تبلیغی جماعت : سعودی عرب کا نشانہ کیوں بنی ہے؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-12-19

تبلیغی جماعت : سعودی عرب کا نشانہ کیوں بنی ہے؟

saudi-arabia-bans-tablighi-jamat

کیوں سعودی عرب کا نشانہ بنی - تبلیغی جماعت ؟
کیا ہے مقصد اور کیا ہے کھیل ؟


'تبلیغی جماعت دہشت گردوں کی جماعت ہے !'
بھارت کے ' ہندو توادیوں ' کے مذکورہ الزام پر ، سعودی عرب کے ' یہود نواز ' امرا و شیوخ اور علماء نے مہرِ تصدیق ثبت کر دی ہے۔ مزاج کے اس ربط کے لیے اردو میں ' قارورہ ملنا' کا محاروہ استعمال کیا جاتا ہے۔
جب ، سعودی عرب کے اسلامی امور کے وزیر ، ڈاکٹر عبداللطیف الشیخ نے ، صاف لفظوں میں یہ کہا کہ:
"ہندوستان کی مذہبی تحریک تبلیغی جماعت ، فاسق ، خطرناک اور 'دہشت گردی کا دروازہ' ہے"
تب مجھے فوراً ، کورونا لاک ڈاؤن اول کے دنوں کی ، تبلیغی جماعت کے خلاف ، 'ہندو توادیوں' کی چلائی جانے والی شرانگیز مہم یاد آ گئی۔ دونوں میں بس ایک فرق ہے 'ہندو توادیوں 'کی شدید مہم کے باوجود یہاں تبلیغی جماعت سرگرم رہی۔ ابتدائی دنوں کی سختی کے سوا اس پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ لیکن سعودی عرب نے یہاں کے 'ہندو توادیوں 'کو ایک جھٹکے میں یوں مات دے دی ہے ، کہ تبلیغی جماعت کی نقل و حرکت اور سرگرمیوں کو اپنی سر زمین پر روک دیا ہے۔


بات اگر یہاں تک بھی رہتی تو غنیمت تھا ، لیکن ہوا یہ ہے کہ سعودی عرب نے اپنے عمل کی ، اس زور و شور سے تشہیر کی ہے ، کہ ہر اس ملک کو ، جو مسلمانوں کی مذہبی آزادی اور مسلم تنظیموں کی سرگرمیوں پر روک لگانے کے لیے کوشاں ہے ، ان پر پابندیاں لگانے کا ایک جواز فراہم کر دیا ہے۔
اب دیکھ ہی لیں کہ اُدھر سعودی عرب سے یہ خبر بس آئی ہی تھی ، کہ اِدھر وشو ہندو پریشد اور سنگھ پریوار کی طرف سے ، بھارت میں بھی تبلیغی جماعت پر ، ساتھ ہی جمعیتہ علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند پر ، پابندی لگانے کے لیے آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ 1926ء میں اپنے قیام کے بعد سے ، دھیرے دھیرے ساری دنیا میں دعوت کے کام کو پھیلانے والی تبلیغی جماعت ، اچانک آج ، کیوں سعودی عرب کے نشانے پر آ گئی ہے؟ اس سوال سے یہ سوال بھی سر اٹھاتا ہے کہ کورونا لاک ڈاؤن کے دوران ، جماعت کو جس طرح سے نشانہ بنایا گیا ، کہیں اس کا مقصد، جماعت کے خلاف ، سعودی عرب سمیت ساری دنیا کی ذہن سازی تو نہیں تھا ؟
یاد کریں ، ' ہندوتوادیوں ' کا طوفان اور ہنگامہ کیساشدید تھا ! پروپیگنڈا خطرناک تھا ، لوگوں کو تقریباً یقین دلا دیا گیا تھا کہ ' جہادیوں ' نے اس ملک کو اپنے حصار میں لے لیا ہے اور جلد ہی یہاں ' جہاد ' شروع ہو جائے گا، ' کورونا جہاد ' !


میں کچھ پیچھے کی طرف لوٹتا ہوں ، اس وقت کی طرف جب گودی میڈیا نے تبلیغی جماعت کے مرکز نظام الدین میں ہونے والے مسلمانوں کے اجتماع کی خبرکے سامنے آنے کے بعد ہنگامہ شروع کیا تھا اور یہ تاثر دیا تھا جیسے کہ اگر وہ اجتماع نہ ہوا ہوتا تو بھارت میں کورونا نہ پھیلتا۔ کتنے مسلمان اس نفرت کی لہر کی بھینٹ چڑھے ، کاروباری اور ٹھیلے والے و سبزی فروش معاشی ناکہ بندی کی زد میں آئے۔ مآب لنچنگ ہوئی۔ ملک کے سارے مسلمان مجرم بنا دیے گئے۔ مسلمانوں اور تبلیغی جماعت کو مجرم بنانے کا کام کیا تھا 'ہندو توادیوں' اور گودی میڈیا نے۔ بعد میں عدالتوں کے فیصلے جماعت کے حق میں آئے۔ اگر کسی دوسرے ملک میں تبلیغی جماعت کی طرح کسی جماعت کو مجرم بنانے کا معاملہ پیش آتا اور عدالت جماعت کے حق میں فیصلہ دیتی تو میڈیا سے لے کر عام لوگوں تک میں شرم کی لہر دوڑ جاتی اور معافی مانگنے کا اور معاوضہ دینے کا ایک سلسلہ شروع ہو جاتا۔
بھارت میں ایسا ممکن نہیں ہے اسی لیے تبلیغی جماعت کو مجرم بنانے والا گودی اور غیر گودی میڈیا اور ' ہندو توادی ' نہ معافی مانگ رہا ہے اور نہ ہی وہ ریاستی سرکاریں اور سیاست داں معافی مانگ رہے ہیں جنہوں نے کورونا وباء کا سارا الزام جماعت پر ڈالا تھا۔ جماعت ان کی نظر میں ہنوز مجرم ہے ، مرکز نظام الدین آج بھی ان کی نظر میں کھٹکتا ہے۔ نفرت کا زہر کیسے پھیلایا گیا !


داودی بوہرہ جماعت کے مسلمانوں کی 'تھال دعوت' کی تصاویر جگہ جگہ پھیلا کر یہ گھٹیا الزام عائد کیا گیا کہ 'مسلمان کورونا وائرس پھیلانے کے لیے برتن جھوٹا کر رہے ہیں' ! کہیں ' تھوک ' کے ذریعے کورونا پھیلانے کا الزام لگایا گیا ، اور مختلف ریاستوں میں جو باریش اور ٹوپی والے افراد 'پکڑے' گئے انہیں تبلیغی مرکز کا بتا کر ' کورونا بم' کہہ کر ذلیل کیا گیا اور سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ پروپیگنڈا ' کورونا جہاد ' اور ' کورونا بم ' کا تھا۔

اگر عدالتوں نے ایک کے بعد ایک فیصلے کرکے تبلیغی جماعت کے لوگوں کو بری نہ کیا ہوتا اور بری کرتے ہوئے یہ نہ کہا ہوتا کہ تبلیغی حضرات قطعی کورونا پھیلانے کے قصوروار نہیں ہیں ، تو الزام تبلیغی جماعت کے سر ہی جاتا ، اور میں بھی اسے قبول کرتا اور آپ بھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ دہلی سمیت ملک بھر کی عدالتوں نے سینکڑوں ملکی اور غیر ملکی جماعتیوں کو بری کیا ، اور ابھی چند مہینے پہلے ہی دہلی ہائی کورٹ نے مودی حکومت سے جواب مانگا تھا کہ تبلیغی مرکز واقع نظام الدین کواب تک کیوں نہیں کھولا گیا ہے؟
جب عدالتوں سے جماعتیوں کو بری کیا جا رہا تھا ، تب پہلے دہلی کی عدالت نے بڑے ہی سخت الفاظ میں کہا تھا کہ مسلمانوں کو مختلف مقامات سے اٹھا کر بڑی ہی بدنیتی کے ساتھ مقدمات میں ملوث کر دیا گیا ہے۔ دہلی کے چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ ، جج ارون کمار گارگ نے سیدھے ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ پر انگلی اٹھائی تھی ، اور وزیراعظم مودی کے بعد حکومت کے سب سے زیادہ بااثر اور طاقتور شخص کے تعلق سے کہا تھا کہ شاید مسلمانوں پر بدنیتی سے مقدمے قائم کرنے کے احکامات امیت شاہ کے دفتر سے ہی آئے تھے۔
اگست 2020ء میں بامبے ہائی کورٹ کی اورنگ آباد بنچ کے جسٹس ٹی وی نلاؤڑے اور جسٹس ایم جی سیولیکر نے غیر ملکی جماعتیوں کو بری کرتے ہوئے کہا تھا کہ ' انہیں قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔' اللہ رب العزت کا کیا نظامِ انصاف ہے کہ جس ملک میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ تمام ہی آئینی اور غیر آئینی ادارے حکومت کے اشارے پر ناچتے ہیں ، اسی ملک میں ، اُن تبلیغی حضرات کے تعلق سے ، حکومت جنہیں ویلن ثابت کرنے کا تہیہ کیے تھی ، عدالت کے فیصلے مثبت آتے ہیں۔


ممبئی ہائی کورٹ کی اورنگ آباد کی بنچ کا مذکورہ فیصلہ حکومت کے منھ پر بھرپور تھپڑ کی مانند تھا ، کہ کورونا وباء پر قابو پانے میں اپنی ناکامی پر پردہ ڈالنے کے لیے مسلمانوں کو پھنسایا گیا ہے۔ عدلیہ کے فیصلوں کے سبب تبلیغی جماعت کورونا پھیلانے کے الزام سے بری ہو گئی ، اور اس کے ساتھ مسلمان بھی ، لیکن وہ جو الزام جماعت پر لگا تھا ' جہاد ' کا ' دہشت گردی ' کا وہ جماعت پر جیسےچپک کر رہ گیا ہے۔
اِدھرجماعت کے لیے ، یہاں حالات بہتر ہونے لگے تھے ، لیکن سعودی عرب کی حرکت نے اسے ایک بار پھر ' ہندوتوادیوں ' کے نشانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ جو آواز اٹھی ہے آپ بھی سن لیں :
ایک خبر آئی ہے کہ ملک کی ' ہندو توادی ' تنظیم وشو ہندو پریشد( وی ایچ پی ) نے بھارت میں اس گروپ پر مکمل پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں وشو ہندو پریشد نے ، بین الاقوامی ورکنگ صدر آلوک کمار کے حوالے سے ، تنظیم کے ٹوئٹر ہینڈل پر ایک پریس ریلیز جاری کی ہے جس میں آلوک کمار نے سعودی عرب کی حکومت کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہوئے تبلیغی جماعت کو 'اسلامی شدت پسندی کی فیکٹری' اور 'عالمی دہشت گردی کی پرورش کرنے والی تنظیم' قرار دیا ہےاور کہا ہے کہ اسی لیے یہ جماعت نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کے لیے ایک خطرہ بن گئی ہے۔
وی ایچ پی کا الزام ہے کہ امریکن ٹریڈ سینٹر پر حملہ ، گودھرا میں 59 ہندوؤں کو زندہ جلانا اور سوامی شردھانند کا وحشیانہ قتل ، یہ سب تبلیغی مرکز کے نظریے کا نتیجہ ہیں۔ بات صرف اتنی ہی نہیں ہے ، وی ایچ پی نے تبلیغی جماعت سے متعلق حکومت سے چار مطالبات کیے ہیں:
پہلا یہ کہ ہندوستان میں تبلیغی جماعت اور اس کے پیروکاروں کے ساتھ اجتماع پر مکمل پابندی عائد کی جائے ، دوسرا یہ کہ نظام الدین مرکز کی عمارتوں اور بینک اکاؤنٹس کو فوری طور پر سیل کیا جائے ، تیسرا یہ کہ جماعت کے معاشی ذرائع تلاش کرکے انہیں بند کیا جائے ، اور چوتھا یہ کہ دارالعلوم دیوبند اور پی ایف آئی جیسی ان کی حمایت کرنے والی تنظیموں کے خلاف بھی کریک ڈاؤن کیا جائے۔


آلوک کمار نے اپنے سارے مطالبات ، سعودی عرب کے ' فیصلے ' کو جواز بنا کر ، کیے ہیں۔ آلوک کمار نے یہ کہا ہے کہ سعودی عرب کی حکومت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرنے کے بجائے ، ہندوستان میں کچھ مسلم تنظیموں کی اس فیصلے کی مخالفت نے ، دہشت گردی کو پروان چڑھانے میں اپنا کردار واضح کر دیا ہے۔ ان کے مطابق:
'' درحقیقت اس تبلیغی جماعت کی اصل پیدائش دارالعلوم دیوبند سے ہے ، اس لیے دارالعلوم دیوبند پر بھی پابندی لگائی جائے۔''
پرانے ' ہندوتوادی ' پروین توگڑیا ، جو ان دنوں ' عالمی وشو ہندو پریشد ' کے صدر کہے جاتے ہیں ، بھی اکھاڑے میں کود پڑے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ صرف تبلیغی جماعت ہی نہیں دارالعلوم دیوبند اور جمعیتہ علماء ہند پر بھی پابندی لگائی جائے۔ یہ جو پابندی کے مطالبات ہیں ان کا مطلب سمجھ میں آ رہا ہے ؟ ہر اس ادارے ، مرکز اور ہر اس عمل کو ختم کرنا جو اپنی شکل صورت میں اسلامی ہو۔ گویا کہ یہ حملہ راست اسلام پر ہے۔


اگر یہ سوال کیا جائے کہ ہمارے ملک کے ' ہندو توادیوں' اور سعودی عرب کے 'یہود نوازوں ' کے جماعت کے خلاف شرانگیزی کے مقاصد میں کیا فرق ہے ؟ تو جواب یوں دیا جا سکتا ہے کہ دونوں کے مقاصد میں بڑا فرق ہے ، لیکن دونوں مقاصد کا نتیجہ ایک ہی شکل میں برآمد ہو سکتا ہے۔
اول الذکر یعنی ' ہندو توادی ' تو یہ سب اس ملک کو ' ہندوراشٹر ' بنانے کے لیے کر رہے ہیں۔ ایک ایسا ' ہندو راشٹر ' جہاں اسلام سمیت سارے دوسرے مذاہب ، عیسائیت و یہودیت وغیرہ بےحیثیت ہوں گے۔
اور سعودی عرب یہ سب کیوں کر رہا ہے ؟ اس سوال کے جواب کے لیے حالیہ دنوں کے سعودی عرب کے اقدامات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ارضِ مقدس یعنی سرزمین حجاز میں ان دنوں ، بلکہ یہ کہہ لیں کہ 2015ء میں ، جب سےسلطان سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے بیٹے محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کیا ہے ، ' تہذیب و تمدن ' کا پیہہ الٹا گھومنے لگا ہے۔ کوئی یہ تصور تک نہیں کر سکتا تھا کہ وہاں سنیما گھر کھلیں گے ، ناٗئٹ کلب شروع ہوں گے ، شراب و کباب کا دور چلے گا اور خواتین کو بے پردگی کی ویسی ہی آزادی حاصل ہو گی جیسی کہ امریکہ میں ہے۔ اور عورتیں قومی پرچم لے کر ناچیں گی ، وہ قومی پرچم جس پر لا الہ الا اللہ لکھا ہے۔ محمد بن سلمان کے دور میں یہ سب ہو رہا ہے۔
وہاں ایک ڈیجیٹل شہر بن رہا ہے جو دنیا کے جدید ترین شہروں سے بھی زیادہ جدید ہوگا اور وہاں ہر طرح کے عیش کا سامان ، بشمول شباب ، حاصل ہوگا۔ یوں تو تیل کی دولت سے مالا مال عرب عرصے سے عیش میں ڈوبے ہوئے ہیں ، لیکن دین سے ایسے دور نہیں رہے کہ ارضِ مقدس کو بے حیائی کا اڈہ بنا دیتے ، محمد بن سلمان یہ سب کر رہے ہیں ، اور اگر اس کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے تو اسے یا تو خشوجی کی طرح قتل کرا دیا جاتا ہے یا پھر شہزادہ طلال کی طرح اسیرِ زنداں کر دیا جاتا ہے۔ اور علماء اگر زبان کھولتے ہیں تو زبانوں پر تالے ڈال دیے جاتے ہیں۔ دراصل ولی عہد ، جو حکمراں ہی ہیں اب ، سعودی عرب کو بالکل امریکہ کے رنگ میں رنگ دینا چاہتے ہیں ، یہاں تک کہ معیشت بھی۔


کیا آپ جانتے ہیں کہ حج کے مقدس فریضے کو اب ' سیاحت ' کے طرز پر چلانے کا منصوبہ ہے !
حج کو ٹورازم کی انڈسٹری میں ڈھالا جائے گا۔ اس کا بڑا مقصد مسلمانوں کے دلوں سے اس فریضے کا تقدس ختم کرنا ہے۔ بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ سارے ارضِ مقدس کا ہی تقدس ختم کرنا ہے تو زیادہ درست ہوگا۔ اس کی ایک وجہ اسرائیل سے دوستی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ اسرائیل ابتدا ہی سے عالمِ اسلام پر قابض ہونے کے مواقع تلاش رہا ہے ، اور اب اسے محمد بن سلمان کی شکل میں ایک ساتھی مل گیا ہے ، اپنی خواہشات کی تکمیل کا۔
ان دنوں اسرائیل اور سعودی عرب میں خوب بن رہی ہے ، تجارت سے لے کر سفارت تک سب ہو رہا ہے۔ مذکورہ پس منظر میں تبلیغی جامعت پر کارروائی پر غور کریں تو اندازہ ہو جاتا ہے کہ یہ ایک انتباہ ہے ان جماعتوں کے لیے ، جو محمد بن سلمان کے ارادوں کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ تبلیغی جماعت بے ضرر قسم کی جماعت ہے ، روزہ نماز کی تلقین کرنے والی ، القاعدہ اور داعش کی طرح اس کا دہشت گردی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا ثبوت ، لیکن اس کے خلاف کارروائی کر کے ساری اسلامی دنیا اور ساری اسلامی جماعتوں کو وارننگ دے دی گئی ہے ، پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ جب تبلیغی جماعت کو نہیں بخشا تو تمہیں کیسے بخش سکتے ہیں کہ تمہارے خلاف تو بڑا مواد ہے۔
یہ ایک نفسیاتی حملہ ہے ، اس کے اثرات دور رس ہوں گے۔ سارا عالمِ اسلام اور ساری دنیا کے مسلمان اس فیصلے کے منفی اثرات تو جھیلیں گے ہی ، اس کا بہت بڑا بلکہ بنیادی منفی اثر دینِ اسلام پر پڑے گا ، اس کی بنیادوں پر۔
اور امریکہ ، اسرائیل و یوروپ اور 'ہندو توادی' یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان مذہب سے دور ہوں اور دنیا کی رنگ رلیوں میں ڈوب جائیں۔ لہٰذا شدید ضرورت اس بات کی ہے کہ سعودی عرب کے اس شر انگیز فیصلے کے خلاف متحد ہو کر آواز اٹھائی جائے۔


***
بشکریہ: شکیل رشید فیس بک ٹائم لائن
khansh.rasheed[@]gmail.com

The ban of Tablighi jamat in Saudi Arabia. Column: Shakeel Rasheed, Mumbai.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں