باہر 14 فیصد اور اندر 23 فیصد - ہندوستانی جیلوں میں مسلمان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-12-19

باہر 14 فیصد اور اندر 23 فیصد - ہندوستانی جیلوں میں مسلمان

muslims-in-indian-jails

انڈین پولیٹکس اینڈ سائیکولوجی کے پروفیسر کرسٹوف جیفرلٹ (Christophe Jaffrelot) نئی دہلی سے 6 ہزار 578 کلو میٹر دور فرانس کی راجدھانی پیرس میں بیٹھے ہیں۔ لیکن وہ ہندوستان کے ان مسلمانوں کے احوال زار پر متفکر ہیں جو یہاں کی جیلوں میں بند ہیں یا جن پرہندوستان میں جرائم کے مقدمات چل رہے ہیں۔ انہیں ان کی صحیح صحیح تعداد کا بھی علم ہے۔
یہ موضوع بہت خشک مگر بہت اہم ہے۔ اس طرح کی خبریں اور جائزے پہلے بھی آتے رہے ہیں۔ تازہ رپورٹ متحیر کرنے والی ہے۔ منموہن سنگھ کے دوسرے دور حکومت میں قومی سطح پر زیر سماعت ملزمین کی کل تعداد میں مسلمانوں کی تعداد ساڑھے 22 فیصد تھی۔ جبکہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی مجموعی آبادی میں مسلمانوں کی آبادی 14.9 فیصد ہے۔ 'لا اینڈ آرڈر' کا موضوع ریاستی حکومتوں کے تحت آتا ہے۔ لہذا یہاں ریاستی سطح پر جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔


2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام میں مسلمانوں کی آبادی 34 فیصد ہے۔ لیکن وہاں کی جیلوں میں زیر سماعت مسلم قیدیوں کی تعداد ساڑھے 47 فیصد ہے۔ گجرات میں مسلمان 10 فیصد ہیں مگر وہاں کی جیلوں میں ان کی تعداد 27 فیصد ہے۔ یہاں ایک نکتہ دلچسپ ہے:
جب تک وہاں کے وزیر اعلی نریندر مودی تھے تو زیر سماعت مسلم قیدیوں کی تعداد 24 فیصد تھی۔ اب اس میں تین فیصد کا اضافہ ہو گیا ہے۔ گجرات کے تعلق سے یہ بھی ذہن میں رہنا چاہئے کہ وہاں مبینہ طور پر اونچی سوسائٹیوں اور بڑے لوگوں کے مکانات والی آبادیوں کو 'غریبوں' کی دسترس سے 'محفوظ' رکھنے کیلئے 'دی گجرات ڈسٹربڈ ایریاز ایکٹ' نافذ ہے۔ دراصل 1985 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد 1986 میں ایک قانون بنایا گیا تھا جس کا مقصد ملی جلی آبادیوں کو مزید بسنے سے روکنا تھا۔


1991 میں اس میں ترمیم کرکے مزید سخت دفعات شامل کی گئیں۔ 2020 میں پھر ترمیم کر کے ایک ہی فرقہ والی آبادی کو 'مناسب علاقے' اور ملی جلی آبادی کو 'نامناسب علاقے' کے طور پر زمرہ بند کیا گیا۔ 2020 کی ترمیم انتہائی خطرناک بنیادوں پر کی گئی اور اس کے تحت لوگوں کی گرفتاریاں کی گئیں۔
ترمیم شدہ دفعات کے خلاف جمعیت علمائے ہند نے گجرات ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی۔ 21/جنوری 2021 کو گجرات ہائی کورٹ نے ان ترمیم شدہ دفعات اور ان کی شقوں پر عمل آوری پر روک لگا دی جن کے تحت گجرات حکومت کو اختیار تھا کہ وہ ملی جلی آبادیوں کو غیر مناسب یا 'ڈسٹربڈ ایریا' قرار دیدے۔
جمعیت علماء کے وکیل محمد عیسی ایم حاکم نے بحث کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت کا یہ اقدام آئین کی دفعات 14,15,19 اور 21 کی خلاف ورزی ہے اور اس سے فرقہ وارانہ بنیادوں پر آبادیوں کے قیام کا راستہ کھلتا ہے۔


آئیے پھر اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہیں:
کرناٹک میں مسلمانوں کی آبادی 13 فیصد اورجیلوں میں 22 فیصد ہے۔ جیلوں میں یہ اضافہ اچانک 2018 میں ہوا جبکہ 2013 سے 2017 تک زیر سماعت مسلم قیدیوں کی تعداد بھی آبادی کے تناسب کے مطابق 13 فیصد ہی تھی۔ کیرالہ میں مسلم آبادی ساڑھے 26 فیصد ہے، جبکہ جیلوں میں ان کی تعداد 30 فیصد ہے۔
مدھیہ پردیش میں مسلمان ساڑھے 6 فیصد ہیں جبکہ جیلوں میں 15 فیصد ہیں۔ مہاراشٹر میں مسلمان ساڑھے 11 فیصد ہیں جبکہ 2015 تک جیلوں میں ان کی تعداد 30 فیصد تھی۔ 2012 میں جیلوں میں ان کی تعداد 36 فیصد تھی۔ لیکن دکن ہیرالڈ کے مطابق 30/اگست 2020 تک ان کی آبادی بڑھ کر 14.2 فیصد ہو گئی اور جیلوں میں ان کی تعداد گھٹ کر 18.26 رہ گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ مہاراشٹر میں شیو سینا کی قیادت والی موجودہ حکومت ان کے حق میں کچھ بہتر ثابت ہوئی۔


راجستھان کے اعداد و شمار سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کیلئے بی جے پی اور کانگریس کی حکومتوں میں یکساں صورتحال ہے۔ راجستھان میں مسلمانوں کی آبادی 9 فیصد ہے جبکہ وہاں کی جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد 23 فیصد ہے۔ 2013 تک راجستھان کی جیلوں میں مسلمان 13 فیصد تھے۔ بی جے پی کی حکومت آتے ہی وہاں جیلوں میں مسلمانوں کی تعداد بڑھنے لگی۔ اضافہ کا یہ سلسلہ کانگریس کی اشوک گہلوت حکومت آنے کے بعد بھی جاری ہے۔ اندازہ یہ ہوتا ہے کہ مرکز میں 2014 میں بی جے پی کی حکومت کے آتے ہی مسلمانوں کے تئیں کانگریس قیادت والی حکومتوں کا رویہ بھی ویسا ہی ہو گیا۔


حیرت اس امر پر ہے کہ تامل ناڈو جیسی ریاست میں بھی مسلمان اسی صورتحال کا شکار ہیں۔ وہاں مسلم آبادی 6 فیصد ہے جبکہ جیلوں میں مسلمان 11 فیصد ہیں۔ یوپی کے اعداد و شمار بھی حیرت انگیز ہیں۔ وہاں مسلم آبادی 19 فیصد ہے، جیلوں میں مسلمان 29 فیصد ہیں۔ یعنی دوگنا سے 9 فیصد کم۔ ہے نا حیرت کی بات؟


کرسٹوف کے مطابق یہ صورتحال 2012 سے ہے۔ واضح رہے کہ 2007 سے 2017 تک یہاں پہلے مایاوتی اور پھر اکھلیش یادو کی حکومتیں رہی ہیں۔ اس اعتبار سے یوگی آدتیہ ناتھ شکریہ کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اتنی اٹھا پٹخ کے باوجود ایک فیصد کا بھی اضافہ نہیں کیا۔


مغربی بنگال میں بھی صورتحال یو۔پی جیسی ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی 27 فیصد ہے جبکہ جیلوں میں ان کی تعداد 36 فیصد ہے۔ یعنی دوگنی سے محض نو فیصد کم۔ بڑی ریاستوں میں صرف بہار ہی واحد ریاست ہے جہاں جیلوں میں مسلمان اپنی آبادی سے دو فیصد کم ہیں۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی 17 فیصدہے جبکہ وہ جیلوں میں 15 فیصد ہیں۔ اس اعتبار سے ہندوستان کے تمام وزرائے اعلی میں نتیش کمار سب سے زیادہ شکریہ کے مستحق ہیں۔ بلکہ یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ نتیش کمار کا جتنا شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔ بہار کی اس متحیرالعقول مگر خوشگوار صورتحال پر پھر کبھی جائزہ لینا مناسب رہے گا۔ یہاں
یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ اس موضوع کے تجزیہ کار بار بار یہ کہتے رہے ہیں کہ مسلمان اپنی آبادی کے تناسب سے زیادہ تعداد میں جیلوں میں تو ہیں لیکن ان کی سزا کے واقعات کی شرح کم ہے۔ مثال کے طورپر 2019 میں قومی سطح پر زیر سماعت مسلمان ساڑھے 47 فیصد تھے لیکن ان میں سزا 39.6 فیصد کو ہوئی۔


اب ایک حیرت انگیز حقیقت ملاحظہ کیجئے:
جموں وکشمیر میں ہندوؤ ں کی آبادی ساڑھے 28 فیصد ہے، جیلوں میں ان کی تعداد ساڑھے 39 فیصد ہے اورسزا کی شرح ساڑھے 50 فیصد ہے۔ جبکہ یہاں مسلمانوں کی آبادی 68.3 فیصد ہے، جیلوں میں ان کی تعداد ساڑھے 60 فیصد اور سزا کی شرح 53 فیصد ہے۔ اس پر بھی الگ سے تفصیلی جائزہ لئے جانے کی ضرورت ہے۔


اب اس تمام تفصیل سے جو اصل نکتہ نکل کر سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان اپنی آبادی کے اعتبار سے جیلوں میں زیادہ ہیں مگر آخر کار زیادہ تر چھوٹ جاتے ہیں۔ لیکن جب تک ان کے معاملات تصفیہ کے مرحلہ میں پہنچتے ہیں وہ اپنی زندگی کا بیشتر قیمتی حصہ جیلوں میں یا مقدمہ کا سامنا کرتے ہوئے گزار چکے ہوتے ہیں۔ وہ ٹوٹ پھوٹ کر بکھر چکے ہوتے ہیں۔ ایک طرف ان کے اعزاء ان سے دور ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف ان کا کاروبار یا روزگار ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ اب وہ نہ تو معاشرہ میں ہی سر اٹھا کرعزت کی زندگی جی سکتے ہیں اور نہ ہی وہ خاطی پولیس والوں کے خلاف تلافی کی کوئی کارروائی کر سکتے ہیں۔
اس سے یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ پورے ملک کی پولیس، قطع نظر اس کے کہ ریاستوں میں کس پارٹی کی حکومت ہے، انتہائی متعصب ہو چکی ہے۔ کیا اس کا کوئی حل ہے؟
میری نظر میں اس کا حل یہ ہے کہ ایک طرف جہاں ہم اپنی جماعتوں کو لعن طعن کرنا بند کریں وہیں دوسری طرف خود ہم بھی کچھ کریں۔ ہم محلہ کی سطح سے یہ کام شروع کریں اور پورے ملک میں دردمند وکیلوں کے گروپ کا جال بچھا دیں، ان کے واجبی اخراجات کیلئے (بنکوں میں پڑے ہوئے سود سے ہی سہی) کوئی فنڈ بنائیں اور جو مسلمان تعصب کی بنیاد پر ماخوذ کر لئے گئے ہیں ان کے مقدمات لڑیں۔
مجھے یہاں کسی خاص جماعت کا دفاع مقصود نہیں لیکن کچھ جماعتیں ہیں جو ایک طرف تو ماخوذ مسلمانوں کے اہل خانہ کا خیال رکھ رہی ہیں اور دوسری طرف خود ماخوذ مسلمانوں کو قانونی مدد بھی فراہم کر رہی ہیں۔ کیا اس پر کچھ خرچ نہیں ہوتا؟ ہمیں خود سے سوال کرنا چاہئے کہ کیا ہم بھی ایسا کچھ کر رہے ہیں؟ کیا ہم نے بھی ان جماعتوں کو اس مد میں کوئی چندہ دیا ہے؟ اگر نہیں تو پھر ان جماعتوں کو لعن طعن کرنے کا ہمیں کیا حق ہے۔


اب ایک واقعہ سنئے:
اندور میں ایک چوڑی فروش مسلمان کے ساتھ شرپسندوں نے مار پیٹ کی۔ اس نے پولیس سے شکایت کی۔ پولیس نے اسے تھانہ میں بٹھا لیا۔ جس کے خلاف شکایت کی تھی اس نے فرضی کہانی بنائی اور اپنی سات سال کی بچی سے چھیڑ چھاڑ کا الزام عاید کردیا۔ پولیس نے اسے گرفتار کر لیا۔ اس کی ضمانت 107 دن کے بعد ہوئی ہے۔ جبکہ اس کے ساتھ مار پیٹ کرنے والے جلد ہی چھوٹ گئے تھے۔
اس کے وکیل احتشام ہاشمی سے پوچھئے کہ انہیں کیا کیا کرنا پڑا۔ انہیں 11 مرتبہ دہلی سے اندور تک اپنی جیب سے ہوائی جہاز کا ٹکٹ لے کر جانا پڑا۔ شرپسندوں نے دھمکی دی تھی کہ اندور کا کوئی وکیل چوڑی والے کا مقدمہ نہیں لڑے گا۔ سیشن کورٹ نے اس کی ضمانت کی عرضی سنی ہی نہیں۔ ہائی کورٹ نے یکے با دیگرے 10 تاریخیں لگائیں اور 11ویں پر ضمانت منظور کی۔ احتشام ہاشمی کو سیکیورٹی کے ساتھ عدالت میں جانا پڑا۔ حیرت ہے کہ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے POSCO کی دفعہ سات اور آٹھ کے ملزم کی ضمانت کی درخواست کو سننے کیلئے 11 تاریخیں لگا دیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ مسلم جماعتوں کو نشانہ بنانے والوں میں سے کسی نے چوڑی فروش یا اس کے وکیل احتشام ہاشمی سے ان کی بپتا سنی یا نہیں!


***
(بشکریہ: ردعمل / روزنامہ انقلاب / 19 دسمبر 2021ء)
ایم ودود ساجد
موبائل : 9810041211
Editor-in-Chief - VNI. Excecutive Member- Delhi Union of Journalists, Secretary- Peace for All Initiative
ایم ودود ساجد

Percentage of Muslims in jails of India - Column: M. Wadood Sajid.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں