یہ خبر انتہائی رنج و غم اور افسوس کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ جناب سید وقارالدین چیف ایڈیٹر روزنامہ رہنمائے دکن اور صدر نشین انڈ و عرب لیگ حیدر آباد کا بروز جمعرات 9/دسمبر کی شب 11:30 بجے انتقال ہو گیا۔ وہ (82) برس کے تھے۔ نماز جنازہ مکہ مسجد میں 10/دسمبر کو بعد نماز جمعہ ادا کی جائے گی۔ اور تدفین احاطہ موسی قادری حسینی علم میں عمل میں آئے گی۔ جہاں ان کے برادر کلاں جناب سید لطیف الدین قادری کی لحد بھی موجود ہے۔
جناب سید وقارالدین کچھ عرصہ سے علالت کی بناء پر Olive اسپتال، نانل نگر، ٹولی چوکی میں زیر علاج تھے۔ جمعرات کی شام تقریباً چھ بجے ان کے قلب پر حملہ ہوا۔ اور رات ساڑھے گیارہ بجے وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے ہمشیر زادے جناب احمد امیر خاں نے اس کی اطلاع دی۔
جیسے ہی یہ خبر عام ہوئی ساری دنیا میں جہاں جہاں اردو بولی اور پڑھی جاتی ہے، وہاں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی کیوں کہ قوم ایک بے لوث، شریف النفس انسان، با وقار صحافی ، ہند - عرب اتحاد کے علمبردار، فلسطینی کاز کے لئے آخری سانس تک جدوجہد کرنے والے مجاہد سے محروم ہو گئی۔ یہ ایک ناقابل تلافی نقصان ہے۔
جناب وقارالدین کا انتقال ایسے وقت ہوا جب ہندوستان کا قدیم ترین اردو روزنامہ "رہنمائے دکن" اپنی پہلی صدی کے جشن کا اہتمام کرنے والا تھا۔
سید وقارالدین جناب پوسف الدین کے فرزند تھے۔ انہوں نے 1967ء میں اپنے بڑے بھائی جناب سید لطیف الدین قادری کے ساتھ "رہنمائے دکن" کو حاصل کیا تھا۔ اور اخبار کو ہندوستانی مسلمانوں کا ترجمان بنا دیا۔ ایک طرف انہوں نے اردو صحافت کے معیار کو بلند کیا دوسری طرف اردو اور ملی تحریکات کا ترجمان بنایا۔ 1967ء میں "انڈو عرب لیگ" حیدرآباد قائم کیا تاکہ مظلوم فلسطینیوں کو ان کا حق دلایا جا سکے۔ ونیز قبلہ اول کی بازیابی کے لئے تحریک سے متعلق ہندوستانی عوام کی ذہن سازی کی جائے۔ ان کی اس کاوش کو عالم عرب نے تسلیم کیا۔ اور انڈو عرب لیگ حیدرآباد کو اقوام متحدہ نے بھی مسلمہ این جی او قرار دیا۔
سید وقارالدین کے عالم عرب و عالم اسلام کے تقریباً سربراہوں سے دوستانہ مراسم رہے۔ یاسرعرفات، صدر فلسطین محمود عباس، عراق کے صدر صدام حسین، لیبیا کے قائد معمر قذافی کے علاوہ کئی عرب ممالک کے سربراہ قابل ذکر ہیں۔ انہیں 'ستارۂ فلسطین' کے علاوہ مراقش کا سیویلین ایوارڈ بھی پیش کیا گیا۔ انہوں نے کئی ممالک کا سرکاری طور پر دورہ کیا۔ خانہ کعبہ کے غسل میں حصہ لینے کی سعادت حاصل ہوئی۔
سید وقارالدین کو دو سال قبل عرب لیگ کے 22 ممالک کی جانب سے دہلی میں منعقدہ ایک تقریب میں تہنیت پیش کی گئی اور ہند-عرب دوستی کے لئے ان کی خدمات کا اعتراف کیا گیا۔
سید وقار الدین نے علیگڑھ سے تعلیم حاصل کی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی تھے۔ ان کے ہمعصر کھلاڑیوں میں عاصم اقبال، جئے سمہا، عباس علی بیگ قابل ذکر ہیں۔
وقار الدین مجرد تھے اور انہوں نے اپنے بھانجے احمد امیر خاں کو کناڈا سے حیدرآباد بلا لیا تھا تاکہ انہیں اپنی ذمہ داریاں تفویض کر سکیں۔
جناب محمد محمود علی ریاستی وزیر داخلہ، جناب محمد علی شبیر کانگریسی قائد، جناب عزیز پاشاہ کمیونسٹ لیڈر، مفتی خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کے علاوہ شہر کی سرکردہ شخصیات نے جناب وقارالدین کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور اسے ناقابل تلافی نقصان قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ "الفتح" کے اولین وفد کو حیدرآباد مدعو کرنے کا اعزاز سید وقار الدین چیف ایڈیٹر رہنمائے دکن اور جناب سید لطیف الدین مینیجنگ ایڈیٹر کو جاتا ہے جنہوں نے 1969 میں اپنی قیامگاہ زیبا باغ آصف نگر کے سبزہ زار پر حیدرآباد کے اکابرین کے ساتھ ایک شاندار تقریب میں اس وفد کا خیر مقدم کیا۔
سید وقار الدین کو ان کی بے لوث خدمات کے صلہ میں کئی اعزازات سے نوازا گیا جن میں سب سے اہم 'نجم القدس' یعنی Star of Jerusalem کا اعزاز ہے جس کو صدر محمود عباس نے اپنے خصوصی مشیر محمود الحباش کے ذریعہ حیدرآباد میں پیش کیا۔ سید وقار الدین کے صدر عراق ہز ایکسیلنسی صدام حسین سے برادرانہ تعلقات تھے۔ عزت مآب صدام حسین نے ہمیشہ انڈو عرب لیگ کے مقاصد کے لئے بھرپور تائید کی۔
سید وقار الدین کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ 1981 میں عزت مآب محترمہ اندرا گاندھی کو انڈو عرب لیگ کے عوامی جلسہ منعقدہ گوشہ محل اسٹیڈیم میں مدعو کیا جس میں عرب ممالک کے 25 سفیروں نے شرکت کی تھی۔ محترمہ اندرا گاندھی وزیر اعظم ہند اور سفرائے عرب کے سامنے بڑے عزم سے فلسطین کے مسئلہ کو پیش کرنا کوئی آسان بات نہ تھی لیکن 30 سالہ نوجوان سید وقار الدین نے اپنی گرجدار آواز میں فلسطین کی دلخراش داستان سنائی اور اس کے قابل قبول حل کے لئے ہندوستان اور دیگر عرب ممالک کو عملی اقدامات کرنے کی تلقین کی۔
انڈو عرب لیگ (انڈیا) حیدرآباد کی جانب سے سید وقارالدین نے 3/اگست 2014ء کو سفیر فلسطین عزت مآب عادل شعبان صادق کو 2.5 ملین ڈالر کا چیک فلسطین کی اعانت اور فلاحی کاموں کے لئے پیش کیا۔ اس کے علاوہ کئی مواقع پر فلسطینی حکومت کے لئے کئی مرتبہ رقمی اور سفارتی سطح پر اپنا نتیجہ خیز تعاون پیش کیا جو فقید المثال کارنامے باور کیے جاتے ہیں۔ جو ایک دردمند اور فکرمند صحافی سید وقارالدین کی نمایاں کارکردگی کی علامت بن کر فلسطین کی جدوجہد کی تاریخ میں ہمیشہ سنہرے الفاظ میں محفوظ رہے گی۔
اس کے علاوہ مراقش کے بادشاہ ہز میجسٹی کنگ حسن نے سید وقار الدین کی بے نظیر اور غیر معمولی خدمات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک گولڈ میڈل ایوان صدارت ہند میں منعقدہ ایک مخصوصی تقریب میں پیش کیا جو کسی بھی ہندوستانی کے لئے ایک بڑا اعزاز ہے۔
اس کے علاوہ سوڈان کے سابق صدر جناب عمر حسن احمد البشیر سے بھی سید وقار الدین کے قریبی تعلقات تھے جنہوں نے انڈو عرب لیگ کی خدمات کے تئیں وقار الدین کی صدارت میں ایک وفد کو خرطوم کا سرکاری دورہ کرنے کی دعوت دی تھی۔ یہ بھی ایک اعزاز اور صد افتخار کی بات ہے کہ انڈو عرب لیگ کے متعدد سمینار اور عوامی جلسوں میں ہندوستان کے صدور جیسے عالی جناب گیانی ذیل سنگھ اور عالی جناب فخر الدین احمد نے شرکت کی۔ ونیز وزرائے اعظم مسز اندرا گاندھی، جناب وی پی سنگھ، جناب اٹل بہاری واجپائی، جناب آئی کے گجرال صاحب نے بنفس نفیس شرکت فرمائی ہے۔
یہ بات نہایت قابل تعریف اور لائق ستائش ہے کہ سید وقارالدین نے پھر ایک بار 25 لاکھ ہندوستانی کرنسی 2017ء میں سفیر فلسطین عزت مآب عدنان ابوالحائجہ کو پیش کئے تاکہ فلسطین کے آفت زدہ متاثرین تک یہ رقمی امداد پہنچائی جائے۔ اس طرح گذشتہ نصف صدی کے عرصہ پر محیط عالیجناب سید وقار الدین کی ناقابل فراموش اور یادگارخدمات اس عہد کی بڑی کارسازی ہے۔
love it keep it up thanks for best sharing amazing one cars
جواب دیںحذف کریں