خزاں کی راتیں - عربی افسانہ از سمیرہ خاشقجی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-12-15

خزاں کی راتیں - عربی افسانہ از سمیرہ خاشقجی

khazaan-ki-raatein-short-story-sameera-khaashqaji

دروازہ بند کر کے جب وہ گھر سے نکلی تو براحہ نے چین کا سانس لیا۔ ہر جمعہ کو اس کو شوہر کی طرف سے اجازت ہے کہ وہ جا کر دن بھر کلب میں تفریح اور آرام کرے۔ اس دن وہ اپنی دوستوں کے ساتھ مزے سے کچھ گھنٹے اس عورت کی طرح گزارتی ہے جسے گھر کے کام سے کوئی مطلب نہ ہو ، بچوں کی دیکھ بھال نہ کرنی ہو، شوہر کے مسائل نہ سننے ہوں۔ کیسی اکتا دینے والی اور بورنگ زندگی تھی، کیسی اکتا دینے والی باتیں اس کے شوہر کی ہوتی تھیں۔ ان سب سے اسے کچھ دیر چھٹکارا مل جائے اسی لئے اس کے شوہر سلیم نے اسے ایک دن بالکل بے فکر اور آزاد رہنے کی اجازت دے دی تھی۔ اس روز وہ دوپہر کے کھانے کے لئے بھی گھر نہیں آتا تھا، باہر ہی دوستوں کے ساتھ کھا لیتا تھا۔


سلیم کو کیا ہو گیا؟ وہ تو بہت دلچسپ اور خوش مزاج ہوا کرتا تھا۔ وہ اتنا بورنگ اور اتنا چڑچڑا کب سے ہوگیا؟ ایسا لگتا تھا کہ وہ خود بھی کافی بدل گئی ہے۔ وہ الجھی الجھی، بے دلی سے مشین کی طرح گھر کے کام نمٹاتی تھی۔ شام کو جب اپنے شوہر کے ساتھ ٹی وی دیکھنے بیٹھتی تو تھکی ہوئی ہوتی تھی اور کبھی کبھی وہیں سو جاتی تھی۔ جب سلیم مذاق میں کہتا:
"ہماری بیوی کو سونے کی بیماری ہوگئی ہے ، بیٹھے بیٹھے بھی سو سکتی ہے۔" تو وہ چونک کر جاگ جاتی۔ براحہ سلیم کی باتوں کی آواز سے جاگ تو جاتی تھی مگر کبھی کبھی اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ وہ جاگ رہی ہے یا سو رہی ہے۔ پھر وہ بستر پر جا کر سو جاتی۔


اسی طرح دن گزرتے گئے۔ کیا اسی طرح کی زندگی اس نے چاہی تھی؟


ایک دن جب کلب میں وہ اپنی دوست حیام کا انتظار کررہی تھی تو براحہ ان دنوں کی یاد میں کھو گئی جب وہ سولہ سال کی تھی اور اس کے خوابوں کا پچیس سالہ شہزادہ، مضبوط جسم والا اور قدآور تھا۔ سورج نے تپا کر اس کا جسم تابنے کی طرح بنا دیا تھا۔ اس کی نگاہیں تیز تھی، ہونٹ خمدار تھے۔


وہ اس سے ایک پارٹی میں ملی تھی، اس کے چچا نے اس کا تعارف کرایا تھا: "یہ امیر زاہد ہیں اور یہ میری بھتیجی براحہ ہے۔" وہ حیرت سے اسے دیکھتی رہ گئی۔ اس نے پہلی بار کسی اصلی شہزادے کو دیکھا تھا۔ اس نے ایک شرمیلی مسکراہٹ سے پوچھا تھا۔
"کیا آپ واقعی شہزادے ہیں؟"
شہزادہ زاہد نے مسکراتے ہوئے کہا تھا: "ہاں، مگر مجھے خطاب اور القاب کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔"
اس نے شوخی سے مسکرا کر کہا تھا: "تب تو آپ خوابوں کے شہزادے ہوئے۔"


دوسرے دن اس کے چچا نے زاہد کو اپنے گھر مدعو کیا اور براحہ کو بھی ڈنر پر بلا لیا۔
وہ بیوٹی پارلر گئی اور وہاں سے ایک گھنٹے کے بعد فخر اور پورے اعتماد سے باہر آئی۔ اسے احساس تھا کہ وہ اپنے نئے لباس اور ہیر اسٹائل میں بے حد حسین لگ رہی ہے وہ کسی شہزادی کی طرح لگ رہی تھی۔ اس کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ شرما رہی تھی ، جھجھک رہی تھی ، حیران تھی۔


چچا کے گھر گئی، امیر زاہد سے ملاقات ہوئی، انہوں نے اپنے دونوں ہاتھوں میں اس کا ہاتھ لے کر کہا: "تم سے مل کر بہت اچھا لگا۔"
پھر انہوں نے اسے سر سے پاؤں تک بغور دیکھا۔ وہ سمجھ گئی کہ وہ اس کی طرف مائل ہیں۔ وہ خوشی سے شرابور ہو گئی جب انہوں نے کہا۔
"تم بہت حسین اور نازک ہو، ایک بچی کی طرح شرماتی ہو۔"
براحہ نے جھجکتے ہوئے کہا: "آپ کی ذرہ نوازی ہے۔"


اس نے اپنی کتھئی آنکھوں سے امیر زاہد کی طرف دیکھا تو ان کی نظروں میں ایک دلنشیں چمک پائی۔ انہوں نے اشتیاق سے پوچھا: "تم نے اسکول کی پڑھائی ختم کرلی؟"
"مجھے ابھی ہائی اسکول کا ڈپلوما ملا ہے اور اگلے سال یونیورسٹی میں داخلہ لوں گی۔"


اس کے چچا خوش تھے ، انہیں یقین ہو گیا تھا کہ امیر زاہد کو براحہ پسند آگئی ہے اور وہ اس سے شادی کرنا چاہیں گے۔
اور اگلے دن یہی ہوا۔ امیرزاہد نے اس کے چچا کے پا س پیغام بھجوا دیا۔ اس کے خاندان والوں نے جلدی سے رائے مشورہ کیا اور اس کے والد نے شادی کی رضا مندی دے دی۔
براحہ خوشی سے جھوم اٹھی۔ پرنس نے اسے قیمتی تحفے دئے۔ اخباروں تک میں ان کی محبت کی کہانی اور مستقبل قریب میں ہونے والی شادی کی خبر چھپی۔


اس کے تھوڑے ہی دن بعد چچا آئے اور رسان سے اس سے کہا:
"براحہ، میں تم سے صاف بات کرنا چاہتا ہوں ، پرنس زاہد کی پہلے اپنی کزن سے شادی ہو چکی ہے اور ان کے پانچ بچے ہیں ، مگر اس سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہمارے مذہب میں مرد چار عورتوں سے شادی کر سکتا ہے ، وہ اپنی محبت اور دولت سے تم کو خوش رکھے گا۔ تم کو دولت، عزت اور مسرت سب کچھ ملے گی۔"


براحہ خاموشی سے حیران و پریشان کچھ دیر تک اپنے چچا کو دیکھتی رہی ، پھر وہ چلا اٹھی۔
"میں کبھی شادی شدہ مرد سے شادی نہیں رچاؤں گی چاہے وہ مجھے دنیا بھر کی دولت ہی کیوں نہ دے دے۔"
یہ کہہ کر وہ پلٹ کر جانے ہی لگی تھی کہ چچا نے اسے پکڑ کر سمجھانے کی کوشش کی۔
"عقل سے کام لو براحہ، رونہ پچھتاؤ گی ، تم کو اس سے بہتر دولہا نہیں ملے گا۔"


اس وقت اسے اپنا چچا سے نفرت ہونے لگی تھی۔ ان کی طرف دیکھ کر اس نے بہت دکھ کے ساتھ کہا تھا:
"آپ اور میرے ابا ، اور سارے گھر والے اس شخص سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے، آپ کو تو دولت سے غرض ہے۔ میں ایسا آدمی چاہتی ہوں جو میرا ہو کے رہے۔ پرنس کی دولت ہاتھ سے جاتی ہے تو جائے، میں کوئی بکنے والی باندی نہیں ہوں۔ میں ایک آزاد عورت ہوں، خوددار باعزت۔"


براحہ محبت سے لبریز شادی شدہ زندگی کی خواہاں تھی۔ کسی اور عورت کی خوشیوں کو برباد کرکے وہ کیسے خوش رہ سکتی تھی۔ اس قصے کے بعد وہ الجھی ، الجھی رہنے لگی۔ رات کو سوتے وقت وہ کسی ڈراؤنے خواب سے گھٹی ہوئی سی چیخ کے ساتھ یکلخت جاگ جاتی۔


یونیورسٹی میں اس کی ملاقات سلیم سے ہوئی۔ اس کا مہذب انداز اور مزاج کی نرمی اور اطمینان اسے پسند آیا۔ وہ اب خوش بھی رہنے لگی۔ یونیورسٹی کی پڑھائی کے دوران یہ تعلق بس دوستی تک ہی محدود رہا، مگر جب اسکالر گریجویشن مکمل ہو گیا تو سلیم اس سے ملا اور بہت دھیرے سے کہا۔
"براحہ، میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"


براحہ مسکرائی اور پر سکون لہجے میں اعتراف کیا:
"سلیم تم سے شادی کر کے مجھے خوشی ہوگی۔"


سلیم کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا تھا۔ اس نے براحہ کو گلے سے لگاتے ہوئے ، خوشی سے سرشار لہجے میں کہا تھا:
"میں ابھی تمہارے والد سے تمہارا ہاتھ مانگتا ہوں۔"
اور پھر ان دونوں کی شادی ہو گئی تھی۔


سال تیزی سے گزرتے رہے اور زندگی ایک مخصوص ڈھرے پر چلتی رہی۔


براحہ نے خود سے سوال کرنا شروع کر دیا کہ اس کی زندگی اتنی بورنگ کیوں ہے۔ کیا وہ پرنس سے شادی کر لیتی تو بہتر ہوتا؟ مگر جواب نفی میں آتا۔
اسے کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی تھی۔ ایک دن جب اس کی ملاقات حیام سے ہوئی تو وہ دونوں باتیں کرنے لگیں۔
"کیا ہوا براحہ، مرجھائی مرجھائی سی لگ رہی ہو۔"
"کوئی بات نہیں، میں ٹھیک ہوں۔"
" کیا سلیم سے جھگڑا ہوا ہے؟"
"نہیں۔"
" تو پھر تم بور ہوگئی ہو۔ میں نے تم سے گریجویشن سے پہلے نہیں کہا تھا کہ شادی شدہ زندگی کچھ سال بعد بے لطف ہو جاتی ہے۔"
"ایسی باتیں کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سلیم دل کا بہت اچھا ہے مگر بہت مصروف رہتا ہے۔"


"اور تم ؟ تمہیں کیا ہوا ہے؟ تمہیں حق نہیں ہے کہ اس کے ساتھ وقت گزارو، اس کے ساتھ ہنسو بولو؟ کھل کر اس سے بات کرو، اپنے دل کی بات اسے بتاؤ، اپنے جذبات چھپاتی کیوں ہو؟ بوریت کو اپنے اوپر حاوی مت ہونے دو۔ اپنے گھر کی خوشیوں کو ہاتھ سے مت جانے دو۔ اپنے بچوں سے دور مت ہو، کہیں سمندر کے پانی سے کٹ کٹ کر نابود ہو جانے والی چٹان مت بن جانا۔ میری بات کا یقین کرو، اگر وہ تمہارے لئے کچھ جذبات رکھتا ہے تو وہ خود کو بدل لے گا۔"


اتفاق سے اس دن سلیم رات کو دیر سے گھر لوٹا۔ اس نے براحہ کی آنکھوں میں آنسو دیکھے۔ براحہ نے رقت بھری آواز میں کہا۔
"کتنی بورنگ زندگی ہے۔ تمہارے رویہ کی وجہ سے میں گھر اور بچوں سے بھی بیزار ہوتی جا رہی ہوں۔"


سلیم کو جھٹکا سا لگا مگر اس نے دھیرج سے کہا:
"میری جان ! اتنی پریشانی کی تو کوئی بات نہیں ہے۔ میں اتنی محنت کیوں کرتا ہوں؟ کیوں اتنا تھک جاتا ہوں؟ تم نہیں جانتیں؟ یہ سب تمہارے اور بچوں کے لئے ہی تو کرتا ہوں۔"


براحہ مصر رہی:
"بس رہنے دو سلیم! اور بھی شوہر ہیں جو اپنے بیوی بچوں کے لئے محنت کرتے ہیں۔ مگر کچھ شوہر یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کی بیویوں کو بھی زندگی کا لطف اٹھانے کا حق ہے۔"
وہ ایک لمحے کے لئے رکی اور پھر بھرائی ہوئی آواز میں کہا:
"اگر تم سمجھتے ہو کہ زندگی صرف کھانا، کپڑا اور پیسے کا نام ہے تو تم غلطی پر ہو۔"


سلیم نے شدت جذبات اور پیار سے اسے لپٹا لیا، دونوں کی نگاہیں ملیں:
"مجھے ایک اور موقع دو کہ تمہیں خوشی دے سکوں، تم میری زندگی ہو، آرزو ہو، حوصلہ ہو۔"
سلیم نے التجا کی۔
براحہ نے اپنا سر اس کے شانے پر رکھ دیا۔ اپنا تھکا ہوا سر اس کے سینے سے لگا کر اسے کتنی راحت ملی۔
جب بھی وہ اپنی دوست حیام کو یاد کرتی ہے ، اس کی آنکھیں تشکر کے آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔


***
ماخوذ از کتاب: سعودی عرب کی قلمکار خواتین کی منتخب کہانیاں
مترجم: عذرا نقوی۔ طباعت: مسلم ایجوکیشنل پریس، علی گڑھ (سن اشاعت: 2008ء)

KhazaaN ki raatein (Nights of Autumn). Arabic short story by: Sameera Khashqaji

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں