تدریس ایک فن ہے - مضمون از محمد اسحاق - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2021-11-15

تدریس ایک فن ہے - مضمون از محمد اسحاق

teaching-is-an-art-by-mohd-ishaq

کوٹھاری ایجو کیشن کمیشن کی رپورٹ ( 66 - 1964 ) کا پہلا جملہ یوں شروع ہوتا ہے:
THE DESTINY OF INDIA IS NOW BEING SHAPED IN HER CLASS ROOMS
(ہندوستان کی قسمت کی تشکیل اب اس کے کلاس رومس میں ہو رہی ہے)


یہ جملہ بہت معنی خیز ہے۔ اس رپورٹ کے تیار کر نے والوں نے بہت گہری اور بنیادی بات پر انگلی رکھ دی ہے۔ اس ایک جملہ کی تشریح کے لیے انھیں ایک ہزار صفحات کی رپورٹ تیار کرنی پڑی۔ آزاد ہندوستان کی تعلیمی ، معاشی ، سماجی ، فنی ، سائینسی ، جمہوری نظام کی تعلیم و تربیت ان ہی کلاس رومس میں ہوگی۔


پڑھانے سے متعلق ایک عام غلط فہمی یہ پھیلی ہوئی ہے کہ ہر وہ شخص بچوں کو پڑھا سکتا ہے جو بچہ کی معلومات سے چند قدم آگے ہوتا ہے۔ بچہ کو سیکھنا ہوتا ہے اور ٹیچر کو پڑھانا۔ پڑھانے میں کیا پڑھانا ، کب پڑھانا اور کیسے پڑھانا ، یہ چاروں باتیں اہم ہیں۔
کیا پڑھانے کے لیے سبق کا مواد اور تیاری ضروری ہے؟
کب پڑھانے کے لیے اسکول کا ٹائم ٹیبل بتا دے گا۔
کس کو پڑھانا ہے ۔۔ بچوں کو ، کس عمر کے ہیں ، کس قابلیت کے ہیں ، کس ماحول سے آ رہے ہیں ، ان کی کمزوریوں کیا ہیں اور ان کی صلاحیت کا معیار کیا ہے؟


اس لیے کہا جاتا ہے کہ استاد کو نہ صرف یہ معلوم کر نا ضروری ہے کہ اس کو کیا پڑھانا ہے ، اس مضمون پر اسے کتنا عبور ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بچہ کو جاننا پہچاننا اس سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ اگر وہ بچہ یا طالب علم کو پوری طرح نہیں جانتا تو اس کی بہت سی محنت رائیگاں جائے گی۔ بچوں کو ڈانٹ ڈپٹ ، غصہ اور سزا، جھلاہٹ وغیرہ خود استاد کی خامیوں کو عیاں کرتی ہیں۔


اصل سوال کیسے پڑھانے کا ہے، یہی سوال اس مضمون کی جان ہے۔
اکثر ٹیچرس پڑھاتے نہیں وہ صرف نصاب کی تکمیل کر دیتے ہیں۔ ذاکر حسین نے ایک جگہ لکھا ہے کہ:
آج کل تعلیم کہاں دی جاتی ہے؟ ٹیچر کی نوٹ بک سے طلبہ کے نوٹ بک میں منتقل ہو جاتی ہے۔
پروفیسر ہمایوں کبیر نے لکھا ہے کہ: تعلیم کوئی ایسا عمل نہیں جیسے کسی نے پانی ایک بکٹ سے دوسری بکٹ میں انڈیل دیا ہو۔ جب تک تعلیم یا سیکھنے کا عمل LEARNING PROCESS طلبہ کے ذہن و دماغ بلکہ روح کے واسطوں سے نہ ہو وہ تعلیم نہیں ہو پاتی۔


دینی درسگاہوں میں زیادہ تر بجائے غور و فکر ، ذہن اور دماغ پر بار ڈالنے کے، رٹنے پر زور دیا جاتا ہے۔ یہاں پر "رٹو حافظہ" کی قدر بڑھ جاتی ہے۔ رٹنے کے لیے کسی بات کو بار بار پڑھنا اور دہرانا ضروری ہوتا ہے لیکن یہاں تعلیم کا عمل کم رہ جاتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ طلبہ کوئی تعلیمی سند تو حاصل کر لیتے ہیں لیکن ان میں وہ دانشوری پیدا نہیں ہوتی جو کسی عالم دین کی شان ہوتی ہے۔


TALK AND CHALK METHOD OF TEACHING
بات اور چاک پیس کے استعمال کا طریقہ بھی اب فرسودہ ہو چکا ہے۔ موجودہ زمانہ میں جدید سائنٹفک طریقہ ہائے تدریس اس قابل ہیں کہ انھیں کلاس رومس میں جلد از جلد اپنا لیا جائے۔
کلاس روم کی تعلیم میں اصل لین دین ، سوال جواب ، طلبہ میں سوچتے سمجھنے اور حقیقت کے انکشاف کی صلاحیت پیدا کرنا ہے۔ اسی ترکیب سے ان میں تعلیم کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے۔ یہی اصل میں تعلیم کا جوہر ہے یا ESSENCE OF TEACHING ہے۔
جیسا ہر فن کے سیکھنے کے بعد اس علم کو معروضی حالات پر منطبق کرنے ، صحیح نتائج حاصل کرنے اور اس کی معنویت کو پانے کے لیے INTERNSHIP ضروری ہے اسی طرح ہر ٹیچر کے لیے عملی لیباریٹری، یعنی کلاس روم میں انھیں آزمانے کی ضرورت ہے۔
کسی ٹیچر یا پروفیسر کا کمال یہ نہیں کہ وہ اپنے مضمون کا کتنا بڑا ماہر ہے بلکہ اس کا اصل کمال یہ ہے کہ اس نے خود اپنے جیسے کتنے باکمال شاگرد پیدا کئے ہیں۔ ان میں وہ جستجو اور علم کا ذوق کمال حاصل کرنے کے لیے انھیں کن کن تدابیر سے سنوارا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پرائمری سے لے کر گریجویشن سطح تک کوئی ساٹھ ستر اساتذہ پڑھاتے ہیں، لیکن ایک طالب علم ان تمام میں صرف دو چار ٹیچرس کو ہی یاد رکھتا ہے جنھوں نے سچ مچ اس کی تعلیم و تربیت میں بلکہ اس کی شخصیت میں کچھ ایسا گارا اور چونا بھر دیا جس کی تفصیل اور تشریح بیان سے قاصر ہے۔


بچوں کا معیار تعلیم وہ نہیں ہے جو کبھی عہدہ دار یا انتظامیہ کے لوگ انسپکشن کے وقت معلوم کرتے ہیں۔ وہ معیار پچھلے برسوں کی تعلیم کے نتیجہ کے طور پر سامنے آتا ہے۔ اصل معیار تعلیم ہر ٹیچر کا وہ جذبہ اور لگن ہے جو وہ اپنے طلبہ میں تعلیم سے متعلق پیدا کرتے ہیں۔ اگر سب اساتذہ کے پیشہ میں یہی جذبہ کار فرما ہے تو پھر یہ اجتماعی شکل میں بچوں کے معیار تعلیم میں نمایاں ہو جاتا ہے۔ خود اس معیار کے لیے اساتذہ کی تعلیم و تربیت ، تجربہ اور جذبہ اہمیت رکھتے ہیں۔


ہر تعلیم ایک تجربہ ہے اور ہر تجربہ کچھ نہ کچھ سکھا دیتا ہے۔ اس سیکھنے کی رفتار سے بچہ کی شخصیت میں تبدیلی آتی رہتی ہے۔ شخصیت کی تشکیل ، جسم و جان، ذہن و دماغ پر ہزاروں عوامل کے اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ سیکھنے ، سمجھنے اور سوچنے کے دوران بچہ کے کردار ، سمجھ بوجھ اور برتاؤ میں عظیم تبدیلیاں لانے کے بعد شخصیت کا ایک نمونہ ہمارے سامنے آتا ہے، جس میں اعتدال ، توازن ، اپنی ذات پر بھروسہ یا خود اعتمادی پیدا ہو جاتی ہے۔


ایک اچھے آرٹسٹ کی تخلیق آرٹ کا ایک نمونہ ہوتی ہے۔ ایک اچھے ٹیچر کا ہر سبق ایک فن پارہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی ٹیچر اس معیار پر چڑھ جائے تو وہ بھی ایک بڑا آرٹسٹ ہے۔ اس کی کسوٹی یہ ہے کہ ایک پوشیدہ مسرت سے بچوں کے چہرے دمک اٹھیں، ان کے دل میں ٹیچر کی عزت و عظمت پیدا ہو جائے۔ اس احساس سے ٹیچر کو جو مسرت حاصل ہوتی ہے وہ خود اس کا انعام ہے جو کسی انعام اور تعریف کا محتاج نہیں۔


بچہ کی تعلیم و تربیت اور شخصیت کی تعمیر کا زمانہ دنیا کی ساری مخلوقات میں طویل ترین زمانہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس آرٹ کے نمونہ کی تخلیق مقصود ہے وہ دنیا کے سارے فنون میں سب سے اعلی ترین اور مشکل ترین فن ہے۔ جو مختلف عوامل کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ اثر انداز ہونے والا عمل ہے، وہ کلاس روم کی تدریس ، ٹیچر کی شخصیت اور اس کے پڑھانے کا موثر انداز ہے۔


رنگ ہو یا خشت و سنگ ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزۂ فن کی ہے خون جگر سے نمود


یہ خون جگر دراصل اپنے پیشہ اور فن سے عشق یا خلوص کا نام ہے جس کی کرامات بے حساب ہیں۔


***
ماخوذ از کتاب: تعلیم - ایک تحریک ایک چیلنج
مصنف: محمد اسحاق
چھٹا ایڈیشن: اگست 2007

Teaching is an art. Essay: Mohammad Ishaque.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں