قدرت کو شاید یہ منظور تھا کہ خواجہ صاحب سے ان کے انتقال سے ڈیڑھ دن پہلے آخری بار مل لوں۔ بس یہ اتفاق ہی تھا کہ میں ان کے گھر کے سامنے سے گزر رہا تھا۔ مئی کی 29/تاریخ تھی (عید کا دوسرا دن) شام کے کوئی چھ بجے ہوں گے۔ میرے ایک دوست ساتھ تھے بلکہ میں ان کی اسکوٹر پر ان کے ساتھ تھا۔ فلومینا سے (یہی خواجہ صاحب کے گھر کی عمارت کا نام ہے) اسکوٹر کوئی پچاس قدم آگے نکل گئی ہوگی کہ مجھے خیال آیا، کہ کیوں نہ خواجہ صاحب سے عید کی ملاقات کر لی جائے۔
واقعی عید ہو گئی، خواجہ صاحب بے حد ہشاش بشاش تھے۔ گھر البتہ نرسنگ ہوم بنا ہوا تھا۔ ان کا کمرہ بالکل کسی دواخانہ کا فزیوتھریپی کا کمرہ معلوم ہوا۔ جگہ جگہ ورزش کا سامان رکھا ہوا تھا۔ ایک سائیکل بھی تھی جس پر بیٹھ کر پاؤں چلانے پڑتے ہیں (لیکن سائیکل چلتی نہیں ہے ، کسی پسماندہ ملک کی ترقی کی طرح اپنی جگہ رکی رہتی ہے)۔
نرس بھی موجود تھی اور خواجہ صاحب کاغذات دیکھ رہے تھے۔ غالباً مراسلوں کے جواب بھی لکھوا رہے تھے۔ خواجہ صاحب حسب معمول بے تکلفی سے ملے۔ عید کی مبارک باد کے ایجاب و قبول کے بعد میں نے سائیکل کی طرف اشارہ کرکے پوچھا: آپ کو یہ بھی کرنا پڑتا ہے۔
بولے: مجھے تو اور بھی بہت کچھ کرنا پڑتا ہے۔ ہنسے اور داد چاہی۔ خواجہ صاحب کو اتنا مسرور و مطمئن بلکہ زندگی سے بھرپور دیکھ کر حیرت انگیز خوشی ہوئی۔ ورنہ اس سے کچھ ہی دن پہلے میں ان سے ولے پارلے کے ایک نرسنگ ہوم میں ملا تھا۔ وہ بالکل فریش تھے اور اس وقت ان کے دل پر اتنا شدید حملہ ہوا تھا کہ ان کے معالج نے انہیں تقریباً قلم زد( رائٹ آف) کر دیا تھا اور ڈاکٹر کو یہ توقع نہیں تھی کہ وہ دوپہر میں گھر جاکر شام کو جب ڈیوٹی پر آئے گا تو خواجہ صاحب سے ملاقات ہوگی۔
خواجہ صاحب زندہ دل نہیں شیر دل آدمی تھے۔ وہ اس سے پہلے بھی فرشتہ اجل کو ایک دو مرتبہ واپس کر چکے تھے۔ پتہ نہیں یہ ان کی شخصیت کا سحر تھا یا ان کی قوت ارادی کہ یہ فرشتہ بھی ان کی بات سن لیتا تھا۔ اس مرتبہ بھی اس نے خواجہ صاحب کو۔۔۔ اور خواجہ صاحب سیے زیادہ ان کے چاہنے والوں کو ناراض نہیں کیا۔ خاموش واپس چلا گیا اور خواجہ صاحب کے معالج کو اپنے علم تجربے اور تجزئیے پر قدرے شرمندگی ہوئی۔ (خوشی تو ظاہر ہے ہوئی ہی ہوگی)۔ اس کی لیکن یہ مہلت بس چند روزہ تھی۔ نرسنگ ہوم سے فلومینا واپس آئے خواجہ صاحب کو زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ 30/مئی کی رات میں انہیں پھر اسی نرسنگ ہوم پہنچانا پڑا۔ اور پہلی جون کا سورج طلوع ہونے سے پہلے ان کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔
29/مئی 1987ء کی یہ تاریخ مجھے اس لئے یاد رہے گی کہ اس دن خواجہ صاحب سے آخری ملاقات ہنستے بولتے ہوئی تھی۔ ورنہ نرسنگ ہوم میں جب میں ان سے ملا تھا ان کی آنکھ میں آنسو تھے۔ بات تو انہوں نے اس دن بھی کی تھی لیکن ان سے بات کی نہیں جا رہی تھی۔
خواجہ صاحب کیا نہیں تھے، ادیب، صحافی، مقرر، فلمساز ، سوشل ورکر اور نہ جانے کیا کیا۔ بس شاعر نہیں تھے۔ قانون کی ڈگری بھی ان کی جیب میں پڑی تھی۔ لیکن وہ وکیل بھی نہیں تھے۔ شاعری کی ہوتی تو زندگی کی آدھی سے زیادہ راتیں مشاعروں کی نذر ہو جاتیں۔ اور وکالت کی ہوتی تو دن کے سولہ اٹھارہ گھنٹے موکلوں کی صحبت ناجنس میں گزر جاتے۔ (محنتانہ بھی وہ وصول کر پاتے یا نہیں ٹھیک سے نہیں کہا جا سکتا)۔ اپنے خلاف فیصلے الگ سننے پڑتے۔ نجی زندگی میں ممکن ہے خواجہ صاحب کے کوئی اصول نہ ہوں اور اگر ہوں گے تو بھی ان میں لچک (شاخ گل والی لچک نہیں) کی گنجائش ہوگی۔
لیکن جہاں تک ان کے بیرون خانہ زندگی کا تعلق ہے انہوں نے اپنی ایک ڈگر بنا لی تھی، وہ اسی راستے پر چلتے رہے۔ کبھی مڑ کر نہیں دیکھا کہ کوئی ساتھ چل رہا ہے یا نہیں۔ شاید انہوں نے سوچا ہی نہیں کہ زندگی اور سفر میں "ساتھ" بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اتنا سخت تجرد شاید ہی کسی نے برتا ہوگا۔ قولاً بھی اور فعلاً بھی۔ اپنے اصول کے پکے تھے۔ فلمیں بھی بنائیں۔ تو اس بات کا خیال رکھا کہ کوئی فلم باکس آفس پر ہٹ نہ ہو جائے۔
عوام کے آدمی تھے لیکن اپنی فلموں میں کبھی عوام کے "بلند ذوق" کو پیش نظر نہیں رکھا۔ میرا ان سے پہلا رابطہ فلم ہی کی بدولت ہوا۔ وہ اس طرح کہ خواجہ صاحب 1963ء کے ارد گرد اپنی فلم۔۔ غالباً "شہر اور سپنا" بنا رہے تھے۔ اور اس میں ایک شاٹ ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا بھی تھا۔ میں محکمہ لیبر میں معمور تھا (یوں سمجھئے کہ محکمہ لیبر مجھ سے معمور تھا) اور اس زمانے میں یہ ایمپلائمنٹ ایکسچینج اسی محکمے کے تحت (انتظامی طور پر) تھا۔ خواجہ صاحب نے کرشن جی کی زبانی مجھ سے کہلوایا کہ میں اس شاٹ کے لئے سرکاری اجازت حاصل کروں۔ شاید خود بھی آفس آگئے تھے۔ بعد میں اپنے اسسٹنٹ (اطہر فاروقی) کے ذریعے کاغذات بھی بھجوائے۔ یہ اجازت انہیں مل گئی اور جہاں تک مجھے یاد ہے ان سے کوئی رقم وصول نہیں کی گئی۔ ( یہ شاٹ تو ایمپلائمنٹ ایکسچینج کا ایک اشتہار ہو گیا۔)
مصروف تو سبھی ہوتے ہیں کیوں کہ بمبئی شہر ہے ہی مصروف لوگوں کا شہر، لیکن خواجہ صاحب بے حد مصروف آدمی تھے۔ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اپنے لئے مصروفیتیں پیدا کرتے تھے۔ بامبے کرانیکل سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔ اور آخر دم تک اس کمبل سے اپنا رشتہ نباہا۔ لکھتے بھی تو "آخری صفحہ" تھے انگریزی میں الگ اردو میں الگ۔ خواجہ صاحب کا ذہن اتنا زرخیز تھا کہ انہیں لکھنے کے لئے کسی موضوع کی تلاش نہیں کرنی پڑتی تھی۔ صرف قلم اٹھانا پڑتا تھا۔۔ وہ شاید ہی تقریبوں اور دعوتوں میں جاتے ہوں گے، ٹھیک ہی کرتے تھے ورنہ وہاں جاکر بھی وہ کاغذ قلم لے کر لکھنے بیٹھ جاتے۔ یوں تو سارا ملک ان کا دوست ہوگا، لیکن بمبئی میں بھی انہوں نے اپنے آپ کو دوچار گھروں کی حد تک محدود رکھا۔ یہ بات مجھے اس لئے یاد رہی کہ بیدی صاحب کی تو شکایت ہی رہی کہ وہ کبھی ان کے گھر جاتے۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ خواجہ صاحب کسی تقریب میں جاتے ہی نہیں تھے۔ جاتے ضرور تھے۔ لیکن انتظار ساغر کھینچنے کا کام وہ نہیں کر سکتے تھے۔ (یوں بھی ساغر سے ان کا تعلق تھا بھی کہاں) اور شادی بیاہ کی تقاریب میں تقریب تو کم ہوتی ہے انتظار ہی زیادہ ہوتا ہے۔ کئی سال پہلے (20 سال تو ہو ہی گئے ہوں گے) وہ گورنمنٹ کالونی باندرہ میں اپنے کسی اسسٹنٹ کے یہاں ایک تقریب میں شریک ہوئے۔ جو وقت بتایا گیا تھا اس سے بھی کوئی پندرہ منٹ پہلے پہنچے (اس کی کیا ضرورت تھی؟) وہاں ان کی حیرانی ، پریشانی، اضطراب ، بے چینی قابل دید تھی اس محفل میں ان کا شناسا صرف میں تھا۔ اور تو اور جنہوں نے انہیں بلایا تھا وہ خود عدم موجود تھے۔ خواجہ صاحب نے بڑی رحم طلب نظروں سے مجھے دیکھا اور ایک لفافہ میرے حوالے کرتے ہوئے تاکید کی کہ یہ میں ان کے میزبان کے حوالے کر دوں، عجلت میں تھے، لیکن اس کے باوجود دو تین مرتبہ پوچھا کہ آپ دے دیں گے نا۔
حالانکہ وہ لفافہ میں نے ملفوف الیہ کو پہنچا دیا تھا۔ لیکن شاید خواجہ صاحب تک رسید نہیں پہنچی۔ اس کا انہیں اتنا صدمہ ہوا کہ وہ پھر کسی ایسی تقریب میں شریک ہی نہیں ہوئے۔
ریاست حیدرآباد کی تقسیم کے نتیجے میں جب ملازمین سرکار کا ایک مجمع شہر بمبئی آ کر سکونت پذیر ہوا۔ تو خواجہ صاحب اتنے سارے اردو والوں کو یکمشت ایک جگہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ (حیدرآباد کی سرکاری زبان اردو تھی ، اور اچھی اردو)۔ گورنمنٹ کالونی باندرہ مشرقی میں بسنے سے پہلے، ان ملازمین سرکار کو ، 'کاٹن گرین' کی ہاؤزنگ بورڈ کی عمارتوں میں رکھا گیا تھا۔ (اس علاقے کا نام 'کاٹن گرین' اس لیے رکھا گیا تھا کہ یہاں روئی تھوک کے حساب سے فروخت ہوتی تھی۔ اور صرف روئی ہی نہیں، یہاں کی ساری آبادی دھنکی جاتی تھی)۔
کاٹن گرین میں بھی کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا تھا لیکن گورنمنٹ کالونی باندرہ میں تو باضابطہ سالانہ مشاعرے ہونے لگے تھے۔ ایک مشاعرے میں خواجہ صاحب نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت اور بڑی زوردار تقریر کی۔ یہ بھی 1966ء کا واقعہ ہے۔ اس زمانے میں مضافات میں کسی مشاعرے کا انعقاد ہونا ذرا اچھنبے کی بات تھی۔ خواجہ صاحب کی خوشی اسی بات کی تھی کہ مضافات بھی آباد ہو رہے ہیں اور رعایا شاد ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں مشاعرے کے سامعین سے یہ بھی کہا تھا کہ مصنفوں کی کتابیں خرید کر پڑھی جائیں ( اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس کے بعد کتابیں اور بھی کم فروخت ہونے لگیں اور اب تو اردو کی ہر کتاب ساڑھے سات سو چھپتی ہے) بعد میں خواجہ صاحب نے خود ہی اس قسم کی ہدایت دینا ترک کر دیا۔ اور ہدایتکاری کو اپنا شغل بنا لیا۔
خواجہ صاحب کے متعلق بمبئی میں یہ بھی مشہور تھا کہ روس میں ان کی اتنی کتابیں چھپی اور فروخت ہوئی ہیں کہ وہ ہندوستان میں تو نہیں لیکن روس میں بے حد متمول آدمی ہیں۔ (روس سے یہاں سب کچھ آ سکتا ہے لیکن کتابوں کی رائلٹی کی رقم نہیں آ سکتی) یہ بھی کہا جاتا تھا کہ روس میں اگر عزت و آبرو کے ساتھ گھومنا پھرنا ہے تو خواجہ صاحب کی چھٹی لے کر جاؤ۔ اور دیکھو کہ تمہاری کتنی قدر و منزلت ہوتی ہے۔ یہ خبریں یقیناً خواجہ صاحب تک بھی پہنچتی ہی ہوں گی۔ اس بارے میں ان کا کیا رد عمل تھا کسی کو پتہ نہیں چلا کیوں کہ خواجہ صاحب ردعمل کے نہیں عمل کے آدمی تھے۔
خواجہ احمد عباس اپنے آپ کو "خورد" ظاہر کر کے کافی خوش ہوا کرتے تھے۔ فیض احمد فیض جب آخری مرتبہ بمبئی آئے تو ان کے ایک استقبالیہ میں خواجہ صاحب نے تقریر کی ( غالباً یہ فیض صاحب کی سترویں سالگرہ کا جلسہ تھا) تو صاحب محفل کی تعریف میں ایسے ایسے جملے کہے کہ فیض ایک نئی نویلی دلہن کی طرح شرما کر رہ گئے۔ مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا ایوارڈ بھی خواجہ صاحب نے فیض ہی کے ہاتھوں حاصل کیا تھا۔ اس کا ذکر بھی اس طرح کیا گویا نظام دکن کے ہاتھوں، دربار شاہی سیے کوئی فیض حاصل کیا ہو۔
ساحر لدھیانوی کے گھر پرسجاد ظہیر کی تعریف میں تقریر کی تو مرحوم سے کھانا نہیں کھایا گیا۔ انہوں نے انکساری اور عاجزی کے بیچ میں کوئی لکیر نہیں کھینچی۔ یہ ان کی خاص ہابی تھی۔ کرشن چندر کے تو وہ عاشق تھے۔ جشن کرشن چندر میں (وہی جشن کرشن چندر جس میں اندرا گاندھی نے کرشن جی کو شاعر کہا تھا) انہوں نے اپنے عشق کے اظہار میں کوئی تسمہ لگا نہیں رکھا۔ ان کی تقریر سن کر بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آیا ہے گانا یاد آ گیا۔
خواجہ صاحب کو اس بات کا احساس تھا کہ ان کی 'ہمہ جہتی' نے ان کا کوئی مخصوص امیج نہیں بننے دیا۔ فلمسازوں کی محفل میں انہیں ادیب کی حیثیت سے جانا جاتا تھا۔ صحافیوں کے یہاں وہ ایک اچھے ہدایت کار مشہور تھے اور ادیبوں نے انہیں ایک اعلی درجے کا جرنلسٹ مانا۔ اس کا وہ لطف بھی اٹھاتے تھے۔ لطف تو انہوں نے کھانے میں بھی بہت اٹھایا۔ دور دور سے آنے والے لوگ انہیں بہت دولت مند سمجھتے تھے ان کے گھر پر جاتے ، اپنی جیب کے کٹ جانے کی داستان نہایت درد انگیز انداز میں سناتے اور بمبئی سے کلکتہ جانے کا کرایہ طلب کرتے اور خواجہ صاحب خود کہیں سے قرض حاصل کر کے اس شخص کو کلکتہ بھیجتے۔۔
خواجہ صاحب کو بڑی دیر بعد معلوم ہوا کہ بمبئی میں جب کسی شخص کی جیب کٹ جاتی ہے (خواہ وہ مفروضہ ہی کیوں نہ ہو) تو پھر وہ شخص بمبئی ہی میں سکونت اختیار کر لیتا ہے۔ اس طرح خواجہ صاحب کی جیب کئی مرتبہ کٹی اور اس کا نتیجہ دوسروں کے حق میں اچھا نہیں نکلا۔ جس شخص کو خواجہ صاحب نے کلکتہ کا ٹکٹ منگوا کر دیا، وہ کبھی بمبئی سے باہر نہیں گیا۔ دس فیصد نقصان سے ٹکٹ فروخت کر کے ان کی نظروں کے سامنے گھومتا رہا۔
خواجہ صاحب نے کچھ دنوں کے لئے ایک کار بھی رکھی۔ لیکن اس میں ان کا وقت بھی بہت ضائع ہوا۔ کار میں انہیں گھومنا پڑتا تھا۔ خواہ مخواہ کار تو ہر صورت میں مہنگی ہی پڑی تھی۔ نہ گھومو تو بھی کھڑے کھڑے ہی مہنگی پڑے گی۔ خود تو چلا نہیں سکتے تھے۔ ایک ڈرائیور بھی رکھا تھا۔
ایک مرتبہ مجھے بھی اس کار میں سفر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مہاراشٹر اردو اکادمی کا کوئی جلسہ تھا۔ چکبست کی یاد میں۔ قیصر باغ بھی بھلا کوئی جلسہ کرنے کی جگہ ہے۔ یہاں پہنچنے کے لئے اتنی گلیوں سے ہو کر جانا پڑتا ہے کہ پوری جوانی گزر جائے۔ جلسے سے واپس ہوتے وقت انہوں نے اس پورے مجمع میں سے مجھے چنا۔ اور اپنے ساتھ چلنے کی ہدایت کی۔ ( کار موجود ہو تو ہدایت کاری پر آمنا و صدقنا کہنے کو جی چاہتا ہے ) گاڑی مختلف گلیوں سے لہراتی ہوئی بائیکلہ پہنچی ہی تھی کہ ان کے شوفر نے غلط "شاٹ" دے دیا۔ بمبئی میں ٹریفک کے قواعد و ضوابط ساعت بہ ساعت بدلتے رہتے ہیں۔ جس راستے سے آپ سات بجے گزرے ہوں اس راستے سے آٹھ بجے نہیں گزر سکتے۔ بمبئی میں گاڑیوں کے شوفر کی معلومات وسیع اور حافظہ قوی ہونا چاہئے۔ ٹریفک کے معاملات میں "ری ٹیک"بھی نہیں ہوا کرتا۔
گاڑی جوں ہی حدود ممنوعہ میں داخل ہوئی ایک کانسٹیبل فی الفور اسٹیج پر نمودار ہوا اور اس نے بڑے سخت مکالمے ادا کئے ( سرکاری مکالموں میں شاعری نہیں ہوا کرتی) پچاس روپے ادا کرنے پڑے۔ خواجہ صاحب نے زبان سے تو کچھ نہیں کہا لیکن ان کے انداز سے مجھے اندازہ ہو گیا کہ وہ اس واقعہ فاجعہ کا ذمہ دار مجھے قرا ر دے چکے۔ باندرہ تک کا سفر ایک عالم انقباض میں کٹا۔ یوں انہوں نے پوچھا ضرور کہ آج کل آپ کیا لکھ رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک ایسا جملۂ معترضہ تھا جس کے آگے پیچھے کچھ نہ تھا۔ غالباً اسی سفر کے بعد خواجہ صاحب اس بات کے قائل ہو گئے کہ بمبئی جیسے شہر میں کار رکھنا اپنے آپ کو از کار رفتہ بنالینا ہے۔ ٹیکسی مفید ہوتی ہے۔
"آج کل" میں راج نرائن راز نے "من کہ" کا سلسلہ شروع کیا تو خواجہ صاحب کے "منکہ" کے سلسلہ میں انہوں نے بڑی لجاجت سے لکھا کہ میں ان کا 'منکہ' کسی طرح بھی حاصل کر کے انہیں روانہ کروں۔ خواجہ صاحب ان دنوں ورجیشوری چلے گئے تھے۔ (ورجیشوری بسین کے قریب ایک مقام ہے جہاں گرم پانی کے چشمے ہیں) بس ہفتے میں ایک آدھ دن کے لئے بمبئی آتے تھے۔ یوں پیغام رسانی کا سلسلہ جاری تھا۔
میں دو مرتبہ ان کے گھر گیا۔ دونوں حملے ناکام ہوئے۔ لیکن میرا پیغام بہر حال ان تک پہنچا دیا گیا اور ورجیشوری سے ان کی واپسی پر ملاقات ہوئی۔ تو انہوں نے بتایا کہ اپنا منکہ انہوں نے بصیغہ راز ، راجدھانی کے پتے پر بھیج دیا تھا۔ (1986ء کے کسی شمارے میں یہ چھپ بھی گیا تھا) خواجہ صاحب میں یہ بات بڑی اچھی تھی کہ ان کے پاس ان کی ہر نمونے کی تصویر موجود رہتی تھی۔ (کتنے کیمرہ مین تو ان کے ارد گرد رہتے تھے) ورنہ ادیبوں ، شاعروں کی بالعموم ایک ہی تصویر گردش میں رہتی ہے اور تصویر کے ناظرین کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ شاعر کی عمر بڑھتی کیوں نہیں ہے۔خواجہ صاحب اس فیوڈل سسٹم کے بر خلاف اپنی تصویروں کے سلسلے میں ہمیشہ تازہ کلام پیش کرتے تھے۔ ( ان کے تازہ دم ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی تھا)
پچھلے کئی سالوں سے ان کے پیروں میں سکت نہیں رہی تھی ، گھر پر اپنے ملاقاتیوں سے کرسی پر بیٹھے بیٹھے ملتے، لیکن بتا دیتے کہ کھڑے ہوکر ملنے سے قاصر ہیں۔ مشرقی آداب کو سلیقے کے ساتھ برتنے کے وہ بے حد شوقین تھے۔ البتہ مجبوری کی بات اور تھی لیکن ہمت ان کی ٹوٹی نہیں تھی اس عالم میں بھی دور دور کا سفر کرتے۔ غالب ایوارڈ لینے دلی چلے گئے۔ اور ایوان غالب میں دو مددگاروں کے سہارے داخل ہو کر حضارِ محفل کو حیران کردیا۔ اسی محفل میں انعام پانے والوں کی طرف سے کچھ کہنے کے لئے انہیں دعوت سخن دی گئی تو آواز میں وہی کرارا پن تھا۔ پانی پت جنگوں کا میدان رہا ہے ، وہیں کی مٹی نے خواجہ صاحب کو نبرد آزمائی کا سبق اس وقت پڑھایا ہوگا جب وہ دیوار دبستاں پر کچھ لکیریں کھینچا کرتے ہوں گے۔
خواجہ صاحب نے لکھنے کو بہت کچھ لکھا حتی کہ اپنی وصیت بھی لکھ ڈالی۔ ان کی وصیت بھی حال کی تحریر تھی۔ بالکل تازہ کلام۔ یہ معلوم نہ ہو سکا کہ وصیت لکھنے کی بات ان کے ذہن میں ابھی ابھی آئی تھی یا وہ نئی نئی وصیتیں لکھنے کے عادی تھے۔ غالب نے بھی تو اپنی تاریخ وفات دو تین مرتبہ کہی تھی۔ اور سب جانتے ہیں کہ خواجہ احمد عباس حالی کے رشتے اور واسطے سے غالب کے کس قدر قریب تھے۔
ماخوذ از رسالہ: دریافت (کتابی سلسلہ)، خواجہ احمد عباس نمبر - مارچ:1989
مرتبین: وزیری پانی پتی، مخدوم منور۔ ناشر: ادبی معیار پبلی کیشنز کراچی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں