" اپنی یاد میں"
اپنی موت کے پس منطر میں تحریر کیے گئے نامور اہلِ قلم کے منفرد خاکے، کتبے اور منظومات
تدوین: عقیل عباس جعفری
ڈاکٹر صابرہ سعید نے اپنی کتاب "اردو ادب میں خاکہ نگاری" میں خاکوں کی کئی قسمیں بیان کی ہیں، جنھیں انھوں نے تعارفی خاکے، سرسری خاکے، تاثراتی خاکے، مدحیہ اور توصیفی خاکے، بیانیہ اور سنجیدہ خاکے، کرداری خاکے، سوانحی خاکے، معلوماتی خاکے، اجتماعی خاکے، مزاحیہ خاکے، طنزیہ خاکے اور ذاتی یا خودنوشت خاکے کا نام دیا ہے۔
اردو میں ذاتی یا خودنوشت خاکوں کے چند مجموعے بھی شائع ہو چکے ہیں جن میں صہبا لکھنوی کا مرتب کردہ مجموعہ "آئینہ خانے میں"، ڈاکٹر اشفاق احمد ورک کا "خود ستائیاں" اور شاہد حنائی کا "بقلم خود" شامل ہیں۔ گزشتہ چند برس سے اردو ادب میں ذاتی یا خودنوشت خاکوں کی ایک اور قسم کا اضافہ ہوا ہے جسے "خود وفاتیہ" کا نام دیا گیا ہے۔ خود ستائیاں اور بقلم خود میں ایسے چند خاکے بھی شامل ہیں تاہم اردو ادب میں (غالباً) اب تک خود وفاتیہ خاکوں کا کوئی مجموعہ شائع نہیں ہوا۔
یہ27/مئی 2020ء کی بات ہے۔ بھارت سے نامور مزاح نگار مجتبیٰ حسین کے انتقال کی خبر موصول ہوئی۔ مجھے یاد آیا کہ مجتبیٰ حسین نے اپنی کتاب "چہرہ در چہرہ" میں اپنا ایک خاکہ تحریر کیا تھا جسے انھوں نے خود وفاتیہ کا نام دیا تھا۔ میں نے فیس بک پر اس خاکے کا اشتراک کیا تو حیدرآباد (دکن) سے برادرم مکرم نیاز کا ایک پیغام موصول ہوا۔ انھوں نے بتایا کہ یہ خاکہ ایک سلسلے کا حصہ ہے جو ماہنامہ "ہنس" میں شائع ہوتا رہا ہے۔ میں نے انھیں بتایا کہ مجتبیٰ حسین نے بھی "چہرہ در چہرہ" (سن اشاعت: 1993ء) کے دیباچے میں اس بات کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا تھا کہ:
"1989ء میں، میں نے ہندی کے مشہور ادیب اور افسانہ نگار راجندر یادو، مدیر ماہنامہ 'ہنس' کے سامنے یہ تجویز رکھی تھی کہ وہ اپنے رسالہ میں ادیبوں سے اپنی Self Obituary یا 'خود وفاتیہ' لکھوائیں۔ اتفاق سے ان دنوں انتظار حسین ہندوستان آئے ہوئے تھے۔ اس سلسلہ کا پہلا خود وفاتیہ انتظار حسین نے لکھا تھا۔ اس کے بعد ہندی کے کئی مشہور ادیبوں اور شاعروں نے 'ہنس' میں 'خود وفاتیے' لکھے۔ آخر میں راجندر یادو نے مجھ سے خواہش کی کہ اب میں اپنا 'خود وفاتیہ' لکھ کر نہ صرف اپنی ہی تجویز کو بلکہ اپنے آپ کو بھی انجام تک پہنچاؤں۔ اس خود وفاتیے کے لیے راجندر یادو نے ازراہ عنایت مجھے اسی برس کی عمر عطا کی۔ اس خاکے میں لگ بھگ ساٹھ برس تک کے حالات تو آپ کو مل جائیں گے، باقی فالتو بیس برس کے لیے افسانہ طرازی سے کام لینا پڑا"۔
برادرم مکرم نیاز نے مجھے مشورہ دیا کہ ماہنامہ "ہنس" کے علاوہ بھی ایسے کئی خاکے ہیں جو خود وفاتیہ کی تعریف کے ذیل میں آتے ہیں، کیوں نہ ان تمام خاکوں کو یک جا کرکے کتابی شکل دی جائے۔ اب ان خاکوں کی تلاش کا کام شروع ہوا جن میں سے چند برادرم مکرم نیاز ، محمود الحسن اور راشد اشرف کی وساطت سے دستیاب ہوئے جبکہ دیگر خاکے ان مصنّفین کی کتابوں اور انٹرنیٹ سے فراہم ہوئے۔ محترمہ ملاحت کلیم شیروانی نے ملت اسلام آباد میں شائع ہونے والے خوب صورت فیچر کی دستیابی ممکن بنائی جبکہ اسلم ملک ، سید احمد قادری اور ڈاکٹر خورشید عبداللہ نے امجد حسین،مظفر گیلانی، اشفاق احمد اور سلیم احمد کی نادر تصاویر فراہم کیں۔ اسی تلاش کے دوران یہ بھی علم ہوا کہ اردو میں پہلا خود وفاتیہ رشید احمد صدیقی نے تحریر کیا تھا جس کا عنوان "اپنی یاد میں" تھا۔ یہی عنوان مجھے اس کتاب کے لیے بھی سب سے موزوں محسوس ہوا۔
مجھے اعتراف ہے کہ میں ماہنامہ "ہنس" میں شائع ہونے والے تمام خود وفاتیے حاصل کرنے میں ناکام رہا، مگر امید ہے کوئی اور اس بار گراں کو اٹھائے گا اور وہ خود وفاتیے بھی جلد شائع ہو جائیں گے۔ میں جناب عطا الحق قاسمی کا بھی شکر گزار ہوں جنھوں نے نہ صرف اپنے خود وفاتیہ کو اس کتاب میں شامل کرنے کی اجازت عطا فرمائی بلکہ پس ورق کے لیے ایک خوب صورت تحریر بھی عنایت کی۔
"اپنی یاد میں" شامل تمام خاکے مطبوعہ ہیں تاہم اس مجموعے کی خاص بات یہ ہے کہ یہ اردو میں اپنی نوعیت کا پہلا مجموعہ ہے۔ امید ہے اسی انفرادیت کے باعث یہ مجموعہ قارئین کی پسندیدگی حاصل کرے گا۔
کتاب " اپنی یاد میں " حاصل کرنے کے لیے رابطہ کریں :
تقسیم کار : فضلی سنز، اردو بازار، کراچی
فون: +923362633887
قیمت: 900 روپے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں