باپ - نارویجن افسانہ از بیورن اسٹینے بیورنسن - اردو ترجمہ ہرچرن چاولہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-12-22

باپ - نارویجن افسانہ از بیورن اسٹینے بیورنسن - اردو ترجمہ ہرچرن چاولہ

the-father-norwegian-short-story-urdu-by-harcharan-chawla
غیرملکی نثری تخلیقات کے اردو تراجم کے طور پر عربی افسانہ "خزاں کی راتیں" کے بعد اب نارویجین افسانہ پیش خدمت ہے۔ اس کا ترجمہ ممتاز اردو ادیب ہرچرن چاؤلہ نے کیا ہے۔

افسانہ نگار کا مختصر تعارف:
بیورن سٹینے بیورنسن (BJORN STJENE BJORNSON) (1832-1910) ناروے کے عظیم شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار ہیزک ابسن کا ہم عصر اور برابر کا قلم کار تھا۔ بیورنسنن غیر معمولی مختلف قابلیتوں اور دلچسپیوں کا مالک تھا۔ جس نے بطور مصنف ، صحافی ، مقرر، مدبر ، تھیٹر ہدایت کار اور بیسیوں دوسرے کاموں کے ساتھ اپنے حیران کن اوصاف کی دولت ایک شاہ خرچ کی طرح بے دریغ لٹائی۔
اس کی تخلیقات زندگی کے دیرپا عناصر، قومی، سیاسی ، سماجی، ادبی، تعلیمی، زبان دانی اور تھیٹریکل مقاصد کی بہترین ترجمان ہیں۔ بطور شاعر وہ رفعت کی ان بلندیوں تک پہنچا جو ناروے کے کسی اور قلم کار کی رسائی سے باہر کی چیز ہیں۔ ڈرامہ نگار کے طور پر اس نے انیسویں صدی کے یورپیئن ڈرامہ میں کئی نئے اور نرالے انکشافات کی ابتداء کی۔ ناول نگاریی میں اس کی جامعیت کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ اس کی فتوحات لا انتہا اور غلطیاں ہولناک حد تک بڑی تھیں۔
پچھلی صدی کی چھٹی اور ساتویں دہائی کے اس کے چھوٹے چھوٹے بیانیہ افسانے، خاص طور پر نام نہاد، کسانوں کی کہانیاں، ناروے میں فن افسانہ کے ارتقاء میں بے مثال طور پر مشہور ہیں۔ بالخصوص کرداروں کی دھیمے لہجے میں بات چیت اور سادگی بھری کم سخنی جو کہ بیانیہ افسانہ کو جامع اور کسا کسایا رکھتی تھی، قابل قدر ہے۔
پریم چند کی طرح بیورنسن کی 'کسان کہانیاں'، ناروے کے فن افسانہ میں ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ بیورنسن کی یہ کہانی "باپ" پہلے پہل 1860ء میں شائع ہوئی تھی۔


وہ اس پَلی کا سب سے زیادہ پر اثر آدمی تھا، جس کے بارے میں یہ کہانی ہے۔
ایک دن وہ لمبا آدمی گہری سوچ میں ڈوبا پادری کی لائبریری میں کھڑا پادری سے کہہ رہا تھا:
"میرے ہاں لڑکا ہوا ہے ، میں اس کا نام رکھوانا چاہتا ہوں۔"
" اس کا نام کیا ہوگا؟" پادری نے پوچھا۔
"فِن۔ میرے باپ کے نام پر۔"
"اَدر گارڈ پیرنٹس؟" (GOD PARENTS)
"ان کا چناؤ کرلیا گیا ہے۔ وہ ہمارے گاؤں کے باعزت میاں بیوی ہیں جن کا تعلق میرے خاندان سے ہے۔"
"کچھ اور" پادری نے آنکھیں اٹھا کر اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
کسان کچھ دیر کھڑا رہا۔ "میں اپنے بیٹے کے نام رکھوانے کا دن اپنی مرضی سے رکھنا چاہتا ہوں۔" وہ بولا۔
"مطلب یہ کہ ہفتے میں کسی بھی دن۔"
"اگلے ہفتہ کے دن۔ بارہ بجے۔"
"کچھ اور۔۔۔۔" پادری نے پھر پوچھا۔
"نہیں۔" کسان نے اپنی ٹوپی ٹھیک کی جس سے لگا کہ وہ جانے والا ہے۔
پھر پادری بھی اٹھا۔
"بس۔ یہی کچھ !" یہ کہتے ہوئے وہ تھُوِرد کے پاس گیا۔ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتے ہوئے اور سیدھا اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولا۔ "خدا کرے یہ بچہ، تمہارے لئے خوش بختی لانے والا ہو۔"


ٹھیک سولہ سال بعد تھُورد پھر پادری کے کمرے میں آ کھڑا ہوا۔
"تھُورد۔ تم ٹھیک ویسے ہی صحت مند نظر آتے ہو۔" پادری بولا۔ اس نے تھُورد میں کوئی تبدیلی محسوس نہیں کی۔
"مجھے کسی بات کا فکر نہیں ہے۔" تھُورد نے جواب دیا۔
پادری خاموش رہا۔ کچھ دیر بعد بولا۔ "آج تم شام ادھر کیسے؟"
"میں اس لئے آیا ہوں کہ کل میرے لڑکے کا کنفرمیشن (CONFIRMATION) ہے۔"
"وہ ہونہار لڑکا ہے۔"
"میں پادری کو کچھ نہیں دینا چاہتا۔ جب تک مجھے یہ پتہ نہ چلے کہ رسم میں میرا لڑکا کس نمبر پر ہے۔"
"وہ پہلے نمبر پر ہے۔"
"مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی۔ لیجئے یہ دس ڈالر پادری کے لئے ہیں۔"
"اور کچھ۔۔۔؟" پادری نے پوچھا۔
"نہیں ، کچھ نہیں"۔ تھورد یہ کہہ کر چلا گیا۔


اور آٹھ سال گزر گئے۔ ایک بار پھر پادری کے کمرے میں ہل چل ہوئی۔ اس بار تھورد کے ساتھ بہت سے لوگ اور بھی تھے۔ پادری نے دیکھتے ہی اسے پہچان لیا۔ "آج تم بہت سے لوگوں کے ساتھ آئے ہو؟"
"میں اپنے بیٹے کی شادی کا اعلان کروانا چاہتا ہوں۔ اسے گڈ منڈ کی لڑکی کارین ستورلیدن سے شادی کرنی ہے۔ وہ بھی یہاں موجود ہے۔"
"وہ اس پَلی کی سب سے امیر لڑکی ہے۔" پادری نے کہا۔
"تمہارا کہنا ٹھیک ہے۔" کسان نے جواب دیا۔ اس نے ایک ہاتھ سے اپنے بال ٹھیک کئے۔ پادری کچھ پل سوچتا رہا۔ بولا نہیں۔ اس نے ناموں کو رجسٹر کرلیا۔ اور حاضرین کے دستخط کروا لئے، تھورد نے تین ڈالر میز پر دھر دئیے۔


"میں صرف ایک لوں گا۔"پادری نے کہا۔
"میں جانتا ہوں مگر یہ میرا اکلوتا بیٹا ہے۔ میں اس کی خاطر کچھ اچھائی کرنا چاہتا ہوں۔"
پادری نے ڈالر قبول کر لئے۔
"تھورد تم اپنے لڑکے کے لئے تیسری بار یہاں آئے ہو۔"
"یہ آخری ہے۔" تھورد بولا۔ اس نے اپنی ڈائری بند کرکے جیب میں رکھ لی اور پادری سے وداع لے کر چل پڑا۔ آہستہ آہستہ دوسرے لوگ بھی اس کے پیچھے ہو لئے۔ اس کے ٹھیک چودہ دن بعد ایک خوشگوار موسم کے دن باپ بیٹا دونوں کشتی پر سوار تورلیدن سے شادی کے سلسلے میں بات کرنے آ رہے تھے۔


"میری سیٹ ہل رہی ہے۔" کشتی میں بیٹھے بیٹھے بیٹے نے بتایا۔ یہ کہتے ہی سیٹ ٹھیک کرنے کو وہ کھڑا ہوا اور اسی وقت لکڑی کا وہ تختہ کھسکا جس پر وہ کھڑا تھا ، بے توازن ہو کر بانہیں پھیلائے وہ گر گیا۔ ایک چیخ بلند ہوئی اور وہ پانی میں جا پڑا۔


"چپوؤں کو پکڑو۔" باپ چلایا اور اس نے کھڑے ہوکر چپو نکالا۔ لڑکا کچھ میٹر تیرا اور پھر بھنور میں پھنس گیا۔
"ٹھہرو۔" باپ پھر چلایا اور چپو کو تیز چلانا شروع کر دیا۔ لڑکا پھر اپنی پیٹھ کے بل اوپر نیچے ہوا۔ اپنے باپ کی طرف دیکھا اور ڈوب گیا۔


تھورد کو یقین نہیں آیا۔ کشتی کو مضبوطی سے تھامے وہ اس جگہ کو گھورتا رہا۔ شاید اس کا لڑکا پھر سے اوپر آ جائے۔ وہاں کچھ بلبلے اٹھے آخر میں وہاں ایک بڑا سا بلبلہ پھٹا اور بس۔ جھیل پھر سے پرسکون اور شفاف ہو گئی۔


لوگوں نے دیکھا کہ باپ تین دن تین رات بنا کچھ کھائے پیئے یا پلک جھپکے اسی جگہ کشتی چلاتا رہا۔ جہاں اس کا بیٹا ڈوبا تھا۔ اس نے اس امید پر تلاش جاری رکھی کہ شاید اس کا بیٹا اوپر آ جائے۔ تیسرے دن کی صبح اس کا بیٹا مل گیا۔ بیٹے کو اٹھائے وہ پہاڑی پر گیا جہاں اس کا گھر تھا۔


اس کے تقریباً ڈیڑھ سال بعد پت جھڑ کی ایک شام کو پادری نے پھر اپنے دروازے پر کھٹ پھٹ سنی۔ کوئی بڑی احتیاط سے چٹخنی کھول رہا تھا۔ پادری نے دروازہ کھولاتو ایک لمبا ، کمزور ، جھکی ہوئی کمر والا آدمی داخل ہوا۔ پادری کو اسے پہچاننے میں دیر لگی۔ وہ تھورد ہی تھا۔


"تم۔ اتنی دیر سے؟" پادری نے پوچھا اور چپ چاپ سامنے کھڑا ہو گیا۔
"اوہ۔ ہاں دیر سے۔" تھورد بولا اور بیٹھ گیا۔ پادری بھی منتظر سا بیٹھ گیا۔ کافی دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر تھورد بولا کہ اس کے پاس کچھ ہے جو وہ غریبوں کے لئے دینا چاہتا ہے۔ پھر وہ کھڑا ہوا اور پیسے میز پر دھر دئیے۔ اور پھر بیٹھ گیا۔
پادری نے پیسے گنے اور کہا۔ " یہ تو بہت سی دولت ہے۔"
"یہ میرا آدھا فارم ہے جو میں نے آج ہی بیچا ہے۔"


پادری بہت دیر تک خاموش بیٹھا رہا۔ آخر آہستہ سے پوچھا:
"اب تم کیا کرو گے؟"
"اس سے کچھ اچھا۔"


وہ کچھ دیر بیٹھے رہے۔ تھورد زمین پر نظریں گاڑے اور پادری اپنی نظریں تھورد پر جمائے ہوئے ، پھر پادری نے آہستہ سے کہا کہ اب میں سوچتا ہوں کہ تمہارا بیٹا تمہارے لئے دردان بن گیا ہے۔"


"ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔ "
تھورد نے جواب دیا۔ یہ کہتے ہی اس نے اوپر دیکھا اور اندرونی کرب کے دو آنسو اس کے گالوں پر ڈھلک آئے۔


***
ماخوذ از کتاب: ناروے کے بہترین افسانے
مرتب و مترجم: ہرچرن چاولہ۔ طباعت: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی (سن اشاعت: 1989ء)
The Father. Norwegian short story (English)

The Father. Norwegian short story by: Bjornstjerne Bjornson. Urdu Translation: Harcharan Chawla

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں