اردو کی خود نوشتیں : حیاتِ نساخ سے یادِ ایام تک - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2022-01-10

اردو کی خود نوشتیں : حیاتِ نساخ سے یادِ ایام تک

autobiographies-in-urdu-language

اردو ادب میں سوانح عمری لکھنے کی روایت پرانی ہے۔ اسے لکھنا قدرے آسان بھی ہے ، اول مواد بآسانی دستیاب ہوجاتا ہے ، متعلقہ شخصیت کے عزیز و احباب سے بہت کچھ معلومات حاصل ہوجاتی ہے ، اگر شخصیت معروف ہے تو اخبارات و جرائد سے مدد مل سکتی ہے۔ دوم اس کی کتابیں، تحریریں، انٹرویوتقاریر محفوظ ہوں تو ان سے بھی مدد لی جاسکتی ہے اور اگر شخصیت زندہ ہے تو کیاکہنے، وہ جو کچھ اپنے بارے میں بتائے سند ہے میرا فرمایا ہوا، کے مصداق اسے بلا تامل سوانح کا حصہ بنایا جا سکتا ہے۔ حالی کی یادگار، غالب، حیات جاوید، شبلی نعمانی کی سیرۃ النبی ؐ، الفاروق، المامون ، النعمان ،الغزالی، سوانح مولانا روم ، مولانا سید سلیمان ندوی کی حیات شبلی ، سیرت عائشہ سوانحی حالات و کوائف سے بھری ہوئی مکمل سیرتیں ہیں۔


20 ویں صدی کے آخر میں لکھی گئی سوانح عمریوں میں مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے پرانے چراغ میں اپنے عہد کی قابل قدر شخصیات مولانا سید سلیمان ندوی ، جگر مرادآباد، صدیق حسن(آئی اے ایس) کے حالات زندگی بڑے موثر انداز میں تحریر کئے گئے ہیں۔ گنجہائے گرامہ اور ہم نفسان رفتہ، میں مولانا محمد علی جوہر، ڈاکٹر اقبال، مولانا حسرت موہانی ، مولانا سید سلمان ندوی وغیرہ کی سوانح۔ رشید احمد صدیقی کے باغ و بہار قلم سے پڑھنے کو مل جاتی ہے۔


اس کے برعکس، خود نوشت سوانح ( آپ بیتی) لکھنا بظاہر تو آسان ہے لیکن حقیقت میں سوانح نگاری سے زیادہ دشوار اور نازک فن ہے۔ کیونکہ اس میں مصور اپنی تصویر خود بناتا ہے ، عاجزی و انکساری کا کتنا ہی مظاہرہ ہو لیکن جیسا کہ انسانی فطرت ہے کہ ہر لکھنے والے کا ہیرو وہ خود ہوتا ہے۔ لہذا تحریر میں اس کی شخصیت کا مثبت پہلو حاوی ہوجاتا ہے۔ اسی لئے ناقدوں کی رائے ہے کہ خود نوشت سوانح حیات انسانی زندگی کی وہ روداد ہے ، جسے وہ خود رقم کرتا ہے اور اس میں سوانح حیات کی کسی دوسری شکل سے زیادہ سچائی ہونا چاہئے، اگر کورکسر رہ جائے یا مبالغہ درآئے تو وہ اچھی خود نوشت قرار نہیں پاتی۔ جیسا کہ سر رضا علی اپنی سوانح 'اعمال نامہ' کے دیباچہ میں لکھتے ہیں:
'میرے نزدیک اپنے لکھے ہوئے سوانح حیات کی سب سے بڑی صفت یہ ہونی چاہئے کہ ایک مرتبہ کراماً کاتبین بھی سامنے آکر بہ آواز بلند پڑھ لیں تو لکھنے والے کو آنکھ نیچی نہ کرنی پڑے۔'


خود نوشت سوانح کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ وہ صرف ناموں کی کتھونی نہ ہو ، اس میں تاریخ، سماج اور ادب کی آمیزش بھی نظر آئے، حقیقت دلکش پیرایہ میں بیان ہو، فن اظہار ذات کا دوسرا نام ہے ، خود نوشت کا تعلق انسان کے گہرے داخلی جذبات سے ہے۔
لہذا اسے فن کی اعلیٰ قدروں کا حامل ہونا چاہئے، اسی لئے خود نوشت لکھنا سوانح لکھنے سے زیادہ مشکل فن ماناجاتا ہے۔ اپنے بارے میں لکھیں اور خود اپنی تعریف کرتے رہیں تو قصیدہ خوانی ہو جائے گی۔ جس سے بچنے کے لئے بڑے ظرف کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایسا نہیں کہ مذکورہ شرائط پر پوری اترنے والی خود نوشتیں اردو میں نہیں لکھی گئی لیکن ایسی عالی ظرفی اور بلند کرداری بہت کم کے حصہ میں آتی ہے۔ بعض نے اپنی کمزوریوں کو بیان کیا تو ایسے کہ وہ کمزوریاں نہ ہوکر خوبیاں بن گئیں۔
ایک معیاری خود نوشت کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ وہ صرف کسی فرد کے بارے میں بیان نہ کرے ، اس کے ماحول ، عہد ، اس دور کے رجحانات و میلانات اور معاشرتی ، معاشی، ادبی اور تہذیبی پہلوؤں کو بھی سامنے لائے ، تاکہ اس عہد کا پورا منظر نامہ سامنے آ جائے۔ جس میں شخص مذکور نے اپنی زندگی گزاری اور اس کی شخصیت تشکیل پائی ، اس کے برعکس خود پر توجہ مرکوز کرنے سے بات نہیں بنتی ، خود نوشت نگاری کا یہ بڑا نازک مقام ہوتا ہے کہ کوئی فرد اپنی شخصیت کو خود سے جدا کرکے معروضیت سے کام لے اور بے لاگ پیرایہ میں اپنی زندگی کی داستان بیان کر دے۔


یہی وجہ ہے کہ اردو ادب میں خود نوشت یا آپ بیتیاں کم سپرد قلم کی گئیں اور جو لکھی گئیں ان میں سے بیشتر مذکورہ شرائط پر پوری نہیں اترتیں۔ اردو سے پہلے فارسی میں آپ بیتی کی روایت موجود تھی۔ بادشاہوں کے حالات زندگی اور صوفیائے کرام کے ملفوظات میں آپ بیتی کے ابتدائی نقوش مل جاتے ہیں۔
ان کے علاوہ شیخ حزیں، میر تقی میر نے بھی فارسی میں آپ بیتی لکھی ہے۔ لیکن اردو میں آپ بیتی کے فن کو 1857ء کے خونی انقلاب کے بعد فروغ ملا۔ جب اس معرکہ کے مجاہدوں اور سپاہیوں نے اپنی یادداشتیں لکھیں، ان کے علاوہ جعفر تھانیسری کی آپ یتی 'تواریخ عجیب' (کالا پانی)، نواب صدیق حسن خاں کی 'البقاء لمن بالقا المحن'، ظہیر دہلوی کی'داستانِ غدر' اور عبدالغفور نساخ کی 'حیات نساخ' سپرد قلم کی گئیں۔
جن میں 'حیات' نساخ ' کو اردو ادب کی پہلی آپ بیتی تسلیم کیا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد حسرت موہانی کی 'قید فرنگ' مولانا ابوالکلام آزاد کی 'تذکرہ' دیوان سنگھ مفتون کی 'ناقابل فراموش' معیاری خود نوشتوں میں شمار کرنے کے لائق ہیں۔
'کاروانِ زندگی' مولانا ابوالحسن علی ندوی کی خود نوشت کئی جلدوں پر محیط اور اپنے پورے عہد کی معلومات فراہم کرتی ہے۔ 'کاروان حیات' قاضی اطہر مبارکپوری کی خود نوشت مختصر اور کتابی شکل میں غیر مطبوعہ ہے جو ماہنامہ 'ضیاء الاسلام' میں شائع ہوئی ہے۔ خواجہ حسن کی نظامی کی 'آپ بیتی'، چودھری فضل حق کی 'میرا افسانہ، بیگم انیس قدوائی کی 'نیرنگی بخت'، مولانا حسین احمد مدنی کی 'نقش حیات'، سر رضا علی کی 'اعمال نامہ'، کلیم الدین احمد کی 'اپنی تلاش میں'، یوسف حسین خاں کی'یادوں کی دنیا' بھی قابل ذکر خود نوشتیں ہیں۔


رشید احمد صدیقی کے باغ و بہار قلم نے 'آشفتہ بیانی میری' میں بچپن کے حالات، ابتدائی تعلیم، خاندان کی معلومات تو کم لکھیں، اپنے وطن جونپور کی تاریخ و تہذیب پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ اس کا نصف سے زیادہ حصہ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے زمانہ تعلیم کی سرگرمیوں پر مشتمل ہے۔ جس میں ڈاکٹر ذاکر حسین، اقبال سہیل، ثاقب صدیقی جیسی شخصیات سے ان کے رشتہ پر روشنی پڑتی ہے۔
جوش ملیح آبادی کی خود نوشت 'یادوں کی برات' خاندانی امارت و شوکت کا جا و بیجا اظہار ہے ، جس میں تضادات و مبالغیے بھی جگہ جگہ راہ پا جاتے ہیں۔ سحاب قز لباش کی 'میرا کوئی ماضی نہیں'، خواجہ غلام السیدین کی خود نوشت 'مجھے کہنا ہے اپنی زباں میں' کو خود خواجہ صاحب اور ان کے انتقال کے بعد چھوٹی بہن صالحہ عابد حسین نے مکمل کیا ہے ، لیکن اس میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ جب کہ احسان دانش کی 'جہان دانش' میں اپنی ذات اور اپنے طبقے یعنی غریبوں کو تو مرکز نگاہ بنایا گیا لیکن اس دور کے سماجی و تہذیبی عناصر کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔


ان کے علاوہ کنور مہیندر سنگھ بیدی سحر کی 'یادوں کا جشن' میں ان کے خاندانی احوال، فارغ البالی، رئیسانہ مشاغل کا تفصیلی بیان ہے۔
وزیر آغاز کی 'شام کی منڈیر سے' ان کی نجی زندگی کے ساتھ پورے عہد کے اہم واقعات پر محیط ہے۔ رفعت سروش کی 'ممبئی کی بزم آرائیاں' میں ان کی زندگی ، نوکری اور ترقی پسند تحریک کے حوالے کافی معلومات فراہم کی گئی ہے۔ اختر الایمان کی 'اس آباد خرابے میں' زندگی کے واقعات و مسائل کے بیان میں جس صداقت سے کام لیا گیا ہے وہ کم خود نوشتوں میں ملتا ہے۔
آل احمد سرور کی 'خواب باقی ہیں'، وامق جونپوری کی 'گفتنی نا گفتنی' شکیل الرحمن کی 'آشرم'، پروفیسر مسعود حسین خاں کی 'ورود مسعود'، ادا جعفری کی 'جو رہی سو بے خبری رہی'، کشور ناہید کی'بری عورت کی کتھا'، اس کے برعکس مولانا عبدالماجد دریآبادی کی خود نوشت' آپ بیتی' اس طرح کی خامی سے پاک ہے۔
مولانا نے اپنی ادبی، صحافتی اور مذہبی زندگی کے جملہ پہلوؤں کے بیان میں دیانت داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ نیز سادہ اور عام فہم زبان میں زندگی کے جو حالات بیان کئے ان میں حق و صداقت کے ساتھ جذبات کا خلوص قاری کو متاثر کرتے ہیں۔


ندا فاضلی کی 'دیواروں کے بیچ' اور 'دیواروں سے باہر' زبیر رضوی کی 'گردش پا' غوث انصاری کی 'عمر رفتہ' حمیدہ سالم کی 'شورش دوراں' پڑھنے کے لائق خود نوشت ہیں۔ ان میں مسعود حسن خاں کی خود نوشت 'ورود مسعود' کے نام پر یہ اعتراض ہے کہ اپنے بارے میں آپ 'ورود مسعود' لکھنا خود ستائی کے ذیل میں آتا ہے۔ تاہم مسعود کا صفت کے بجائے اسم کے بطور استعمال ہو تو یہ اعتراض بے معنی ہوجاتا ہے اور کتاب کے نام کی معنویت بڑھ جاتی ہے۔


ایک اور خود نوشت ممتاز ادیب محمد ایوب واقف کی 'یاد ایام' ہے ، جو سال گزشتہ 2017ء میں شائع ہوئی ہے۔
174/صفحات کی اس 'ایوب بیتی' کا انتساب ایوب واقف نے اپنی لائق بیٹی رعنا ایوب کے نام کیا ہے۔ آپ بیتی پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ رعنا ایوب ہی اس خود نوشت کو لکھنے کی محرک بنی ہے۔ جن کا مصنف نے کئی جگہ پر بڑی محبت اور فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے اور ایک سے زیادہ جگہ بیٹی کی حوصلہ مندی کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ رعنا ایوب اپنی پیشہ ورانہ زندگی یعنی صحافت میں جن صبر آزما حالات سے گزریں اور انہوں نے بدنام زمانہ گجرات فسادات پر اپنی کتاب 'گجرات فائلس' قلم بند کی اس پر ایک باپ کا فخر و انبساط فطری ہے۔


'یاد ایام' کا ٹائٹل مصنف کی دیدہ زیب و رنگین تصویر سے مزین ہے ، جس سے موصوف کی شخصی وجاہت کا ظہارہوتا ہے ، کتاب کے تعارف یا مقدمہ کے لئے صاحب کتاب نے کسی دوسرے کے قلمی تعاون کی ضرورت محسوس نہیں کی اور خود تحریر کیا ہے ، مکمل کتاب انتساب نامہ اور ابتدائی کے علاوہ دس ابواب پر مشتمل ہے۔ ہر باب میں مصنف نے شستہ و سلیس زبان میں خود سے متعلق معلومات افزا پہلوؤں کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔
مثال کے طور پر ضلع اعظم گڑھ جو ان کی جائے پیدائش اور آبائی وطن ہے اور جہاں سے اٹھ کر انہوں نے ممبئی کو اپنا وطن ثانی بنایا اور جہد مسلسل سے اپنا ایک مقام قائم کیا، تعلیم کے ابتدائی مدراج طے کئے، بمبئی پہنچ کراعلی تعلیم کی تکمیل کی۔ اپنی شادی ، اہلیہ اور اولاد کی تعلیم و تربیت میں کن مشکلات سے نبرد آزما رہے، جدوجہد سے بھرپور اس زندگی کے تمام مراحل کو بے کم و کاست بیان کردیا ہے اور کس طرح اردو زبان و ادب کا ' زاد راہ' اپنے ساتھ رکھا۔ تالیف و تصنیف کو اپنا پہلا عشق بنایا، خود کتابیں لکھیں اور دیگر معیاری کتب سے گھر کی لائبریری کو سجایا سب پر روشنی ڈالی ہے۔
محمد ایوب کی اس خود نوشت کی ایک خوبی اس کی سادہ اور عام فہم زبان ہے۔ جس میں انہوں نے اپنی زندگی کی ستر کے قریب بہاروں کا احاطہ کیا ہے۔ مشاہیر سے ان کے رشتے بالخصوص سردار جعفری ، گوپی چند نارنگ، جگناتھ آزاد، ظ۔ انصاری، پروفیسر سید صباح الدین عبدالرحمن، مولانا ضیاء الدین اصلاحی، نجیب اشرف ندوی، کالی داس گپتا، رضا شمس الرحمن فاروقی وغیرہ سے قریبی روابط اور ان سے متعلق جستہ جستہ واقعات کو بھی موضوع گفتگو بنایا ہے۔ جس سے ایوب واقف کے ہم عصروں سے قریبی رشتے اور ان کی جو قربت موصوف کو حاصل رہی اس کا اندازہ ہوتا ہے۔


اردو میں خود نوشت ایک لطیف اور دلکش صنف کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ جس میں مولانا عبدالماجد دریابادی سے لے کر مشتاق احمد یوسفی تک درجنوں اہل قلم نے اپنی زبان دانی کے جوہر دکھائے ہیں۔ لیکن ایوب واقف کی اس آپ بیتی کی خوبی یہ ہے کہ اس میں زبان دانی کے بجائے حقیقت بیانی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے اور اس کے مطالعہ سے ذرہ کس طرح سیارہ بن گیا اس کی سرگزشت معلوم ہوجاتی ہے۔


'یاد ایام' میں دارالمصنفین اعظم گڑھ، شبلی کالج، انجمن اسلام بمبئی ، بمبئی یونیورسٹی جیسے اداروں کا تعارف بھی ہوتا ہے اور ملک و قوم کے تئیں ان اداروں کی خدمات کا قاری اندازہ لگاسکتا ہے۔ خود نوشت کے آخر میں ایوب واقف نے اپنی تصانیف کا بھی تعارف کرایا ہے۔ اس کے ساتھ ضرورت تھی ان کا بایو ڈاٹا اور کتابوں کی فہرست بھی شامل کی جاتی۔ تصاویر کا حصہ کافی بڑا ہے ، جس سے افراد خاندان سے تعارف ہو جاتا ہے۔
کتاب میں کتابت کی غلطیاں جگہ جگہ نظر آتی ہیں۔ ایسی غلطیوں سے اب بمشکل کوئی کتاب پاک ہوتی ہے ، خود نوشت میں ایسے جملے بھی شامل ہیں جن کا خود ستائش پر احتمال ہوتا ہے۔ ان سے بچنا چاہئے تھا۔ بحیثیت مجموعی کتاب صوری و معنوی حیثیت سے معیاری اور پڑھنے کے لائق ہے نیز ایوب واقف کی زندگی اور قلمی کارناموں سے ہمیں متعارف کراتی ہے۔


***
ماخوذ از رسالہ: ماہنامہ اردو ھلچل (بھوپال) (شمارہ: جولائی 2018)
مدیران: ڈاکٹر مختار شمیم، جاوید یزدانی

The Autobiographies in Urdu Language. Article: Arif Aziz

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں