مگدھ ایک پرانی ریاست تھی۔ یہ اس جگہ بسی ہوئی تھی جہاں اب بہار کا صوبہ ہے۔ اس ریاست کی راج دھانی پاٹلی پتر تھی جسے اب پٹنہ کہتے ہیں۔ جس وقت کا ہم ذکر کررہے ہیں اس وقت مگدھ کی ریاست پر نندخاندان کی حکومت تھی۔ جب سکندر نے شمالی و مغربی ہندوستان پر حملہ کیا تھا اس وقت پاٹلی پتر کے تخت پر ایک نند راجا حکومت کرتا تھا۔ اس وقت وہاں چندر گپت نام کا ایک نوجوان بھی تھا جو غالباً اس راجا کا کوئی رشتے دار تھا وہ بہت ہوشیار ، حوصلہ مند اور اولوالعزم شخص تھا۔ نندراجا نے اسے ضرورت سے زیادہ ہوشیار اور اپنے لئے خطرناک سمجھ کر یا اس کی کسی حرکت سے خفا ہوکر اسے ملک بدر کردیا تھا۔ شاید سکندر اور یونانیوں کی کہانیون سے متاثر ہوکر چندر گپت شمال کی جانب تکشلا چلا گیا۔ اس کے ساتھ وشنو گپت نام کا ایک عالم اور تجربے کا ربرہمن تھا جسے چانکیہ بھی کہتے ہیں۔ چندر گپت اور چانکیہ دونوں ہی طبیعت سے ایسے انسان نہ تھے جو مقدر کے آگے سرنگوں ہوکر اطمینان کرلیتے ان کے ذہنوں میں بہت سے حوصلہ مند انہ منصوبے پرورش پارہے تھے۔ وہ آگے بڑھنا اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ چندر گپت شاید سکندر کے جاہ و جلال سے متاثر ہوگیا تھا اور اسی کے نقش قدم پر چلنا چاہتا تھا۔ اس کی خوش قسمتی کہ اسے چانکیہ جیسا اچھا دوست، بہی خواہ اور صلاح کار مل گیا تھا۔ یہ دونوں ہی ہر وقت خبرار رہتے تھے اورتکشلا کی سر گرمیوں پر کڑی نگاہ رکھتے تھے۔
بہت جلد وہ موقع آگیا۔ سکندر کے انتقال کی خبر جیسے ہی تکشلا پہنچی ، چندر گپت نے سمجھ لیا کہ اب کچھ کر گزرنے کا وقت آگیا ہے۔ اس نے آس پاس کے لوگوں کو ابھارا اور ان کی مدد سے یونیانیوں کی فوج پر ، جسے سکندر چھوڑ گیا تھا ، حملہ بول دیا اور اسے مار بھگایا۔ تکشلا پر قبضہ کرنے کے بعد چندر گپت اور اس کے ساتھیوں نے پاٹلی پتر کی طرف رخ کیا اور راجا نند کو شکست دے دی۔ یہ 321 قبل مسیح یعنی سکندر کے انتقال کے محض پانچ سال بعد کا واقعہ ہے۔ اسی وقت سے موریہ خاندان کا راج شروع ہوتا ہے۔ یہ صاف صاف پتہ نہیں چلتا کہ چندر گپت، موریہ، کیوں کہلایا۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کی ماں کا نام”مورا” تھااس لئے وہ موریہ کہلایا۔ کچھ دوسرے لوگوں کا قیاس ہے کہ اس کا نانا راجا کے موروں کار کھولا تھا ، مورکو سنسکرت میں “میور” کہتے ہیں۔ اس لفظ کا ماخذ خواہ کچھ ہو چندر گپت بہرحال اپنے اسی لقب سے مشہور ہے۔
مہا بھاررت اور دوسری پرانی کتابوں اور کتھاؤں میں ہمیں چکرورتی راجاؤں کا ذکر ملتا ہے ، جنہوں نے سارے ہندوستان پر راج کیا تھا لیکن ہمیں اس زمانے کا ٹھیک ٹھیک حال معلوم نہیں اور نہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت بھارت یا بھاررت ورش کا علاقہ کتنا پھیلا ہوا تھا ، ممکن ہے کہ اس زمانے کے جو قصے سینہ بہ سینہ چلے آتے ہوں ان میں زمانہ قدیم کے راجاؤں کی عظمت اور شان و شوکت کو محض بڑھا چڑھا کر بیان کرنے کی کوشش ہی کافرما رہی ہو۔بہر حال چندر گپت موریہ کی سلطنت ہندوستان میں مستحکم اور وسیع سلطنت کی پہلی مثال ہے۔ اسکا نظام حکومت بہت ترقی یافتہ قسم کا تھا۔
چندر گپت کے دورانِ حکومت میں سکندر کے پہلے گورنر سیلوکس نے، جسے ایشیاء کوچک سے لے کر ہندوستان تک کی سلطنت ملی تھی ایک بڑی فوج لے کر سندھ ندی کو پار کرلیا اور ہندوستان پر حملہ کردیا۔ مگر اپنی اس جلد بازی پر اسے بہت شرمندگی اٹھانی پڑی۔ چندر گپت نے اس کے دانت کھٹے کردئے، جس راستے وہ آیا تھا اسی راستیے وہ اپناسا منہ لے کر واپس لوٹ گیا۔ الٹے لینے کے دینے پڑ گئے۔ کابل اور ہرات تک گاندھار( افغانستان) کا ایک بہت بڑا علاقہ چندر گپت کو دینا پڑا۔ چندر گپت نے سیلوکس کی لڑکی سے شادی بھی کرلی۔ اس کی سلطنت اب سارے ہندوستان میں افغانستان کے ایک بڑے حصے کابل سے بنگال تک اور بحر عرب سے خلیج بنگال تک پھیل گئی۔ صرف جنوبی ہندوستان اس کے ماتحت نہیں تھا۔ اس زبردست سلطنت کی راجدھانی پاٹلی پتر تھی۔
سیلوکس نے چندر گپت کے دربار میں میگستھنیز کو اپنا سفیر مقرر کیا، میگستھنیز نے اس زمانے کا بہت ہی دلچسپ حال لکھا ہے لیکن اس سے زیادہ دل چسپ ایک دوسرا تذکرہ بھی ملتا ہے جس میں چندر گپت کے دور حکومت کا پورا حال موجود ہے۔ یہ کتاب کوٹلیہ کا”ارتھ شاستر” ہے۔ یہ کوٹلیہ اور کوئی نہیں چانکہ یا وشنو گپت کا دوسرا نام ہے۔
ارتھ شاسترس میں مختلف موضوعات شامل ہیں اور ان پر اتنی تفصیل سے بحث کی گئی ہے کہ ان سب کے بارے میں پوری پوری باتیں بتانا ممکن نہیں ہے۔ اس میں راجاؤں اور ان کے وزیروں اور مشیر کاروں کے فرائض ، دربارداری کے آداب ، مختلف انتظامی شعبہ جات ، تجارت اور بیوپار، گاؤں اور قصبوں کا نظم و نسق ، قانون اور عدالت ، سماجی رسم و رواج ، عورتوں کے حقوق ، معذوروں اور ضعیفوں کی خبرگیری ، سیاسیات ، کھیتی باڑی، صنعت و حرفت ، محصول بندی اور جیلوں تک کا ذکر موجور ہے۔
راجا کو بادشاہی کے اختیارات تاج پوشی کے وقت رعایا سونپتی تھی ، اس کے بعد اسے رعایا کی خدمت کے لئے حلف اٹھانا پڑتا تھا۔ اسے یہ عہد لینا پڑتا تھا اگر میں تمہیں ستاؤں تو بھگوان مجھے جنت سے زندگی اور آل و اولاد سے محروم کردے۔ اس کتاب میں راجا کے معمولات دئے ہوئے ہیں، اس کے مطابق راجا کو ضروری کام کے لئے ہمہ وقت تیار رہنا پڑتا تھا۔ کیوں کہ”رعایا کا کام نہ تو رک سکتا ہے اور نہ اسے راجا کی سہولت کا خیال کر کے روکے رکھا جاسکتا ہے۔” راجا جس قدر مستعد ہوگا اس کی رعایا بھی اتنی ہی مستعد ہوگی” اپنی رعایا کی خوشی میں ہی اس کی خوشی ہے ، رعایا کی بھلائی میں ہی اس کی بھلائی ہے۔ جو بات اسے اچھی لگے اسے وہ اچھی نہ سمجھے بلکہ رعایا کو جو اچھی لگے اس کو وہ اچھا جانے۔ یہ ایک قابل لحاظ بات ہے کہ قدیم ہندوستان میں حکمرانی کا مطلب عوام کی خدمت تھا۔ راجاؤں کو نہ تو خداداد حقوق حاصل تھے اور نہ وہ مطلق العنان ہوتے تھے۔ اگر کوئی راجا ظلم کرتا تھاتو رعایا کو اختیار تھا کہ اسے گدی سے اتار دے اور اس کی جگہ دوسرے کو بٹھا دے۔ اس زمانے میں بادشاہت کے متعلق یہی تصور کارفرما تھا۔ اس میں شک نہیں ہے کہ اس وقت بھی ایسے بہت سے راجا ہوئے جو اس اونچے آدرش سے بہت نیچے جا گرے اور جن کی حماقتوں کی وجہ سے اس ملک اور اس قوم پر طرح طرح کی مصیبتیں نازل ہوئیں۔
ارتھ شاستر میں اس پرانے اصولل پر بھی زور دیا گیا ہے کہ “آریہ” کبھی غلام نہیں بنایاجاسکتا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس زمانے میں کسی نہ کسی صورت میں غلام ضرور ہوا کرتے تھے جو یا ملک کے باہر سے لائے جاتے ہوں گے یا اسی ملک کے رہنے والے ہوتے ہوں گے۔ لیکن جہاں تک آریوں کا تعلق تھا اس با کا پورا لحاظ رکھاجاتا تھا کہ وہ کسی بھی حالت میں غلام نہ بنائے جائیں۔
موریہ سلطنت کا پایہ تخت پاٹلی پتر تھا ، یہ بتہ شاندار شہر تھا اور گنگا کے کنارے کنارے نو میل تک پھیلا ہوا تھا۔ اس کی شہر پناہ میں 64 بڑے دروازے اور سینکڑوں چھوٹے دروازے تھے۔ مکان زیادہ تر لکڑیوں کے بنے ہوئے تھے اور چوں کہ آگ لگنے کا ڈررہتا تھا اس لئے آگ بجھانے کا بہت معقول انتظام تھا ، خاص خاص سڑکوں پر پانی سے بھرے ہزاروں گھڑے ہر وقت رکھے رہتے تھے۔ ہر ایک گھر گرہست کو بھی اپنے اپنے گھر میں پانی سے بھرے ہوئے گھڑے ، سیڑھی کانٹے اور دوسری ضروری چیزیں رکھنی پڑتی تھی۔ تاکہ ضرورت پڑنے پر ان سے کام لیاجاسکے۔
کوٹلیہ نے شہر کے بارے میں ایک قاعدے کا بھی ذکر کیا ہے جس کا بیان یہاںدلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ اگر کوئی آدمی سڑک پر کیچڑ اور پانی جمع ہونے دیتا تھا تو اس پر جرمانہ کیاجاتا تھا۔ اگر ان قاعدوں کی پابندی ہوتی رہی ہوگی تو پاٹلی پتر یا دوسریے اور شہر یقینا بہت خوبصورت اور صاف ستھرے رہے ہوں گے۔
پاٹلی پتر میں شہری انتظام کے لئے ایک میونسپ کونسل تھی۔ تمام شہری اس کونسل کے ممبروں کا انتخاب کرتے تھے۔ اس میں 30ممبر ہوتے تھے۔ ان میں سے پانچ پانچ ممبروں پر مشتمل چھ کمیٹیاں تشکیل کی جاتی تھیں۔ شہری صنعت و حرفت کی حوصلہ افزائی اور دیکھ ریکھ ، مسافروں اور تیرتھ یاتریوں کے آرام اور حفاظت کے انتظامات، فوتی اور پیدائش کے اندراجات اور دوسری چیزیوں کا انتظام انہیں کمیٹیوں کے ہاتھ میں رہتا تھا۔ پوری کونسل صفائی ستھرائی ، آمدوخرچ، پانی کا انتظام، باغ باغیچے اور پبلک عمارتوں کی دیکھ ریکھ کا انتظام کرتی تھی۔
انصاف کرنے کے لئے پنچایتیں اور اپیل سننے کے لئے عدالتیں قائم تھیں۔ قحط زدوں کی مدد کا خاص انتظام ہوتا تھا۔ سرکاری گودام کا آدھا غلہ قحط زدوں کی ضرورتوں کے لئے ہمیشہ محفوظ رکھاجاتا تھا۔
یہ تھی اس موریہ سلطنت کی ایک جھلک جس کی آج سے 22 سو سال پہلے چانکیہ اور چندر گپت نے تنظیم کی تھی۔ پاٹلی پتر کی راج دھانی سے لے کر اس عظیم الشان سلطنت کے بڑے بڑے شہروں اور ہزاروں قصبوں اور گاؤں تک سارے ملک میں زندگی رواں دواں اور چہل پہل سے بھرپور تھی۔ سلطنت کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بڑی بڑی سڑکیں تھیں۔ ایک شاہ راہ پاٹلی پتر سے شمال مغربی سرحد کو چلی گئی تھی۔ بہت سی نہریں تھیں اور ان کی دیکھ بھال کے لئے ایک محکمہ بھی تھا۔اس کے علاوہ جہاز رانی کا شعبہ بھی تھا۔ جو بندرگاہوں، گھاٹوں، پلوں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ آنے جانے والے متعدد جہازوں اور کشتیوں کی دیکھ بھال کیا کرتا تھا۔ جہاز سمندر پار چین اور برما تک جاتے تھے۔
اس عظیم الشان سلطنت پر چندر گپت نے 24 سال تک حکومت کی۔ 296 قبل مسیح میں اس کا انتقال ہوا۔
ماخوذ از کتاب: یادگار شخصیتیں (مضامین) مصنف: جواہر لال نہرو۔ اردو ترجمہ: رفیق محمد شاستری
ناشر: مکتبہ جامعہ لمیٹڈ، نئی دہلی۔ سنہ اشاعت: 1966
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں