امیر تیمور گورکانی درہ "کانہول" میں جو گلاب و یاسمن کے سرخ و سفید پھولوں کے ایک حسین ابر پار سے چھپا ہوا تھا۔ عیش و نشاط اور ناؤ نوش میں مشغول تھا۔ سمرقندی شاعروں نے اس درہ کو " پروازِ گل" کے نا م سے موسوم کیا تھا۔ اس دلچسپ مقام سے شہر کے تمام"آسماں شکوہ، مینار، اور مساجد، و معابد کے سبز گنبد بخوبی نظر آتے تھے۔ درہ کی لمبائی کے گرد، پندرہ ہزار رنگین قناتیں، بڑے بڑے پنکھوں کی طرح، زمین پر قائم تھیں، اور ان پر دیبا وپرنیاں کی رنگین جھنڈیاں، ایسا معلوم ہوتا تھا ، جاندار پھول ہوا میں تیر رہے ہیں!
تیمور کا خیمہ ان قناتوں اور چھولداریوں کے درمیان ایک خوبصورت ملکہ کی طرح نظر آتا تھا جو اپنی خواصوں کنیزوں کے حلقہ میں کھڑی ہو۔ اس کے خیمہ کی قنات، زمین کا مربع حصہ گھیرے ہوئے تھی جس کے چاروں حصے تقریباً سو قدم طویل اور تین نیزوں کے برابر بلند تھے۔ خیمہ بارہ طلائی ستونوں پر قائم تھا جو درمیانی حصے کے نیچے نصب تھے۔ اور اس غرض سے کہ کہیں یہ رنگ و بو کا ارضی ابر آسمان کی طرف نہ اڑ جائے ، پانسو سرخ ریشمیں طنابوں کے ساتھ محکم کردیا گیا تھا۔ خیمہ کے چاروں گوشوں میں ایک ایک چاندی کا بنا ہوا شاہین، جو صنعت کا نفیس ترین نمونہ تھا، بٹھایا گیا تھا۔۔ خیمہ کے بیچ میں پانچوں شاہین ،خود تیمور تھا۔ وہ شہنشاہ جونہیں جانتا تھا مغلوب ہونا کسے کہتے ہیں؟؟
تیمور کا لباس بہت کشادہ تھا ، جو آبی رنگ کے دیبا سے تیار کیا گیا تھا، اس پر پانچ ہزار سے زیادہ مروارید کے دانے ٹکے تھے۔ سر پر سفید اور شکستہ کلاہ جس کے نیچے سے اس کے سپیدہ و سیاہ بال باہر نکل رہے تھے۔ اس کی آنکھوں سے ، جو چاروں طرف نگراں تھیں ، جوش کا خون ابل رہا تھا۔
اس کی آنکھیں چھوٹی اور تنگ تھیں مگر ہر چیز دیکھ رہی تھیں، دیکھ سکتی تھیں۔ ان سے زہر کی سی سری اور خنکی ٹپک رہی تھی۔
شہنشاہ کے کانوں میں سر اندیپ کے عقیق کے دو گوشوارے تھے، رنگ میں حسین و جمیل ہونٹوں سے ملتے جلتے !!
خیمہ میں نہایت نفیس اور قیمتی قالین بچھے تھے، جن پر عیش و عشرت کا سامان مہیا تھا۔ ایک طرف۔۔۔ مغنیوں اور سازندوں کا ہجوم تھا۔۔ تیمور کے قریب ، اس کے عزیز اقرباء ، دوسرے بادشاہ، خوانین اور فوجی افسر بیٹھے تھے۔۔ سب سے زیادہ نزدیک، اس کے دربار کا شاعر"کرمانی"۔۔ اپنے کیف معنوی میں مخمور نظر آتا تھا!
یہ وہی"کرمانی" ہے جس سے ایک دن، تیمور کی اس طرح گفتگو ہوئی تھی:
"کرمانی! اگر مجھے فروخت کیاجائے تو تم کتنے میں خریدو گے؟" تیمور نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
"پچیس سپاہیوں کے معاوضے میں!"کرمانی کا جواب تھا۔
" یہ تو صرف میرے زریں پٹکے کی قیمت ہے۔" تیمور نے غضب ناک ہوکرکہا۔
"میں نے بھی تو اس کے پٹکے کی قیمت لگائی ہے، ورنہ خود آپ کی ذات کے ل ئے تو کوئی ایک روپیہ بھی نہ دے گا۔!!"
کرمانی نے باکی سے جواب دیا۔
کیسا زبردست اور جابر شہنشاہ! کس قدر دہشت انگیز!۔۔۔۔
کس درجہ ہولناک!!!۔۔۔ اور کرمانی کی یہ بے خوف گفتگو!! کیا اس حق گو شاعر کی شہرت، تیمور کی شہرت سے زیادہ بلند ہونے کا حق نہیں رکھتی؟؟
یکایک۔۔۔اس بزم نو شانوش کے مترنم اور خوشگوار ، ہنگاموں میں، ایک آواز جس طرح بادلوں سے بجلی کوند جاتی ہے۔۔"یہلدیرم بایزید" کے مغلوب کرنے والے کے کانوں میں آئی!
یہ آواز۔۔۔ ایک عورت کی آواز تھی، جو ایک غضبناک شیرنی کی آواز کی طرح سنائی دی!!
تیمو رکے انتقام جو اور زخمی دل کو، جو اس کے فرزند دلبند کے ضائع ہوجانے کے سبب سے تمام دنیا اور دنیا والوں کے خلاف، غیظ و غضب سے لبریز ہوگیا تھا۔ یہ آواز ایک آشناسی آواز معلوم ہوئی ، جام عشرت اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس کے لبوں پر ایک اضطراری لہر دوڑ گئی۔ یہ لہر کہہ رہی تھی"یہ دل خراش آواز کہاں سے آئی؟"
حکم کی تعمیل"بندگانِ دولت" کی گھبراہٹ نے کی جو چاروں طرف دوڑ گئے تھے۔
شہنشاہ کو جواب ملا" یہ ایک دیوانی عورت کی آواز ہے جو کسی طرح یہاں تک پہونچ گئی ہے۔ شکل و صورت سے فقیرنی معلوم ہوتی ہے۔ عربی میں گفتگو کرتی ہے اور"فرماں روا ئے بحروبر" کی آستاں بوسی کی خواہشمند ہے!"
"فوراًحاضر کی جائے !!"
تیمور نے حکم دیا اور۔۔۔ عورت خیمہ میں داخل ہوئی۔۔ برہنہ پا! پھٹے ہوئے کپڑے! سینہ چھپانے کے لئے اپنی زلفیں بکھیرے ہوئے! چہرہ کا رنگ اڑا ہوا۔۔ بغیر کسی کپکپاہٹ کے، جو ایسے باجاہ۔۔ و جلال اور ہیبت ناک شہنشاہ کی موجودگی کا ادنی سا خراج تھا۔۔ اس نے دونوں ہاتھ شہنشاہ کی طرف پھیلادئیے اور بے باکانہ۔۔۔ خود فراموشانہ لہجہ میں گویا ہوئی۔
"کیا تو ہی وہ فرماں روا ہے جس نے سلطان بایزید کو مغلوب کیا؟"
"ہاں میں ہی ہوں۔۔۔ میں نے ہی بایزید کو اور بایزید ایسے کئی بادشاہوں کو مغلوب کیا ہے ! بتاتو کیا چاہتی ہے؟"
تیمور نے جواب دیا۔
"سن اے امیر! تو جو کچھ بھی ہے اور جس حیثیت میں ہے پھر بھی ایک آدمی ہے! لیکن میں۔۔ آہ، میں ایک ماں ہوں ! تو موت اور ہلاکت کی خدمت کرتا ہے ، میں زندگی اور سلامتی کی خدمت کرتی ہوں۔ تو انسان کو ہلاک کرتا ہے ، میری گود میں اس کی پرورش ہوتی ہے۔ مجھے بتلایا گیا ہے کہ تیرے عقیدے میں انصاف کرنا، توانائی میں داخل ہے ، مگر مجھے یقین نہیں آتا، اور نہیں آئے گا ، جب تک تو میری فریاد کو۔۔ میری داد کو نہیں پہونچے گا!"
عورت نے کمال تمکین ووقار کے لہجہ میں کہا" اس لئے کہ میں ایک ماں ہوں اور ایک دکھیاری ماں!!"
تیمور نے عورت کی بے خوفی اور بے پروائی کو حیرت سے دیکھا اس کو بیٹھنے کی اجازت دی" میں سن رہا ہوں تم اصل واقعہ سناؤ!"
عورت شہنشاہ کے سامنے چار زانو بیٹھی اور کہنے لگی۔"امیر! میں سالر مو کی رہنے والی ہوں۔ تو نے ہرگزا س جگہ کا نام نہ سنا ہوگا کیونکہ وہ دور ہے۔ یہاں سے بہت ہی دور!۔۔ میرا باپ اور شوہر ماہی گیر تھے، ایک دن بحری قزاقوں نے چھاپا مارا اور"۔۔۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔۔"دونوں کو قتل کرڈالے۔ میرے۔" اس کی ہچکی بندھ گئی تھی۔۔ "میرے لخت جگر کو جو نہایت خوبصورت تھا۔"
تیمور کے منہ سے آہ نکل گئی۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔"خوبصورت!۔۔۔ میرے لڑکے جہانگیر کی طرح!آہ"
عورت نے اپنا قصہ جاری رکھتے ہوئے اور آنکھوں سے سیلاب درد بہاتے ہوئے کہا" بے رحم قزاق میرا لڑکا پکڑ لے گئے۔ آج چار سال!۔۔ آہ، پورے چار سال گزرے کہ میں اس کی تلاش میں دیوانہ وار چاروں طرف پھرتی ہوں مگر کہیں پتہ نشان نہیں ملتا۔۔۔ امیر! میں سمجھتی ہوں میرا لڑکا تیرے پاس ہے، کیونکہ بایزید کے لشکر نے ان بحری قزاقوںں کو گرفتار کرلیا تھا اور تونے بایزید کو شکست دے کر اس کا سب کچھ چھین لیا۔ ضرور ہے کہ میرا لڑکا تیرے پاس ہوگا اور اس لئے میں چاہتی ہوں تو اسے میرے سپرد کردے!"
حاضرین دربار، عورت کی باتوں پر ہنس پڑے" یہ دیوانی ہوگئی ہے۔"
شاعر کرمانی نے کہا" ہاں یہ دیوانی ہے مگر ایک ماں کی طرح!"
تیمور نے دریافت کیا،"بڑھیا تو کس طرح اس قدر دور دراز راستوں سے اس جگہ آپہونچی ہے ؟ تونے ایسے ایسے پہاڑ اور جنگل کیوں کر طے کئے؟ راستہ میں وحشی لٹیروں اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں سے کس طرح بچی؟"
آہ، ماں کی محبت!!!۔۔۔ !! ماں کی ہمیں پرستش کرنی چاہئے! دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو ماں کی محبت کے راستہ میں حائل اور مانع ہوسکے۔ انسان کے تمام کامل صفات و حسنات۔۔۔ سب ماں کے دودھ کی چھاؤں میں پرورش پاتے ہیں۔۔َ!! پھول آفتاب کے بغیر پیدا نہیں ہوتا! نیک بختی، محبت کے بغیر نصیب نہیں ہوتی! محبت، عورت کے بغیر ممکن نہیں۔۔ اور شاعر اور سپاہی۔۔ کوئی بھی ماں کے بغیر پیدا نہیں ہوسکتا۔۔۔!
مظلوم عورت نے مکرر کہا"تیمور! میرا لڑکا مجھے دلادے!"
شاعرکرمانی بولا۔" ماؤں کی ہمیں پرستش کرنی چاہئے اس لئے کہ وہ ہمارے لئے بڑے بڑے آدمی پیدا کرتی ہیں۔ اور آدمیوں کو بلند رتبہ پر پہونچاتی ہیں۔ ارسطو، فردوسی ، اور۔ اسی طرح سعدی اپنے شہد آمیز شیریں زبانی کے ساتھ۔۔ عمر خیام اپنی شراب کی سی زہر آلود رباعیوں کے ساتھ۔۔ سکندر، ہومر اور بہرام گور۔۔۔ یہ سب عورت کے ، ایک ماں کے بچے ہیں!"
تیمور اس عورت کی باتوں سے کسی گہری فکر میں چلا گیا، پھر سر اٹھا کر۔۔۔ اس نے حکم دیا کہ تین سو شہسواروں فوراً اس لڑکے کی تلاش میں روانہ ہوجائیں، جو شخص ڈھونڈ کر لائے گا اسے انعام دیاجائے گا۔۔ "پھر اس نے آہ بھر کر کہا۔۔ میں سمجھ گیا، یہ عورت اس قدر بے پروا اور بے خوف کیوں ہے؟ چونکہ وہ ماں ہے!۔۔ ایک محبت کرنے والی ماں!!! اور کوئی ماں نہیں ہوتی جو محبت نہ کرتی ہو!!! لڑکے کے کھوجانے سے اس کے دل میں آگ سی بھڑک رہی ہے۔ ایسی آگ ! جو برسوں تک، قرنوں تک شرارے چھڑک سکتی ہے !!
تیمور کے حکم جاری کرنے پر کرمانی کی شاعرانہ اور درد آشنا روح وجد میں آگئی ، اس نے فی البدیہہ یہ اشعار موزوں کر لئے:
ماں
یہ کون نغمہ ہے ساری دنیا کے نظم ہائے طرب سے شیریں؟
جو آسماں کے ستاروں ، باغوں کے پھولوں کا عکس بن رہا ہے
کوئی بتائے بھلا وہ کیا ہے ؟
زمانے کے اہل ذوق میں سے ہر ایک کا یہ خیال ہوگا
کہ وہ محبت ہے جس سے یہ خاکدانِ تیرہ سنور رہا ہے!
حریم ہستی مہک رہا ہے !
وہ چیز ، جو آفتاب نصف النہار اردی بہشت سے بھی
ہزار درجہ زیادہ اچھی ہے خوبصورت ہے ، خوشنما ہے
کوئی بتائے بھلا وہ کیا ہے؟؟
فضائے شبگوں میں میں نے دیکھے ہیں مسکراتے ہوئے ستارے!
میں جانتا ہوں کہ چشم محبوب ساے پھولوں سے خوشنما ہے!
شراب گوں ہے شراب زا ہے !
میں جانتا ہوں کہ اس کا اک ہلکا ہلکا سا نازنین تبسم
دل شکستہ کے حق میں کس درجہ مہرانگیز ومہر زا ہے!
لب تکلم کا معجزہ ہے!
کرشمہ آرائی ہائے احساس حسن کے باوجود اب تک
نہ کہہ سکا کوئی شاعر آخر، وہ نغمہ دل پذیر کیا ہے؟
جو سب سے بہتر ہے دلربا ہے !!
مگر میں کہتا ہوں اب کہ وہ نغمہ۔۔ آہ ، وہ دلگداز نغمہ!
جو ساری دنیا کے سارے رنگیں ترانوں کا اصل مبتدا ہے!
جو قلب فطرت کا آئینہ ہے!
وہ نغمہ۔۔ وہ کائنات کا۔۔ کائنات کا سحر کار دل ہے!!
وہ دل کہ جس کا جہان والوں نے پیار سے نام ماں رکھا ہے!!
وہی محبت کی ابتداء ہے!!
وہی محبت کی انتہا ہے!!
مترجم: اختر شیرانی، لاہور
(2/ستمبر 1927)
ماخوذ از کتاب: الہلال کے منتخب افسانے
مرتب: ایم۔ کوٹھیاوی راہی۔ ناشر: اترپردیش اردو اکادمی، لکھنؤ۔ سن اشاعت: 1988ء
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں