرے دن شکیل بھائی نے یہ کیا کہ صبیحہ انعام الرحمن کے بارے میں تمام معلومات فراہم کیں ، ان کو پتہ چلا کہ وہ اس معمر انگریز کی جو کسی ہائی کورٹ کا رئٹائرڈ جج ہے وارڈ ہے۔ صبیحہ دہلی کی ہے جہاں کے خود شکیل بھائی بھی ہیں اور یہ کہ صبیحہ کی تمام تعلیم و ترتیب اسی انگریز نے نسوری کے انگریزی اسکولوں میں کرای ہے اور ابھی حال ہی میں سینئر کیمبرج پاس کر کے صبیحہ آج کل گلمرگ آئی ہوئی ہے۔
یہ تفصیل شکیل بھائی کو خاصی دلچسپی معلوم ہوئی انہوں نے اپنی فطری دلکشی اور آداب و اخلاق سے پوری واقفیت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس رٹائرڈ جج سے رسم و راہ پیدا کی جس نے ان کو خاصی بے تکلفی کے بعد صبیحہ کے بارے میں اتنا اور بتایا کہ اس نے صبیحہ کو دہلی کی سڑکوں پر روتا ہوا پایا تھا اور اٹھا کر اپنے گھر لے گیا۔ اس بچی کی آمد سے اس کی تنہائی ختم ہوگئی اور اب اس نے اس کو اپنی لڑکی بنالیا ہے۔


شکیل بھائی کی ذہنی کشمکش ختم نہ ہوئی وہ صبیحہ سے بری طرح متاثر ہوئے تھے اور اس سے ملاقات و رسم و راہ پیدا کرنے کے بہانے ڈھونڈ رہے تھے۔ ایک دن انہوں نے کلب میں منجو کو قصداً پکڑ لیا، منجو بمبئی کے ایک سندھی تاجر کی لڑکی تھی اور صبیحہ سے بہت ہلی ہوئی تھی۔ وہ اس کو بڑی دیر تک چاکلیٹیں چوئنگ گم اور رنگین تصویریں وغیرہ دے کر بہلاتے رہے۔ ان کی امید کے مطابق اس وقت صبیحہ وہاں آ پہونچی۔ وہ اس وقت شلوار سوٹ پہنے ہوئے تھی اور گھوڑا دوڑا کی وجہ سے پسینے میں نہائی ہوئی تھی۔ چسٹر اس نے اتار کر ہاتھوں میں لے لیا تھا۔ اس نے ایک منٹ منجو کو شکیل بھائی کے پاس دیکھا اور پھولی ہوئی سانسوں کو قابو میں کرتے ہوئے درشت لہجے میں کہا۔"منجو۔"
منجو ڈر گئی۔ مگر شکیل بھائی فوراً اخلاق سے بولے۔ "رہنے دیجئے بچہ ہے۔ ڈانٹنے سے ڈر جائے گی۔"


صبیحہ نے ماتھے پر تیوریاں ڈال کر شکیل بھائی کو دیکھا۔ اور منجو کا جو آکر اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی تھی سر سہلانے لگی۔
"معاف کیجئے مجھے اصل میں بچوں سے بہت محبت ہے۔ اسی لئے میں جہاں کہیں بھی ننھے منے بچوں کو دیکھتا ہوں بے اختیار ہوکر ان کی طرف کھنچ جاتا ہوں۔" شکیل بھائی نے بڑے پر تکلف انداز میں اس طرح معذرت پیش کی تاکہ صبیحہ پر کوئی خوشگوار اثر پڑ سکے۔
صبیحہ بہت ہی طنز سے بولی۔" مگر محبت کرنے کے لئے صرف گاف کلب اور نیڈوز ہوٹل کے ہی بچے نہیں ہیں۔ وہاں وادیوں میں ننھے منے بچے کیچڑ اور مٹی میں لت پت کھیل رہے ہیں، جائیے ان سے بھی کبھی اظہار شفقت کیجئے۔"
"معاف کیجئے محترمہ آپ غلط سمجھیں، میرا مطلب یہ ہے کہ بچے بہرحال خدا کی نعمت ہیں ان سے وہ جہاں کہیں بھی ہوں اور جس حال میں بھی ہوں محبت و شفقت کا اظہار کرنا چاہئے خود ہمارے۔۔۔
"رہنے دیجئے شکیل بھائی اس بناوٹ کو۔۔"


شکیل بھائی چونک پڑے، ان کا ذہن زور سے چکر کھاگیا، غیر شعوری مگر فوری طور پر انہوں نے صبیحہ کے ماتھے پر بائیں طرف ہلکا سا ہلال نما نشان دیکھا، وہی جو اس گھناؤنی لڑکی صبحی کے ماتھے پر تھا۔۔۔ اب وہ سب کچھ سمجھ چکے تھے۔"
"مجھے معاف کردو صبحی۔۔۔ اصل میں بات یہ ہے کہ۔۔۔۔۔
"شکیل بھائی۔ وہ دن میں کبھی بھی نہیں بھولوں گی جب آپ نے انتہائی نفرت و حقارت سے مجھ کو دیکھا تھا۔ حالانکہ میں تو آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑ رہی تھی۔"‘


باقی جتنے دن شکیل بھائی گلمرگ میں رہے ان کو تنہا ہی دیکھا گیا۔شاید ان کو اب خوبصورت صاف ستھرے اور امیر بچوں سے بھی محبت نہیں رہ گئی تھی۔ بلکہ اب تو وہ خود میلے کچیلے پہنے ہوئے اور شیو بڑھائے ہوئے گھوما کرتے ہیں۔

***
ماخوذ از رسالہ: 'انشاء' کراچی، شمارہ: مئی 1960ء۔ مدیر: جون ایلیا۔

Sub'hi. Short Story by: Qaiser Tamkeen.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں