ایڈوکیٹ عبدالرحمان کو میں اے۔ رحمان کہوں گا بھی اور لکھوں گا بھی، اس لیے کہ ایک بار ان کے کالم میں اے رحمان کی جگہ پورا نام شائع ہو گیا۔ دھمکی دے دی ، میں اس نام سے نہیں جانا جاتا ، مقدمہ دائر کر دوں گا۔ میں کچھ ڈرا تھا ،لیکن پھر ان کا کھنکتا ہوا قہقہہ بلند ہوا تھا، اور میری جان میں جان آئی تھی۔ ڈرنے کی بات تھی بھی، رحمان صاحب ایڈوکیٹ ہیں ، بھلے ہی اب وکالت نہ کرتے ہوں ( پروفیسر عتیق اللہ کے مطابق) لیکن وکالت کے سارے گُر جانتے ہیں ، گردن تو ناپ ہی سکتے ہیں۔
رحمان صاحب کی وکالت کا تذکرہ کرنے کی دو وجوہ ہیں۔ شارخ خان کے بیٹے آرین خان کی گرفتاری پر ، موبائل پر بات کرتے ہوئے ، انہوں نے پورے یقین سے یہ دعویٰ کیا تھا کہ شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خاں کی ضمانت نہیں ہوگی ،جبکہ سارا میڈیا شور مچائے تھا کہ کل آرین خان کو ضمانت مل رہی ہے۔ بات رحمان صاحب ہی کی سچ نکلی ، آرین کی ضمانت نہیں ہو سکی تھی۔ اسی موضوع پر اپنے کالم :
"ناجائز منشیات : حیف۔۔۔جس کی قسمت میں ہو شاہ رخ کا بیٹا ہونا"
میں، انہوں نے اپنے تجزیے میں یہ جملہ لکھا تھا:
"دو اکتوبر سے جب یہ لوگ گرفتار ہوئے، آج ضمانت کی بحث کا اختتام ہونے تک جو کوریج ہوئی اسے میڈیا ٹرائل کے علاوہ کوئی اور نام نہیں دیا جا سکتا۔"
بامبے ہائی کورٹ کے ، آرین خان کی ضمانت کے فیصلے پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ مذکورہ جملہ کس قدر درست تھا۔ حالانکہ فاضل جج نے فیصلے میں ، میڈیا ٹرائل کی بات نہیں کی ہے ، لیکن جس طرح سے این سی بی کے تقریباً سارے ہی الزامات کو مسترد کر دیا ہے اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ آرین خان کا میڈیا ٹرائل ہی ہو رہا تھا۔ تو یہ ہیں اے رحمان ، حالات کو پرکھنے اور پرکھ کر درست نتیجے پر پہنچنے والے ایڈوکیٹ اور کالم نگار۔
رحمان صاحب سے پہلی گفتگو مجھے خوب یاد ہے۔
میں ان کے کالم تو پڑھتا تھا ،مگر ان سے نہ میری ملاقات تھی اور نہ ہی صاحب سلامت۔بات فون پر ہوئی تھی اور موضوع تھا'عالمی جائزہ'کا'وبا نمبر'یا بالفاظ دیگر'کورونا نمبر'۔
رحمان صاحب نے مجھے حکم دیا تھا کہ خاص شمارے کے لیے مضمون چاہیے اور میں نے تعمیل کی تھی۔ میں شکر گزار ہوں کہ انہوں نے میرے مضمون کو بڑے ہی اہتمام سے شائع کیا۔ 'عالمی جائزہ' کے 'وبا نمبر' کی دستاویزی اہمیت ہے ، یہ جہاں وباؤں کی تاریخ پر روشنی ڈالتا ہے وہیں، اپنے مضامین ، اپنے افسانوں ، شعری تخلیقات اور آپ بیتیوں کے ذریعے ، کورونا کے تاریک ایام میں، انسانوں کی بے بسی اور بے حسی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اور سرکاری جبر ،لاپروائی ، انسانی زندگی کو جوتے کی نوک پر رکھنے والوں کی سفاکی اور نظام و انتظامیہ کےچرمرانے و الگ الگ لوگوں سے الگ الگ طرح کے سلوک کی داستان بھی سامنے لاتا ہے۔
لیکن مجھے 'عالمی جائزہ' کے 'وبا نمبر' پر نہیں ، بات اے رحمان کے کالموں کے مجموعے " نقطۂ نظر " پر کرنی ہے۔ میرے پاس مجموعے کا دوسرا ایڈیشن ہے ، اسے 'نظرِ ثانی اور اضافہ شدہ ایڈیشن' کہا گیا ہے۔ کتاب کے نام کے نیچے قوسین میں 'مضامین ، علمی ،ادبی سیاسی۔۔۔وغیرہ' تحریر ہے۔ میرے خیال میں اس میں 'قانونی' اور 'آئینی' کا اضافہ بھی ہونا چاہیے تھا ، کہ اس کتاب میں ان دو موضوعات پر بھی ، ان کے لکھے ہوئے کالم شامل ہیں۔ لفظ 'وغیرہ' شاید ان کالموں کے لیے ہے جنہیں 'معلوماتی اور دلچسپ' کہا گیا ہے۔
ویسے رحمان صاحب کے تمام ہی کالم ، چاہے وہ علمی، سیاسی اور ادبی جیسے سنجیدہ موضوعات پر ہی کیوں نہ ہوں ، معلوماتی اور دلچسپ ہیں ، یا یہ کہہ لیں کہ لوگ انہیں پڑھتے ہوئے بیزار نہیں ہوتے ، ان میں دلچسپی بھی لیتے ہیں اور ان سے معلومات بھی بٹورتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اے رحمان نے لکھنا کیوں شروع کیا، وہ تو اچھے بھلے وکالت کر رہے تھے ؟ 'عرضِ مصنف' میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ ان کے لکھنے اور پھر لکھے ہوئے کالموں کو کتابی شکل دینے کے پسِ پشت شکیل شمسی تھے ، یا ہیں۔ انہوں نے ہی انہیں لکھنے پر راضی کیا ، اپنی ادارت میں نکلنے والے روزنامہ 'انقلاب' میں مستقل جگہ دی اور پھر کالموں کا انتخاب شائع کرنے پر آمادہ کیا۔ قارئین کو شکیل شمسی کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ انہوں نے ہر موضوع پر روانی اور مہارت سے لکھنے والے کالم نگار سے اردو دنیا کو متعارف کرایا ہے۔
اس کتاب کے کالموں پر بات کرنے سے پہلے ان چار مضامین کا مختصراً ذکر کر دیا جائے جو اس کتاب میں مصنف اور کتاب کے تعارف کے طور پر شامل ہیں۔ مصنف کا تعارف شکیل شمسی نے کرایا ہے ، ان کا ایک جملہ ملاحظہ فرمائیں :
"آج جب ادب کی خدمت کے نام پر کئی لوگوں نے تقریبات اور پروگراموں کو آمدنی کا ذریعہ بنا لیا ہے ، رحمان صاحب اردو ادب کی خدمت کے لیے اپنا محنت سے کمایا ہوا پیسہ بہت ہنسی خوشی خرچ کرتے ہیں اور سب جانتے ہیں کہ کسی پروگرام یا تقریب کے لیے کوئی چندہ یا مالی امداد طلب کرنا تو درکنار انہوں نے کبھی ایسی کوئی پرائیوٹ یا سرکاری پیشکش بھی قبول نہیں کی۔ "
پروفیسر نصیر احمد خان ( پروفیسر صاحب اب نہیں رہے ، اگست کے مہینے میں وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے ) نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے:
" اے رحمان کے مضامین معلوماتی ہوتے ہیں ، تجزیاتی ہوتے ہیں ، نظریاتی ہوتے ہیں اور وہ موضوع بحث پر نتیجہ اخذ کر کے قاری کو اپنا ہم خیال بنا لیتے ہیں۔ ان کا ایک جملہ ان کالموں ، یا اس کتاب کی روح کو اور خود اے رحمان کو سمجھنے کی 'کلید' ہے ، انہیں کیا ، کیوں اور کیسے کہنے کا فن آتا ہے۔"
پروفیسر عتیق اللہ نے 'نقطۂ نظر بر نقطۂ نظر' کے عنوان سے کتاب پر بھرپور تبصرہ کیا ہے۔ یوں تو اس تبصرے کو مکمل ہی پڑھنے میں لطف ہے ،لیکن اس کے اقتباسات یا ٹکڑے بھی لطف دے جاتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
"عبدالرحمان کے اکثر صحافتی مضامین سیاسی اور عصری ہونے کے باوجود یک سطحی کیوں نہیں ہوتے اور علمی حوالوں سے کوئی تحریر خالی کیوں نہیں ہوتی؟ دراصل یہ صورت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب آپ اپنے مطالعے کو پوری طرح جذب کرنے کے اہل ہوتے ہیں۔"
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
" عبدالرحمان ذی علم ، صاحب علم ، انشا پرداز ہیں۔ غلط اردو لکھنے اور بولنے والے کو معاف نہیں کرتے۔ " اور معاف کیوں کریں! عبدالرحمان صاحب کی زبان پرانی دلّی کی زبان ہے ،فصیح ، بلیغ ،با محاورہ، ظاہر ہے غلط اردو ان کا پارہ چڑھائے گی ہی۔ "
ایک مضمون ممتاز صحافی ممتاز عالم رضوی کا ہے۔ انہوں نے کتاب کے مضامین کو چھ حصوں میں ، موضوع کے لحاظ سے ، تقسیم کر کے ،ان کا تجزیہ کیا ہے۔ ایک جملہ،جو ہے تو تعریفی مگر اے رحمان کی شخصیت کے مطابق بھی، ملاحظہ کریں:
" نکتہ چینی کا حق وہی رکھتا ہے جو نکتہ داں بھی ہو ،نکتہ شناس بھی ہو ، جو سخن شناس بھی ہو اور خوش گفتار بھی۔"
اب بات کالموں کی کر لیتے ہیں۔
کتاب میں کُل 69 کالم شامل ہیں۔ موضوعات متنوع ہیں ، مثلاً اگر بات جشنِ سالِ نو کے جنون پر ہے ،تو بات سر سید احمد خان ، جج لویا کی موت ، آروشی کے قتل ، پدماوت، پنامہ پیپر ( تین مضامین) مسلم قیادت کے بحران ، علمائے ہند کے المیے ، شرعی عدالتوں ،مفتیان کرام ،ماب لنچنگ، می ٹو ( ایم جے اکبر کے حوالے سے) بابری مسجد مقدمہ ، مقدمہ کےفیصلے ، ایودھیا کی تاریخ کے تضادات ، اردو کے حال زار ، مرزا غالب ،ہندو ازم اور ہندوتوا ، ہندو راشٹر اور دلیپ کمار کی شخصیت اور فن پر بھی ہے۔
یہ مضامین ہمارے عصر کی تاریخ تو ہیں ہی یہ ماضی کو بھی ہمارے سامنے لا کر کھڑا کر دیتے ہیں۔ تمام مضامین پر بات ممکن نہیں ہے اس لیے میں صرف دو مضامین پر بات کروں گا۔
بابری مسجد کے فیصلے پر " ایودھیا : تضادات سے مزین تاریخ کُش ، تاریخ ساز، تاریخی فیصلہ " کے عنوان سے لکھے گئے کالم کی ، ان سطروں کو ملاحظہ کریں:
" بابری مسجد کی تعمیر کے تین سو سال تک بابر کی اولادوں نے ہی ہندوستان پر حکومت کی جو سب کے سب مسلمان بھی تھے اس لیے 1528ء سے 1856ء تک مسلمانوں سے مسجد پر قبضے اور تصرف کا ثبوت طلب کرنا کہاں کا انصاف ہوا۔ دراصل فیصلے کا مکمل طور سے بغور مطالعہ کرنے پر واضح ہو جاتا ہے کہ پانچوں جج صاحبان اپنی اپنی جگہ اپنے تجزیئے اور نتائج کو آئین و قانون کی روشنی میں قلمبند کر رہے تھے کہ ایک مرحلہ ایسا آیا جب ایک مشترکہ ہدف متعین کر کے متفقہ طور پر اس منزل کو پہنچنا طے کرلیا گیا۔"
آگے لکھتے ہیں:
" لیکن ایمان کی تو یہ بھی ہے کہ سپریم کورٹ کی نیک نیتی پر شبہ کرنا درست نہ ہوگا، وہ اس لیے کہ سیاسی حالات جس نہج کی سنگینی اختیار کر چکے تھے اور شرارتی عناصر کے ممکنہ ردعمل کے خدشات سے پورے ملک میں جو شدید تناؤ اور خوف کا ماحول طاری تھا اسے دیکھتے ہوئے بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ اگر فیصلہ مسلمانوں کے حق میں آیا ہوتا تو ہر چہار اطراف فساد اور خون خرابہ ہونا لازمی تھا۔ اب نظرِ ثانی کی درخواست دی جائے تو گزارش یہ ہونی چاہیے کہ اراضی خواہ ہندو بھائیوں کے پاس رہے تاریخی حقائق اور دیگر شواہد کے مدنظر 1528ء سے 1856ء تک مسجد پر مسلمانوں کے قبضے اور تصرف کو ایک حقیقت کے طور پر تسلیم کیا جائے۔"
اے رحمان نے اپنے اس کالم میں جس بات کی طرف توجہ دلائی ہے اس پر سپریم کورٹ کا غور نہ کرنا ، ثبوت ہے کہ فیصلہ 'متعین ہدف' کے مطابق تھا۔جب فریق ثانی رام کی پیدائش کا ثبوت پیش نہیں کر سکا ،اور اسے مسجد کی زمین سونپ دی گئی، تو پھر مسلمانوں سے مسجد پر قبضے اور تصرف کا ثبوت مانگ کر ، مسجد کی ملکیت سے انہیں دست بردار کر دینا ،کہاں کا انصاف ہے؟
اسی لیے رحمان صاحب نے مسجد پر مسلمانوں کے قبضے اور تصرف کو ایک حقیقت کے طور پر قبول کرنے پر زور دیا ہے، بھلے مسجد کی جگہ چلی جائے ،تاریخ یہ تو بتائے گی کہ سچ اور حق کیا تھا یا کیا ہے۔
رحمان صاحب نے ہندو ازم ، ہندوتوا اور ہندو راشٹر کے موضوع پر سلسلہ وار چار مضامین لکھے تھے ،جنہیں میں نے ایک طویل مضمون کے طور پر پڑھا ہے ،اسی لیے ان چار مضامین کو میں ایک مضمون کے طور پر دیکھتا ہوں۔ اس مضمون میں اے رحمان نےمستند حوالوں سے ،نسل ، مذہب ، ثقافت ، روایت ،قوم پرستی اور ہندو ثقافتی طرزِ حکومت کا ذکر کرتے ہوئے ،یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ:
" ساورکر نے ہندو راشٹر کے خاکے میں کئی دیگر رنگوں ، خصوصاً مذہب ، کی آمیزش کر دی تھی لہٰذا اس کی ایک قطعی تعریف اور زیادہ مشکل ہو گئی ہے۔ یہ وسیع موضوع پوری کتاب کا متقاضی ہے ا س لیے میں مختصراً اس دعوے پر اختتام کرتا ہوں کہ ہندوتوا کی الجھی ہوئی تعریف ، ہندوستان کی مذہبی اور ثقافتی تکثیریت نیز خود ہندو معاشرے کے نسلی اور طبقاتی تنوع کے پیشِ نظر یہاں 'ہندوراشٹر' کا قیام عملاً ناممکن ہے۔"
اے رحمان کے یہ الفاظ امید بندھاتے ہیں۔
لیکن پروفیسر عتیق اللہ کے بیان کردہ نتیجہ کہ:
"۔۔۔سیاست ، ہیبت ناک دیو کی صورت کیوں اختیار کرتی جا رہی ہے۔ سارے مقام ، عبرت کے مقام بنتے جا رہے ہیں۔ یہ ایک عظیم ٹریجڈی کا اشاریہ ہے۔ اے رحمان کی اس معرکتہ الآرا تصنیف نے جس کی سمت نمائی کی ہے، اس کتاب کو پڑھنے کے بعد ان اذیتوں کو سمجھا جا سکتا ہے اور ان زخموں کی آواز سنی جا سکتی ہے جو صاحبِ تصنیف کے باطن میں دبی چھپی ہیں اور جگہ جگہ چیخ بھی بن گئی ہیں "۔۔۔
سے میں مکمل اتفاق نہیں کر پا رہا ہوں۔ مجھے لگتا ہے کہ اے رحمان نے ، اپنے ان کالموں سے ، صرف عظیم ٹریجڈی کی سمت نمائی ہی نہیں کی ہے ، حل بھی پیش کیا ہے اور امید بھی بندھائی ہے۔
ان کالموں کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ یہ مایوسی میں مبتلا نہیں کرتے۔ کتاب 'عرشیہ پبلی کیشنز' ، نئی دہلی نے بہت خوبصورت شائع کی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں