کہنے اور دیکھنے کے لئے آج بچوں کے ساتھ بہت زیادہ دلچسپی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ ایک طرف بچوں کی نفسیات پر ایک پورا علم و فن مرتب ہو گیا ہے ، دوسری طرف اعداد و شمار فراہم کرکے واضح کیا جا رہا ہے کہ اب بھی مختلف ملکوں اور قوموں میں بچوں کے ساتھ بڑا ظلم کیا جا رہا ہے، لہذا ان کے ساتھ انصاف اور محبت کرنے کی سخت ضرورت ہے۔
لیکن دنیا کے دانشور اور رہ نما اس سنگین ، خطرناک اور تباہ کن حقیقت پر کم ہی غور کر رہے ہیں کہ جدید انسانی سماج میں خاندانی نظام درہم برہم ہو رہا ہے اور آج کی دنیا کا جو ملک جتنا زیادہ ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے اس کا خاندانی نظام اتنا ہی برہم ہے۔ یہاں تک کہ یورپ اور امریکہ میں اب خاندان کا مطلب ایک مرد اور ایک عورت کے عارضی اشتراک اور یک جا قیام کے سوا کچھ نہیں رہ گیا۔
چنانچہ اس فضا میں خاندانی سطح پر نئی نسل نام کی کوئی چیز نہیں ہے، بس بچپن کے چند برسوں تک ماں باپ بچوں کی سرپرستی کرتے ہیں، اس کے بعد انہیں آزاد چھوڑ دیتے ہیں کہ جو جی چاہے کریں اور جیسے چاہیں زندگی گزاریں۔ پھر بچپن کے ابتدائی برسوں میں بھی والدین کی طرف سے بچوں کی کوئی نگرانی اور تربیت نہیں ہوتی، بے چارے بچے عام تعلیم گاہوں اور ان کے مدرسوں اور منتظموں کے حوالے کر دئے جاتے ہیں۔
(یہی بات جو امریکہ اور یورپ کے جمہوری کہلانے والے اور آزاد سمجھنے جانے والے سماجوں میں ہوتی ہے، ایک دوسرے انداز سے مشرقی یورپ کے اس خطے میں کی جاتی ہے جسے اشتراکی روس کہتے ہیں)۔
امریکہ اور مغربی یورپ میں والدین اپنی خوشی سے بچوں کو گھر سیے باہر نکال دیتے ہیں اور ان کی تعلیم و تربیت کا سارا بوجھ سماج کے بیرونی اداروں پر ڈال دیتے ہیں۔ جب کہ روس میں حکومت نے ایسا معاشرتی نظام قائم کر رکھا ہے کہ جبراً بچے اپنے والدین کی گود سے چھین کر پرورش گاہوں میں ، جو بالکل سرکاری اہتمام میں چلائی جاتی ہیں، داخل کر دئیے جاتے ہیں، اور حکومت کی منصوبہ بند کوشش یہی ہوتی ہے کہ نئی نسل اپنے خاندان کی بجائے ریاست کی وفادار ہو، وہ بھی ریاست کو چلانے والی حکومت اور اس کے سر براہوں کی، اور ریاست و حکومت کی وفاداری ہی کو سماج کی وفاداری بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ اشتراکیت میں ریاست سے الگ نہ تو خاندان اور فرد کا کوئی مستقل تصور ہے اور نہ سماج کا۔
بہرحال، اشتراکی روس کا ایک اور اقدام نہ صرف یورپ اور امریکہ بلکہ ایشیا اور افریقہ میں بھی پچھلی نصف صدی میں ایسا نمونۂ عمل بن گیا ہے جس کی تقلید آج پوری دنیا میں کی جا رہی ہے۔ اشتراکیت میں منصوبہ بندی اور اس مقصد کے لئے ضابطہ بندی کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ روس میں 1917ء کے اشتراکی انقلاب کے بعد معاشی منصوبہ بندی شروع ہوئی، جس کے بعد زندگی کے ہر دائرے میں منصوبہ بندی کی لہر اتنی بڑھی کہ بالآخر خاندانی منصوبہ بندی تک نوبت آ گئی ، تاکہ انسانی نسل کی پیدائش اور افزائش کو قابو میں رکھا جائے اور سماج میں بچوں کی تعداد ایک خاص حد سے آگے نہیں بڑھے۔
اس منصوبہ بندی کا معاشی پہلو جو بھی ، اس نے معیار رہائش اور معاشی فلاح کے نام پر خاندانی نظام کو طرح طرح کی الجھنوں میں ڈال دیا، جن کا سب سے تشویش انگیز نتیجہ یہ رونما ہوا ہے کہ اب بچے گویا سماج اور خاندان پر ایک بوجھ ہیں جسے کسی طرح اٹھانا ہے۔ اس طرح سماج میں بچوں کا مقام بالکل پست ہو گیا اور وہ مستقبل کی امید کی بجائے ناخواندہ مہمان بن گئے۔ اب والدین کی محبت اور بچوں کی شفقت بھی، جو دنیائے انسانیت کی سب سے فطری چیز اور تہذیب کی سب سے بنیادی قدر ہے، راشن کی طرح کنٹرول سے تقسیم ہو رہی ہے۔
ان حالات میں وقت کا سب سے اہم سوال یہی ہے کہ بچوں کی صحیح تعلیم گاہ کہاں ہے؟ بلاشبہ مدرسے، مکتب اور اسکول ، کنڈرگارٹن اور پاٹھ شالے بچوں کی تعلیم کے لئے کھلے ہوئے ہیں اور اکثر و بیشتر بچے انہی تعلیم گاہوں میں پڑھتے اور سبق لیتے ہیں۔
ان اداروں میں بعض اقامتی ہیں، جن میں کچھ علاقائی اور صوبائی پیمانے کے ہیں اور کچھ قومی پیمانے کے ہیں، جن میں کچھ علاقائی اور صوبائی پیمانے کے ہیں اور کچھ قومی پیمانے کے۔ ان اقامتی اداروں کو زیادہ تر تبلیغی انجمنیں اور جماعتتیں چلاتی ہیں اور ظاہر ہے کہ ان کے نصاب تعلیم و تربیت میں ان کے خیالات کی تبلیغ کے پہلو پائے جاتے ہیں۔
یہ سب تعلیم گاہیں ، خواہ مقامی ہوں یا اقامتی بچوں کو صرف تعلیم دے سکتی ہیں، گرچہ اقامتی درس گاہوں کا دعوی اور نصب العین تعلیم کے ساتھ تربیت بھی ہے اور وہ سرپرستوں سے ان کی اولاد کو اسی وعدے پر لیتی ہیں کہ والدین کا رول بھی یہ درس گاہیں ہی ادا کریں گی۔ لیکن فی الواقع بچوں کی تعلیم گاہیں مقامی ہوں یا اقامتی ، درسیات سے آگے بڑھ ہی نہیں سکتیں، بس ایک مقررہ نصاب کی تکمیل ہی ان کا کام ہو سکتا ہے۔ یہ کام مقامی درس گاہوں میں سبق کے مقررہ اوقات میں ہوتا ہے اور اقامتی درس گاہوں میں بھی بچوں کا قیام کتنا ہی ہمہ وقتی ہو ان کے لئے سبق کے سوا کیا رکھا ہے؟ معلمین یا خدمت گار ان کی ضروریات کا کتنا ہی خیال رکھیں اور سبق کے علاوہ ان کے لئے کھیل کود وغیرہ کی تفریحات کا کتنا ہی سامان کریں، وہ طبعی توجہ بچوں کو نہیں دے سکتے جس کی توقع بچے بڑوں سے کرتے ہیں۔
یہ معاملہ جبلت کا ہے جو چاہے قدریں تخلیق نہیں کر سکے مگر قدروں کا احترام وہی سکھاتی ہے۔ جیسے انسان کے جسم کی ضروریات ہیں ویسے ہی اس کے نفس کے تقاضے ہیں۔ چنانچہ جس طرح بچوں کے نفسیاتی تقاضوں کی تسکین کا سامان ہوگا اسی طرح ان کی عادتیں بنیں گی، اور ان تقاضوں میں سب سے اہم محبتِ مادری اور شفقتِ پدری کے حصول کی خواہش ہے ، اور یہی خواہش درحقیقت بچوں کو بہنوں ، بھائیوں اور دوسرے اعزا کی طرف بھی مائل کرتی ہے۔
بچے کی شخصیت کا ننھا سا پودا والدین کی محبت و شفقت کی آب و ہوا اور روشنی چاہتا ہے اور جو کوئی بھی ایک بچے کا اعتماد حاصل کرنا چاہتا ہو اس کے لئے ضروری ہے کہ اسی محبت و شفقت کی سوغات بچے کو دے۔ یتیموں کی پرورش بھی فطری اور مکمل طور پر اسی وقت ہو سکتی ہے جب انہیں یہ سوغات دی جائے۔ بچے اور سیانے کے درمیان ایک غیر محسوس رشتہ بھی ہے جسے ذہنی یا روحانی یا قلبی لگاؤ کہا جا سکتا ہے ، اور اس رشتے اور لگاؤ کا حق والدین کی یا ان کی جیسی توجہ سے ہی ادا ہو سکتا ہے۔
ظاہر ہے کہ یہ ایک خصوصی و انفرادی توجہ ہے جو بچوں کو ایک محدود و مخصوص ماحول ہی میں مل سکتی ہے۔ اس توجہ کی تقسیم عمومی اور وسیع پیمانے پر ہو ہی نہیں سکتی۔ ایک عام قسم کے ماحول میں جسے خاندان سے ہٹ کر کوئی ادارہ قائم کرنا چاہے، اگر ایک ایک بچے پر کئی کئی خدمت گار اور معلم بھی مقرر ہو جائیں تو وہ ماحول نہیں پیدا کر سکتے جو ایک گھر کی محفوظ چار دیواری میں ہوتا ہے ، چھوٹے سے بچے کو بڑا ماحول راس نہیں آ سکتا۔ عمر اور قویٰ کے تقاضے سیے ایک محدود ماحول ہی اس کی صلاحیتوں کے نشو و نما کے لئے سازگار ہو سکتا ہے۔ تیراکی کی ابتدائی مشق تالاب یا چھوٹی ندی ہی میں ہوتی ہے ، ورنہ بڑے دریا یا کھلے سمندر میں اگر کسی اناڑی کو ہاتھ پاؤں مارنے کے لئے چھوڑ دیا جائے خواہ اس کے گرد و پیش ماہرین فن استادوں کا ہجوم ہی کیوں نہ ہو، تو وہ تمام ہی ہمدردوں اور مددگاروں کی نگاہوں کے سامنے ڈوب جائے گا۔
دور حاضر سے زیادہ اس حقیقت کو ثبوت کہاں ملے گا کہ جس نو نہال کو گھر پر، خاندان کے اندر، اس کے ماں باپ یا ویسے ہی سرپرستوں نے زندگی کے آداب نہیں سکھائے اور آدمیت کے سبق نہیں پڑھائے اسے نہ مدرسہ تعلیم و تربیت دے سکتا ہے ، نہ مکتب نہ اسکول، نہ کالج ، نہ یونیورسٹی نہ کنڈر گارٹن، نہ پاٹھ شالہ نہ کونونٹ نہ سینٹ زیویر!
آج کی تعلیم کا المیہ یہی ہے کہ بچوں کی تعلیم کو اداروں پر منحصر سمجھا جاتا ہے اور خاندان گویا اس تعلیم اطفال سیے بری الذمہ ہو گئے ہیں۔ بہت صاف بات ہے کہ والدین یا گھر کے سرپرست اگر نا اہل یا غافل ہیں تو معلمین اور خدام نہ تو بچوں کو صحیح طور پر تعلیم دے سکتے ہیں نہ مکمل طور پر ان کی تربیت کر سکتے ہیں۔
آج بڑی بڑی تعلیم گاہیں اسی لئے بانجھ ہو رہی ہیں کہ چھوٹے چھوٹے گھر بنجر ہو چکے ہیں، یا گھروں کا بانجھ پن تعلیم گاہوں کو بنجر بنا رہا ہے۔ بات ایک ہی ہے اس لئے کہ تعلیم بغیر تربیت کے نہیں ہو سکتی اور تربیت بغیر تعلیم کے بے کار ہے۔ جب کہ تعلیم کے بغیر تربیت کا کوئی مطلب نہیں اور تربیت بغیر تعلیم صرف جہالت پیدا کر سکتی ہے۔ اس طرح یہ روایتی تقسیم بھی صحیح نہیں کہ تعلیم ایک چیز ہے اور تربیت دوسری چیز ، اس لئے کہ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں، ایک غیر تربیت یافتہ بچہ تعلیم نہیں حاصل کر سکے گا اور ایک تعلیم یافتہ بچہ سب سے پہلے تربیت یافتہ ہوگا۔
اگر ہم تعلیم و تربیت کو معلمین اور والدین ، درس گاہ اور خاندان کے درمیان تقسیم بھی کر دیں ، تو یہ درحقیقت ایک سالم جسم کے دو ٹکڑے ہوں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس چیز کو ہم گھر کی تربیت کہتے ہیں ، وہ تعلیم ہی کی ایک شکل اور بنیادی شکل ہے۔ ایک بچے کو اس کے قریبی اعزا ، جن کی گود میں وہ کھیلتا، جن کے ہاتھوں سے کھاتا اور جن کی انگلیاں پکڑ کر چلتا ہے، اپنی حرکات و سکنات سے تعلیم دیتے ہیں ، اسے بولنا، چلنا، کھانا ، پینا، پہننا، اوڑھنا سکھاتے ہیں۔
تعلیم زبان پر مبنی ہوتی ہے اور تعلیم کا ماحول صحیح قسم کی عادت سے پیدا ہوتا ہے ، زبان تو مادری کہی ہی جاتی ہے، عادت کو بھی پدری کہنا چاہئے۔ نسل اور ورثے کی خصوصیات تو لازمی طور پر اور پیدائش سے پہلے ہی ایک بچے کو مل جاتی ہیں، مگر ماحول کی خصوصیت سب سے پہلے خاندان میں اور اس کے بعد بھی، دوسرے اداروں میں، خاندان ہی کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ اس طرح بچے کی تعلیم کی نیو اس کے قریب ترین ماحول میں، ان لوگوں کے درمیان پڑتی ہے جو بالکل بے بسی کی حالت میں اس کی ساری ضروریات اور خواہشات پوری کرتے ہیں۔ چنانچہ جیسی نظر والدین، سرپرستوں، اور دیگر قریبی اعزا کے بچے پر ہوگی ویسا ہی سانچہ بچے کے شعور اور کردار کا بن جائے گا۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
(اقبال)
(ایک مشہور حدیث میں بھی روایت ہے :
"ہر بچہ پیدا تو ہوتا ہے اسلام کی فطرت پر مگر بعض وقت اس کے والدین اسے یہودی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔"
یعنی بچے کی فطرت جو بھی ہو، وہ کتنی ہی سلیم ہو، اسلام کی ہو، اس کے والدین اور سرپرست اپنی مخصوص نظر سے اس فطرت کو انحراف کا راستہ بھی دکھا سکتے ہیں اور کفر و شرک کی ٹیڑھی میڑھی راہوں پر بھی صراط مستقیم سے ہٹا کر لگا سکتے ہیں۔)
یہ حقائق واضح کرتے ہیں کہ بچوں کی واحد ، اصلی اور بنیادی تعلیم گاہ ان کا گھر اور خاندان ہے۔ جہاں ان کے معلم اول ان کے ماں باپ، سرپرست اور دیگر اعزہ ہوتے ہیں ، لہذا نئی نسلوں کی تعلیم و تربیت کا مسئلہ حل کرنے اور مستقبل کے سماج کو بہتر بنانے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ خاندانی نظام کو درست کیا جائے۔
زوجین جو والدین بننے والے ہیں اپنے حقوق اور فرائض کو ٹھیک ٹھیک سمجھیں، نسل انسانی کے متعلق اپنا نظریہ اور رویہ دونوں درست کریں اور معاشی ، سیاسی پہلوؤں کی بجائے معاشرتی ، اخلاقی اور انسانی پہلوؤں کو اصل حیات تصور کریں۔ منصوبہ بندی سے زیادہ انسانیت کی شیرازہ بندی پر توجہ دیں، معیار رہائش کی بجائے شخصی کردار کو زندگی کا نصب العین بنائیں۔ تب ہی یہ ممکن ہوگا کہ اپنے گھر کی یونیورسٹی سے فارغ شدہ اور سند یافتہ ایک بچہ باہر کی یونیورسٹی کے کورس سے بھی فارغ ہو کر وہاں کی سند حاصل کرے۔ پھر باہر کے کورس سے فراغت اور وہاں کی سند بھی اسی وقت کارآمد ، نتیجہ خیز اور مفید ہوگی جب گھر کی تعلیم سے فراغت ہو کر وہاں کی سند مل جائے۔
کوئی تعلیم گاہ ایسے بچے کو نیک چلنی اور لیاقت کا سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتی جسے یہ سرٹیفکیٹ پہلے اپنے گھر سے نہ مل چکا ہو۔ جس طرح ریاست اور معاشرے کا کوئی تصور خاندان کا بدل نہیں ہو سکتا ، اسی طرح تعلیم کا کوئی ادارہ گھر کی تعلیم کی جگہ نہیں لے سکتا۔
بچوں کا سال منانے والی اقوام متحدہ کو چاہئے کہ بچوں کی حقیقی فلاح کے لئے سب سے پہلے ٹوٹے ہوئے گھروں اور بکھرتے ہوئے خاندانوں کو بنانے اور جوڑنے کی کوشش کرے۔ اس لئے کہ آج کی دنیا کا غالب سماجی نظام خاندان کا شیرازہ بکھیر کر بچوں کے دلوں کو توڑ رہا ہے اور ان کی شخصیت کو اس درجہ پارہ پارہ کر رہا ہے کہ علم و ہنر کی بڑی سے بڑی ڈگری بھی انہیں ایک صالح انسان اور صحت مند فرد اور سفید پوش شخص بنانے سے قاصر ہے۔ بلکہ گھر کی فطری اور اخلاقی تعلیم کے بغیر ان کے علم میں ہونے والا ہر اضافہ انہیں اپنی دنیا اور سماج کے لیے زیادہ سے زیادہ خطرناک اور مہلک بنا رہا ہے۔ یہ ایک شدید عدم توازن ہے جس میں علم عقل سے دور ہوتا جا رہا ہے۔
برٹرنڈرسل نے اس عدم توازن کو دور کرنے کے لیے اخلاقیات کو نصاب تعلیم کا جز بنانے پر زور دیا تھا۔ لیکن اخلاقیات کے لیے دینیات شرط ہے اور دینیات کو گھر سے شروع ہو کر تعلیم گاہ تک پہنچنا چاہیے ورنہ محض درسگاہوں میں دینیات کا پورا شعبہ بھی بیکار ثابت ہوگا۔
ماخوذ از رسالہ: 'زبان و ادب' (بہار اردو اکادمی کا ماہنامہ)، شمارہ: نومبر-دسمبر-1979 (سال اطفال نمبر)
ایڈیٹر: شین مظفر پوری۔ ناشر: دفتر بہار اردو اکادمی، پٹنہ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں