حقائق کی بازیافت تحقیق کا مقصد ہے۔ اس کو یوں بھی کہا گیا ہے کہ:
"تحقیق کسی امر کو اس کی اصلی شکل میں دیکھنے کی کوشش ہے" (قاضی عبدالودود)
اس کے لئے یہ ماننا ہوگا کہ حقیقتِ واقعہ( یا اصلی شکل) بہ ذات خود موجود ہوتی ہے ، خواہ معلوم نہ ہو۔ اسی بنا پر یہ بات بھی ماننا ہوگی کہ ایسی رائیں جو تاویل اور تعبیر پر مبنی ہوں ، واقعات کی مرادف نہیں ہوسکتیں؛ کیوں کہ وہ فی نفسہ کسی امر کی اصلی شکل نہیں ہوتیں۔ تعبیرات پر حقائق کا اطلاق نہیں کیاجاسکتا ، یہی صورت قیاسات کی ہے۔
کسی امر کی اصلی شکل کا تعین اس وقت ہوگا جب اس کا علم ہو۔ یہ صحیح ہے کہ کسی چیز کا معلوم نہ ہونا، اس کے نہ ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتا؛ لیکن ادبی تحقیق میں کسی امر کا وجود بہ طور واقعہ اسی صورت میں متعین ہوگا جب اصولِ تحقیق کے مطابق اس کے متعلق معلومات حاصل ہو۔
واقعے کا چھوٹا یا بڑا ہونا یا اہم اور غیر اہم ہونا ادبی تحقیق میں کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتا۔ یہ صفاتی الفاظ صرف اس صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس میں اس واقعے سے کام لیاجارہا ہے۔ جو بات ایک جگہ کم اہمیت رکھتی ہے، بہ خوبی ممکن ہے کہ دوسری جگہ زیادہ اہمیت رکھتی ہو۔ تحقیق میں ہر واقعہ بجائے خود ایک حیثیت رکھتا ہے اور اس کے متعلق ضروری معلومات حاصل کی جانا چاہئے۔ اس معلومات سے کہاں، کس طرح اور کس قدر کام لیاجائے ؛ یہ دوسری بات ہے اور اس کا تعلق ترتیب واقعات کے تقاضوں سے ہوگا۔ اس بات کو ایک اور طرح بھی کہا جا سکتا ہے:
شاعرانہ مرتبے کے لحاظ سیے سب شاعر یکساں حیثیت نہیں رکھتے مثلاً آبرو، اور ناجی بہ حیثیت غزل گو میرودرد کے ہم پلہ نہیں اور یہ بات اپنی جگہ پر بالکل درست ہے ؛ لیکن تاریخی ادوار کے لحاظ سے اپنے دور میں ان کی اہمیت ہے اور ارتقائے زبان کی بحث، قواعد زبان و بیان اور ترتیب لغت کے نقطہ نظر سے آج ان شعرا کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ آبرو اور ناجی تو خیر اس دور کے معروف شاعر تھے ، ان سے کچھ کم درجہ شعرا کے دو اوین بھی آج لسانی مباحث کے لئے بڑی حیثیت رکھتے ہیں۔
کسی امر کی اصلی شکل کی دریافت اس لئے ضروری ہوتی ہے کہ صحیح صورت حال معلوم ہوسکے۔ اس سلسلے میں جو شہادتیں مہیا کی جائیں اور جو معلومات حاصل کی جائے۔ وہ ایسی ہونا چاہئے کہ استدلال کے کام آسکے ، تاکہ واقعات کی ترتیب میں صحیح طور پر اس سے مدد ملے اور حدود تحقیق کے اندر نتائج نکالے جاسکیں۔ اس لئے یہ لازم ہوگا کہ جن امور پر استدلال کی بنیاد رکھی جائے ، وہ اس وقت تک کی معلومات کے مطابق ، بہ ظاہر حالات شک سے بری ہوں اور جن ماخذ سے کام لیا جائے ، وہ قابل اعتماد ہوں۔ غیر متعین، مشکوک اور قیاس پر مبنی خیالات کا مصرف جو بھی ہو؛ ان کی بنیاد پر تحقیق کے نقطہ نظر سے قابل قبول نتائج نہیں نکالے جاسکتے۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت ہو سکے گی:
یہ بات سچ ہے کہ امیر خسرو نے"ہندوی" میں بھی شعر کہے ہیں، اس سلسلے میں ان کا اپنا بیان موجود ہے ؛ لیک یہ نہیں معلوم کہ وہ شعری سرمایہ کہاں ہے۔خسرو کی جو مستند تصانیف ہمارے پاس ہیں، ان میں یہ"ہندوی کلام" موجود نہیں۔ معاصر تصانیف بھی ایسے کلام سے خالی ہیں۔ اب صوررت حال یہ ہے کہ بہت سا کلام ان سے منسوب کیاجاتا ہے (دوہے، پہلیاں، کہہ مکرنیاں وغیرہ) مگر آجج تک کسی شخص نے ایسی کوئی سند نہیں پیش کی ہے جس کی بنا پر اس کلام کا انتساب صحیح ماناجاسکے۔ جو حوالے دئئے گئے ہیں، وہ اس قدر موخر ہیں کہ معتبر ماخذ بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
سب سے قدیم حوالہ ایک دُو ہے کے سلسلے میں سب رس کا پیش کیاجاتا ہے، جو معروف دکنی تصنیف ہے۔ دیگر بحث طلب امور کے علاوہ بڑی بات یہ ہے کہ اس کتاب کی تصنیف اور امیر خسرو کے عہد میں کم و بیش تین سو سال کا زمانی فصل ہے اور درمیان کی کڑیاں غائب ہیں۔ میر کے تذکرے نکات الشعرا میں ایک قطعہ خسرو سے منسوب کیاگیا ہے۔ یہاں بھی وہی صورت ہے کہ سیکڑوں برس پر مشتمل زمانی فصل موجود ہے۔میر نے اپنے ماخذ کا حوالہ دیا نہیں اور خودان کا تذکرہ خسرو کے سلسلے میں واحدماخذ بننے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ محمد حسین آزاد نے مقدمہ آب حیات میں متعدد پہیلیاں وغیرہ خسرو سے منسوب کی ہیں اور حسب معمول حوالہ نہیں دیا، یہاں بھی وہی صورت ہے۔
غرض یہ کہ امیر خسرو کا ہندوی میں شعر کہنا مسلّم، مگر یہ نہیں کہاجاسکتا کہ وہ ذخیرہ کہاں ہے ، اس کا کچھ حاصل معلوم نہیں۔ یہ اب تک کی معلومات کا حاصل ہے۔ جب تک اس سلسلے میں نئی معلومات حاصل نہ ہو ، اس وقت تک یہی صورت حال برقرار رہے گی۔ اگر کوئی شخص نئے قابل قبول شواہد کے بغیر، روایت کے طور پر ، خسرو سے منسوب ہندوی کلام کو پیش کرتا ہے تو اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔
تحقیق ایک مسلسل عمل ہے۔ نئے واقعات کا علم ہوتا رہے گا، کیوں کہ ذرائع مولومات میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ یہ نہیں کہاجاسکتا کہ کون سی حقیقت کتنے پردوں میں چھپی ہوئی ہے۔ اکثر صورتوں میں ہوتا یہ ہے کہ حجابات بالتدریج اٹھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحقیق میں اصلیت کا تعین اس وقت تک حاصل شدہ معلومات پر مبنی ہوتا ہے۔
یہ واضح ہو جانا چاہئے کہ اس سے نئی معلومات کے امکانات کی نفی نہیں ہوسکتی، لیکن یہ بات بھی اسی قدر وضاحت کے ساتھ سمجھ لینا چاہئے کہ محض آئندہ کے امکان کی بنا پر، ان باتوں کو بہ طور واقعہہ نہیں مانا جاسکتا جو اس وقت تک محض قیاس آرائی کا کرشمہ ہوں۔ جب بھی ایسی نئی معلومات حاصل ہوگی جو اصول تحقیق کے مطابق قابل قبول ہو، تو اسے لازما قبول کرلیاجائے گا اور اس کے مطابق صورت حال کو تسلیم کر لیا جائے گا؛ خواہ وہ نئی معلومات پچھلے مسلمات کی تکذیب کرتی ہو یا ان کی مزید تصدیق کرتی ہویا اس کی مدد سے اضافے ممکن ہوں۔ دریات کا عمل اسی طرح جاری رہے گا اور رد و قبول کے احکام بھی اسی طرح کار فرما رہیں گے۔
تحقیق میں دعوے سند کے بغیر قابل قبول نہیں ہوتے اور سند کے لئے ضروری ہے کہ وہ قابل اعتماد ہو۔ قابل اعتماد ہونا ، مختلف حالات میں مختلف امو رپر منحصر ہوسکتا ہے۔ اس کی قطعی حد بندی تو مشکل ہے ، لیکن اس سلسلے میں بنیادی بات یہ ہے کہ بہ ظاہر حالات حوالہ مشکوک نہ معلوم ہوتا ہو اور دلیل منطق کے خلاف نہ ہو۔
روایت کے سلسلے میں اس کی بری اہمیت ہے کہ راوی کون ہے۔ اس کے ساتھ اکثر صورتوں میں یہ معلوم ہونا بھی ضروری ہوتا ہے کہ کن حالات میں روایت کی گئی تھی ، خاص طور پر ان بیانات کے سلسلے میں جو کوئی شخص اپنے متعلق یا اپنے متعلقین و اسلاف کے متعلق دیاکرتا ہے (کیوں کہ ایسی صورتوں میں دانستہ یا نادانستہ غلط بیانی کا احتمال بہت کچھ رہا کرتا ہے)۔
مرزا غالب نے ہندوستانی فارسی دانوں پر جس طرح اعتراضات کئے تھے ، اس کا رف عمل ہونا ہی تھا اور پھر خود ان کے ہندوستانی ہونے اور بے استاد ہونے کی بحث بھی اٹھنا ہی تھی۔ جب انہوں نے ایک "جلیل القدر امیر زادہ ایران" ہرمزد ثم عبد الصمد کے ہندوستان آنے اور ان کا مہمان بننے اور پھر ان کو فارسی کے اسرار و رموز سکھانے کا دعوی کیا تو قدرتی طور پر یہ خیال پیدا ہونا چاہئے تھا کہ یہ اچانک انکشاف کہیں "بے مرشدے ہونے" کے اس اعتراض کا جواب تو نہیں! تحقیق کی نگاہیں آج تک اس "جلیل القدر امیر زادہ ایران" سے آشنا نہیں ہو سکی ہیں (1) اور بہ ظاہر سارے حالات اس پر دلالت کرتے ہیں کہ عبدالصمد غالب کا مخلوقِ ذہنی تھا ، اس مشہور قول کے مطابق کہ: ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے۔
(1)
قاضی عبدالودود صاحب نے اپنے مضمون "غالب کا ایک فرضی استاد" (علی گڑھ میگزین غالب نمبر) میں اس پر مفصل بحث کی ہے۔ مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے بھی ایک مضمون میں، جو غالباً فاران (کراچی) کی کسی اشاعت میں شائع ہوا تھا، یہی خیال ظاہر کیا ہے۔ مکاتیبِ غالب کے ایک حاشیے میں بھی یہی لکھا ہے (طبع ششم، ص:274)۔ اس سلسلے میں مولانا حالی کا یہ قول بھی قابل توجہ ہے: "اگرچہ کبھی کبھی مرزا کی زبان سے یہ بھی سنا گیا ہے کہ 'مجھ کو مبدی فیاض کے سوا کسی سے تلمذ نہیں ہے اور عبدالصمد محض ایک فرضی نام ہے۔ چونکہ لوگ مجھ کو بےاستادا کہتے تھے، ان کا منہ بند کرنے کو میں نے ایک فرضی استاد گڑھ لیا ہے۔ (بحوالہ: یادگارِ غالب، طبع اول، ص:14)۔
یہ عین ممکن ہے کہ اچھے خاصے محتاط آدمی کو کسی خاص موضوع سے ایسا جذباتی تعلق ہو کہ وہ اس موضوع کی حد تک احتیاط کے تقاضوںں کو پوری طرح ملحوظ نہ رکھ سکے۔ مثلاً پروفیسر مسعود حسن رضوی (مرحوم) احتیاط کے قائل تھے، محنت اور لگن کے ساتھ کام کیا کرتے تھے ؛ اس کے باوجود محمد حسین آزاد اور واجد علی شاہ کا ذکر آتے ہی وہ بہت جذباتی ہوجایا کرتے تھے۔ ان دونوں کے سلسلے میں ان کی تحریروں کا بھی یہی احوال ہے۔ دیوان فائز کی ترتیب اور فائز کے حالات کی تحقیق میں انہوں نے جس احتیاط پسندی سے کام لیا ہے، ( یہ بات اشاعت ثانی کو پیش نظر رکھ کر لکھی جا رہی ہے) آزاد اور واجد علی شاہ کے سلسلے میں اس طریق کار اور اس انداز نظر سے وہ کام نہیں لے سکے ہیں۔ اور میری رائے میں اس کی اصل وجہ جذباتی تعلق خاطر ہے۔ ان دونوں موضوعات کے سلسلے میں اگر مرحوم کی تحریروں سے استفادہ کیاجائے تو اس پہلو کو خاص طور پر پیش نظر رہنا چاہئے۔
راوی کی شخصیت بہت اہمیت رکھتی ہے۔ جن لوگوں کے متعلق معلوم ہے کہ وہ واقعہ تراشی اور داستان سرائی سے بھی بلا تکلف کام لیاکرتے تھے ، یا کوئی صاحب اس قدر خوش گمان اور زود یقین ہیں کہ تحقیق کی مشکل پسندی کے حریف نہیں ہوسکتے ؛ تو ایسے مولفین اور راویوں کے فرمودات اور مختارات کو اس وقت تک بنائے استدلال نہیں بنایاجانا چاہئے جب تک کہ کسی معتبر ذریعے سے تصدیق نہ ہوجائے (اس کی مفصل بحث "غیر معتبر حوالے" اور تبصرہ "تاریخ ادب اردو" میں ملے گی۔)
بالواسطہ روایت پر انحصار اگر ضروری ہو تو بہت احتیاط کے ساتھ استفادہ کرنا چاہئے۔ اگر ماخذ قابل حصول ہو تو بہ راہ راست استفادہ کرنا چاہئے اور اس کو لازم سمجھنا چاہئے۔ بالواسطہ استفادے سے آدمی بعض اوقات بے طرح مبتلائے غلط فہمی ہوجایا کرتا ہے۔ ایک مثال سے اس کی وضاحت ہو سکے گی:
یہ بات کہی گئی تھی کہ حیدرآباد کی آصفیہ لائبریری میں مطبوعہ دیوانِ غالب کا ایک ایسا نسخہ محفوظ ہے جس کی اغلاط کی تصحیح غالب نے اپنے قلم سے کی تھی۔ مالک رام صاحب نے جب دیوان غالب مرتب کرنا چاہا تو بجائے اس کے کہ کود اس نسخے کو دیکھتے اور فیصلہ کرتے کیوں کہ اس سے بہ راہ راست اور بہ آسانی استفادہ کیاجاسکتا تھا یہ کیا کہ نصیر الدین ہاشمی مرحوم کو خط لکھا کہ:
"یہ دیوان غالب اس لئے بھیج رہا ہوں کہ آپ کے وہاں جو نسخہ۔۔۔ ہے اور جس پر خود غالب کے ہاتھ کی تصحیحات ہیں۔۔ اسے دیکھ کر تمام اختلافات اس پر درج فرما دیں " لیکن صورت حال یہ ہے کہ آصفیہ لائبریری میں وہ نسخہ موجود نہیں۔ بالواسطہ اطلاعات پر بھروسا کیا گیا اور غلط فہمی کا بہت زیادہ سر و ساماں فراہم ہو گیا۔ (مفصل بحث تبصرۂ "دیوان غالب صدی ایڈیشن" میں ملے گی۔)
یہ لکھا جا چکا ہے کہ تعبیرات کو واقعات نہیں کہا جا سکتا اور تحقیق کا مقصود حقائق کی دریافت ہے ؛ اس لئے ایسے موضوعات جن میں تنقیدی تعبیرات کا عمل دخل ہو، تحقیق کے دائرے میں نہیں آتے۔ تنقیدی صداقت، تنقیدی تعبیرات کا نتیجہ ہوا کرتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ایک ہی مسئلے پر مختلف لوگ مختلف رائیں رکھتے ہیں، جب کہ تحقیق میں اختلاف رائے کی اس طرح گنجائش نہیں ، اس زمانے میں یہ رجحان فروغ پارہا ہے کہ تحقیقی مقالوں کے لئے ایسے موضوعات منتخب کئے جائیں جو اصلاً تنقید کے دائرے میں آتے ہیں۔یہ تحقیق اور تنقید دونوں کی حق تلفی ہے۔
تنقید کے مقابلے میں تحقیق کا دائرہ کار محدود ہوتا ہے۔ تحقیق ، بنیادی حقائق کا تعین کرے گی اور ان کی مدد سے ایسے نتائج نکالے جاسکیں گے جن میں شک یا قیاس یا تاویل یا ذاتی رائئے کا عمل دخل نہ ہو۔ اخذ نتائج میں جہاں سے تعبیرات کی کار فرمائی شروع ہوگی اور ان پر مبنی اظہار رائے کا پھیلاؤ شروع ہوگا، وہاں تحقیق کی کارفرمائی ختم ہو جائے گی۔
زندہ لوگوں کو موضوع تحقیق بنان بھی غیر مناسب ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ مختلف اثرات کے تحت حقائق کا صحیح طور پر علم نہیں ہو پائے گا۔ ذاتی اثرات، غیر معتبر روایتیں ، گروہ بندی اور مذہبی یا سیاسی وابستگیوں کی پیدا کی ہوئی مصنوعی عقیدت ، یہ ایسے عوامل ہیں کہ ان کا پھیلایا ہوا غبار زندگی میں ابہام کا دھندلکا پھیلائے رکھتا ہے۔ بالفرض سب کچھ معلوم ہوجائے تب بھی ہندوستان کے موجودہ معاشرتی حالات میں بظاہر اس کی گنجائش نظر نہیں آتی کہ ان سب حقائق اور ان کی تفصیلات کو بے کم و کاست پیش بھی کیاجاسکے گا۔ اس کے سوا، زندگی مجموعی طور پر ایک اکائی ہے اور یہ عمل و رد عمل کا طویل اور پیچیدہ سلسلہ ہے جو زندگی میں کسی ایک جگہ ختم نہیں ہوتا۔
آدمی جب تک زندہ رہے گا ، اس کا امکان ہے کہ وہ فکر و عمل کی تبدیلیوں سے دوچار ہوتا رہے اور ایسی تبدیلیوں کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا۔ اسی لئے زندہ آدمی کے اعمال و افکار کا مکمل تجزیہ ممکن نہیں اور مکمل تجزیے کے بغیر کسی شخص کے ساتھ انصاف کیا ہی نہیں جا سکتا۔
زندہ آدمی کی شخصیت نقاب پوش رہتی ہے، خاص طور پر اس صورت میں کہ اس کو زندگی کے کسی شعبے میں خاص حیثیت حاصل ہو۔ موت آکر سارے رکھ رکھاؤ کا خاتمہ کردیاکرتی ہے ، اس کے باوجودحقائق کو پوری طرح بے نقاب ہونے کے لئے موت کے بعد بھی اچھا خاصا وقفہ درکار ہوتا ہے۔ اس حقیقت کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے اور مناسب یہی ہوگا کہ مرحومین کے سلسلے مٰں بھی ایک خاص وقفے سے پہلے اس طرف توجہ نہ کی جائے۔ ایک بات اور ؛ اب تک یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جن زندہ لوگوں کو موضوع تحقیق بنایا گیا تو اس انتخاب میں دنیا داری کی کسی مصلحت کو ضرور دخل تھا۔ بہ ظاہر حالات خیال یہ ہے کہ آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا، عملی طور پر یہ بھی ایک انداز ستائش گری ہے (مستثنیات اگر ہیں تو ان سے بحث نہیں۔)
حافظہ جس طرح مدد کیا کرتا ہے ، اسی طرح دھوکا بھی دیا کرتا ہے۔ بارہا یہ ہوا ہے کہ یادداشت پر بھروسا کیا گیا اور کتاب دیکھنے پر معلوم ہوا کہ صورت حال مختلف تھی۔ حافظے سے مدد لینا چاہئے۔ آنکھیں بند کر کے اس پر اعتماد نہیں کررنا چاہئے اور کتاب دیکھے بغیر کسی بھی بات کا حوالہ تحریر نہیں کرنا چاہئے۔ قاضی عبدالودود صاحب نے آقائے پورداؤد کے حوالے سے لکھا ہے:
"قزوینی نے مرزبان نامہ کی ترتییب و تصحیح میں بڑی احتیاط سے کام لیا تھا، لیکن ان کا مرتبہ نسخہ ایران پہنچا تو بہت سی غلطیاں نکالی گئیں۔ قزوینی کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے عہد کیا کہ سورہ اخلاص کی آیت بھی آئندہ نقل کرنی ہوگی تو دیکھ لوں گا کہ قرآن میں کس طرح ہے۔۔ ظاہرا سب یا بیشتر اغلاط کا ذمے دار ان کا حافظہ تھا۔انہوں نے اس پر اعتماد کیا اور اس نے دھوکا دیا۔"
(آج کل، اردو تحقیق نمبر 1967ء)۔
تحقیق کی زبان کو امکان کی حد تک آرائش اور مبالغے سے پاک ہونا چاہئے اور صفاتی الفاظ کے استعمال میں بہت زیادہ احتیاط کرنا چاہئے۔ اردو میں تنقید جس طرح انشا پردازی کا آرائش کدہ بن کر رہ گئی ہے ، وہ عبرت حاصل کرنے کے لئے کافی ہے اور تحقیق کو اس حادثے کا نشانہ نہیں بننے دینا چاہئے۔
قاضی عبدالودود صاحب نے لکھا ہے:
"محقق کو خطابت سے احتراز واجب ہے اور استعارہ و تشبیہ کا استعمال صرف توضیح کے لئے کرنا چاہئے۔۔ تنققض و تضاد اور ضعف استدلال سے بچنا چاہئے۔۔ شبلی کی جو کتاب عالمگیر پر ہے اس کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے :
'فلسفہ تاریخ کا ایک راز ہے کہ جو بات جتنی مشہور ہوتی ہے، اتنی ہی غلط ہوتی ہے۔'
یہ صریحاً غلط ہے اور شبلی یہ کہنا چاہتے ہوں گے کہ شہرت صحت کی ضامن نہیں۔"
(آج کل، اردو تحقیق نمبر 1967ء)۔
مصنف: رشید حسن خاں۔ ناشر: اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ۔ سن اشاعت: 1990ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں